خان کو بھی ایک ’’شہباز‘‘ چاہئے :انصار عباسی

battery low

Chief Minister (5k+ posts)

61d1189e9884c.jpg

خان کو بھی ایک ’’شہباز‘‘ چاہئے


یوٹیوب پر بیٹھے بعض’’نام نہاد حمایتیوں‘‘نے عمران خان کا نام لے لے کر اپنا بینک بیلنس بڑھایا۔ جھوٹ، افواہیں، سنسنی خیزی اور غیر ذمہ دارانہ تبصرے اُن کا ہتھیار بنے۔ ان یوٹیوبرز کا نہ کوئی سیاسی وژن ہے، نہ کوئی اخلاقی معیار، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ان کی باتوں کو پارٹی پالیسی کا درجہ دے دیا گیا۔ عمران خان کی مقبولیت کو استعمال کر کے ان عناصر نے ایسا ماحول پیدا کیا جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تناؤ کو اور بڑھاتا گیا۔

اسی طرح پی ٹی آئی کے اندر بھی کئی رہنما ایسے ہیں جنہوں نے عمران خان کو صحیح اور غلط کا مشورہ دینے کی بجائے اُن کی ہاں میں ہاں ہی ملائی تاکہ اُن کا اپنا سیاسی مفاد محفوظ رہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو عمران خان کو اصل، بروقت اور دیانت دارانہ مشورہ دینے سے ہمیشہ گریز کرتے رہے۔ آج پی ٹی آئی جس بند گلی میں کھڑی ہے، وہاں سے نکلنے کیلئے محض نعرے، سوشل میڈیا مہم اور مزاحمتی بیانات کافی نہیں۔ عمران خان کو اگر واقعی اپنا اور اپنی جماعت کا سیاسی مستقبل عزیز ہے تو انہیں اعتماد کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا۔ انہیں پرویز الٰہی، شاہ محمود قریشی جیسے تجربہ کار سیاستدانوں کو عملی طور پر اختیار دینا ہوگا۔ وہ اختیار جو انہیںفیصلے کرنے اور اُن پر عمل کروانے کے قابل بنائے۔

اسی طرح بیرسٹر گوہر علی خان پر بھی بھروسہ کرنا ہو گا جن کو پارٹی کا چیئرمین تو بنا دیا گیا لیکن اختیارات نہیں دیے گئے۔ بیرسٹر گوہر تحریک انصاف کے اُن چند لوگوں میں شامل ہیں جن کا حکومت اور ریاستی اداروں کے اندر بھی ایک احترام موجود ہے اور جو مہذب زبان میں معاملات سلجھانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اگر عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ صرف اور صرف وہی اسٹیبلشمنٹ سے بات کر سکتے ہیں، حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، اور نہ ہی پارٹی کی کور کمیٹی یا سیاسی کمیٹی کسی فیصلے کی مجاز ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مسائل کیسے حل کرے گی؟

سیاست میں مشاورت اور ٹیم ورک بنیادی اصول ہوتے ہیں۔ اگر ہر فیصلہ صرف ایک شخص کے دماغ سے نکلے، اور وہی حرفِ آخر ہو، تو یہ خود پسندی ہے، قیادت نہیں۔ عمران خان کو آج ایک ایسا ساتھی چاہیے جو سیاست کو صرف جلسوں اور نعروں سے نہیں، بلکہ تدبر اور سمجھداری سے آگے بڑھائے۔ انہیں اپنی پارٹی میں ایک’’شہباز شریف‘‘جیسا کردار چاہیے جو اُن کیلئے اُسی طرح اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر کر سکے جیسے میاں شہباز شریف نے میاں نواز شریف اور ن لیگ کیلئے کیے۔

کسی پر اعتماد کرنا ہو گا جو اُن کیلئے اور پارٹی کیلئےمعاملات کو سلجھا سکے اور اقتدار کے راستے میں رکاوٹوں کو کم کرے۔ارد گرد موجود خوشامدی عناصر اور ذاتی مفاد رکھنے والے افراد سے نجات حاصل کریں، جو ہر وقت اور اُن کے ہر فیصلے اور ہر بات چاہیے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو اُس پر صرف تالیاں بجانے میں مصروف رہتے ہیں۔

