
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات نے اہم مالی تجاویز کی منظوری اور کچھ کو مسترد کرتے ہوئے رواں مالی سال کے بجٹ پر اہم ترامیم کی سفارشات پیش کی ہیں۔ کمیٹی نے یومیہ نقد رقم نکالنے کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر 75 ہزار روپے کرنے کی منظوری دے دی، جبکہ آن لائن خریداریوں پر اضافی 2 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، اجلاس کی صدارت رکن قومی اسمبلی نوید قمر نے کی۔ کمیٹی نے نقد نکالنے پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد سے بڑھا کر 0.8 فیصد کرنے کی منظوری دی، تاہم بینک قرضوں پر حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز مسترد کر دی گئی۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ٹیکس میں اضافہ منظور
قائمہ کمیٹی نے گوگل، یوٹیوب سمیت دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی سروسز پر عائد ٹیکس کو 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی حکومتی تجویز کی منظوری دی، جبکہ تجارتی جائیدادوں کے کرایہ پر 4 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پر مزید غور کو مؤخر کر دیا گیا۔
چھوٹے تاجروں کیلئے متنازع تجویز مسترد
کمیٹی نے ایک متنازع تجویز بھی مسترد کر دی جس کے تحت 2 لاکھ روپے سے زائد کی ہر خرید و فروخت کو لازمی طور پر بینکنگ چینلز سے گزارنے کی شرط عائد کی جانی تھی۔ ناقدین کے مطابق یہ اقدام چھوٹے تاجروں کے لیے غیر عملی اور نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا۔
اسی دوران، ایک اور ترمیم منظور کی گئی جس کے تحت کرائے کی آمدن کو کاروباری نقصانات کے خلاف ایڈجسٹ کرنے کی اجازت ختم کر دی گئی۔
فاٹا و پاٹا کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر شدید مخالفت
سابق فاٹا اور پاٹا کے علاقوں کو دی گئی ٹیکس چھوٹ کے مرحلہ وار خاتمے کی تجویز کو بھی کمیٹی نے سختی سے مسترد کر دیا۔ نوید قمر نے اسے ان علاقوں کے چھوٹے کاروباروں کے لیے "معاشی قتل" قرار دیا اور ایف بی آر سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فیصلے پر نظرثانی کرے۔ انہوں نے کم ترقی یافتہ علاقوں میں روزگار اور کاروباری بحالی کے لیے ریلیف پیکج ترتیب دینے پر زور دیا۔
کم آمدنی والوں پر ٹیکس بوجھ بڑھانے پر سوالات
اجلاس کا ایک اہم حصہ کم آمدنی والے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ سے متعلق تجاویز پر بحث میں گزرا۔ فنانس بل 2025 میں وفاقی حکومت نے سالانہ آمدن 6 لاکھ ایک سے 12 لاکھ روپے کے درمیان رکھنے والوں کے لیے ٹیکس شرح کم کر کے 1 فیصد ظاہر کی، جبکہ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں ڈھائی فیصد کا اعلان کیا تھا، تاہم ایف بی آر چیئرمین راشد محمود لنگڑیال نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ کابینہ نے اس رعایت کو واپس لے لیا ہے۔
نئے وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جو ابتدائی تجویز کردہ 6 فیصد سے زائد ہے۔ تاہم اراکین کمیٹی نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ نجی شعبے کے ملازمین اس اضافے سے محروم ہیں، مگر ٹیکس ان پر بھی لاگو ہو گا۔
نوید قمر نے واضح کیا کہ کم آمدنی والے ملازمین پر بوجھ ڈالنے کا کوئی جواز نہیں، اور کابینہ کے اس فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