دریائے سوات واقعہ کی ابتدائی رپورٹ: ذمہ داری سیاحوں پر ڈال دی گئی

1751561100570.png

سوات: خوازہ خیلہ میں پیش آنے والے افسوسناک سیلابی واقعے سے متعلق کمشنر ملاکنڈ نے پانچ صفحات پر مشتمل ابتدائی رپورٹ صوبائی انسپکشن ٹیم کو جمع کرا دی ہے، جس میں واقعے کی وجوہات، سیاحوں کی تفصیلات اور انتظامی اقدامات کو واضح کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں دریا سوات میں پانی کی سطح 77 ہزار 782 کیوسک تک جا پہنچی تھی۔ شدید بہاؤ کے دوران مجموعی طور پر 17 سیاح دریا میں پھنس گئے، جن میں 10 کا تعلق سیالکوٹ، 6 کا مردان اور ایک کا تعلق مقامی علاقے سے تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دریا سوات میں جاری تعمیراتی کام کے باعث پانی کا رخ تبدیل کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے کچھ علاقوں میں پانی کی سطح کم محسوس ہو رہی تھی۔ یہی صورتحال دیکھ کر سیاح دریا کے اس حصے میں پہنچے جہاں بعد ازاں سیلابی ریلے نے تباہی مچائی۔
https://twitter.com/x/status/1940759548903452798
متاثرہ سیاح 9 بج کر 31 منٹ پر دریا میں داخل ہوئے، جبکہ ہوٹل کے سیکیورٹی گارڈ نے انہیں دریا میں جانے سے روکا تھا، تاہم سیاحوں نے گارڈ کی بات نظر انداز کی اور ہوٹل کے پچھلے راستے سے دریا میں داخل ہو گئے۔ سیاحوں کے دریا میں داخل ہونے کے 14 منٹ بعد پانی کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوا اور متعلقہ حکام کو اطلاع دی گئی۔ ریسکیو ٹیم 10 بج کر 5 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچی۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ممکنہ سیلاب کے پیش نظر متعلقہ اداروں کو پہلے ہی الرٹ کر دیا گیا تھا اور خراب موسم کے باعث کئی وارننگز جاری کی گئی تھیں۔ علاوہ ازیں افسران کو ایمرجنسی کی صورت میں ذمہ داریاں تفویض کی جا چکی تھیں۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ دریا کے کنارے تجاوزات کیخلاف آپریشن کا فیصلہ سیلاب سے قبل ہی کر لیا گیا تھا۔
https://twitter.com/x/status/1940780028897513939
مزید بتایا گیا کہ 2 جون سے ایک ماہ کے لیے ملاکنڈ ڈویژن میں دفعہ 144 نافذ کی گئی تھی اور 24 جون کو دریا میں نہانے اور کشتی رانی پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق 17 پھنسے ہوئے افراد میں سے 4 کو موقع پر ہی ریسکیو کر لیا گیا، جبکہ 12 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں اور ایک کی تلاش تاحال جاری ہے۔

کمشنر ملاکنڈ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سوات کے مختلف علاقوں میں مجموعی طور پر 75 افراد سیلابی پانی کی نذر ہو گئے تھے۔ واقعے کے بعد انتظامی کارروائی کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر، ایڈیشنل ڈی سی، اسسٹنٹ کمشنر بابوزئی اور خوازہ خیلہ کو معطل کر دیا گیا ہے، جبکہ ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر سوات اور تحصیل میونسپل آفیسر سوات کو بھی عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔

واقعے کے بعد 28 جون کو چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور موقع پر ہی ہر قسم کی مائننگ پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا۔ رپورٹ کی روشنی میں انتظامی اور تکنیکی دونوں سطحوں پر جامع تحقیقات جاری ہیں تاکہ آئندہ ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔
 
Last edited by a moderator:

Nice2MU

President (40k+ posts)
معلوم نہیں یہ انگریزوں کے ایجنٹس کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر اور اس قبیل کے باقی عہدے اور سسٹم کب ختم ہو نگے۔۔۔؟

ملک میں ایک وفاقی حکومت و اسمبلی ، پھر صوبائی حکومت اور اسمبلی ، پھر بلدیاتی حکومت اور انکی اسمبلیاں، پھر کمشنروں کا محکمہ ، پھر پولیس اور پھر، اور پھر ۔۔۔۔۔ نا جانے کتنے محکمے اور انتظامیے ہیں لیکن لگتا ہے کہ ملک میں کوئی حکمران اور حکومت ہی نہیں اور عوام کے مسائل کوہ ہمالیہ سے بڑھ کر۔۔۔ حکمران عیاشیوں میں مبتلاء ہیں جبکہ عوام مر رہی ہے
 

Back
Top