اسی ویب سائٹ پرآج جناب خیر اندیش صاحب کی ایک تحریر پڑھی
"غیرت کے نام پر قتل اور آسکر ایوارڈ"
خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے المناک سلوک اور انکے بے رحمنانہ
قتل پر ایسی ظالمانہ تحریر دل کو جیسے چیر کے رکھ گئی- کچھ سمجھ نہیں
آرہا کہ سماج ہے یا جنگل- انسان ہیں کہ بھیڑیے- اور پھر' بولوں کہ چپ رہوں
حیران ہوں روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
نہ اسلام سے کوئی دلیل لی اور نہ ہی انصاف کے تقاضوں کو سمجھا اور برتا
لگتا ہےان کے سر پر ہمیشہ لڑکیوں کا بھوت ہی سوار رہتا ہے اوریہ سمجھتےہیں
کہ لڑکیاں گناہوں کی کنجی ہیں اور انہیں قابو کرنے کا بس ایک طریقہ ہے کہ
انہیں "تن" کے رکھ جائے- پہلے ہی اسلام نے کیا کم کی ہے خواتین کے ساتھ- ابھی بھی
ان کا دل نہیں بھرا لیکن
خیر- میں اس موضوع پہ لب کشائی کی اجازت چاہتا ہوں- اور خیر اندیش صاحب کے سوالات
اور اعترضات پہ ہی بات کروں گا- جناب نے بات ہی یہاں سے شروع کی کہ غیرت کے نام پر
قتل تو بس اک دکا ہوتے ہیں- ان اک دکا واقعات یہ ہمارا یہ واویلا کیوں
جناب' غیرت کے نام پر قتل "اکا دکا" واقعات نہیں ہیں- یہ ظالمانہ رسم بارے پیمانے پر مسلم مملک میں
پھیلی ہوئی ہے- قتل کرنے والے کیوں کہ بھائی' باپ' یا خاوند ہوتے ہیں اس لئے ایسے کیس
کم کم رپورٹ ہوتے ہیں- اسکے باوجود قاتلوں کی تعداد کسی بھی حساس ذہن کو ہلا کر رکھ
سکتی ہے- ٢٠٠٤ سے ٢٠٠٧ تک صرف اخبارات میں اور صرف پاکستان میں جو کیس
رپورٹ ہوئے انکی تعداد ٢٠٠٠ ہے- صرف ٣ سال میں ٢٠٠٠ لوگ- بی بی سی کے مطابق
چھ سال میں ١٩٩٩ سے ٢٠٠٤ تک ٤٠٠٠ لڑکیوں کی غیرت کے نام پر زندگی چھین لی گئی
٢٠١١ میں صرف ایک سال میں ٧٢٠ کیسزپو لیس میں رپورٹ ہوئے- ٦٠٥ خواتین اور ١١٥ مرد
معتبر صحافی سہیل وڑائچ کے ایک مضمون کے مطابق پاکستان میں ہر سال دس ہزار سے
زائد لوگوں کو یہ کہہ کر قتل کر دیا جاتا ہے کہ انہوں نے ہماری ناک نیچی کی ہے- ہماری
غیرت پر حرف آیا ہے-یاد رہے کہ ان کیسوں میں مدعی خود قاتل اور قاتل کا خاندان ہی ہوتا
ہے-اس لئے زیادہ تر کیسز سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے- یہ اتنی بڑا تعداد ہے کہ
کوئی بھی اس ظلم پر چپ نہیں رہ سکتا
شاید "اسلامیوں" کے لئے اس میں طمانیت کا کوئی پہلو ہو مگر ایک عام شخص کا دل
دہل جاتا ہے
ہمیں اس بات سے کوئی سرو کار نہیں کہ اسلام اسے جائز قرار دیتا ہے یا ناجائزمگر
تعزیرات پاکستان کے تخت قتل بہرحال ایک جرم ہے- جسکی سزا بہرصورت ملنی چاہیے
مگر ہوا کیا کہ قاتل بھائی' باپ' یا خاوند میں سے کوئی ایک ہوتا ہے- اور "اسلامی" قا نوں
کے تخت ورثا قاتل کو معاف کر سکتے ہیں- اب ہوتا یوں کہ بھائی قتل کرتا تو باپ معاف
کر دیتا- باپ کرتا تو ماں اور بھائی معاف کر دیتے اور اگر خاوند کرتا تو بچے یا
بچوں کی خاطر خاندان کے دوسرے لوگ "معاف" کر دیتے- اگر خاوند کسی اور سے
کرواتا تو اسکی خود معاف کر دیتا اپنی مرحومہ بیوی کا وارث ہونے کے ناتے
