یوں تو پاکستان میں ہر چیز ہی بکاؤ ہے مگر یہ بی اے پاس جو زندگی میں اور کچھ نہیں کر سکتے تو مخبر یا دلال ( صحافی ) بن جاتے اور پھر ٹکے ٹکے پر بکتے ہیں ان کو لگام ڈالنے کا وقت آ گیا ہے . ہمارے پنڈ میں صحافی کو نائی کہا جاتا ہے . اکثر اس طرح کی خواتین کو شر خبرو کہا جاتا ہے . نائی کا کام ہوتا ہے گاؤں کے ہر بندے کے بال کاٹنا شیو کرنا . اور اس دوران پورے گاؤں کی باتیں ادھر ادھر کرنا . اب نیا زمانہ آگیا ہے اب اس کام کو لوگ صحافت کہتے ہیں . یہ تو تھی تھوڑی بڑھاس اب کام کی بات .
پاکستان میں جسطرح دوسرے شعبے معیاری نہیں اسی طرح ان نائیو یعنی صحافیوں کے شعبے میں تو بلکل ہی کال پڑا ہے . پاکستانی صحافی مواشرے کا سب سے گھٹیا طبقہ ہے . تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ترین قومی قانونی اور اخلاقی لحاظ سے قابل ے سزا جرائم کے مر تقب لوگ .
ہر شعبے کے کچھ اپنے ورک ایتھکس ہوتے ہیں اس کام کو معیاری بنانے کے لئے . اور پھر قانونی معیار ہوتے ہیں جسے ہر صورت فالو کیا جاتا ہے .
ان جاہلوں کو کبھی شاید کسی نے نہ بتایا ہے نہ پڑھایا ہے کے پبلک پالیسی کیا ہوتی ہے اور نیشنل انٹرست اور نیشنل انٹرسٹ کا مطالبہ کیا ہوتا ہے .
میں اگر کسی کا پرائیویٹ سیکورٹی گارڈ ہوں تو ا س کا مطلب یہ نہیں ہے کے میں اپنے ملک قوم اور پبلک پالیسی کے خلاف جا کر اس کی حفاظت کروں گا اگر مجھے اپنے کام کے دوران یہ معلوم پڑ جائے کے جس شخص کی میں حفاظت کر رہا ہوں وہ میرے ملک قوم کا دشمن ہے تو پھر میں اس کا ملازم نہیں رہوں گا بلکے اب میری قومی ذمہداری ہے کے میں فورن سے پہلے ملکی اداروں کو اطلاح دوں اور اگر پولیس یا فوج اس شخص کو گرفتار کرنے آتی ہے تو مجھے ان کا ساتھ دینا ہو گا .
ہر ملک کی فوج پولیس دفا عی ادارے عدلیہ اس ملک کی حکومت اس ملک کے پبلک انٹرسٹ کو طے کرتی ہے. اس کے بعد اگر کوئی پرایم منسٹر بھی اس حد کو توڑتا ہے تو اسے چارج کیا جاتا ہے .
مسلان ایک ڈاکٹر کو ہر صورت مریض کی جان بچانی ہے یہ پبلک انٹرسٹ کا قانون ہے چاہے وہ اس کا دشمن ہو یا ملک کا دشمن ہو مگر یہی ڈاکٹر جس مجھرم کو عدالت سزا ے موت دے دے اس کی پھانسی کے بعد اس کی موت کی تصدیق کرتا ہے . پھانسی کے وقت اس کے نیچے نہیں کھڑا ہو جاتا کے میں تو ڈاکٹر ہو میرا فرض ہے اس کی جان بچانا .
ممتاز قادری کے جنازے کو کوریج نہیں دی گئی ٹھیک نہیں دی گئی. ایک شخص نے قتل کیا اسے عدالت نے سزا دی اب مجرم کو ہیرو بنانا پبلک انٹرسٹ کے خلاف ہے لہذا ٹھیک اس کے جنازے کو نہیں دکھایا گیا .
ہیومن رائٹس یا فریڈم آف سپیچ آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہ کر ہوتے ہیں کسی ملک کے پبلک انٹرسٹ کے خلاف نہیں ہوتے . فریڈم آف سپیچ ہے فری لوگوں کے لئیے مجرموں کے لئے نہیں . مجرم کو سزا ہوتی ہے. قید کا مطلب ہوتا ہے آزادی کو سلب کرنا نہ کے مجرم سے لیکچر لینا .
امریکا جب عراق میں حملہ کرنے گیا تو اپنے میڈیا ہاؤسز کو ایک بریفنگ دی اور بتایا کے کسطرح کی رپورٹنگ کرنی ہے . عراق جنگ کی رپورٹنگ میں پبلک انٹرسٹ کیا ہے . آپ میں سے کوئی صحافی یہ سوال نہیں کر سکتا یا دکھا یا بتا سکتا کے ہم عراق گئے کیوں . ہاں آپ کا موقابلا آپس میں ہو گا کے کون سا صحافی اور چینل سب سے زیادہ یہ دکھاے گا کے ہم کتنی بہادری سے لڑ رہے ہیں . ہمے وہاں کیا کیا مشکلات ہیں مگرے ہم پیچھے نہیں ہٹ رہے . ہمارے مخالف انسان نہیں .ہمے اور کتنا اور کیسا اسلح چاہیے . مختصر یہ آپ یہ تو بتا سکتے ہے .. ہم یہ جنگ لڑے کیسے یہ نہیں بتا سکتے کیوں لڑے .
