کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہا راجہ کے ماموں اور ایک لمبی چوڑی جاگیر کے مالک تھے۔ جاگیرداری کی یکسانیت سے اک دن اکتا کے بھانجھے سے کہا ، تیرے شہر میں سیشن جج کی کرسی خالی ہے۔ اس دور میں وائسرائے سیشن جج کے عہدے کی تعیناتی کا آرڈر جاری کرتا تھا، تو لاٹ صاحب کو چھٹی لکھ دے اور میں سیشن جج کا پروانہ لے آتا ہوں۔ مہاراجہ سے چھٹی لکھوا کر مہر لگوا کر ماموں لاٹ صاحب کے سامنے حاضر ہو گئے۔ وائس رائے نے پوچھا، نام ؟ بولے کھڑک سنگھ، وائسرائے تعلیم ؟
کیوں سرکار، کیا میں کسی اسکول میں بچے پڑھانے کا آرڈر لینے آیا ہوں۔ یا عوام کو فوری انصاف دینے… وائسرائے ہنسے، بولے سردار جی، قانون کی تعلیم کا پوچھا ہے، آخر آپ نے اچھے بروں کے درمیان تمیز کرنی ہے۔ اچھوں کو چھوڑنا ہے اور بروں کو سزا دینی ہے۔ کھڑک سنگھ مونچھوں کو تائو دے کر بولے، اتنی سی بات کے لیے گدھا بھر وزن کی کتابوں کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کام برسوں سے میں پہنچایت میں کرتا آیا ہوں اور ایک نظر میں اچھے برے کی تمیز کر لیتا ہوں۔ وائسرائے نہ یہ سوچا کہ اب کون مہاراجہ اور مہاراجہ کے ماموں سے الجھے ، جس نے سفارش کی ہے کہ وہ ہی اس کو بھگتے، درخواست لی اور حکم نام جاری کر دیا۔ اب کھڑک سنگھ جسٹس کھڑک سنگھ بن کر پٹیالہ تشریف لے آئے۔ خدا کی قدرت پہلا مقدمہ ہی جسٹس کھڑک سنگھ کی عدالت میں قتل کا آ گیا۔ ایک طرف 4 قاتل کٹہرے میں کھڑے تھے دوسری طرف ایک روتی دھوتی عورت سر کا دوپٹہ گلے میں لٹکائے کھڑی آنسو پونچھ رہی تھی۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے دونوں طرف کھڑے لوگوں کو اچھی طرح سے دیکھ لیا تھا۔
اتنی دیر میں پولیس آفیسر آگے بڑھا اور جسٹس کھڑک سنگھ کے سامنے کچھ کاغذات رکھے اور کہنے لگا، جناب والا، یہ عورت کرانتی کور ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان چاروں نے مل کر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے خاوندکا خون کیا ہے۔ کیوں مائی؟ جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس آفیسر کی بات ابھی پوری نہ سنی تھی کہ عورت سے پوچھنے لگا کیسے مارا تھا؟ عورت بولی، سرکار جو دائیں طرف کھڑا ہے اس کے ہاتھ میں برچھا تھا، درمیان والا کَسی لے کر آیا تھا اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں۔ یہ چاروں کماد کے اولے سے اچانک نکلے اور مارا ماری شروع کر دی۔ ان ظالموں نے میرے سر کے تاج کو جان سے مار دیا۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے مونچھوں کو تائو دے کر غصے سے چاروں ملزموں کو دیکھا اور کہا کیوں بھئی تم نے بندہ مار دیا؟ نہ جی میرے ہاتھ میں تو بیلچہ تھا کَسی نہیں، ایک ملزم بولا، دوسرا ملزم بولا جناب والا میرے پاس برچھا نہیں تھا ایک سوٹی کے آگے درانتی بندھی تھی پتے جھاڑنے والی۔ جسٹس کھڑک سنگھ بولے چلو، جو کچھ بھی تمہارے ہاتھ میں تھا وہ تو مر گیا نا!