اسلام کے دیت کے اس قانون نے قتل کو ایک کھیل اور قاتل کو ایک ہیرو بنا دیا
انصاف ایک مزاق بن کہ رہ گئی- قاتل کو سزا دینا کسی طور ممکن نہ رہا
کوئی ورثا اس معاملے میں قصاص طلب نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کیس کی پیروی
کرتے- ایک طرف مولبی تلوار سونت کے کھڑا تھا کہ خبردار اسلامی قانوں کو کوئی
ہاتھ لگایا اور دوسری طرف ضمیر اور قانون کو اس پہ شدید بے اطمینانی تھی- ،مگر
جیسا کہ پاکستان کا دستور ہے کہ جبر' ڈنڈا' اورمولبی ہمیشہ جیت جاتا ہے تو بیشمار
عرصہ گزر چکنے کے بعد اور حوا کی ہزارہا بیٹیوں کی قربانیوں کے با وجود
حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی- خون بہتا رہا' مولبی حلوہ کھاتا رہا' اور ارباب اختیار
اقتدار کے مزے لوٹتے رہے- اجتمائی انسانی ضمیر اس دوران چیختا رہا پر کوئی کآن
دھرنے کو تیار نہیں تھا- افتخار چودھری نے اپنے دور میں کچھ سو موٹو لئے اور ان
سے کچھ خوف پیدا ہوا- خیر انسانی حقوق کے لئے کھڑے ہونے والے لوگوں اور
صاحب درد لوگوں کے لئے یہ ایک بڑی تکلیف دہ صورت حال تھی اور ہے- اسی تناظر
میں کم از کم ان کیسوں میں ورثا کے معاف کرنے کا حق ختم کرنے کا مطلبہ نہ صرف
پاکستان میں لڑکیوں کہ تخفظ اور زندگی کی لئے ضروری ہے بلکہ خود ریاست کے وقار
کا سوال بھی ہے- ایسی ریاست اور ایسا کریمنل جسٹس سسٹم کس کام کا جو ایک کمزور
صنف اور ایک عام لڑکی کو مر چکنے کے بعد بھی انصاف نہ دے سکے
جناب نے اعترض کیا کہ قتل ایک "ڈیٹرنس" کے طور پر استمعال ہوتا ہے
بنیادی طور پر حضرت یہ فرما رہے ہیں کہ "خوف" کو ہتھیار کے طور پر استمعال
کرنا ٹھیک ہے- یعنی اس کیس میں قتل ہو جانے کا خوف خواتین کو "گناہوں" سے باز
رکھے گا- اب اس پہ میں کیا کہوں- دل افسوس اور غصے سے بھر گیا ہے- اتنا بے حال
میں پہلے کسی اور مضمون کو پڑھ کے نہیں ہوا
ایک اور اعتراض یہ تھا کہ ڈرونز میں جو بے گناہ مارے گئے انکو چھوڑ کر
غیرت کے نام قتل جیسے ایشوز پر بات کیوں کی جاتی ہے- یہ بھی عجیب منطق ہے
یعنی ایک بات کو دوسری کے ساتھ لنک کر کے اسکی اہمیت گھٹانا- ایک کا احتساب کرو
تو وہ کہتا ہے میری طرف بعد میں آنا پہلے فلاں کا تو کر لو- پہلے مرغی کہ پہلے انڈا
یہ بلکل اسی طرح ہے ایک شخص دوسرے کو کہتا ہے کہ تمہاری آنکھ ٹیڑھی ہے تو
جواب ملتا ہے تمہاری خالہ بھی تو گھر سے بھاگ گئی تھی- ڈرونز میں مارے گئے
بے گناہ جسکا ہم نے بہت چرچا کیا' مذمت کی' اور رکوانے کی کوشش کی- انکی مکمل
تعداد صرف ایک سال میں غیرت کا نام پر قتل ہو جانے والی کمزور' لاچار' اور خوف
زدہ لڑکیوں کی تعداد کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے اور پچھلے دس سال کا حساب کر لیں
تو ڈرونز میں مرنے والوں کی تعداد غیرت کی نام پر قتل کیے جانے والوں کی تعداد
کے ٥ فیصد بھی نہیں ہے- اور ڈرونز میں تو اور دنیا بھی شامل تھی- مگر غیرت کے
