دنیا کی عجیب مثال

razaali

Politcal Worker (100+ posts)
بنی امیہ کا فتنہ: علی و فاطمہ و حسنین کو 90 سال تک منبرِ نبوی سے گالیاں دیتے رہے

آپ سے سوال ہے کہ کیا علی و فاطمہ و حسن و حسین کو آپ صحابی مانتے ہیں؟

اگر آپ کے نزدیک یہ لوگ صحابی ہیں، تو پھر کیا بنی امیہ کو آپ کافر قرار دیتے ہیں جنہوں نے یہ حرکتیں کیں۔






صحیح مسلم، کتاب الفضائل الصحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب
- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، - وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ - قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ - عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔
ترجمہ:
معاویہ نے سعد کو حکم دیا [أَمَرَ مُعَاوِيَةُ] اور کہا کہ تمہیں کس چیز نے روکا ہے [مَا مَنَعَكَ] کہ تم ابو تراب [یعنی علی ابن ابی طالب] پر سب نہ کرو [سب: گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا]۔ اس پر سعد نے کہا میں نے رسول ص سے علی کے متعلق تین ایسی باتیں سنی ہیں کہ جس کے بعد میں کبھی علی پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہیں کہہ سکتا ۔۔۔


حافظ ابن حجر العسقلانی علی کی فضیلت میں یہی روایت نقل کرنے کے بعد اسکے نیچے ایک اور روایت نقل کرتے ہیں:[آنلائن لنک]
وعند أبي يعلى عن سعد من وجه آخر لا بأس به قال لو وضع المنشار على مفرقي على أن أسب عليا ما سببته أبدا

ترجمہ:
اور ابی یعلی نے سعد سے ایک اور ایسے حوالے [سند] سے نقل کیا ہے کہ جس میں کوئی نقص نہیں کہ سعد نے [معاویہ ابن ابی سفیان سے کہا]: اگر تم میری گردن پر آرہ [لکڑی یا لوہا کاٹنے والا آرہ] بھی رکھ دو کہ میں علی [ابن ابی طالب] پر سب کروں [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] تو تب بھی میں کبھی علی پر سب نہیں کروں گا۔



ابن کثیر الدمشقی، کتاب البدایہ و النہایہ، حلد 7، صفحہ 341، باب فضائل علی ابن ابی طالب
وقال أبو زرعة الدمشقي‏:‏ ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال‏:‏ لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص‏.‏فقال‏:‏ يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك‏.‏قال‏:‏ فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه‏.‏فقال‏:‏ أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك، ثم وقعت في علي تشتمه ‏؟‏والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال حين غزا تبوكاً ‏(‏‏(‏إلا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي ‏؟‏‏)‏‏)‏أحب إلي مما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال له يوم خيبر‏:‏ ‏(‏‏(‏لأعطين الراية رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله يفتح الله على يديه، ليس بفرار‏)‏‏)‏ ‏(‏ج/ص‏:‏ 7/377‏)‏أحب إليّ مما طلعت عليه الشمس، ولأن أكون صهره على ابنته ولي منها الولد ماله أحب إليّ من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، لا أدخل عليك داراً بعد هذا اليوم، ثم نفض رداءه ثم خرج‏.‏

ترجمہ:
ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے انکی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا: "آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا،پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔ خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ نبی اللہ ص نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا جب کہ آنحضور ص غزوہ تبوک پر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے علی کے حق میں فرمایا:"کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون کو موسی سے تھی سوائے ایک چیز کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ یہ ارشاد میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تر ہے۔ پھر کاش کہ میرے حق میں وہ بات ہوتی جو آنحضور ص نے خیبر کے روز علی کے حق میں فرمائی تھی کہ "میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اسکا رسول ص اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اللہ اسکے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ بھاگنے والا نہیں [غیر فرار]۔ یہ ارشاد بھی مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز تر ہے۔ اور کاش کہ مجھے رسول ص کی دامادی کا شرف نصیب ہوتا اور آنحضور ص کی صاحبزادی سے میرے ہاں اولاد ہوتی جو علی کو حاصل ہے، تو یہ چیز بھی میرے لیے دنیا و مافیہا سے عزیز تر ہوتی۔ آج کے بعد میں تمہارے گھر کبھی داخل نہ ہوں گا۔ پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔"