کیا کبھی کسی امریکی صحافی کسی لبرل صحافی نے ہی سہی عافیہ صدیقی کا انٹرویو کرتے دیکھا یا عافیہ اپنے خرچے پر ساتھ لے گئی ہو . کوئی آٹھ سال ہو گئے ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان میں قتل کر کے گئے ہوے کسی لبرل امریکی صحافی نے اس سے انٹرویو کیا ہو کیا کرنے گئے تھے پاکستان تین بندے کیو مار دئیے . نہیں کیوں کے یہ ان کے پبلک انٹرسٹ کے خلاف ہے اور وہاں کے صحافی یہ بات جانتے ہیں .
نواز شریف کو کورٹ نے سزا دے دی اب اس کے بعد یہ گورنمنٹ کا مال ہے . صرف نواز شریف ہی نہیں کسی بھی سزا یافتہ شخص کو ہیرو بنانے کی کوشش کرنا
اس شخص کو برابر کا مجرم بناتا ہے .
یہ بلکل ایسے ہی ہے کے مجھے معلوم ہو ایک شخص کو ملک نے دشت گرد یا مجھرم کرار دے دیا ہو اور میں اسے اپنے گھر میں پناہ دوں ایسے شخص کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعا ون میں مجھے بی برابر کی سزا ہونی چاہیے یہ قانون میں بھی لکھا ہے .
میں عدالت سے درخواست کرتا ہوں اگر فاٹا کے مظلوم لوگوں کی عورتوں اور بچوں کو محض شک کی بنیاد پر کولیٹرل ڈیمیج کے نام پر مارا گیا کیوں کے یہ پبلک انٹرسٹ میں ہے کے ایسے لوگ جن کو بتا دیا گیا ہے کے اگر آپ نے کسی دشت گرد مجرم کو پناہ دی تو انجام یہ ہو سکتا ہے . تو پھر مجرم نواز شریف اور مجرم مریم نواز کو عدالت افواج پاکستان آئین او قانون سے پاکستان کے خلاف تعا ون پر پاکستان کے پبلک انٹرسٹ کے خلاف جرم کرنے پر ( آسمہ شیرازی ) کو چارج کیا جائے .
ان جاہل چاپلوس اور چند ٹکوں پر بکنے والوں کو یہ سمجھایا جائے کے وہ دور اب گیا جب تم جیسے دلال صحافت کی آڑ میں جسم فروشی کے یہ دھندے چلاتے تھے .
پاکستان میں جسطرح دوسرے شعبے معیاری نہیں اسی طرح ان نائیو یعنی صحافیوں کے شعبے میں تو بلکل ہی کال پڑا ہے . پاکستانی صحافی مواشرے کا سب سے گھٹیا طبقہ ہے . تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ترین قومی قانونی اور اخلاقی لحاظ سے قابل ے سزا جرائم کے مر تقب لوگ .
ہر شعبے کے کچھ اپنے ورک ایتھکس ہوتے ہیں اس کام کو معیاری بنانے کے لئے . اور پھر قانونی معیار ہوتے ہیں جسے ہر صورت فالو کیا جاتا ہے .
ان جاہلوں کو کبھی شاید کسی نے نہ بتایا ہے نہ پڑھایا ہے کے پبلک پالیسی کیا ہوتی ہے اور نیشنل انٹرست اور نیشنل انٹرسٹ کا مطالبہ کیا ہوتا ہے .
میں اگر کسی کا پرائیویٹ سیکورٹی گارڈ ہوں تو ا س کا مطلب یہ نہیں ہے کے میں اپنے ملک قوم اور پبلک پالیسی کے خلاف جا کر اس کی حفاظت کروں گا اگر مجھے اپنے کام کے دوران یہ معلوم پڑ جائے کے جس شخص کی میں حفاظت کر رہا ہوں وہ میرے ملک قوم کا دشمن ہے تو پھر میں اس کا ملازم نہیں رہوں گا بلکے اب میری قومی ذمہداری ہے کے میں فورن سے پہلے ملکی اداروں کو اطلاح دوں اور اگر پولیس یا فوج اس شخص کو گرفتار کرنے آتی ہے تو مجھے ان کا ساتھ دینا ہو گا .
ہر ملک کی فوج پولیس دفا عی ادارے عدلیہ اس ملک کی حکومت اس ملک کے پبلک انٹرسٹ کو طے کرتی ہے. اس کے بعد اگر کوئی پرایم منسٹر بھی اس حد کو توڑتا ہے تو اسے چارج کیا جاتا ہے .
