Aashoor Asim
Councller (250+ posts)
حلقہ 120 میں منظم دھاندلی کا خوفناک کھیل تیار
آپ کو یاد ہو گا جنرل الیکشنز 2013 کے بعد عمران خان نے دھاندلی کے خلاف ایک بھرپور احتجاجی تحریک چلائی تھی جس کا مقصد نا صرف دھانلی کی تباہ کاریوں کے خلاف لوگوں کو شعو بیدار کرنا تھا بلکہ الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ کے ذریعے ایسی انتخابی اصطلاحات کروانا بھی تھا جس کا مقصد مستقبل میں ایسی دھاندلی کو روکنا بھی تھا۔ عدالت نے جو فیصلہ دیا اس میں یہ کہا گیا کہ انتخابات میں بے ضابطگیاں تو بہت ہوئی ہیں لیکن یہ بے ضابطگیاں "منظم دھاندلی" کی تعریف پر پوری نہیں اترتیں۔
میں آج اس پیج کے توسط سے پہلی بار کچھ ایسے حقائق سامنے لے کر آ رہا ہوں جس میں ایک طرف تو بہت بری خبر ہے اور دوسری طرف ایک اچھی خبر بھی ہے۔ سب سے پہلے بری خبر سن لیجیے۔ (اچھی خبر اگلی پوسٹ میں دوں گا)۔
جنرل الیکشنز 2008 کے وقت پنجاب بیوروکریسی نے مسلم لیگ نون کو الیکشن جتوانے کے لیے لاکھوں ایسے جعلی ووٹس تخلیق کیے جن میں شناختی کارڈ نمبرز اصلی لیکن رہائش کا پتہ جعلی تھا اور ان کا اندراج تمام اہم حلقوں میں کر دیا گیا۔ انہی جعلی ووٹوں سے نون لیگ نے ہر طرف انتخابات میں جھرلو پھیر دیا۔ آپ کو یاد ہو گا عمران خان کا ایک موقف یہ بھی تھا کہ اردو بازار لاہور میں لاکھوں بیلٹ پیپرز پرنٹ ہوئے ہیں لیکن آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ وہ بیلٹ پیپرز کہاں گئے؟ اس بات کو میں اس طرح سے ایکسپلین کروں گا کہ سب سے پہلے جعلی ووٹوں کا اندراج ہوتا ہے۔ اس کے بعد بیلٹ پیپرز آؤٹ سورس کیے جاتے ہیں، اگلے مرحلے پر ان جعلی ووٹوں کو کاسٹ کر کے ان کے تھیلے بنائے جاتے ہیں اور سب سے آخر میں جو اصلی تھیلے ہوتے ہیں، ان کو غائب کر کے ان کی جگہ پر پہلے سے تیار شدہ نقلی تھیلے رکھ دیے جاتے ہیں۔ یہ ہے وہ منظم دھاندلی جو کہ عمران خان کا آفیشل موقف تھا۔
اس وقت حلقہ 120 میں اٹھائیس ہزار وہ جعلی ووٹس ہیں جن میں شناختی کارڈ نمبر اصلی ہیں لیکن رہائشی پتے نقلی ہیں۔ اس کی مثال ایسے دوں گا کہ فرض کیجیے مزنگ چونگی لاہور میں ایک گھر ہے (مکان نمبر پچاس) اور اس مکان نمبر پچاس میں تین افراد کا ووٹ درج ہے تو حکومت اس ایک گھر کے چار گھر بنا دے گی (مکان نمبر پچاس اے، پچاس بی، پچاس سی اور پچاس ڈی) اور ہر پورشن میں دس لوگوں کو مکین دکھا دیا جائے گا۔ اس ایک گھر میں جہاں پر اصل میں صرف تین لوگ بطور ووٹر درج ہیں، جعلسازی کرنے سے اب وہاں پر چالیس ووٹرز درج ہو گئے ہیں۔ اگر وہ تین ووٹرز تحریکِ انصاف کو ووٹ دے بھی دیں تو کوئی بات نہیں کیونکہ باقی سینتیس ووٹ نون لیگ کے حق میں ہوں گے۔
دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ صرف وہ اٹھائیس ہزار ووٹس ہیں جو کہ اب تک سامنے آئے ہیں لیکن حلقہ 120 میں سے ایک اندازے کے مطابق پندرہ سے اٹھارہ ہزار تک ایسے ووٹرز کا نام خارج کر دیا گیا ہے جن کے نام یا تصویر سے یہ پتہ چلتا ہو کہ یہ پٹھان ہیں۔ چونکہ عمران خان کی سب سے زیادہ مقبولیت خیبرپختونخواہ میں ہے اس لیے پنجاب حکومت کو سب سے زیادہ خطرہ بھی پٹھانوں سے ہے جس وجہ سے نہایت خاموشی کے ساتھ ایسی تصویروں اور ناموں والے افراد جن کی شناخت پٹھان ظاہر ہو رہی ہے، ان کے ووٹ کو دوسرے حلقوں میں ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔ ان دونوں اقسام کی دھاندلی میں حکومتی ادارے بشمول نادرا اور الیکشن کمیشن، وزراء، شخصیات اور بیوروکریسی شامل ہے۔ اتنے بڑے اور منظم لیول کی دھاندلی "سسٹمیٹک دھاندلی" نہیں تو پھر کیا ہے ؟ کیا عدالتیں اندھی، بہری اور گونگی ہیں جو ان کو یہ سب نظر نہیں آتا ؟
ابھی تک الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹوں کو جاری نہیں کیا کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ اس طرح بات پھیل جائے گی۔ یہ ووٹر لسٹیں عین ٹائم تک چھپائے جانے کا اندیشہ ہے۔
یہ ہے وہ منظم اور ٹیکنیکل دھاندلی جس پر عمران خان اور تحریکِ انصاف نے 126 دن کا دھرنا دیا تھا لیکن افسوس کہ انتخابی اصطلاحات کی طرف توجہ نہ دے کر اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری گئی ہے کیونکہ ہم کو ایک دفعہ پھر سے اسی ٹیکنیکل اور منظم دھاندلی سے پالا پڑنے والا ہے اور ہمارے پاس اس خوفناک اور منظم دھاندلی کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ وائے افسوس۔۔۔!!۔
تحریر و تجزیہ: عاشور بابا
آپ کو یاد ہو گا جنرل الیکشنز 2013 کے بعد عمران خان نے دھاندلی کے خلاف ایک بھرپور احتجاجی تحریک چلائی تھی جس کا مقصد نا صرف دھانلی کی تباہ کاریوں کے خلاف لوگوں کو شعو بیدار کرنا تھا بلکہ الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ کے ذریعے ایسی انتخابی اصطلاحات کروانا بھی تھا جس کا مقصد مستقبل میں ایسی دھاندلی کو روکنا بھی تھا۔ عدالت نے جو فیصلہ دیا اس میں یہ کہا گیا کہ انتخابات میں بے ضابطگیاں تو بہت ہوئی ہیں لیکن یہ بے ضابطگیاں "منظم دھاندلی" کی تعریف پر پوری نہیں اترتیں۔
میں آج اس پیج کے توسط سے پہلی بار کچھ ایسے حقائق سامنے لے کر آ رہا ہوں جس میں ایک طرف تو بہت بری خبر ہے اور دوسری طرف ایک اچھی خبر بھی ہے۔ سب سے پہلے بری خبر سن لیجیے۔ (اچھی خبر اگلی پوسٹ میں دوں گا)۔
جنرل الیکشنز 2008 کے وقت پنجاب بیوروکریسی نے مسلم لیگ نون کو الیکشن جتوانے کے لیے لاکھوں ایسے جعلی ووٹس تخلیق کیے جن میں شناختی کارڈ نمبرز اصلی لیکن رہائش کا پتہ جعلی تھا اور ان کا اندراج تمام اہم حلقوں میں کر دیا گیا۔ انہی جعلی ووٹوں سے نون لیگ نے ہر طرف انتخابات میں جھرلو پھیر دیا۔ آپ کو یاد ہو گا عمران خان کا ایک موقف یہ بھی تھا کہ اردو بازار لاہور میں لاکھوں بیلٹ پیپرز پرنٹ ہوئے ہیں لیکن آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ وہ بیلٹ پیپرز کہاں گئے؟ اس بات کو میں اس طرح سے ایکسپلین کروں گا کہ سب سے پہلے جعلی ووٹوں کا اندراج ہوتا ہے۔ اس کے بعد بیلٹ پیپرز آؤٹ سورس کیے جاتے ہیں، اگلے مرحلے پر ان جعلی ووٹوں کو کاسٹ کر کے ان کے تھیلے بنائے جاتے ہیں اور سب سے آخر میں جو اصلی تھیلے ہوتے ہیں، ان کو غائب کر کے ان کی جگہ پر پہلے سے تیار شدہ نقلی تھیلے رکھ دیے جاتے ہیں۔ یہ ہے وہ منظم دھاندلی جو کہ عمران خان کا آفیشل موقف تھا۔