اب بھی اگر عمران خان اپنے اندازِ قیادت میں تبدیلی لاتے ہیں، سنجیدہ اور بااعتماد افراد کو آگے لاتے ہیں، اور پارٹی کو ایک ادارہ جاتی ڈھانچے کے تحت چلاتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنی سیاست بچا سکتے ہیں بلکہ ملک کے سیاسی مستقبل میں مثبت کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔ ورنہ پیسے بنانے والے اُن کے نام نہاد حمایتی یوٹیوبر، پارٹی سوشل میڈیا اور مفاد پرست سیاسی ساتھی اُنہیں اُس راہ پر لے جائیں گے جہاں صرف تنہائی، محرومی اور ناکامی کا سایہ ہو گا۔


Source
عمران خان کو اُس کی سیاسی قیادت نے ایک ایسی غیر یقینی حالت میں چھوڑ دیا ہے، جو نہ اُس کے لیے لڑتی ہے، نہ ہی اُس کے لیے استعفیٰ دیتی ہے۔ وہ صرف تماشائی بن کر انتظار کر سکتے ہیں، جب کہ وہ خود لڑ رہا ہے، یا لڑتے لڑتے مر جائے گا۔

https://twitter.com/x/status/1937879684211249493
کوئ کسی کو مائنس نہیں کر سکتا لیکن کوئ خود مائنس ھونا چاھے تو کوئ روک بھی نہیں سکتا -
https://twitter.com/x/status/1937974701608804819
علی امین آج دہی لینے کیلئے پیزا شاپ پر چلے گئے۔ جا کے انہوں نے دو کلو دہی مانگی، انہوں نے کہا پائن تسی غلط جگہ آگئے او، وہ جان بوجھ کے ایسی رنگ بازیاں کر رہے ہیں۔ رہی بات عمران خان کے مائنس ہونے کی تو انہیں مائنس کرنے کی خواہش رکھنے والے، کیا نواز شریف، جہانگیر ترین، راجہ ریاض، پرویز خٹک بھلا کہیں Matter کرتے ہیں؟

https://twitter.com/x/status/1937913117469774228
 
Last edited by a moderator:

Gujjar1

Minister (2k+ posts)
lanat teri shakal pay,
is khanzeer ki moo pay darhi nahi baal uggey hue hein..ye khanzeer keh raha hai k yazeed ki bait ker lo.
 

Tahir M

Councller (250+ posts)

61d1189e9884c.jpg

خان کو بھی ایک ’’شہباز‘‘ چاہئے


یوٹیوب پر بیٹھے بعض’’نام نہاد حمایتیوں‘‘نے عمران خان کا نام لے لے کر اپنا بینک بیلنس بڑھایا۔ جھوٹ، افواہیں، سنسنی خیزی اور غیر ذمہ دارانہ تبصرے اُن کا ہتھیار بنے۔ ان یوٹیوبرز کا نہ کوئی سیاسی وژن ہے، نہ کوئی اخلاقی معیار، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ان کی باتوں کو پارٹی پالیسی کا درجہ دے دیا گیا۔ عمران خان کی مقبولیت کو استعمال کر کے ان عناصر نے ایسا ماحول پیدا کیا جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تناؤ کو اور بڑھاتا گیا۔

اسی طرح پی ٹی آئی کے اندر بھی کئی رہنما ایسے ہیں جنہوں نے عمران خان کو صحیح اور غلط کا مشورہ دینے کی بجائے اُن کی ہاں میں ہاں ہی ملائی تاکہ اُن کا اپنا سیاسی مفاد محفوظ رہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو عمران خان کو اصل، بروقت اور دیانت دارانہ مشورہ دینے سے ہمیشہ گریز کرتے رہے۔ آج پی ٹی آئی جس بند گلی میں کھڑی ہے، وہاں سے نکلنے کیلئے محض نعرے، سوشل میڈیا مہم اور مزاحمتی بیانات کافی نہیں۔ عمران خان کو اگر واقعی اپنا اور اپنی جماعت کا سیاسی مستقبل عزیز ہے تو انہیں اعتماد کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا۔ انہیں پرویز الٰہی، شاہ محمود قریشی جیسے تجربہ کار سیاستدانوں کو عملی طور پر اختیار دینا ہوگا۔ وہ اختیار جو انہیںفیصلے کرنے اور اُن پر عمل کروانے کے قابل بنائے۔