نام پر قتل کے قانون میں تو کوئی رکاوٹ نہیں- صرف ایک قانون بنانا ہے- یہ کس
راستے پر چل رہے ہیں آپ- یہ کیا بات کر رہے ہیں آپ
جناب کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ جہاں غیرت کے نام پر قتل کو اٹھایا جائے وہی پر
اس فعل (زنا) کو بھی برا کہا جائے-
تو بھائی آپ خدا کب سے ہو گئے کہ خود بخود ہی جان لیا کہ جو خواتین قتل ہوتی ہیں
وہ سب کی سب زا نی ہیں؟
یقینا آپ کا خدا کے ساتھ کوئی براہ راست کنکشن ہو گا مگر جہاں تک ہم خدا گزیدوں
کا تعلق ہے تو کسی بھی جرم کی سزا سے پہلے اسکا تعین ہوتا ہے- حالات و واقعات
کو دیکھا جاتا ہے- گواہوں کو پرکھا جاتا ہے- صفائی کا موقع دیا جاتا ہے اور پھر بھی
فیصلے کا آخری اختیار ایک ایسے شخص کو دیا جاتا ہے جو بلکل غیر جانب دار ہو اور
جسکی لیاقت اور قانون شہادت کی سمجھ بوجھ' شبہ سے بالاتر ہو- اس سلسلہ میں دو باتین
سامنے رکھنے کی ضرورت ہے
١. مقتولین میں اٹھارہ فیصد لڑکیاں ابھی بچیاں تھیں- یعنی اٹھارہ سال سے کم عمر کی تھیں
اور٨٠ فیصد شادی شدہ تھیں- یعنی یہ بات کہ کوئی لڑکی "خواھش" سے بے قرار ہو کر
ایسا کام کرے اور پکڑی جائے اور پھر مار دی جائے ایسا شاید بہت ہی کم کیسز میں ہے-
جسمانی لطف کا حصول یا محض زنا کی خواہش یقینا ایک شادی شدہ عورت کا مطمہ نظر
نہیں ہو سکتا- اور کیا واقعی مقتولین کا مقصد صرف اور صرف جسمانی تسکین تھی اسکا
فیصلہ بھی تو عدالت نے کرنا ہے- جہاں تک یہ کیسز جاتے ہی نہیں اور اگر جاتے ہیں تو
چالان کے فوری بعد معافی نامہ پیش کر دیا جاتا ہے- پولیس بھی تحقیقات سے بچ جا تی ہے
یہ بات از حد ضروری ہے کہ پولیس اور عدالت اس بات کی تحقیق کریں کہ آیا خاتون یا
کم سن بچی کو اسی لئے تو نہیں مار دیا گیا کہ اسکا جائیداد میں حصہ تھا- یا وہ اپنی پسند
کی شادی کرنا چاہتی تھی- یا شادی شدہ خواتین کا اپنے شوہروں کے ساتھ جھگڑا تھا
یا وہ علحدگی چاہتی تھیں- قتل کے محرک کا تعین از حد ضروری ہے- خدارا ان سب
زندگی ہار جانے والی کم سن بچیوں اور خواتین کو زنا کا مرتکب مت سمجھئیے
اس لئے بھی یہ ضروری ہے کہ معافی کا حق ان کیسوں میں سبط کیا جائے- مزید برآں
یہ ثابت بھی ہو جائے کہ زنا ہی جرم کا محرک تھا تو بھی معافی کی بجائے سزا ہی سہی
رستہ ہے
٢. قاتلوں کی غالب اکثریت قتل کرنے لئے انتہائی وحشت اور بربریت سے کام لیتی ہے
٧٩ فیصد کیسز میں گولیاں' چھریاں' کلہاڑی استمعال کی گئی یا پھر گلہ گھونٹ دیا گیا
شاید ١٠٠ لوگوں کے قاتل ایک سیریل کلرکو بھی قانون کی پناہ میں اس سے بہتر اور
باوقار موت ملتی ہے- ایسی اذیت اسکی قسمت میں بھی نہیں ہوتی جو یہ تیرہ نصیب
ہوا کی بیٹیاں سہتے سہتے دم توڑ دیتی ہیں
پے پے سوگندیاں اچ بناں پھے چاننی دے ' تاویں سادی پیر نہ سوے
کوسے کوسے سانواں دے کراں جے ٹکور مائے' ہور سا نو کھان نو پوے
I dip (the wound) in various fragrances and wrap moonlight
around it as a bandage).Still, the pain does not ease
