حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر عدالت میں جواب جمع کروا دیا

3paprpcppdfusljawa.png

وفاقی حکومت اور پاکستان مسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیس میں فل کورٹ کے سوالات کے جوابات جمع کروا دیے,وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے جوابات میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابق چیف جسٹس نے قانون معطل کرکے بینچز بنا کر فیصلے دیے، آٹھ رکنی بینچ کی جانب سے قانون معطل کرنا غیر آئینی تھا۔

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیس میں اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کروائے گئے, وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا عام قانون سازی سے آرٹیکل 184 تین میں اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے، آرٹیکل 184 تین میں متاثرہ فریق کے پاس نظرثانی کے سوا اپیل کا حق نہیں، توہین عدالت کا آرٹیکل 204 اپیل کا حق فراہم نہیں کرتا، پارلیمنٹ نے قانون سازی کر کے توہین عدالت کیسز میں اپیل کا حق فراہم کیا۔


وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے، قانون سے عدالتی معاملات میں شفافیت اور بینچز کی تشکیل میں بہتری آئے گی، چیف جسٹس کے لامتناہی صوابدیدی اختیار سے نظام تباہ ہوتاہے، چیف جسٹس ’ماسٹر آف روسٹر‘ ہوگا یہ کوئی طے شدہ قانون نہیں، ماسٹر آف روسٹر کی اصطلاح انڈین عدلیہ سے لی گئی ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ اس قانون کے تحت لارجر بینچ آرٹیکل 184 تین کے مقدمات سنے گا، مفروضے کی بنیاد پر قانون کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، مستقبل کے کسی قانون سے عدلیہ کے قانون پر قدغن آئے تو عدالت جائزہ لے سکتی ہے، قانون اس بنیاد پر کالعدم نہیں ہوسکتا کہ فل کورٹ کے فیصلے پر اپیل کا حق نہیں ملے گا، فل کورٹ غیرمعمولی مقدمات میں تشکیل دیا جاتا ہے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے، پارلیمنٹ قانون سازی سےعدالتی فیصلوں کا اثر ختم کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی جواب جمع کروا دیا گیا,مسلم لیگ ن نےسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا ایکٹ بننے سے پہلے اس پر عمل درآمد روکنا اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ق) نے گزشتہ روز عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا مقصد عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور انصاف اور منصفانہ ٹرائل کے لیے عدالت سے رجوع کے حق کو فروغ دینا ہے۔

مسلم لیگ (ق) نے اپنے وکیل زاہد ایف ابراہیم کے توسط سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا کہ سپریم کورٹ کے قواعد یہ کہتے ہیں کہ مقننہ خاص طور پر بینچوں کی تشکیل کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے عمل اور طریقہ کار کا تعین کر سکتی ہے، پارلیمنٹ کو اس سے متعلق قانون سازی کرنے کا حق ہے اور اس نے قانون اور آئین کے مطابق ہی ایسا کیا ہے۔

گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے 25 ستمبر تک فریقین سے جواب طلب کیا تھا جبکہ عدالت 3 اکتوبر کو اس معاملے کی دوبارہ سماعت کرے گی۔
 
Sponsored Link