اسی طرح بیرسٹر گوہر علی خان پر بھی بھروسہ کرنا ہو گا جن کو پارٹی کا چیئرمین تو بنا دیا گیا لیکن اختیارات نہیں دیے گئے۔ بیرسٹر گوہر تحریک انصاف کے اُن چند لوگوں میں شامل ہیں جن کا حکومت اور ریاستی اداروں کے اندر بھی ایک احترام موجود ہے اور جو مہذب زبان میں معاملات سلجھانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اگر عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ صرف اور صرف وہی اسٹیبلشمنٹ سے بات کر سکتے ہیں، حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، اور نہ ہی پارٹی کی کور کمیٹی یا سیاسی کمیٹی کسی فیصلے کی مجاز ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مسائل کیسے حل کرے گی؟

سیاست میں مشاورت اور ٹیم ورک بنیادی اصول ہوتے ہیں۔ اگر ہر فیصلہ صرف ایک شخص کے دماغ سے نکلے، اور وہی حرفِ آخر ہو، تو یہ خود پسندی ہے، قیادت نہیں۔ عمران خان کو آج ایک ایسا ساتھی چاہیے جو سیاست کو صرف جلسوں اور نعروں سے نہیں، بلکہ تدبر اور سمجھداری سے آگے بڑھائے۔ انہیں اپنی پارٹی میں ایک’’شہباز شریف‘‘جیسا کردار چاہیے جو اُن کیلئے اُسی طرح اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر کر سکے جیسے میاں شہباز شریف نے میاں نواز شریف اور ن لیگ کیلئے کیے۔

کسی پر اعتماد کرنا ہو گا جو اُن کیلئے اور پارٹی کیلئےمعاملات کو سلجھا سکے اور اقتدار کے راستے میں رکاوٹوں کو کم کرے۔ارد گرد موجود خوشامدی عناصر اور ذاتی مفاد رکھنے والے افراد سے نجات حاصل کریں، جو ہر وقت اور اُن کے ہر فیصلے اور ہر بات چاہیے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو اُس پر صرف تالیاں بجانے میں مصروف رہتے ہیں۔

اب بھی اگر عمران خان اپنے اندازِ قیادت میں تبدیلی لاتے ہیں، سنجیدہ اور بااعتماد افراد کو آگے لاتے ہیں، اور پارٹی کو ایک ادارہ جاتی ڈھانچے کے تحت چلاتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنی سیاست بچا سکتے ہیں بلکہ ملک کے سیاسی مستقبل میں مثبت کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔ ورنہ پیسے بنانے والے اُن کے نام نہاد حمایتی یوٹیوبر، پارٹی سوشل میڈیا اور مفاد پرست سیاسی ساتھی اُنہیں اُس راہ پر لے جائیں گے جہاں صرف تنہائی، محرومی اور ناکامی کا سایہ ہو گا۔


Source
عمران خان کو اُس کی سیاسی قیادت نے ایک ایسی غیر یقینی حالت میں چھوڑ دیا ہے، جو نہ اُس کے لیے لڑتی ہے، نہ ہی اُس کے لیے استعفیٰ دیتی ہے۔ وہ صرف تماشائی بن کر انتظار کر سکتے ہیں، جب کہ وہ خود لڑ رہا ہے، یا لڑتے لڑتے مر جائے گا۔

https://twitter.com/x/status/1937879684211249493
کوئ کسی کو مائنس نہیں کر سکتا لیکن کوئ خود مائنس ھونا چاھے تو کوئ روک بھی نہیں سکتا -
https://twitter.com/x/status/1937974701608804819
https://twitter.com/x/status/1937974701608804819
Khan ko tum jaisey beghairto ka Pakistan nahi chahiey, koi aisa mulk chahiey jis mein koi qanoon ho, jahaan koi insaaf ho.
Pakistan mein kia hay??? na koi qanoon, na insaaf, Pakistan kay jo halaat hain ye kabhi qaim nahi rahey ga, jis mulk mein insaaf na ho wo qaim nahi rehta.
 

yaar 20

Senator (1k+ posts)
حرام زادے، منافق اعظم، تجھے پہچاننے میں ہم نے کافی دیر لگائی ۔۔۔مشرف دور میں تو کیسے فرشتہ بنا پھرتا تھا اصل میں تو تو شیطان کو بھی مات دے گیا
 

Back
Top