I blow a gentle warm breathe over (the wound) to soothe the pain
O mother, the wound, instead, pounces back on me to bite
یارو' میرے پیارو' میرے دوستو ' ذرا اک پل کو ٹھہرو اور سوچو کہ کس کو مار نے
چلے ہو- کسی کے خلاف بول رہے ہو- یہاں کون لبرل رہ گیا اور کون مذہبی- کن تتلیوں
کے رنگ نوچنے چلے ہو- کن پھولوں کو مسل رہے ہو- وہ جو خوبصورت خوابوں کی
امین ہیں- وہ جو رنگ کائنات ہیں- جو انسانی زندگی کی بقا کی ضا من ہیں- جو ہیں تو
سب ہے- وہ ہو کے بھی بے زبان ہیں
مصلحت چھین گئی قوت گفتار مگر
کچھ نہ کہنا ہی میرا میری سدا ہو بیٹھا
وھشت و بربریت کی ان ساری کاروا ئیوں میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ قا تل واقعی کسی گمان
میں قتل کر رہا تھا یا وہ کوئی شقی القلب ذہنی مریض تھا جو اندیشہ ہا ئے دور دراز نیں اپنی
ہی بہن' بیتی' بیوی' یا بہو کی جان لے گیا- کیا وہ باقی معاشرے کے لئے بھی خطرہ ہے
اس مقصد کے حصول کے لئے بھی قانون میں تبدیلی از حد ضروری ہے
جناب نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ایک طرف تو لبرل لوگ پھانسی کی سزا کے خلاف ہیں
اور دوسری طرف اسی سزا کو ختم کر دینے والے قانون کو بدلنا چاہتے ہیں- اگر جناب
تھوڑا سا غور فرما لیتے تو انہیں یہ سوال اٹھانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی- پھر بھی میں
وضاحت کر دیتا ہوں- پھانسی کی سزا کے خلاف اصولی موقف مکمل طور پر حقائق اور
ریسرچ پر مبنی ہے- جس میں دو باتیں سب سے اہم ہیں- پہلی یہ کہ کسی بھی معاشرے
میں پھانسی کی سزا کا جرم میں کمی سے کوئی تعلق نہیں پایا گیا- بلکہ جرم اور تعلیم میں
گہرا تعلق پایا گیا- یہ ایک علمی تحقیق ہے جو مکمل طور پر اعدادو شمار پر مبنی ہے
دوسری بات یہ کہ قانون شہدت سے لے کر جج حضرت تک اور درمیان میں پولیس
گواہان' اور واقعاتی شہادتیں ان میں ہر کوئی مکمل طور پر صحیح' ایماندار
اور تعصب سے پاک نہیں ہوتا- انسانی غلطی یا تعصب کی کہیں نہ کہیں کوئی گنجائش
رہ جاتی ہے- اس لئے یہ منا سب نہیں سمجھا جاتا کہ انسان کی جان ہی لے لی جائے
اور اصولی طور پر بھی کسی انسان کو چاہے وہ جج ہی کیوں نہ ہو کسی دوسرے
انسان کی زندگی چھین لینے کا حق نہیں دیا جا سکتا- غیرت کے نام پر قتل کے
کیسز میں بھی یہ نہیں کہا جا رہا کہ قاتلوں کو پھانسی دی جائے- بلکہ یہ کہا جا رہا
ہے کہ ان کا ٹرائل ہونا چاہیے اور جرم کے مرتکب ثابت ہونے پر قانون کے مطابق
سزا دی جائے اور اچھا ہے وہ سزا پھانسی نہ ہو
آپ کا آخری استدلال یہ تھا کہ اگر معصوم اور کمزور لڑکیوں کے قاتلوں کو جو انکے
اپنے خاندان میں سے ہوتے ہیں سزا مل گئی تو فحاشی اور عریانی پھیل جائے گی
بھائی میں تو گنگ ہوں- آپ کی اس سوچ اور اس انداز فکر پر میں افسوس کا اظھار
ہی کر سکتا ہوں اور لڑکیوں کی طرف سے اتنا ہی کہوں گا
میں نہیں مگر کچھ بھی
سنگ دل رواجوں کے
آہنی حصاروں میں
عمر قید کی ملزم
صرف ایک لڑکی ہوں
"غیرت کے نام پر قتل اور آسکر ایوارڈ"
خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے المناک سلوک اور انکے بے رحمنانہ
قتل پر ایسی ظالمانہ تحریر دل کو جیسے چیر کے رکھ گئی- کچھ سمجھ نہیں
آرہا کہ سماج ہے یا جنگل- انسان ہیں کہ بھیڑیے- اور پھر' بولوں کہ چپ رہوں
حیران ہوں روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
نہ اسلام سے کوئی دلیل لی اور نہ ہی انصاف کے تقاضوں کو سمجھا اور برتا
لگتا ہےان کے سر پر ہمیشہ لڑکیوں کا بھوت ہی سوار رہتا ہے اوریہ سمجھتےہیں
کہ لڑکیاں گناہوں کی کنجی ہیں اور انہیں قابو کرنے کا بس ایک طریقہ ہے کہ
انہیں "تن" کے رکھ جائے- پہلے ہی اسلام نے کیا کم کی ہے خواتین کے ساتھ- ابھی بھی
ان کا دل نہیں بھرا لیکن
خیر- میں اس موضوع پہ لب کشائی کی اجازت چاہتا ہوں- اور خیر اندیش صاحب کے سوالات
اور اعترضات پہ ہی بات کروں گا- جناب نے بات ہی یہاں سے شروع کی کہ غیرت کے نام پر
قتل تو بس اک دکا ہوتے ہیں- ان اک دکا واقعات یہ ہمارا یہ واویلا کیوں
جناب' غیرت کے نام پر قتل "اکا دکا" واقعات نہیں ہیں- یہ ظالمانہ رسم بارے پیمانے پر مسلم مملک میں
پھیلی ہوئی ہے- قتل کرنے والے کیوں کہ بھائی' باپ' یا خاوند ہوتے ہیں اس لئے ایسے کیس
کم کم رپورٹ ہوتے ہیں- اسکے باوجود قاتلوں کی تعداد کسی بھی حساس ذہن کو ہلا کر رکھ
سکتی ہے- ٢٠٠٤ سے ٢٠٠٧ تک صرف اخبارات میں اور صرف پاکستان میں جو کیس
رپورٹ ہوئے انکی تعداد ٢٠٠٠ ہے- صرف ٣ سال میں ٢٠٠٠ لوگ- بی بی سی کے مطابق
چھ سال میں ١٩٩٩ سے ٢٠٠٤ تک ٤٠٠٠ لڑکیوں کی غیرت کے نام پر زندگی چھین لی گئی
٢٠١١ میں صرف ایک سال میں ٧٢٠ کیسزپو لیس میں رپورٹ ہوئے- ٦٠٥ خواتین اور ١١٥ مرد
معتبر صحافی سہیل وڑائچ کے ایک مضمون کے مطابق پاکستان میں ہر سال دس ہزار سے
زائد لوگوں کو یہ کہہ کر قتل کر دیا جاتا ہے کہ انہوں نے ہماری ناک نیچی کی ہے- ہماری
غیرت پر حرف آیا ہے-یاد رہے کہ ان کیسوں میں مدعی خود قاتل اور قاتل کا خاندان ہی ہوتا
ہے-اس لئے زیادہ تر کیسز سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے- یہ اتنی بڑا تعداد ہے کہ
کوئی بھی اس ظلم پر چپ نہیں رہ سکتا
شاید "اسلامیوں" کے لئے اس میں طمانیت کا کوئی پہلو ہو مگر ایک عام شخص کا دل
دہل جاتا ہے
ہمیں اس بات سے کوئی سرو کار نہیں کہ اسلام اسے جائز قرار دیتا ہے یا ناجائزمگر
تعزیرات پاکستان کے تخت قتل بہرحال ایک جرم ہے- جسکی سزا بہرصورت ملنی چاہیے
مگر ہوا کیا کہ قاتل بھائی' باپ' یا خاوند میں سے کوئی ایک ہوتا ہے- اور "اسلامی" قا نوں
کے تخت ورثا قاتل کو معاف کر سکتے ہیں- اب ہوتا یوں کہ بھائی قتل کرتا تو باپ معاف
کر دیتا- باپ کرتا تو ماں اور بھائی معاف کر دیتے اور اگر خاوند کرتا تو بچے یا
بچوں کی خاطر خاندان کے دوسرے لوگ "معاف" کر دیتے- اگر خاوند کسی اور سے
کرواتا تو اسکی خود معاف کر دیتا اپنی مرحومہ بیوی کا وارث ہونے کے ناتے
اسلام کے دیت کے اس قانون نے قتل کو ایک کھیل اور قاتل کو ایک ہیرو بنا دیا