اس وقت حلقہ 120 میں اٹھائیس ہزار وہ جعلی ووٹس ہیں جن میں شناختی کارڈ نمبر اصلی ہیں لیکن رہائشی پتے نقلی ہیں۔ اس کی مثال ایسے دوں گا کہ فرض کیجیے مزنگ چونگی لاہور میں ایک گھر ہے (مکان نمبر پچاس) اور اس مکان نمبر پچاس میں تین افراد کا ووٹ درج ہے تو حکومت اس ایک گھر کے چار گھر بنا دے گی (مکان نمبر پچاس اے، پچاس بی، پچاس سی اور پچاس ڈی) اور ہر پورشن میں دس لوگوں کو مکین دکھا دیا جائے گا۔ اس ایک گھر میں جہاں پر اصل میں صرف تین لوگ بطور ووٹر درج ہیں، جعلسازی کرنے سے اب وہاں پر چالیس ووٹرز درج ہو گئے ہیں۔ اگر وہ تین ووٹرز تحریکِ انصاف کو ووٹ دے بھی دیں تو کوئی بات نہیں کیونکہ باقی سینتیس ووٹ نون لیگ کے حق میں ہوں گے۔
دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ صرف وہ اٹھائیس ہزار ووٹس ہیں جو کہ اب تک سامنے آئے ہیں لیکن حلقہ 120 میں سے ایک اندازے کے مطابق پندرہ سے اٹھارہ ہزار تک ایسے ووٹرز کا نام خارج کر دیا گیا ہے جن کے نام یا تصویر سے یہ پتہ چلتا ہو کہ یہ پٹھان ہیں۔ چونکہ عمران خان کی سب سے زیادہ مقبولیت خیبرپختونخواہ میں ہے اس لیے پنجاب حکومت کو سب سے زیادہ خطرہ بھی پٹھانوں سے ہے جس وجہ سے نہایت خاموشی کے ساتھ ایسی تصویروں اور ناموں والے افراد جن کی شناخت پٹھان ظاہر ہو رہی ہے، ان کے ووٹ کو دوسرے حلقوں میں ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔ ان دونوں اقسام کی دھاندلی میں حکومتی ادارے بشمول نادرا اور الیکشن کمیشن، وزراء، شخصیات اور بیوروکریسی شامل ہے۔ اتنے بڑے اور منظم لیول کی دھاندلی "سسٹمیٹک دھاندلی" نہیں تو پھر کیا ہے ؟ کیا عدالتیں اندھی، بہری اور گونگی ہیں جو ان کو یہ سب نظر نہیں آتا ؟
ابھی تک الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹوں کو جاری نہیں کیا کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ اس طرح بات پھیل جائے گی۔ یہ ووٹر لسٹیں عین ٹائم تک چھپائے جانے کا اندیشہ ہے۔
یہ ہے وہ منظم اور ٹیکنیکل دھاندلی جس پر عمران خان اور تحریکِ انصاف نے 126 دن کا دھرنا دیا تھا لیکن افسوس کہ انتخابی اصطلاحات کی طرف توجہ نہ دے کر اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری گئی ہے کیونکہ ہم کو ایک دفعہ پھر سے اسی ٹیکنیکل اور منظم دھاندلی سے پالا پڑنے والا ہے اور ہمارے پاس اس خوفناک اور منظم دھاندلی کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ وائے افسوس۔۔۔!!۔
تحریر و تجزیہ: عاشور بابا