پر جناب ہمارا مقصد تو اسے مارنا تھا نہ زخمی کرنا۔ تیسرا ملزم بولا۔--, تمہاری ایسی کی تیسی، مقصد بھی تھا کوئی تمہارا، کرتا ہوں تم سب کا بندوبست، جسٹس کھڑک سنگھ بولے۔ کاغذوں کے پلندے کو پکڑ کر اپنے آگے کیا اور فیصلہ لکھنے ہی لگے تھے کہ ایک دم عدالت کی کرسی سے کالے کوٹ والا آدمی اٹھ کر تیزی سے سامنے آیا، اور بالا، مجھے اس کیس میں تاریخ دے دیجئے تاکہ میں پوری تیاری کر کے آئوں۔ کھڑک سنگھ، اوئے تاریخ کس بات کی؟ میرے یہ موکل تو اسے سمجھانے کے لیے اس کی زمین پر گئے تھے ویسے وہ زمین بھی ابھی مرنے والے کے نام منتقل نہیں۔ ان کے ہاتھوں میں صرف ڈنڈے تھے۔ ڈنڈے بھی نہیں بلکہ کماد کے کھیت سے توڑے ہوئے گنے تھے۔
اسے روکتے ہوئے جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس آفیسر سے پوچھا کہ یہ کالے کوٹ والا کون ہے۔ جواباً اس نے کہا وکیل صفائی۔ یعنی یہ بھی انہی کا بندہ ہوا ناں جوان کی طرف سے بات کرتا ہے اور ان بد ذاتوں کو چھڑانا چاہتا ہے۔ کھڑک سنگھ نے اس وکیل کو بھی ان چاروں ملزموں کے ساتھ کھڑا کر لیا۔ کاغذوں کے پلندے پر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کر دئیے۔ فیصلہ یہ تھا، چار قاتل اور پانچواں وکیل، پانچوں کو کل صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ پٹیالے میں تھرتھلی مچ گئی۔ اوئے بچو کھڑک سنگھ آ گیا ہے جو قاتل کے ساتھ وکیل کو بھی پھانسی دیتا ہے کہتے ہیں جب تک جسٹس کھڑک سنگھ رہا پٹیالہ ریاست میں کوئی قتل نہیں ہوا۔
کیوں سرکار، کیا میں کسی اسکول میں بچے پڑھانے کا آرڈر لینے آیا ہوں۔ یا عوام کو فوری انصاف دینے… وائسرائے ہنسے، بولے سردار جی، قانون کی تعلیم کا پوچھا ہے، آخر آپ نے اچھے بروں کے درمیان تمیز کرنی ہے۔ اچھوں کو چھوڑنا ہے اور بروں کو سزا دینی ہے۔ کھڑک سنگھ مونچھوں کو تائو دے کر بولے، اتنی سی بات کے لیے گدھا بھر وزن کی کتابوں کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کام برسوں سے میں پہنچایت میں کرتا آیا ہوں اور ایک نظر میں اچھے برے کی تمیز کر لیتا ہوں۔ وائسرائے نہ یہ سوچا کہ اب کون مہاراجہ اور مہاراجہ کے ماموں سے الجھے ، جس نے سفارش کی ہے کہ وہ ہی اس کو بھگتے، درخواست لی اور حکم نام جاری کر دیا۔ اب کھڑک سنگھ جسٹس کھڑک سنگھ بن کر پٹیالہ تشریف لے آئے۔ خدا کی قدرت پہلا مقدمہ ہی جسٹس کھڑک سنگھ کی عدالت میں قتل کا آ گیا۔ ایک طرف 4 قاتل کٹہرے میں کھڑے تھے دوسری طرف ایک روتی دھوتی عورت سر کا دوپٹہ گلے میں لٹکائے کھڑی آنسو پونچھ رہی تھی۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے دونوں طرف کھڑے لوگوں کو اچھی طرح سے دیکھ لیا تھا۔