سنن ابن ماجہ، جلد اول:
حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعد وقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله

ترجمہ:
یعنی حج پر جاتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کی ملاقات معاویہ سے ہوئی اور جب کچھ لوگوں نے علی کا ذکر کیا تو اس پر معاویہ نے علی کی بدگوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص غضبناک ہو گئے اور کہا کہ تم علی کے متعلق ایسی بات کیوں کہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ ص کو کہتے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا، اور یہ کہ اے علی آپکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون ع کو موسی ع سے تھی سوائے ایک چیز کہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور میں نے [رسول اللہ ص] سے یہ بھی سنا ہے کہ کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے۔
یہ بالکل صحیح الاسناد روایت ہے اور البانی صاحب نے اسے "سلسلة الأحاديث الصحيحة" میں ذکر کیا ہے۔ لنک:


حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا نے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دینے پربھرپور احتجاج کیا۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا نے معاویہ کو ایک خط لکھا:
آنلائن لنک العقد الفرید، جلد 3:
فکتبت ام سلمۃ زوج النبی الی معاویۃ: انکم تلعنون اللہ و رسولہ علی منابرکم، و ذلک انکم تلعنون علی بن ابی طالب و من احبہ، و انا اشھد ان اللہ احبہ و رسولہ، فلم یلتفت الی کلامھا۔

ترجمہ:
"تم لوگ [معاویہ] منبر رسول سے اللہ اور اسکے رسول پر لعن کر رہے ہو، اور یہ اسطرح کہ تم علی ابن ابی طالب پر لعن کر رہے ہو اور ہر اُس پر جو علی سے محبت کرتا ہے۔ اور میں گواہ ہوں کہ اللہ اور اسکا رسول علی سے محبت رکھتے تھے۔" مگر ام سلمہ سلام اللہ علیہا نے جو کچھ کہا کسی نے اسکی پرواہ نہ کی۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا کی یہ روایت کئی طریقوں سے امام احمد نے اپنی مسند میں بھی نقل کی ہے۔ مثلا:
مسند احمد بن حنبل
25523 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ اَبِي بُكَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا اِسْرَائِيلُ، عَنْ اَبِي اِسْحَاقَ، عَنْ اَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَى اُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ لِي اَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ قُلْتُ مَعَاذَ اللَّهِ اَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ اَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي‏.‏

اس روایت میں ام سلمہ سلام اللہ علیہا صحابہ کو علی ابن ابی طالب پر "سب" کرنے کو رسول اللہ ص پر "سب" کرنا قرار دے رہی ہیں۔
اور ابن کثیر الدمشقی اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں نقل کرتا ہے :
“امام احمد نے بیان کیا ہے کہ یحیی بن ابی بکیر نے ہم سے بیان کیا کہ اسرائیل نے ابو اسحاق سے بحوالہ ابو عبداللہ البجلی ہم سے بیان کیا کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس گیا تو آپ نے مجھے فرمایا، کیا تم میں رسول اللہﷺ کو سب و شتم کیا جاتا ہے؟ میں نے کہا معاذاللہ یا سبحان اللہ یا اسی قسم کا کوئی کلمہ کہا “آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی۔
نیزیہ روایت دیکھئیے
ابو لیلی نے اسے عن عبیداللہ بن موسی عن عیسی بن عبدالرحمن البجلی عن بجیلہ و عن سلیم عن السدی عن ابی عبداللہ البجلی روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا ہے کہ حضرت ام سلمہ نے مجھے فرمایا، کیا تم میں منبر رسول پر سے رسول ﷺ کو سب و شتم کیا جاتا ہے؟ راوی بیان کرتا ہے میں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ] نے فرمایا کیا حضرت علی اور ان سے محبت کرنے والوں کو سب و شتم نہیں کیا جاتا؟ میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہﷺ ان سے محبت کرتے تھے [آگے ابن کثیر الدمشقی لکھتا ہے کہ اسے کئی طرق سے حضرت ام سلمہ سے روایت کیا گیا ہے]
حوالہ: البدایہ و النہایہ، جلد ہفتم، صفحہ 463 [اردو ایڈیشن، نفیس اکیڈمی، ترجمہ اختر فتح پوری صاحب ] آنلائن لنک سکین شدہ صفحہ




صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ
6382 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، - يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ - عَنْ أَبِي، حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ - قَالَ - فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا - قَالَ - فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ ‏.‏ فَقَالَ سَهْلٌ مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا ‏.‏ فَقَالَ لَهُ أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ قَالَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ فَقَالَ ‏"‏ أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ ‏"‏ ‏.‏ فَقَالَتْ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَىْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لإِنْسَانٍ ‏"‏ انْظُرْ أَيْنَ هُوَ ‏"‏ ‏.‏ فَجَاءَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ ‏.‏ فَجَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَيَقُولُ ‏"‏ قُمْ أَبَا التُّرَابِ قُمْ أَبَا التُّرَابِ ‏"‏ ‏

ترجمہ:
سہل روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندان میں سے ایک شخص حاکم ہوا اور اس نے سہل کو بلایا اور حکم دیا [فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا] کہ وہ علی ابن ابی طالب کو گالی دے۔ سہل نے انکار کیا۔ اس پر آوہ حاکم بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابو تراب پر۔ ۔۔۔۔۔
امام ابن حجر مکی یہ صحیح روایت نقل کرتے ہیں:
عربی عبارت کے لیے آنلائن لنک:
ترجمہ:
بزاز کی روایت میں ہے کہ اللہ نے حکم [والد مروان] اور اسکے بیٹے پر لعنت کی لسان نبوی کے ذریعے سے۔ اور ثقہ راویوں کی سند کے ساتھ مروی ہے کہ جب مروان کو مدینے کا گورنر بنایا گیا تو وہ منبر پر ہر جمعے میں علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرتا تھا۔ پھر اسکے بعد حضرت سعید بن عاص گورنر بنے تو وہ علی پر سب نہیں کرتے تھے۔ پھر مروان کو دوبارہ گورنر بنایا گیا تو اس نے پھر سب و شتم شروع کر دیا۔ امام حسن کو اس بات کا علم تھا مگر آپ خاموش رہتے تھے اور مسجد نبوی میں عین اقامت کے وقت داخل ہوتے تھے [تاکہ اپنے والد ماجد کی بدگوئی نہ سن سکیں] مگر مروان اس پر بھی راضی نہ ہوا یہاں تک کہ اس نے حضرت حسن کے گھر میں ایلچی کے ذریعے ان کو اور حضرت علی کو گالیاں دلوا بھیجیں۔ ان ہفوات میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ "تیری مثال میرے نزدیک خچر کی سی ہے کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ تیر باپ کون ہے تو وہ کہے کہ میری ماں گھوڑی ہے۔" حضرت حسن نے یہ سن کر قاصد سے کہا کہ تو اسکے پاس جا اور اُس سے کہہ دے کہ خدا کی قسم میں تجھے گالی دے کر تیرا گناہ ہلکا نہیں کرنا چاہتا۔ میری اور تیری ملاقات اللہ کے ہاں ہو گی۔ اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ اللہ نے میرے نانا جان [صل اللہ علیہ و آلہ وسلم] کو جو شرف بخشا ہے وہ اس سے بلند و برتر ہے کہ میری مثال خچر کی سی ہو۔" ایلچی نکلا تو امام حسین سے اسکی ملاقات ہو گئی اور انہیں بِ اس نے گالیوں کے متعلق بتایا۔ حضرت حسین نے اسے پہلے تو دھمکی دی کہ خبردار جو تم نے میری بات بھی مروان تک نہ پہنچائی اور پھر فرمایا کہ:"اے مروان تو ذرا اپنے باپ اور اسکی قوم کی حیثیت پر بھی غور کر۔ تیرا مجھ سے کیا شروکار تو اپنے کندھوں پر اپنے اس لڑکے کو اٹھاتا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لعنت کی ہے۔۔۔۔۔۔ اور عمدہ سند کے ساتھ یہ بھی مروی ہے کہ مروان نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تو وہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں یہ آیت اتری:"جس نے کہا اپنے والدین سے کہ تم پر اُف ہے۔"۔۔۔۔ عبدالرحمن کہنے لگے: "تو نے جھوٹ کہا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تیرے والد پر لعنت کی تھی۔"
نوٹ: مروان کی بدزبانی کا یہ پورا واقعہ علاوہ دیگر مورخین کے امام جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں بھی نقل کیا ہے اور متعدد دوسرے علماء نے اس کو بیان کا ہے۔

سوال: مروان کافر کیوں نہیں بنا جبکہ وہ صحابی علی ابن ابی طالب اور صحابی حسن و حسین کو گالیاں دے رہا ہے؟

معاویہ و بنی امیہ کے حامی نواصب اب یہ بتائیں کہ کیا علی ابن ابی طالب صحابی نہ تھے؟ کیا حسن و حسین علیہم السلام صحابی رسول نہ تھے؟ کیا دختر رسول، سیدۃ نساء العالمین، بتول و زہراء ، جگر گوشہ رسول صحابیہ نہ تھیں کہ انہیں معاذ اللہ معاذ اللہ یہ مروان بن حکم ایسے گالیاں دے؟
آپ کو ان نواصب کا مکروہ اصلی چہرہ دیکھنا ہے تو دیکھئے سپاہ صحابہ کہ ویب سائیٹ پر "براۃ عثمان" نامی کتاب جہاں یہ مروان بن حکم کو کافر کہنے کی بجائے "رضی اللہ عنہ" اور "فقیہ مدینہ" کہہ رہے ہیں اور اس سے مروی روایات انکی کتابوں میں بھری ہوئی ہیں۔
تو بجائے مروان کو کافر بنانے کے انہوں نے اسے نہ صرف "رضی اللہ عنہ" بنا لیا بلکہ اپنا چھٹا خلیفہ راشد اور "امیر المومنین" بنا دیا۔


صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ
6382 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، - يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ - عَنْ أَبِي، حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ - قَالَ - فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا - قَالَ - فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ ‏.‏ فَقَالَ سَهْلٌ مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا ‏.‏ فَقَالَ لَهُ أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ قَالَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ فَقَالَ ‏"‏ أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ ‏"‏ ‏.‏ فَقَالَتْ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَىْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لإِنْسَانٍ ‏"‏ انْظُرْ أَيْنَ هُوَ ‏"‏ ‏.‏ فَجَاءَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ ‏.‏ فَجَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَيَقُولُ ‏"‏ قُمْ أَبَا التُّرَابِ قُمْ أَبَا التُّرَابِ ‏"‏ ‏


ترجمہ:
سہل روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندان میں سے ایک شخص حاکم ہوا اور اس نے سہل کو بلایا اور حکم دیا [فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا] کہ وہ علی ابن ابی طالب کو گالی دے۔ سہل نے انکار کیا۔ اس پر آوہ حاکم بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابو تراب پر۔ ۔۔۔۔۔

امام ابن حجر مکی یہ صحیح روایت نقل کرتے ہیں:
عربی عبارت کے لیے آنلائن لنک:
ترجمہ:
بزاز کی روایت میں ہے کہ اللہ نے حکم [والد مروان] اور اسکے بیٹے پر لعنت کی لسان نبوی کے ذریعے سے۔ اور ثقہ راویوں کی سند کے ساتھ مروی ہے کہ جب مروان کو مدینے کا گورنر بنایا گیا تو وہ منبر پر ہر جمعے میں علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرتا تھا۔ پھر اسکے بعد حضرت سعید بن عاص گورنر بنے تو وہ علی پر سب نہیں کرتے تھے۔ پھر مروان کو دوبارہ گورنر بنایا گیا تو اس نے پھر سب و شتم شروع کر دیا۔ امام حسن کو اس بات کا علم تھا مگر آپ خاموش رہتے تھے اور مسجد نبوی میں عین اقامت کے وقت داخل ہوتے تھے [تاکہ اپنے والد ماجد کی بدگوئی نہ سن سکیں] مگر مروان اس پر بھی راضی نہ ہوا یہاں تک کہ اس نے حضرت حسن کے گھر میں ایلچی کے ذریعے ان کو اور حضرت علی کو گالیاں دلوا بھیجیں۔ ان ہفوات میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ "تیری مثال میرے نزدیک خچر کی سی ہے کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ تیر باپ کون ہے تو وہ کہے کہ میری ماں گھوڑی ہے۔" حضرت حسن نے یہ سن کر قاصد سے کہا کہ تو اسکے پاس جا اور اُس سے کہہ دے کہ خدا کی قسم میں تجھے گالی دے کر تیرا گناہ ہلکا نہیں کرنا چاہتا۔ میری اور تیری ملاقات اللہ کے ہاں ہو گی۔ اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ اللہ نے میرے نانا جان [صل اللہ علیہ و آلہ وسلم] کو جو شرف بخشا ہے وہ اس سے بلند و برتر ہے کہ میری مثال خچر کی سی ہو۔" ایلچی نکلا تو امام حسین سے اسکی ملاقات ہو گئی اور انہیں بِ اس نے گالیوں کے متعلق بتایا۔ حضرت حسین نے اسے پہلے تو دھمکی دی کہ خبردار جو تم نے میری بات بھی مروان تک نہ پہنچائی اور پھر فرمایا کہ:"اے مروان تو ذرا اپنے باپ اور اسکی قوم کی حیثیت پر بھی غور کر۔ تیرا مجھ سے کیا شروکار تو اپنے کندھوں پر اپنے اس لڑکے کو اٹھاتا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لعنت کی ہے۔۔۔۔۔۔ اور عمدہ سند کے ساتھ یہ بھی مروی ہے کہ مروان نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تو وہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں یہ آیت اتری:"جس نے کہا اپنے والدین سے کہ تم پر اُف ہے۔"۔۔۔۔ عبدالرحمن کہنے لگے: "تو نے جھوٹ کہا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تیرے والد پر لعنت کی تھی۔"


مغیرہ بن شعبہ، جو معاویہ ابن ابی سفیان کا ایک اور گورنر تھا، وہ بھی علی ابن ابی طالب کو معاویہ ابن ابی سفیان کے حکم سے گالیاں دیا کرتا تھا اور لعنت بھیجتا تھا۔
تاریخ کامل، جلد 3، صفحہ 234:
"معاویہ ابن ابی سفیان نے مغیرہ کو بطور گورنر نامزد کیا اور کہا: "میں نے تمہاری نامزدگی اپنی عقل کے مطابق کی ہے، تو اب تم مجھے ان شرائط پر بیعت دو کہ تم اس روایت کو جاری رکھو گے کہ تم علی کی بے عزتی کرنا اور لعن کرو گے مگر حضرت عثمان کی تعریف کرو گے۔ مغیرہ کچھ عرصے کوفہ کا گورنر رہا اور اس دوران وہ علی ابن ابی طالب کی بدگوئی کرتا تھا اور ان پر لعنت کرتا تھا۔
اور ابن کثیر البدایہ و النہایہ جلد 8، صفحہ 50 پر لکھتے ہیں:
قال‏:‏ قال سلمان لحجر‏:‏ يا ابن أم حجر لو تقطعت أعضاؤك ما بلغت الإيمان، وكان إذ كان المغيرة بن شعبة على الكوفة إذا ذكر علياً في خطبته يتنقصه بعد مدح عثمان وشيعته فيغضب حجر هذا ويظهر الإنكار عليه‏.‏