مسلان ایک ڈاکٹر کو ہر صورت مریض کی جان بچانی ہے یہ پبلک انٹرسٹ کا قانون ہے چاہے وہ اس کا دشمن ہو یا ملک کا دشمن ہو مگر یہی ڈاکٹر جس مجھرم کو عدالت سزا ے موت دے دے اس کی پھانسی کے بعد اس کی موت کی تصدیق کرتا ہے . پھانسی کے وقت اس کے نیچے نہیں کھڑا ہو جاتا کے میں تو ڈاکٹر ہو میرا فرض ہے اس کی جان بچانا .
ممتاز قادری کے جنازے کو کوریج نہیں دی گئی ٹھیک نہیں دی گئی. ایک شخص نے قتل کیا اسے عدالت نے سزا دی اب مجرم کو ہیرو بنانا پبلک انٹرسٹ کے خلاف ہے لہذا ٹھیک اس کے جنازے کو نہیں دکھایا گیا .
ہیومن رائٹس یا فریڈم آف سپیچ آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہ کر ہوتے ہیں کسی ملک کے پبلک انٹرسٹ کے خلاف نہیں ہوتے . فریڈم آف سپیچ ہے فری لوگوں کے لئیے مجرموں کے لئے نہیں . مجرم کو سزا ہوتی ہے. قید کا مطلب ہوتا ہے آزادی کو سلب کرنا نہ کے مجرم سے لیکچر لینا .
امریکا جب عراق میں حملہ کرنے گیا تو اپنے میڈیا ہاؤسز کو ایک بریفنگ دی اور بتایا کے کسطرح کی رپورٹنگ کرنی ہے . عراق جنگ کی رپورٹنگ میں پبلک انٹرسٹ کیا ہے . آپ میں سے کوئی صحافی یہ سوال نہیں کر سکتا یا دکھا یا بتا سکتا کے ہم عراق گئے کیوں . ہاں آپ کا موقابلا آپس میں ہو گا کے کون سا صحافی اور چینل سب سے زیادہ یہ دکھاے گا کے ہم کتنی بہادری سے لڑ رہے ہیں . ہمے وہاں کیا کیا مشکلات ہیں مگرے ہم پیچھے نہیں ہٹ رہے . ہمارے مخالف انسان نہیں .ہمے اور کتنا اور کیسا اسلح چاہیے . مختصر یہ آپ یہ تو بتا سکتے ہے .. ہم یہ جنگ لڑے کیسے یہ نہیں بتا سکتے کیوں لڑے .
کیا کبھی کسی امریکی صحافی کسی لبرل صحافی نے ہی سہی عافیہ صدیقی کا انٹرویو کرتے دیکھا یا عافیہ اپنے خرچے پر ساتھ لے گئی ہو . کوئی آٹھ سال ہو گئے ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان میں قتل کر کے گئے ہوے کسی لبرل امریکی صحافی نے اس سے انٹرویو کیا ہو کیا کرنے گئے تھے پاکستان تین بندے کیو مار دئیے . نہیں کیوں کے یہ ان کے پبلک انٹرسٹ کے خلاف ہے اور وہاں کے صحافی یہ بات جانتے ہیں .
نواز شریف کو کورٹ نے سزا دے دی اب اس کے بعد یہ گورنمنٹ کا مال ہے . صرف نواز شریف ہی نہیں کسی بھی سزا یافتہ شخص کو ہیرو بنانے کی کوشش کرنا
اس شخص کو برابر کا مجرم بناتا ہے .
یہ بلکل ایسے ہی ہے کے مجھے معلوم ہو ایک شخص کو ملک نے دشت گرد یا مجھرم کرار دے دیا ہو اور میں اسے اپنے گھر میں پناہ دوں ایسے شخص کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعا ون میں مجھے بی برابر کی سزا ہونی چاہیے یہ قانون میں بھی لکھا ہے .
میں عدالت سے درخواست کرتا ہوں اگر فاٹا کے مظلوم لوگوں کی عورتوں اور بچوں کو محض شک کی بنیاد پر کولیٹرل ڈیمیج کے نام پر مارا گیا کیوں کے یہ پبلک انٹرسٹ میں ہے کے ایسے لوگ جن کو بتا دیا گیا ہے کے اگر آپ نے کسی دشت گرد مجرم کو پناہ دی تو انجام یہ ہو سکتا ہے . تو پھر مجرم نواز شریف اور مجرم مریم نواز کو عدالت افواج پاکستان آئین او قانون سے پاکستان کے خلاف تعا ون پر پاکستان کے پبلک انٹرسٹ کے خلاف جرم کرنے پر ( آسمہ شیرازی ) کو چارج کیا جائے .
ان جاہل چاپلوس اور چند ٹکوں پر بکنے والوں کو یہ سمجھایا جائے کے وہ دور اب گیا جب تم جیسے دلال صحافت کی آڑ میں جسم فروشی کے یہ دھندے چلاتے تھے .