رئیس آباد کا فقیر

Athra

Senator (1k+ posts)
رئیس آباد کا فقیر
جمعرات کو گاؤں سے منجھلے بھائ کا فون آیا کہ آکر مل بھی جاؤ اور وڈے مولانا صاحب کا بیان بھی سن جاؤ-
چاروناچار تیّار ہوا- زادِ سفر کےلئے ٹیبلٹ ، فون ، اور Evo ہمراہ دو نسخے "معشوقہ پنجاب" کے کھیسے میں ڈالے اور گاؤں جانیوالی ڈربہ نماء ویگن میں " دُھن سوار" ہوگیا -
کسووال جاکر ڈرائیور نے بریک لگائ- کنڈیکٹر نے کسی برائلر مرغی کی طرح کھینچ کھانچ کر ڈکی نماء دروازے سے باہر نکالا- ابھی پر ہی سیدھے کیے تھے کہ بھائ گاڑی لیکر پہنچ گیا- ہم نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟ ، بولا میانچنوں-
میانچنوں مرکز پہنچے تو رونق بام عروج پر تھی- احوال اس رونق کا یوں معلوم پڑا کہ مرجعء خلائق مولانا طارق جمیل صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں-
میں نے کہا اگر اس اجتماع سے بنا مولانا کو ملے چلا گیا تو مجھ سا بدقسمت کوئ نہ ہو گا کہ:
ویکھن عالماں دا زیارت نبی دی اے
جو کوئ منکر ، سوئ رد ہیرے
بھائ نے کہا گو مشکل امر ہے پھر بھی کوشش کر لو لیکن اپنی ذمّہ داری پر- ہر طرف ڈنڈہ بردار پوزیشن سنبھالے کھڑے ہیں- خیر بمشکل سیکیورٹی حصار کو توڑتے اس حجرہءخصوصی تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے جہاں اعلی حضرت کی نشت تھی-
دروازے پر ملاقاتیوں کا ہجوم دیکھ کر ماتھا ٹھنکا-
وقفے وقفے سے ایک من موہنا مولوی حجرے سے جھانکتا اور چن چن کر مطلوب افراد کو اندر بھیج دیتا- ہم آگے بڑھے تو بولا کارِ ملاقات کیا ہے؟ چلہ ، تین چلّہ یا عمر بھر- جواب دیا عمر بھر کی کمائ ایک کتاب کی صورت لایا ہوں- اگر حضرت جی قبول فرماویں تو وسیلہء خیروبرکت ہو-
کہنے لگا اذنِ ملاقات صرف خصوصی جماعتوں کو ہے ، کتاب کل ڈیرے پر آکر دے جائیے گا-
پوچھا ڈیرہ کہاں ہے؟ بولا رئیس آباد
اور رئیس آباد کدھر ہے ؟
بولا تلمبہ جاکر چوک سے بائیں مڑ جائیو ---- چارمیل کی دوری پر جو پہلا گاؤں نظر آئے اس سے ملحق ایک ڈیرا ہے ----- وہیں آج کل مولانا صاحب کا بسیرا ہے-
اسی دوران خواجہ سراؤں کی ایک جماعت چادریں سنبھالتی ، تسبیحات رولتی ، ہمیں دھکیلتی ہوئ حجرہ میں داخل ہو گئ-
یک گونہ طبیعت مضمحل ہوئ کہ خواجہ سراؤں کو اذنِ عام اور نامور لکھاری بے نیل و مرام- پھر خود کو ایک چپت رسید کی کہ گو خواجہ سراء ہیں لیکن کار تو اشاعتِ دین کا کر رہے ہیں اور تم محض " دین محمد قوّال" کو سن کر جی بہلاتے ہو- معاشرے کا سب سے پسا ہوا طبقہ کہ شاہی درباروں سے لیکر مزاروں تک جسے نچایا گیا اسے آج کوئ عزّت سے نواز رہا ہے تو تمہیں کس بات کی کھجلی ہے-
اس دوران مغرب ہو گئ- سو ارادہء ملاقات منسوخ کر کے وضو خانے پہنچ گئے-
نماز کے بعد حضرت جی کا بیان شروع ہوا- وہی پرسکون لہجہ کہ ضرب جس کی کاری ، آواز سے دلیل بھاری- اڑھائ ہزار کا مجمع سانپ سونگھے بیٹھا رہا- ایک ہی سبق کہ اخلاق ، صبر ، برداشت پیدا کرو- فرقہ فرقہ مت کھیلو ، ہم آہنگی پیدا کرو- فرمایا دعوتِ الی اللہ دو کفر کے سرٹیفیکیٹ مت بانٹو- برائ سے نفرت کرو انسان سے نہیں- کسی کو دوزخی مت کہو- پھر پنجابی میں کہا " اس اجاڑ جنّت دا اچار پانڑاں جے جیس ویچ تہاڈے جئے دو چار مولبی بیٹھے ہون ... تے باقی سارے باہر ؟ " کسی اور کو بھی جگہ دو --- رب کی جنّت ہے تم کیوں اس کے ٹھیکیدار بنتے ہو- گھر میں بچّوں سے اخلاق برتو- سسرال سے اچھا سلوک کرو --- بیوی سے حسنِ سلوک کرو کہ یوم حشر میزان عدل میں تلنے والا یہ سب سے پہلا عمل ہے-
بیان ختم ہوا تو پبلک نے باہر کو رش کیا- میں نے کہا بھائ اس سے پہلے کہ مولانا گاڑی اسٹارٹ کریں نکلو اور تلمبہ کا رستہ پکڑو- وہ تابعدار غم گسار فوراً راضی ہوا اور عبدالحکیم روڈ پر گاڑی بھگانے لگا-
راستے میں ایک سرائے نماء اڈّے پر کچھ بھلے مانس چائے پی رہے تھے- تاشوں میں سجے سموسے اور گرم جلیبی دیکھ کر پیٹ سے کڑل کی آواز آئ- کہا بھائ بریک شاء .... پہلے کچھ کھا پی لیں ... مولانا اتنا جلدی مرکز سے تھوڑی فارغ ہونگے-
یہاں سے سیر ہو کر جونہی سڑک پر چڑھے تو ایک لینڈ کروزر نے کراس کیا-
بھائ بولا مولانا تو گئے !!!
میں نے کہا چلتے رہو- اب واپسی کا یارا نہیں-
قبلِ مسیح سے آباد تلمبہ کی رونقیں بامِ عروج پر تھیں- ہوٹلوں کے سامنے مرغ مسلّم مصلوب تھا- مرکزی چوک سے ہم مغرب کی طرف مڑ گئے- بھائ ریٹائرڈ فوجی ہے سو ان راستوں سے خوب واقف تھا- راستے میں ایک دیہاتی سے رئیس آباد کا رستہ پوچھا- اس نے کہا " سِدھّے ٹُردے جاؤ ---- سجّے کھبے نئیں تکناں --- اگے جاکے وسّوں آسی --- اوتھوں کھبے مڑ جانڑاں ----- اوہی رئیس آباد اے"
رئیس آباد گاؤں پہنچے تو ہر طرف ویرانی اور خاموشی کا پہرہ تھا- بارے ایک موٹر سائیکل سوار نظر آیا- ہم نے کہا مولانا کے ڈیرے پر جانا ہے- اوکاڑہ سے آئے ہیں اس نے پہلے قدرے حیرت سے دیکھا پھر مناسب رہنمائ کر دی-
آخر کوئ رات آٹھ بجے کے قریب ڈیرے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے- کیا خوب ڈیرہ ہے- کوئ چار کنال رقبہ تو ہوگا- سامنے کینو کا باغ ہے- پختہ اینٹوں اور سلاخوں سے بنی خوبصورت چاردیواری اور بڑا مرکزی دروازہ جس کے دونوں جانب مسجد کی طرز کے مینار ہیں- اندر ٹریکٹر ٹرالی اور پھالے پڑے تھے اور صحن میں مونجی اور کپاس کے ڈھیر لگے تھے-
ایک پہلوان صورت خادم نے ہمیں خوش آمدید کہا- ہم نے تعارف کروایا اور مقصدِ آمد بتلایا- وہ بولا حضرت جی تو کب کے تشریف لا چکے اور گھر میں استراحت فرما رہے ہیں- دخل در معقولات کی ممانعت ہے- آپ اوپر مہمان خانے میں تشریف لے جائیے- اب صبح ہی ملاقات ممکن ہے-
صحن کے بائیں جانب مغلیہ طرز کے دومنزلہ برامدے بنے ہوئے تھے- ہم اوپر پہنچے تو کمرہ کو آراستہ و پیراستہ پایا گویا ہمارا ہی انتظار کیا جا رہا ہو- موٹے پائے والی رنگین چارپایوں پر نئے بچھونے لگے ہوئے تھے- کمرہ کی تزئین و آرائش گو طرزِ کہن پر تھی لیکن باکمال- لکڑی کے پرشکوہ دروازے، انگیٹھی ، لکڑی کی قد آدم الماریاں ، چھت پر بالے اور گارڈر-
ہم بستر پر ٹوٹی شاخ کی طرح گرے- تھوڑی ہی دیر میں فضاء خراٹوں سے گونج رہی تھی-
اگلے روز فجر کی اذان سے بھی پہلے مسجد کا رخ کیا-
سوچا اگر آج بھی مولانا کو مِس کر دیا تو زندگی بھر نہ مَس کر پائیں گے-
مسجد بیت العتیق مثال آہی خانہ کعبیوں ڈھول اٹھایا نے
مسجد فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ تھی- اس چھوٹے سے گاؤں میں اتنی پرشکوہ مسجد واقعی بیت العتیق کی مثل لگ رہی تھی- احاطے میں ایک خوبصورت باغیچہ تھا- یہ طارق جمیل صاحب کا خصوصی مدرسہ ہے- یہاں کوئ 120 طلبہ زیرِ تعلیم ہیں- یہ وہ تناور درخت ہے جس شاخیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئ ہیں- البتہ اس کا تنّا رئیس آباد میں پیوست ہے- عربی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ یہاں حفظ و ناظرہ اور حدیث و تفسیر بھی پڑھائ جاتی ہے- دور دراز سے تشنگانِ علم یہاں اپنی علمی پیاس بجھانے آتے ہیں-
چھٹیوں کی وجہ سے مدرسہ کے تمام کمرے مقفّل تھے-
ٹھنڈے ٹھار پانی سے وضو کرکے ہم مسجد کی اگلی صفوں میں جا بیٹھے- ہمارے علاوہ یہاں کوئ ذی روح نہ تھا-
کچھ ہی دیر میں مؤذن تشریف لائے اور اذان دی- پھر وقفے وقفے سے اکّا دکّا نمازی آنے شروع ہوئے- ہم بار بار گردن گھما کر نمازیوں کو گنتے اور دعا کرتے رہے کہ کاش گاؤں کے لوگ آج لمبی تان کر سوئے رہیں سوائے مولانا صاحب کے- تاکہ ملاقات میں کوئ مخل نہ ہو اور ساری برکتیں ہمارے حصّے میں آئیں- پچاس ساٹھ نمازی آ چکے تو ہماری نظر کالی واسکٹ اور سفید عمامہ زیب کئے مولانا صاحب پر پڑی جو جانے کب آکر خاموشی سے نمازیوں کے بیچ بیٹھ چکے تھے-
اقامت ہوئ تو ایک نوجوان کو امامت کےلئے آگے کر دیا- میرا اندازہء فاسد تھا کہ ضرور حضرت جی کا فرزند ہوگا لیکن میری ملوکیّت زدہ سوچ کو یہ جان کر قدرے شرمندگی ہوئ کہ مدرسے کا ہی ایک طالب علم ہے-
نماز کے بعد نصف لوگ تو دھڑلے سے اٹھ کر چل دیے- باقی اپنی اپنی دعا کرکے چلتے بنے- نہ کسی نے مولانا کے قدم چھوئے نہ ہی سلام کیا- عظیم لوگوں کے ساتھ ہمیشہ یہی مسئلہ رہا ہے- مجھے بھی میرے گاؤں والے اکثر اگنور کرتے ہیں smile emoticon
میدان خالی دیکھ کر ہم کھسکتے ہوئے قریب ہوئے اور سلام عرض کیا-
مولانا جو کسی گہری سوچ میں غرق تھے یکایک چونک اُٹھے- مصافحہ کیا اور پہچاننے کی کوشش کرنے لگے-
میں نے عرض کیا کہ اوکاڑہ سے آیا ہوں اور یہ نوجوان جو میری داہنی جانب بیٹھا ہے اس فقیر کا منجھلا بھائ ہے- اور کسّوال سے آیا ہے-
انہوں نے بھائ سے بھی مصافحہ کیا اور قدرے حیرانی سے پوچھا:
خیریت سے آنا ہوا؟
میں نے کہا بس شوق ِزیارت کھینچ لایا ہے- رات سے مہمان خانے میں پڑے ہیں- کل میانچنوں میں آپ کا بیان سنا اور آتشِ شوقِ ملاقات بھڑک اٹھی سو گاؤں ہی چلے آئے- پھر اپنا مفصل تعارف کرایا کہ ذات کا اعوان ہوں دوہا میں کام کرتا ہوں ، فیس بکی لکھاری ہوں ، اور ظفرجی کے نام سے معروف ہوں- فیس بک پر ایک عالم طارق جمیل صاحب کا چاھنے والا ہے- سوچا ایک بار شرف ملاقات حاصل کرکے ان کا سلام آپ کی نذر کروں اور آپ کا احوال ان تک پہنچاؤں-
لکھاری کا سن کر مولانا پہلے تو چونکے پھر استفسار کیا کہ کیا لکھتے ہو-
میں نے کہا بس جو جی میں آئے لکھ مارتا ہوں-
پوچھا کوئ موضوع بھی تو ہوگا-
میں نے کہا موضوع وہی ہے جو کچھ آپ ارشاد فرماتے ہیں- یعنی صبر ، برداشت اوراتحاد بین المسالک- تلمبہ کو "تلمبہ شریف" بنانے میں آپ کی مساعیء جمیلہ پر بھی ایک مضمون باندھا تھا جو بہت مشہور ہوا-
پھر دریافت فرمایا کچھ چھپا بھی ہے-
ہمیں اسی سوال کا انتظار تھا- فوراً کھیسے سے ایک عدد "معشوقہء پنجاب" برامد کی اور حضرت کی نذر کر دی- فرمانے لگے یہ کیا ہے ؟
میں نے کہا " ہِک واری پڑھ کے تے ویکھو"
پھر کتاب کھول کر جو پڑھنی شروع کی تو یوں لگا کہ ساری کی ساری آج ہی پڑھ لیں گے- پھر مختلف ابواب دیکھنے لگے- کہیں کہیں رک جاتے- کہیں نصف صفحہ پڑھا کہیں پورا- کہیں قصور کا مدرسہ تھا ، کہیں ٹھرّی کی کہانی تو کہیں جوگی من کے روگی- حیرت سے پوچھنے لگے اس کی تھیم کیا ہے- میں نے کہا فقرِ محمدی جو گُم ہو چکا- مسجدوں کے اسپیکر مقتدیوں کے کان پھاڑتے اور محلے بھر کی نیند اڑاتے ہیں- لیکن قوم وہیں کی وہیں ہے- یہ ناول ایک تمثیلی سفرنامہ ہے ، جس میں اٹھارویں صدّی کے مروجہ تصوف اور تاریخ کے ساتھ ساتھ ہیر وارث شاہ کی تصنیف کا ایک تخیلاتی نقشہ کھینچنے کی سعی کی ہے- باقی ناول کو مزیدار بنانے کےلئے جتنا ہو سکا ہے گُڑ بھی ڈالا ہے-
اس پر تبسم فرمایا پھر کھل کر گپ شپ ہوئ- کب سے لکھ رہے ہو ؟ کتنا پڑھے ہو ؟ میں نے کہا دوسال سے لکھ رہا ہوں- تعلیم واجبی ہے- فرمانے لگے کوئ بات نہیں احسان دانش اور شورش کاشمیری کون سا ایم فل تھے لیکن رب نے قلم کی دولت سے مالامال کیا تھا- پھر پوچھا شبِ جمعہ میں جُڑتے ہو؟ میں نے صاف گوئ سے جواب دیا کہ کوئ زبردستی پکڑ کے لے جائے تو ست بسم اللہ خود سے کبھی نہیں گیا- اس پر کھُل کے ہنسے اور فرمایا شبِ جمعہ ضرور جایا کرو- اتنا تردّد تو قطر کا شہزادہ فہد بھی کرتا ہے-
دس مربع زمین کا مالک طارق جمیل ایک انتہائ عاجز اور فقیر منش انسان ہے- ہم محوِ گفتگو تھے کہ ایک بوڑھا دیہاتی قریب ہوا اور بولا بیٹے نے سب کچھ برباد کردیا- کچھ مدد فرما دیں- حضرت صاحب بولے چار دفعہ آپ کے بیٹے کو پچاس پچاس ہزار دے چکا ہوں- وہ بولا بس ایک بار اور دے دیجئے- مجال ہے جو ماتھے پرشکن بھی آئ ہو- کسووال کا ایک غریب ٹانگری فروش کچھ روز پہلے حاضر ہوا کہ حضرت بیٹا بیمار ہوا- ٹانگری کی ریہڑی تک بک گئ- اب گھر میں فاقے ہیں- پوچھا کتنے میں مسئلہ حل ہو جائے گا- کہنے لگا دس پندرہ ہزار کافی ہونگے- جیب سے بیس ہزار نکال کر اسے تھما دیے- اسی طرح ایک اور شخص آیا اور کہا کہ رہنے کو گھر نہیں ہے- اپنے معتمد خاص کو کہا ایک فلاں مکان کی چابی دے دو-
گفتگو میں ٹھہراؤ بھی ہے اور غضب کی روانی بھی- ان کی خاموشی بھی گفتگو جیسی ہے- ابھی بہت کچھ کہنا سننا باقی تھا کہ حضرت جی کے پرسنل سیکرٹری نے وقت ختم ہونے کا اشارہ کر دیا- یہ سیکرٹری کوئ اور نہیں دائیں کندھے کا فرشتہ تھا جس نے اشراق کا اشارہء غیبی کر دیا- مولانا نے اپنے مصاحبانِ خاص مولانا عبدالعزیز اور مولانا اسرار سے ارشاد کیا کہ مہمانوں کو ناشتہ کروا کے بھیجئے گا اور بیٹھے بیٹھے اشراق کی نیّت باندھ لی-
ناشتے میں پراٹھے ، آملیٹ ، اچار اور دال ماش سے تواضع ہوئ- بدلے میں مولانا عبدالعزیز جو حضرت جی کے پرانے خادم اور مدرسہء رئیس آباد کے مہتمم ہیں ، نے ایک اور معشوقہء پنجاب کی درخواست کی جو ہم نے فوراً قبول کی-
45 منٹ کی یہ ملاقات مجھے تو کسی خوبصورت خواب کی مانند لگی- میرے لئے یہ امر باعث صد اطمینان تھا کہ میری لکھی ہوئ پہلی کتاب مولانا طارق جمیل صاحب تک پہنچ گئ- اب ضرور اسے بقائے دوام میّسر آئے گی کہ بقول وارث شاہ رح :
کیتی نذر حضور جد عالماں دی گل عام دربار سرکار ہوئ
وارث جنہاں نے پڑھیا پاک کلمہ ، بیڑی تنہاں دی عاقبت پار ہوئ
جب میں اپنی تصنیف علماء کے حضور پیش کی تب جا کر میرے لفظوں کو مقبولیّت کی سند عطاء ہوئ- وارث جن لوگوں نے پاک نبی کا کلمہ سینے سے لگا لیا انہی کی عاقبت کی کشتی کنارے پر لگی-
تحریر: ظفرجی
 
Last edited by a moderator:

ranaji

(50k+ posts) بابائے فورم
​agar apni arz na karte to achha hota. baaz auqaat monh kholna bhi bura hota hae.
sir apnay perfect stranger saay noke jhonk kaa maza aata hai bawajood 100% ikhtlaf ke i respect him ,, baatain meray nazryaat say mukhtalif hoti hain maggar bohat gehri hoti hain aur (gali gloch ke ilawa sirff serious wali batain) mujhay bohat martaba yeh shak huwa ke yeh koi naa koi well fame yaa writer yaa koi aur aisa insaan hai jisay humm shayad kisi aur naam aur shakhsiat saay jaantay hongay koi dekha bhala yehi nahi do teen aur banday bhi hain jinn parr shakk hota hai keh woh kuch aur aur koi aur hi hain nazryaat apni jaggah laikin bahar haal mai unn logon ki bhi respect karta hoon unn logon kaa naam phirr kabhi mention krongaa
 

Back
Top