ترجمہ:
"جب مغیرہ بن شعبہ کوفہ کا والی تھا تو وہ خطبے میں عثمان اور انکے ساتھیوں کی مدح کے بعد علی ابن ابی طالب کی تنقیض کرتا تھا۔ اس پر حضرت حجر غضبناک ہو کر احتجاج کرتے تھے۔"
مسند احمد بن حنبل، جلد 4، حدیث 18485، اول مسند الکوفین، حدیث زید بن ارقم:
آنلائن لنک:
حدثنا ‏ ‏محمد بن بشر ‏ ‏حدثنا ‏ ‏مسعر ‏ ‏عن ‏ ‏الحجاج ‏ ‏مولى ‏ ‏بني ثعلبة ‏ ‏عن ‏ ‏قطبة بن مالك ‏ ‏عم ‏ ‏زياد بن علاقة ‏ ‏قال ‏ ‏نال ‏ ‏المغيرة بن شعبة ‏ ‏من ‏ ‏علي ‏ ‏فقال ‏ ‏زيد بن أرقم ‏ ‏قد علمت أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏كان ‏ ‏ينهى عن سب الموتى فلم تسب ‏ ‏عليا ‏ ‏وقد مات ‏

ترجمہ:
زید بن علاقہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں: مغیرہ بن الشعبہ نے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دی، تو اس پر زید بن ارقم کھڑے ہو گئے اور کہا: "تمہیں علم ہے کہ رسول ص نے مردہ لوگوں کو گالیاں دینے سے منع کیا ہے، تو پھر تم علی ابن ابی طالب پر کیوں سب کر رہے ہو جب کہ وہ وفات پا چکے ہیں؟
یہ صحیح روایت ہے اور اسے حاکم، اور پھر الذھبی نے صحیح قرار دیا ہے۔
اور شیخ الارنؤوط نے مسند احمد کے حاشیے میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اور حتی کہ شیخ البانی نے بھی اسے سلسلہ احادیث صحیحیہ میں اسے صحیح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ یہ امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح روایت ہے:
2397 - " نهى عن سب الأموات " .
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 5 / 520 :
أخرجه الحاكم ( 1 / 385 ) عن شعبة عن مسعر عن زياد بن علاقة عن عمه : " أن المغيرة بن شعبة سب علي بن أبي طالب ، فقام إليه زيد بن أرقم فقال : يا مغيرة ! ألم تعلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن سب الأموات ؟ فلم تسب عليا و قد مات ؟ ! " ، و قال : " صحيح على شرط مسلم "



 

razaali

Politcal Worker (100+ posts)
ab bataoo kharji wanted who is kaafir and who is muslim agar thori see bhi ghairath hai too next time never call other ppl kaafir this is a trailor i can proogf you from all of your books that who will go to jannath but i dont want to hurt ppl, so shut ur mouth and stay quiet.
 

razaali

Politcal Worker (100+ posts)
my friend enigma90 this guy is the one who never understand what he is talking woh kahawat to suni hoo gii aapney kai laathoon kai bhooth baathoon sai naheen manthey, you will see he is trying to get help from admin as usual to delete my post but admin ppl they dont stop him i saw his post just now i was away for a while, any way lest see yeh bhagey gaa inshallah jaisey koo woh bhagey they.
 

EniGma90

Minister (2k+ posts)
my friend enigma90 this guy is the one who never understand what he is talking woh kahawat to suni hoo gii aapney kai laathoon kai bhooth baathoon sai naheen manthey, you will see he is trying to get help from admin as usual to delete my post but admin ppl they dont stop him i saw his post just now i was away for a while, any way lest see yeh bhagey gaa inshallah jaisey koo woh bhagey they.


Ahad kay maidan se laiker Qayamat tak.......... Therek-e-Bhagora. ;)
 

razaali

Politcal Worker (100+ posts)
best example you see recently in lal masjid woh shakhs joo claim kar raha thaa kai mughey basharat hoi hai kai jihad karoon woh burqeh main bhagaa aur pakra gaya doosri bari misaal mullah umar kii jo motor cycle par bhaag gaya yeh farari hai aur hum ghaire farar kai maananey waley hain Alhamdulilah.
 

razaali

Politcal Worker (100+ posts)
yes you right but here are some people who called other ppl kafir so it was necessary to inform them that pehley apney gerebaan main ghaank kar dekhoo.
 
Last edited:

Back
Top