eye-eye-PTI
Chief Minister (5k+ posts)
پاکستان میں نظام کی بہتری کا خواب اور امنگ لئے اپنی پاکستان کے اندر تمام تر پیشہ وارانہ زندگی اور اس سے قبل گورڈن کالج راولپنڈی میں زمانہ طالبعلمی پوری شد و مد سے گزرا۔ زمانہ طالب علمی میں debates اور تقریری مقابلوں میں مافی الضمیر اس شدت سے بیان کیا کرتے تھے کہ بعض اوقات اساتذہ روک ٹوک بھی کرتے مگر گورڈن کالج کا اپنا ہی کلچر تھا۔ آزادئ اظہار رائے پر قدغن خلاف دستور سمجھی جاتی تھی۔
پھر درس و تدریس کے دوران اسی پیغام کو ذرا بدل کر پھیلانا جاری رکھا۔ شاگردوں میں دیانتداری، حب الوطنی اور رجائیت پسندی (optimism) کو پروان چڑھایا اور ساتھ ساتھ نظام کی بہتری کی امنگ بھی پیدا کرنے کی کوشش پورے شعوری احساس سے کرتے رہے۔
پھر 2000 کی پہلی دہائی میں عمران خان کے خیالات کو سنتے گئے اور ان کی شاگردی ایسے اختیار کر لی کہ گویا وہ نظام کی بہتری کیلئیے ہماری نسبت بہت زیادہ موثر، پر زور اور مدلل مقدمہ پیش کرتے ہیں۔ یقینا" ان کا audience وسیع تر تھا۔
پھر 2000 کی پہلی دہائی میں عمران خان کے خیالات کو سنتے گئے اور ان کی شاگردی ایسے اختیار کر لی کہ گویا وہ نظام کی بہتری کیلئیے ہماری نسبت بہت زیادہ موثر، پر زور اور مدلل مقدمہ پیش کرتے ہیں۔ یقینا" ان کا audience وسیع تر تھا۔
ہمارے من ہی من میں وہی رجائیت پذیر رجحانات شدید تر تیز ہوتے گئے گویا کسی حق کے متلاشی کو مرشد مل گیا ہو اور قوی امید بندھ گئ کہ اب ان شااللہ ہمارے ملک کا نظام بدلے گا۔
مگر گذشتہ برس مارچ کے مہینے سے جو باجوائی ہوا چلی تو پاکستان کے مستقبل بارے ہماری رجائیت پسندی کو شدید ٹھیس پہنچی. لیکن جب عوام نے عمران خان کے "حقیقی آزادی" کے پیغام کو اپنا لیا تو ہمارا حوصلہ پھر سے تازہ دم اور جوان ہو گیا۔ پھر ظلم و ستم کی کالی رات چھائی اور ایسی چھائی کہ 15 ماہ کے عرصہ میں وہ وہ اندوہناک واقعات رونما ہوئے کہ دل رنجیدہ ہو گیا مگر عمران خان کے جوش و جذبے ، ہمت و حوصلے اور اللہ تعالی پر ایمان کامل سے بھرپور مستقل مزاجی کو دیکھ کر ہمارا حوصلہ ماند پڑتے پڑتے پھر سے جوان ہوتا گیا۔۔
مگر
9 مئ کی خاکی و مافیائی سازش اور اس کے بعد سے آج تک کے واقعات کو دیکھ اور سن کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ آج کا دن بہت بھاری گزرا۔
ایک ہی سوچ کھائے جا رہی ہے کہ کبھی اپنے پرانے شاگردوں سے ملاقات ہوئی تو ان کو کیا منہ دکھائیں گے ۔۔۔ ؟
مگر گذشتہ برس مارچ کے مہینے سے جو باجوائی ہوا چلی تو پاکستان کے مستقبل بارے ہماری رجائیت پسندی کو شدید ٹھیس پہنچی. لیکن جب عوام نے عمران خان کے "حقیقی آزادی" کے پیغام کو اپنا لیا تو ہمارا حوصلہ پھر سے تازہ دم اور جوان ہو گیا۔ پھر ظلم و ستم کی کالی رات چھائی اور ایسی چھائی کہ 15 ماہ کے عرصہ میں وہ وہ اندوہناک واقعات رونما ہوئے کہ دل رنجیدہ ہو گیا مگر عمران خان کے جوش و جذبے ، ہمت و حوصلے اور اللہ تعالی پر ایمان کامل سے بھرپور مستقل مزاجی کو دیکھ کر ہمارا حوصلہ ماند پڑتے پڑتے پھر سے جوان ہوتا گیا۔۔
مگر
9 مئ کی خاکی و مافیائی سازش اور اس کے بعد سے آج تک کے واقعات کو دیکھ اور سن کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ آج کا دن بہت بھاری گزرا۔
ایک ہی سوچ کھائے جا رہی ہے کہ کبھی اپنے پرانے شاگردوں سے ملاقات ہوئی تو ان کو کیا منہ دکھائیں گے ۔۔۔ ؟
اپنے بچوں کو کیا جواب دینگے جن کے اندر ہاکستان اور وطن کے مستقبل کے متعلق ہمیشہ ہی مثبت سوچ اور امید پیدا کئے رکھی ۔۔۔ ؟
ہم نے تو انہیں بہت سہانے خواب دکھائے تھے ۔۔۔۔۔
ہم نے تو انہیں بہت سہانے خواب دکھائے تھے ۔۔۔۔۔



پروفیسر شہزاد احمد