انصاف ایک مزاق بن کہ رہ گئی- قاتل کو سزا دینا کسی طور ممکن نہ رہا
کوئی ورثا اس معاملے میں قصاص طلب نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کیس کی پیروی
کرتے- ایک طرف مولبی تلوار سونت کے کھڑا تھا کہ خبردار اسلامی قانوں کو کوئی
ہاتھ لگایا اور دوسری طرف ضمیر اور قانون کو اس پہ شدید بے اطمینانی تھی- ،مگر
جیسا کہ پاکستان کا دستور ہے کہ جبر' ڈنڈا' اورمولبی ہمیشہ جیت جاتا ہے تو بیشمار
عرصہ گزر چکنے کے بعد اور حوا کی ہزارہا بیٹیوں کی قربانیوں کے با وجود
حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی- خون بہتا رہا' مولبی حلوہ کھاتا رہا' اور ارباب اختیار
اقتدار کے مزے لوٹتے رہے- اجتمائی انسانی ضمیر اس دوران چیختا رہا پر کوئی کآن
دھرنے کو تیار نہیں تھا- افتخار چودھری نے اپنے دور میں کچھ سو موٹو لئے اور ان
سے کچھ خوف پیدا ہوا- خیر انسانی حقوق کے لئے کھڑے ہونے والے لوگوں اور
صاحب درد لوگوں کے لئے یہ ایک بڑی تکلیف دہ صورت حال تھی اور ہے- اسی تناظر
میں کم از کم ان کیسوں میں ورثا کے معاف کرنے کا حق ختم کرنے کا مطلبہ نہ صرف
پاکستان میں لڑکیوں کہ تخفظ اور زندگی کی لئے ضروری ہے بلکہ خود ریاست کے وقار
کا سوال بھی ہے- ایسی ریاست اور ایسا کریمنل جسٹس سسٹم کس کام کا جو ایک کمزور
صنف اور ایک عام لڑکی کو مر چکنے کے بعد بھی انصاف نہ دے سکے
جناب نے اعترض کیا کہ قتل ایک "ڈیٹرنس" کے طور پر استمعال ہوتا ہے
بنیادی طور پر حضرت یہ فرما رہے ہیں کہ "خوف" کو ہتھیار کے طور پر استمعال
کرنا ٹھیک ہے- یعنی اس کیس میں قتل ہو جانے کا خوف خواتین کو "گناہوں" سے باز
رکھے گا- اب اس پہ میں کیا کہوں- دل افسوس اور غصے سے بھر گیا ہے- اتنا بے حال
میں پہلے کسی اور مضمون کو پڑھ کے نہیں ہوا
ایک اور اعتراض یہ تھا کہ ڈرونز میں جو بے گناہ مارے گئے انکو چھوڑ کر
غیرت کے نام قتل جیسے ایشوز پر بات کیوں کی جاتی ہے- یہ بھی عجیب منطق ہے
یعنی ایک بات کو دوسری کے ساتھ لنک کر کے اسکی اہمیت گھٹانا- ایک کا احتساب کرو
تو وہ کہتا ہے میری طرف بعد میں آنا پہلے فلاں کا تو کر لو- پہلے مرغی کہ پہلے انڈا
یہ بلکل اسی طرح ہے ایک شخص دوسرے کو کہتا ہے کہ تمہاری آنکھ ٹیڑھی ہے تو
جواب ملتا ہے تمہاری خالہ بھی تو گھر سے بھاگ گئی تھی- ڈرونز میں مارے گئے
بے گناہ جسکا ہم نے بہت چرچا کیا' مذمت کی' اور رکوانے کی کوشش کی- انکی مکمل
تعداد صرف ایک سال میں غیرت کا نام پر قتل ہو جانے والی کمزور' لاچار' اور خوف
زدہ لڑکیوں کی تعداد کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے اور پچھلے دس سال کا حساب کر لیں
تو ڈرونز میں مرنے والوں کی تعداد غیرت کی نام پر قتل کیے جانے والوں کی تعداد
کے ٥ فیصد بھی نہیں ہے- اور ڈرونز میں تو اور دنیا بھی شامل تھی- مگر غیرت کے
نام پر قتل کے قانون میں تو کوئی رکاوٹ نہیں- صرف ایک قانون بنانا ہے- یہ کس
راستے پر چل رہے ہیں آپ- یہ کیا بات کر رہے ہیں آپ
جناب کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ جہاں غیرت کے نام پر قتل کو اٹھایا جائے وہی پر
اس فعل (زنا) کو بھی برا کہا جائے-
تو بھائی آپ خدا کب سے ہو گئے کہ خود بخود ہی جان لیا کہ جو خواتین قتل ہوتی ہیں
وہ سب کی سب زا نی ہیں؟
یقینا آپ کا خدا کے ساتھ کوئی براہ راست کنکشن ہو گا مگر جہاں تک ہم خدا گزیدوں
کا تعلق ہے تو کسی بھی جرم کی سزا سے پہلے اسکا تعین ہوتا ہے- حالات و واقعات
کو دیکھا جاتا ہے- گواہوں کو پرکھا جاتا ہے- صفائی کا موقع دیا جاتا ہے اور پھر بھی
فیصلے کا آخری اختیار ایک ایسے شخص کو دیا جاتا ہے جو بلکل غیر جانب دار ہو اور
جسکی لیاقت اور قانون شہادت کی سمجھ بوجھ' شبہ سے بالاتر ہو- اس سلسلہ میں دو باتین
سامنے رکھنے کی ضرورت ہے
١. مقتولین میں اٹھارہ فیصد لڑکیاں ابھی بچیاں تھیں- یعنی اٹھارہ سال سے کم عمر کی تھیں
اور٨٠ فیصد شادی شدہ تھیں- یعنی یہ بات کہ کوئی لڑکی "خواھش" سے بے قرار ہو کر
ایسا کام کرے اور پکڑی جائے اور پھر مار دی جائے ایسا شاید بہت ہی کم کیسز میں ہے-
جسمانی لطف کا حصول یا محض زنا کی خواہش یقینا ایک شادی شدہ عورت کا مطمہ نظر
نہیں ہو سکتا- اور کیا واقعی مقتولین کا مقصد صرف اور صرف جسمانی تسکین تھی اسکا
فیصلہ بھی تو عدالت نے کرنا ہے- جہاں تک یہ کیسز جاتے ہی نہیں اور اگر جاتے ہیں تو
چالان کے فوری بعد معافی نامہ پیش کر دیا جاتا ہے- پولیس بھی تحقیقات سے بچ جا تی ہے
یہ بات از حد ضروری ہے کہ پولیس اور عدالت اس بات کی تحقیق کریں کہ آیا خاتون یا
کم سن بچی کو اسی لئے تو نہیں مار دیا گیا کہ اسکا جائیداد میں حصہ تھا- یا وہ اپنی پسند
کی شادی کرنا چاہتی تھی- یا شادی شدہ خواتین کا اپنے شوہروں کے ساتھ جھگڑا تھا
یا وہ علحدگی چاہتی تھیں- قتل کے محرک کا تعین از حد ضروری ہے- خدارا ان سب
زندگی ہار جانے والی کم سن بچیوں اور خواتین کو زنا کا مرتکب مت سمجھئیے
اس لئے بھی یہ ضروری ہے کہ معافی کا حق ان کیسوں میں سبط کیا جائے- مزید برآں
یہ ثابت بھی ہو جائے کہ زنا ہی جرم کا محرک تھا تو بھی معافی کی بجائے سزا ہی سہی
رستہ ہے
٢. قاتلوں کی غالب اکثریت قتل کرنے لئے انتہائی وحشت اور بربریت سے کام لیتی ہے
٧٩ فیصد کیسز میں گولیاں' چھریاں' کلہاڑی استمعال کی گئی یا پھر گلہ گھونٹ دیا گیا
شاید ١٠٠ لوگوں کے قاتل ایک سیریل کلرکو بھی قانون کی پناہ میں اس سے بہتر اور
باوقار موت ملتی ہے- ایسی اذیت اسکی قسمت میں بھی نہیں ہوتی جو یہ تیرہ نصیب
ہوا کی بیٹیاں سہتے سہتے دم توڑ دیتی ہیں
پے پے سوگندیاں اچ بناں پھے چاننی دے ' تاویں سادی پیر نہ سوے
کوسے کوسے سانواں دے کراں جے ٹکور مائے' ہور سا نو کھان نو پوے
I dip (the wound) in various fragrances and wrap moonlight
around it as a bandage).Still, the pain does not ease
I blow a gentle warm breathe over (the wound) to soothe the pain
O mother, the wound, instead, pounces back on me to bite
یارو' میرے پیارو' میرے دوستو ' ذرا اک پل کو ٹھہرو اور سوچو کہ کس کو مار نے
چلے ہو- کسی کے خلاف بول رہے ہو- یہاں کون لبرل رہ گیا اور کون مذہبی- کن تتلیوں
کے رنگ نوچنے چلے ہو- کن پھولوں کو مسل رہے ہو- وہ جو خوبصورت خوابوں کی
امین ہیں- وہ جو رنگ کائنات ہیں- جو انسانی زندگی کی بقا کی ضا من ہیں- جو ہیں تو
سب ہے- وہ ہو کے بھی بے زبان ہیں
مصلحت چھین گئی قوت گفتار مگر
کچھ نہ کہنا ہی میرا میری سدا ہو بیٹھا
وھشت و بربریت کی ان ساری کاروا ئیوں میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ قا تل واقعی کسی گمان
میں قتل کر رہا تھا یا وہ کوئی شقی القلب ذہنی مریض تھا جو اندیشہ ہا ئے دور دراز نیں اپنی
ہی بہن' بیتی' بیوی' یا بہو کی جان لے گیا- کیا وہ باقی معاشرے کے لئے بھی خطرہ ہے
اس مقصد کے حصول کے لئے بھی قانون میں تبدیلی از حد ضروری ہے
جناب نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ایک طرف تو لبرل لوگ پھانسی کی سزا کے خلاف ہیں
اور دوسری طرف اسی سزا کو ختم کر دینے والے قانون کو بدلنا چاہتے ہیں- اگر جناب
تھوڑا سا غور فرما لیتے تو انہیں یہ سوال اٹھانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی- پھر بھی میں
وضاحت کر دیتا ہوں- پھانسی کی سزا کے خلاف اصولی موقف مکمل طور پر حقائق اور
ریسرچ پر مبنی ہے- جس میں دو باتیں سب سے اہم ہیں- پہلی یہ کہ کسی بھی معاشرے
میں پھانسی کی سزا کا جرم میں کمی سے کوئی تعلق نہیں پایا گیا- بلکہ جرم اور تعلیم میں
گہرا تعلق پایا گیا- یہ ایک علمی تحقیق ہے جو مکمل طور پر اعدادو شمار پر مبنی ہے
دوسری بات یہ کہ قانون شہدت سے لے کر جج حضرت تک اور درمیان میں پولیس
گواہان' اور واقعاتی شہادتیں ان میں ہر کوئی مکمل طور پر صحیح' ایماندار
اور تعصب سے پاک نہیں ہوتا- انسانی غلطی یا تعصب کی کہیں نہ کہیں کوئی گنجائش
رہ جاتی ہے- اس لئے یہ منا سب نہیں سمجھا جاتا کہ انسان کی جان ہی لے لی جائے
اور اصولی طور پر بھی کسی انسان کو چاہے وہ جج ہی کیوں نہ ہو کسی دوسرے
انسان کی زندگی چھین لینے کا حق نہیں دیا جا سکتا- غیرت کے نام پر قتل کے
کیسز میں بھی یہ نہیں کہا جا رہا کہ قاتلوں کو پھانسی دی جائے- بلکہ یہ کہا جا رہا
ہے کہ ان کا ٹرائل ہونا چاہیے اور جرم کے مرتکب ثابت ہونے پر قانون کے مطابق
سزا دی جائے اور اچھا ہے وہ سزا پھانسی نہ ہو
آپ کا آخری استدلال یہ تھا کہ اگر معصوم اور کمزور لڑکیوں کے قاتلوں کو جو انکے
اپنے خاندان میں سے ہوتے ہیں سزا مل گئی تو فحاشی اور عریانی پھیل جائے گی
بھائی میں تو گنگ ہوں- آپ کی اس سوچ اور اس انداز فکر پر میں افسوس کا اظھار
ہی کر سکتا ہوں اور لڑکیوں کی طرف سے اتنا ہی کہوں گا
میں نہیں مگر کچھ بھی
سنگ دل رواجوں کے
آہنی حصاروں میں
عمر قید کی ملزم
صرف ایک لڑکی ہوں
- Featured Thumbs
- http://i.dawn.com/large/2015/09/55eec05299993.jpg
Last edited by a moderator: