کبھی داعش میں کسی ٹی ٹی پی لیڈر کی شمولیت؛
کبھی داعش کا ایک لیڈر مارے جانے کی خبرکبھی دوسرے کی، اور کبھی اس کی تردید؛
کبھی داعش پر ڈروں حملہ ہو جانا؛
کبھی داعش کا کسی ضلع پر قبضہ کر لینا؛
کبھی طالبان اور داعش کےآپس میں جھگڑوں کی سمیت دیگر جھوٹی سچی خبریں؛
یہ اور اس جیسی تمام "فری مارکٹینگ" کا ایک مقصد ہے کہ کسی طرح داعش کی افغانستان موجوگی کو ثابت کرنا اور اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرنا۔
جو لوگ یہ خواب دیکھ رہے ہیں اور اس بات پر خوش ہو رہے ہیں کہ داعش افغانستان میں آئے گی، اور پھر ان کی طالبان سے جنگ ہو گی اور اس طرح انہیں کمزور کر کے کفریہ استعماری طاقتیں اپنے مضموم مقاصد میں کامیاب ہو سکیں گی، وہ یقینا احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، اور زمینی حقائق سے نابلد ہیں۔ اب جب کہ طالبان سرکاری طور پر داعش کو خط لکھ چکے ہیں، تو اس کے بعد وہاں سے آنے والا جواب منفی ہو گا یا مثبت، دونوں صورتوں میں مجاہدیں کو داعش کارڈ کے ذریعے کمزور کرنے کی خواہش پوری نہیں ہو گی(انشاء اللہ)۔
اگر جواب مثبت ہوا، اور داعش یہ اعلان کرتی ہے کہ اس کا افغانستان میں ایک نئی جماعت بنانے کا اور پہلے سے موجود مجاہدیں کے مدمقابل آنے کا کوئی ارادہ نہیں،اور وہ افغانستان میں مجاہدیں کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں، تب تو ویسے ہی یہ اس داعش پروپیگنڈے کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔
لیکن (خدانخواستہ) اگر بالفرض جواب مثبت نہ ہوا، اور داعش نے واقعی افغانستان میں نقب لگانے کی کوشش کی تو اسے سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل دیا جائے گا۔ اس میں سوچنے والی بات یہ ہے کہ افغانستان کا کوئی بارڈر شام یا عراق کے ساتھ نہیں لگتا، لہذا باہر سے کمک ملنے کے کوئی امکانات نہیں۔ اور اگر افغانستان میں پہلے سے موجود لوگوں نے داعش کا نام لے کر لڑنا ہے تو اگر ان میں اتنی طاقت ہوتی کہ وہ طالبان سے لڑ سکتے تو انہوں نے داعش کی آمد کا انتظار نہیں کرنا تھا، بلکہ وہ یہ کام بہت پہلے کر چکے ہوتے۔
ایسی نا خوش گوارصورتحال میں یقینا مجاہدین کو پہلے سے ذیادہ اضافی کوشش کرنی ہو گی، اور ہو سکتا ہے کہ کچھ جانی مالی نقصان بھی ہو، مگر وہ ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے جس کی یار لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں اور اس کے لئے طرح طرح کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہاں البتہ اگر ایسی کوئی جنگ ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے داعش کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ کیونکہ افغان مجاہدین ساری دنیا کےجہادی حلقوں میں معزز اور مکرم نام ہے اور انہیں استاد کا درجہ حاص ہے۔ مجاہد تحریکوں کے بڑے بڑے نامی گرامی لیڈر افغانستان کی رزمگاہوں سے تربیت پا کر نکلیں ہیں ۔ اور اگر داعش طالبان کے خلاف جنگ کرتی ہےتو اس سےساری دنیا میں اس کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔
پس تحریر؛۔
یکے بعد دیگرےہونے والے حالیہ ڈرون حملے جن میں سابقہ ٹی ٹی پی عہدیداروں کی ہلاکت کی خبریں آ رہی ہیں ،بہت معنی خیز ہیں۔ خاص کر ان کی ٹائمنگ۔ ایک طرف افغان طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے اور یہ مشہور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ طالبان پاکستان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، اور اپنے مقصد سے ہٹ گئے ہیں، جبکہ دوسری طرف ڈرون حملے کر کے یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اب افغانستان میں بھی امریکا داعش کو اپنے اصل دشمن کے طور پر دیکھتا ہے،اور جس کے خلاف وہ ڈرون حملے کر رہا ہے(جبکہ طالبان سے تو مذاکرات کیئے جا رہے ہیں)۔ یعنی یہ بھی اسی داعش کارڈ کے سلسلے کی کوئی کوشش لگتی ہے۔
خدا سے دعا ہے کہ وہ اپنی راہ میں لڑنے والے تمام مجاہدین کو ساری دنیا میں کامیابی و کامرانی نصیب کرے اور انہیں دشمنوں کی چالوں اور چالاکیوں سے محفوظ رکھے۔
کبھی داعش کا ایک لیڈر مارے جانے کی خبرکبھی دوسرے کی، اور کبھی اس کی تردید؛
کبھی داعش پر ڈروں حملہ ہو جانا؛
کبھی داعش کا کسی ضلع پر قبضہ کر لینا؛
کبھی طالبان اور داعش کےآپس میں جھگڑوں کی سمیت دیگر جھوٹی سچی خبریں؛
یہ اور اس جیسی تمام "فری مارکٹینگ" کا ایک مقصد ہے کہ کسی طرح داعش کی افغانستان موجوگی کو ثابت کرنا اور اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرنا۔
جو لوگ یہ خواب دیکھ رہے ہیں اور اس بات پر خوش ہو رہے ہیں کہ داعش افغانستان میں آئے گی، اور پھر ان کی طالبان سے جنگ ہو گی اور اس طرح انہیں کمزور کر کے کفریہ استعماری طاقتیں اپنے مضموم مقاصد میں کامیاب ہو سکیں گی، وہ یقینا احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، اور زمینی حقائق سے نابلد ہیں۔ اب جب کہ طالبان سرکاری طور پر داعش کو خط لکھ چکے ہیں، تو اس کے بعد وہاں سے آنے والا جواب منفی ہو گا یا مثبت، دونوں صورتوں میں مجاہدیں کو داعش کارڈ کے ذریعے کمزور کرنے کی خواہش پوری نہیں ہو گی(انشاء اللہ)۔
اگر جواب مثبت ہوا، اور داعش یہ اعلان کرتی ہے کہ اس کا افغانستان میں ایک نئی جماعت بنانے کا اور پہلے سے موجود مجاہدیں کے مدمقابل آنے کا کوئی ارادہ نہیں،اور وہ افغانستان میں مجاہدیں کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں، تب تو ویسے ہی یہ اس داعش پروپیگنڈے کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔
لیکن (خدانخواستہ) اگر بالفرض جواب مثبت نہ ہوا، اور داعش نے واقعی افغانستان میں نقب لگانے کی کوشش کی تو اسے سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل دیا جائے گا۔ اس میں سوچنے والی بات یہ ہے کہ افغانستان کا کوئی بارڈر شام یا عراق کے ساتھ نہیں لگتا، لہذا باہر سے کمک ملنے کے کوئی امکانات نہیں۔ اور اگر افغانستان میں پہلے سے موجود لوگوں نے داعش کا نام لے کر لڑنا ہے تو اگر ان میں اتنی طاقت ہوتی کہ وہ طالبان سے لڑ سکتے تو انہوں نے داعش کی آمد کا انتظار نہیں کرنا تھا، بلکہ وہ یہ کام بہت پہلے کر چکے ہوتے۔
ایسی نا خوش گوارصورتحال میں یقینا مجاہدین کو پہلے سے ذیادہ اضافی کوشش کرنی ہو گی، اور ہو سکتا ہے کہ کچھ جانی مالی نقصان بھی ہو، مگر وہ ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے جس کی یار لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں اور اس کے لئے طرح طرح کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہاں البتہ اگر ایسی کوئی جنگ ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے داعش کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ کیونکہ افغان مجاہدین ساری دنیا کےجہادی حلقوں میں معزز اور مکرم نام ہے اور انہیں استاد کا درجہ حاص ہے۔ مجاہد تحریکوں کے بڑے بڑے نامی گرامی لیڈر افغانستان کی رزمگاہوں سے تربیت پا کر نکلیں ہیں ۔ اور اگر داعش طالبان کے خلاف جنگ کرتی ہےتو اس سےساری دنیا میں اس کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔
پس تحریر؛۔
یکے بعد دیگرےہونے والے حالیہ ڈرون حملے جن میں سابقہ ٹی ٹی پی عہدیداروں کی ہلاکت کی خبریں آ رہی ہیں ،بہت معنی خیز ہیں۔ خاص کر ان کی ٹائمنگ۔ ایک طرف افغان طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے اور یہ مشہور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ طالبان پاکستان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، اور اپنے مقصد سے ہٹ گئے ہیں، جبکہ دوسری طرف ڈرون حملے کر کے یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اب افغانستان میں بھی امریکا داعش کو اپنے اصل دشمن کے طور پر دیکھتا ہے،اور جس کے خلاف وہ ڈرون حملے کر رہا ہے(جبکہ طالبان سے تو مذاکرات کیئے جا رہے ہیں)۔ یعنی یہ بھی اسی داعش کارڈ کے سلسلے کی کوئی کوشش لگتی ہے۔
خدا سے دعا ہے کہ وہ اپنی راہ میں لڑنے والے تمام مجاہدین کو ساری دنیا میں کامیابی و کامرانی نصیب کرے اور انہیں دشمنوں کی چالوں اور چالاکیوں سے محفوظ رکھے۔