اتنی دیر میں پولیس آفیسر آگے بڑھا اور جسٹس کھڑک سنگھ کے سامنے کچھ کاغذات رکھے اور کہنے لگا، جناب والا، یہ عورت کرانتی کور ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان چاروں نے مل کر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے خاوندکا خون کیا ہے۔ کیوں مائی؟ جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس آفیسر کی بات ابھی پوری نہ سنی تھی کہ عورت سے پوچھنے لگا کیسے مارا تھا؟ عورت بولی، سرکار جو دائیں طرف کھڑا ہے اس کے ہاتھ میں برچھا تھا، درمیان والا کَسی لے کر آیا تھا اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں۔ یہ چاروں کماد کے اولے سے اچانک نکلے اور مارا ماری شروع کر دی۔ ان ظالموں نے میرے سر کے تاج کو جان سے مار دیا۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے مونچھوں کو تائو دے کر غصے سے چاروں ملزموں کو دیکھا اور کہا کیوں بھئی تم نے بندہ مار دیا؟ نہ جی میرے ہاتھ میں تو بیلچہ تھا کَسی نہیں، ایک ملزم بولا، دوسرا ملزم بولا جناب والا میرے پاس برچھا نہیں تھا ایک سوٹی کے آگے درانتی بندھی تھی پتے جھاڑنے والی۔ جسٹس کھڑک سنگھ بولے چلو، جو کچھ بھی تمہارے ہاتھ میں تھا وہ تو مر گیا نا!
پر جناب ہمارا مقصد تو اسے مارنا تھا نہ زخمی کرنا۔ تیسرا ملزم بولا۔--, تمہاری ایسی کی تیسی، مقصد بھی تھا کوئی تمہارا، کرتا ہوں تم سب کا بندوبست، جسٹس کھڑک سنگھ بولے۔ کاغذوں کے پلندے کو پکڑ کر اپنے آگے کیا اور فیصلہ لکھنے ہی لگے تھے کہ ایک دم عدالت کی کرسی سے کالے کوٹ والا آدمی اٹھ کر تیزی سے سامنے آیا، اور بالا، مجھے اس کیس میں تاریخ دے دیجئے تاکہ میں پوری تیاری کر کے آئوں۔ کھڑک سنگھ، اوئے تاریخ کس بات کی؟ میرے یہ موکل تو اسے سمجھانے کے لیے اس کی زمین پر گئے تھے ویسے وہ زمین بھی ابھی مرنے والے کے نام منتقل نہیں۔ ان کے ہاتھوں میں صرف ڈنڈے تھے۔ ڈنڈے بھی نہیں بلکہ کماد کے کھیت سے توڑے ہوئے گنے تھے۔
اسے روکتے ہوئے جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس آفیسر سے پوچھا کہ یہ کالے کوٹ والا کون ہے۔ جواباً اس نے کہا وکیل صفائی۔ یعنی یہ بھی انہی کا بندہ ہوا ناں جوان کی طرف سے بات کرتا ہے اور ان بد ذاتوں کو چھڑانا چاہتا ہے۔ کھڑک سنگھ نے اس وکیل کو بھی ان چاروں ملزموں کے ساتھ کھڑا کر لیا۔ کاغذوں کے پلندے پر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کر دئیے۔ فیصلہ یہ تھا، چار قاتل اور پانچواں وکیل، پانچوں کو کل صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ پٹیالے میں تھرتھلی مچ گئی۔ اوئے بچو کھڑک سنگھ آ گیا ہے جو قاتل کے ساتھ وکیل کو بھی پھانسی دیتا ہے کہتے ہیں جب تک جسٹس کھڑک سنگھ رہا پٹیالہ ریاست میں کوئی قتل نہیں ہوا۔
- Featured Thumbs
- https://i.dawn.com/primary/2018/08/5b83c95205cad.jpg
Last edited by a moderator: