حضرت علیؑ کا ایک تعارف

Status
Not open for further replies.

Ahud khan

Senator (1k+ posts)
Yahee to sawal hay, ager aap ke baqol aadha quran munafiqon se bhara parha hay .... uss Qaran men ALI ka tazkara kahna hay. ALLAH ne ye Quran munafiqon keiliye nazil kia hay kia ????? ALI kahan hen ? Hssain kahan hein ?? Hassan kahan hen ???? Ager munafiqon ko ALLAH itne khoobsooritree se ziker ker rahen hen to shia ke imamon ka ilaan ko babang dehl hona chayye tha ??????????? Mager aapko Quran se milna kuch nahee. Man len Quran men aapke liye kuch nahee or na ye aap ke halaq se utarna hay ..... ALLAHHidayat de sab ko



فی الوقت آپ دو آیات کا تقابلی جائزہ لے لیں ایک غار والی آیات جس میں نبی کسی آدمی کو تسلی دیتے دکھائی دے رہے ہیں اور دوسری آیات مباہلہ جس میں نبی کے مروں عورتوں بچوں کا ذکر ہے ان دو آیات پے غور کریں کے کس حصے سے کس کی شان نظر اتی ہے ڈرخوف کی حالت میں تسلی لینے والے کی یا کفر کے خلاف اللہ کے نبی کے نفس بن کے جانے والے کی
 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)


یہ ہے تو مسلہ ہے میں نے ہرگز کسی خلیفہ راشد پے انگلی نہی اٹھائے اور خلیفہ راشد کے خلاف بات کرنے کو گنا ہ سمھجتھا ہوں
اگلے دن ہی ایک بحث میں میں نے کھا تھا ک اب خلیفہ ابوبکر بغدادی جیسے زندیق کو خلیفہ ثابت کرنے کی کوشش کرو گے تو ہم اس ک کرتوت پیش کریں گے اور تم کھو گے کے تمہارے خیلفہ کی توہین کر دی اور تمہارے مذهب سے خارج ہو گئے
محترم تمہارے مذہب میں تو ہم خبی تھے ہے نہی یہ تم ٣٠ ہجری کے بعد سے اسلام کا لبادہ دوبارہ ورھنے کی کوشش کر رہے ہو ہم نہی


You can play with whatever words
But Jan Nahi Chootay Gi

Our Mazhab is what Rasool Allah pbuh told us
for us everyone closer to Rasool Allah pbuh is Most Respectable not Just Ali RA

You are the ones with Fairy Tale Story based religion
and that is not Islam for sure, just like Qadyanis

If not prove Ali Un Wali Ullah from Quran
or stop saying it ...
 

drkhan22

Senator (1k+ posts)

فی الوقت آپ دو آیات کا تقابلی جائزہ لے لیں ایک غار والی آیات جس میں نبی کسی آدمی کو تسلی دیتے دکھائی دے رہے ہیں اور دوسری آیات مباہلہ جس میں نبی کے مروں عورتوں بچوں کا ذکر ہے ان دو آیات پے غور کریں کے کس حصے سے کس کی شان نظر اتی ہے ڈرخوف کی حالت میں تسلی لینے والے کی یا کفر کے خلاف اللہ کے نبی کے نفس بن کے جانے والے کی


Yahee aap ka masla hay. Aap shan o shaukat ka muqabila kerte phirte hen. O bhai kabh kaha ham ne Ali ka darja kam hay? Hussian ka darja kam ahy ?? kba kaha ke Ahl e bait ka darja kam hay ??? kabhi nahee. ye shoq aap ke hein aapko mubarak hon. Hamaray nazdeek sab afzal hen or ALLAH ke mahboob hen.
Aap se ager kaha to itna ke ALI , Hassan or Hussain Ki wilayat ko Quran se sabit karen. Ager Quran se sabit nahee to koi wilayat nahee sab jhoot hay. Ham ne kabh kaha ya dawa kia hay ke Abubkr RA ko wilayat mili hay. Jab ham ne dawa nahee kia to sabit kia kerna. Jo jaq hay wo haq hay. Bus wo bayan kerna chayye.
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)


رسول الله نے اپنے ساتھ شامل ہونے کا علان ہی کیا تھا.


جب یہ کہا کہ الله ہمارے ساتھ ہے


رسول الله کو پتا ہی تھا نہ کے الله انکے(ابو بکر ) ساتھ ہے یا نہیں ؟؟ اگر نہ ہوتا تو وہ یہ بات نہ کرتے اگر یہ بات کی رسول الله نے تو رسول الله غیر حقیقی بات کر ہی نہیں سکتے




آپ ایک کام کریں اس آیات کا ترجمہ پوسٹ کریں وہ ترجمہ جسے آپ معتبر سمجھتے ہیں






چلیں آپ بتائیں کے حزن کا مطلب کیا ہے ؟؟




پوری پوسٹ کا جواب دیجیے گا




آپ کو بارہا بتا چکا ہوں کہ یہ تسلی کے الفاظ ہیں اور نبی پاک نےالله کے ساتھ ہونے کی شرط بھی بیان کر دی کہ غم نہ کرو

حزن کا مطلب غم کرنا ہے یہ لفظ میدان چھوڑ کر بھاگنے والوں کے لئے بھی آیا اور قیامت کے دن لوگوں کے لئے بھی آیا
جب کہ تسکین صرف میدان میں قائم رہنے والوں کے لئے ائی

آپ کو میں یہ نقطہ بھی دے رہا ہوں کہ الله نے ایک ہی آدمی پر تسکیں اتاری اور مدد بھی کی ۔ اور اس آیت کے شروع میں بیان ہو رہا ہے کہ اگر مدد نہ کرو گے تو میں مدد کروں گا ۔ پھر آپ اس سکون اور مدد کو حضرت ابو بکر کی طرف کیوں لے جانا چاہتے

آپ اس بات کا جواب دے دیں کہ قرآن میں کہیں حزن کے لئے تسکین کا لفظ آیا ہو ۔
امید ہے ترجمہ سمجھ آ گیا ہو گا
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
Sab emaan Walay Wali ALLAH hen, or ALLAH ne sab Emaan walo ko wali kaha hay. Abh aap logo kon samjhai. Quran se aapko kuch nahee milne vala. Jin ke baray Qurab bola raha hay un per aapke hujjaten khatam nahee ho rahee.


اگر سب ایمان والے ولی ہیں تو ہمارے حضرت علی کو ولی کہنے پر اعتراض کیسا؟

اب بتاؤ نماز میں رح کیوں پھیرتے ہو سلام پھیرنے کے دوران؟ کہاں لکھا ہے قرآن میں ؟

میں نے امامت کے جاری ہونے اور امام مبین کی آیات پیش کی تھیں ان کا کیا بنا؟
 

sameer

MPA (400+ posts)
آپ کو بارہا بتا چکا ہوں کہ یہ تسلی کے الفاظ ہیں اور نبی پاک نےالله کے ساتھ ہونے کی شرط بھی بیان کر دی کہ غم نہ کرو

حزن کا مطلب غم کرنا ہے یہ لفظ میدان چھوڑ کر بھاگنے والوں کے لئے بھی آیا اور قیامت کے دن لوگوں کے لئے بھی آیا
جب کہ تسکین صرف میدان میں قائم رہنے والوں کے لئے ائی

آپ کو میں یہ نقطہ بھی دے رہا ہوں کہ الله نے ایک ہی آدمی پر تسکیں اتاری اور مدد بھی کی ۔ اور اس آیت کے شروع میں بیان ہو رہا ہے کہ اگر مدد نہ کرو گے تو میں مدد کروں گا ۔ پھر آپ اس سکون اور مدد کو حضرت ابو بکر کی طرف کیوں لے جانا چاہتے

آپ اس بات کا جواب دے دیں کہ قرآن میں کہیں حزن کے لئے تسکین کا لفظ آیا ہو ۔
امید ہے ترجمہ سمجھ آ گیا ہو گا

پیرو، یہ جو دائمی حزن کی یہاں بات ہو رہی ہے، اس کا کیا؟
کیا حزن بھی دائمی ہوتا ہے؟
یا پھر آپ مولا پاک سے زیادہ قرآن جانتے ہیں؟

o4BnQcL.png
 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)


اب بتاؤ نماز میں رح کیوں پھیرتے ہو سلام پھیرنے کے دوران؟ کہاں لکھا ہے قرآن میں ؟

You ask about just part of Salah but don't ask basic thing

Tumhara Kalma Kahan Likha Hai Quran e Pak Main
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
آپ پھر وہی بات کر رہے ہیں ..یعنی میرے ہی ایمان پر فتویٰ دے رہے ہیں ..ہر کوئی اپنی سمجھ کے مطابق دین پر عمل کر رہا ہے ..میرا صرف اتنا کہنا ہے کہ کسی کو غلط یا کمتر نہ سمجھیں ..ججمنٹ اپنے الله پر ہی چھوڑ دیں ...وہ بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے ..
ابھی آپ کو کہا تو ہے کہ ان بیچاروں نے صحیح بخاری کبھی شاید پڑھی ہی نہ ہو اور اگر پڑھی ہو تو اس نظر سے نہیں ،جو کہ حق بنتا ہے ...
میں ایک مثال اپنے ہی گھر کی دیتی ہوں ..ہماری فیملی کے بھی اکثر گھروں میں اس کی تمام جلدیں پائی جاتی ہیں ..کافی دین کی بھی سمجھ رکھتے ہیں ...جب میں یہ سوال اٹھاتی ہوں تو ان کی جو تاویلیں آتی ہیں مجھے حیران کرتی ہیں ..زیادہ بحث کروں تو وہ یہ کہہ کر کیس کلوز کر دیتے ہیں کہ ہم عالم نہیں ..ہمیں نہیں پتا ..ہمارے شیخ کے پاس ہی جواب ہو گا ..اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ آپ کو نہیں پتا تو خود سے سوچتے کیوں نہیں ..اپنا دماغ مولوی کے پاس کیوں گروی رکھ دیتے ہیں ...

آپ غلط سمجھ رہی ہیں
جن بے چاروں کا آپ ذکر کر رہی ہیں وہ سالوں سے ہمارے مسلک پر انگلیاں اٹھاتے رہے ہیں اور ان کے مسلک کے دوسرے ممبران تماشا دیکھتے رہے ہیں
اب ہم ان بے چاروں پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں تو نہ تو ان کا کوئی سوال بنتا ہے نہ تماشا دیکھنے والوں کا کوئی اعتراض بنتا ہے

اور میں نے آپ کو جو آیت بتائی اور جو نقطہ بتایا اگر وہ جھوٹ ہے تو الله میری پکڑ کرے گا ۔
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
پیرو، یہ جو دائمی حزن کی یہاں بات ہو رہی ہے، اس کا کیا؟
کیا حزن بھی دائمی ہوتا ہے؟
یا پھر آپ مولا پاک سے زیادہ قرآن جانتے ہیں؟

o4BnQcL.png

شاگرد محترم ہم صرف قرآن پاک میں لفظ حزن پر بحث کر رہے ہیں
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

You ask about just part of Salah but don't ask basic thing

Tumhara Kalma Kahan Likha Hai Quran e Pak Main

تمھیں مومنین میں سے ولی کا بتا دیا، تین گواہیوں کا بتا دیا
مگر تمہاری سوئی وہیں اٹکی ہے

اگر قرآن کی آیات تمہارے لئے فیری ٹیل ہیں اور الفاظ بل شٹ ہیں تو تمہارا میں کچھ نہیں کر سکتا

اگر ہمت ہے تو میری پیش کر دہ آیت اور نقاط میں بتاؤ کیا خامی ہے یوں مذاق اڑا کر کام نہیں چلے گا
 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)
تمھیں مومنین میں سے ولی کا بتا دیا، تین گواہیوں کا بتا دیا
مگر تمہاری سوئی وہیں اٹکی ہے

اگر قرآن کی آیات تمہارے لئے فیری ٹیل ہیں اور الفاظ بل شٹ ہیں تو تمہارا میں کچھ نہیں کر سکتا

اگر ہمت ہے تو میری پیش کر دہ آیت اور نقاط میں بتاؤ کیا خامی ہے یوں مذاق اڑا کر کام نہیں چلے گا


Tell me where it is written in Quran
Like you question all other points

just show at one place where Ali Un Wali Allah is written
Just once ...
 

sameer

MPA (400+ posts)

تم کلمہ دکھاؤ قرآن میں کدھر ہے


پیرو، یہ آیت مباہلہ میں سارے جمع کے صیغے ہیں، آپ کے پٹھے نے اودھم مچا کے رکھاہے کہ کلمہ تمہارا غلط ہے کیونکہ عربی میں جمع تین یا اس سے زائد کے لیے ہے اور تمہارے کلمے میں شہادتیں دو ہیں، اس لیے علی ولی اللہ کو شامل کیا جائے، وگرنہ وہ نہیں کھیلیں گے
مگر آپ کے نزدیک تو بیٹی صرف ایک تھی تو آیت مباہلہ میں جو صیغہ جمع کا استعمال ہوا ہے اس کا کیا؟
دوسرا علی ولی اللہ جس آیت سے آپ نکالتے ہو وہاں بھی سارے صیغے جمع کے ہیں، وہاں پرجمع کے صیغوں پر صرف ایک پر اطلاق کیوں؟
ویسے پیرو یہ ستم بھی عجب ہے کہ علی ولی اللہ
وہ شیعہ بھی کہتے ہیں جو بارہ اماموں کو مانتے ہیں
وہ شیعہ بھی کہتے ہیں جو امام اسماعیل علیہ السلام کو مانتے ہیں
اسماعیلی شیعہ، جن میں قائد اعظم محمد علی جناح علیہ السلام بھی ہیں
وہ اسماعیلی شیعہ جن میں بعض آغا خانی ہیں، وہ مولا حسن پاک کو امام ہی نہیں مانتے ہیں
ان اسماعیلی کی ایک شاخ وہ بھی ہے جس میں امام حسن کو امام مانا گیا
اسماعیلیوں کا مہدی تو عرصہ دراز سے فوت ہو چکا، وہ تو زندہ امام کے قائل ہیں، مگر آپ غائب کے
اسی طرح انہیں اسماعیلیوں کے بیچوں بیچ بوہری شیعہ ہیں جن میں مسئلہ امامت پھر ہوا اور ان کےامام مختلف ہیں

جبکہ بارہ اماموں والوں کے کتابوں میں ہے جو ایک امام کا منکر ہو وہ کافر ہے
یعنی جنہوں نے اسماعیل کو امام مانا، وہ بھی کافر، یعنی سارے اسماعیلی کافر بشمول قائد اعظم
اسی طرح زین العابدین کے بیٹے بھی کافر، اور حسن پاک کے بیٹوں کو تو آپ کی کتابوں میں منحوس، بھینگا تک کہا گیا

کیا فرماتے ہیں علما دین جو کلمہ لاالہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ کہے اور پھر بھی مومن نہ ہو تو پھر علی ولی اللہ کافی تو نہ ہوا، اس کے آگے بھی کچھ شامل کیا جاوے
بیان کیجیے اور اجر پائیے
 
Last edited:

sameer

MPA (400+ posts)
شاگرد محترم ہم صرف قرآن پاک میں لفظ حزن پر بحث کر رہے ہیں

پیرو، اس پر بات ہو چکی ہے، لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون
یاد ہے پیرو، آپ نے وہاں اپنے سعادت مند مرید پر فتویٰ بھی داغا تھا
جس پر آپ نے اس نا خلف مرید نے فرمائش کی تھی

وضاحت کیجیے اور اجر پائیے

آج تک اس وضاحت کا انتظار کر رہا ہوں

ویسے یہ کافر ہونا بھی کیا سعادت ہے یعنی جب سیدہ کائنات کے بیٹے کافر، مولا علی جو قسیم جنت و نار ہیں ، ان کے بیٹے بھی کافر، تو پھر مجھے کافر ہونے کو کس کافر نے روکا ہے؟

ہیں جی
 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)
just to make it easily readable as it is a great post




پیرو، یہ آیت مباہلہ میں سارے جمع کے صیغے ہیں، آپ کے پٹھے نے
اودھم مچا کے رکھاہے کہ کلمہ تمہارا غلط ہے کیونکہ عربی میں جمع تین یا اس سے زائد کے لیے ہے اور تمہارے کلمے میں شہادتیں دو ہیں، اس لیے علی ولی اللہ کو شامل کیا جائے، وگرنہ وہ نہیں کھیلیں گے

مگر آپ کے نزدیک تو بیٹی صرف ایک تھی تو آیت مباہلہ میں جو صیغہ جمع کا استعمال ہوا ہے اس کا کیا؟

دوسرا علی ولی اللہ جس آیت سے آپ نکالتے ہو وہاں بھی سارے صیغے جمع کے ہیں، وہاں پرجمع کے صیغوں پر صرف ایک پر اطلاق کیوں؟

ویسے پیرو یہ ستم بھی عجب ہے کہ علی ولی اللہ

وہ شیعہ بھی کہتے ہیں جو بارہ اماموں کو مانتے ہیں
وہ شیعہ بھی کہتے ہیں جو امام اسماعیل علیہ السلام کو مانتے ہیں
اسماعیلی شیعہ، جن میں قائد اعظم محمد علی جناح علیہ السلام بھی ہیں
وہ اسماعیلی شیعہ جن میں بعض آغا خانی ہیں، وہ مولا حسن پاک کو امام ہی نہیں مانتے ہیں
ان اسماعیلی کی ایک شاخ وہ بھی ہے جس میں امام حسن کو امام مانا گیا

اسماعیلیوں کا مہدی تو عرصہ دراز سے فوت ہو چکا
، وہ تو زندہ امام کے قائل ہیں، مگر آپ غائب کے

اسی طرح انہیں اسماعیلیوں کے بیچوں بیچ بوہری شیعہ ہیں جن میں مسئلہ امامت پھر ہوا اور ان کےامام مختلف ہیں

جبکہ بارہ اماموں والوں کے کتابوں میں ہے جو ایک امام کا منکر ہو وہ کافر ہے
یعنی جنہوں نے اسماعیل کو امام مانا، وہ بھی کافر، یعنی سارے اسماعیلی کافر بشمول قائد اعظم
اسی طرح زین العابدین کے بیٹے بھی کافر، اور حسن پاک کے بیٹوں کو تو آپ کی کتابوں میں منحوس، بھینگا تک کہا گیا

کیا فرماتے ہیں علما دین جو کلمہ لاالہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ کہے اور پھر بھی مومن نہ ہو تو پھر علی ولی اللہ کافی تو نہ ہوا، اس کے آگے بھی کچھ شامل کیا جاوے

بیان کیجیے اور اجر پائیے


Thank you Sameer Bhai
Now there will be no answer but questions
(Please change your font to Ariel, if you can)
 

Ahud khan

Senator (1k+ posts)
Excellent
لا إله إلا الله محمد رسول الله

La Ilaha IllAllah
Hundreds of places

Muhammadur Rasulullah
Hundreds of places

Now sho me just once
Ali un Wali Allah


Just admit you have concoted it
as even Ali RA did not read it like that



وما ينطق عن الهوى إن هو إلا وحي يوحى

**وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى** (3) **إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى** (4) سورة النجم



جو کچھ بھی احادیث کو حوالے سے تحریر کرنے لگا ہوں یہ سب فرقہ ورانہ عبصت سے پاک صاف ہے کیونکہ درحقیقت مجھے فرقہ واریت سے سخت ترین نفرت ہے اور فرقہ واریت پھیلانے والے مجھے زہر لگتے ہیں فرقہ واریت کی زرد میں سب سے زیاده بے ادبی حضرت علی کرم الله وجہہ کی شان مبارکہ میں ہورہی ہے جن کی شان مبارکہ بہت بلند ہے بہت ہی زیاده بلند جن سے ھمارے منافق اور فرقہ پرست علماء واقف ہوتے ہوۓ بھی انجان بنتے ہیں کیونکہ کوئی محدث ایسا نہیں جس نے شان حضرت علی کے مطلق کوئی حدیث نہ لکھی ہو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ شان حضرت علی سے یہ ملاں و ذاکر حضرات نابلد ہوں یہ جان بوجھ کر صرف اور صرف اپنے فرقوں کے دفاع کو اور اپنی جھوٹی شان متعارف کروانے یہ حضرات حضرت علی کے متعلق منافقانہ رویہ اپناۓ ہوۓ ہیں کچھ ایسی ہی منافق ابوجہل کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بھی تھی وه اچھی طرح جانتا تھا کہ محمدرسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سچے رسول ہیں مگر اس کے باوجود اس نے منافقانہ وجاہلانہ رویہ برقرار رکھا اور حضورپاک کی رسالت کا اقرار نہ کر سکا کچھ یہی حال ان ملاؤں کا ہے جو جان بوجھ کر حضرت علی کرم الله وجہہ کے خلاف اپنے دلوں میں بغض رکھتے ہیں اور ہر معاملے میں معاذالله آپ کی شان مبارکہ کو گھٹانے کے درپے رہتے ہیں آج انشاءالله میں ان منافقوں کی منافقت کو احادیث کی روشنی میں بے نقاب کروں گا تاکہ احادیث کے علم سے نابلد معصوم عوام پر بھی ان کی حقیقت آشکار ہو سکے اور ا نہوں نے جو ان منافقوں کی تعلیمات پر عمل کرکے حضرت علی رضی الله عنہ کے خلاف اپنے دلوں میں بغض رکھا ہوا ہے وه ختم ہو سکے حق تعالی میری اس کاوش کو شرف قبولیت بخش کر آپ کے دلوں سے بغض علی اور اہل بیت نکال دے۔ آمین حضرت علی شیر خدا نے فرمایا کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ علی! مجھے اس رب کی قسم ہے جس نے مخلوق کو پیدا کیا کہ سوائے مومن کے تجھ سے کوئی محبت نہیں کر سکتا اور سوائے منافق کے کوئی تجھ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔ ام المومنين حضرت سلمہ رضي اللہ عنہا فرماتي ہيں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں کر سکتا اور کوئی مومن علی رضی اللہ عنہ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔ )جامع الترمذي، 2 : 213( ہم نے ان فرامین رسول کو بھلا دیا ہے، ہم نے خود کو شیعہ سنی کے خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے، ہم اپنے آنگنوں میں نفرت کی دیواریں تعمیر کر رہے ہیں حالانکہ شیعہ سنی جنگ کا کوئی جواز ہی نہیں۔ علمی اختلافات کو علمی دائرے میں ہی رہنا چاہئے، انہیں نفرت کی بنیاد نہیں بننا چاہئے، مسجدیں اور امام بارگاہیں مقتلوں میں تبدیل ہو رہی ہیں مسلک کے نام پر قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے، بھائی بھائی کا خون بہا رہا ہے اب نفرت اور کدورت کی دیواروں کو گر جانا چاہئے، ہر طرف اخوت اور محبت کے چراغ جلنے چاہئیں، حقیقت ایمان کو سمجھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہ کی زبانی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے بڑھ کر بڑی شہادت اور کیا ہوتی۔ چنانچہ حق و باطل کے درمیان یہی کیفیت صحابہ کرام کا معیار تھی۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ انصار میں سے ہیں۔ ہم منافقوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض و عداوت کی وجہ سے پہچانتے ہیں۔ )جامع الترمذي، 2, 213( فرمایا کہ اپنے دور میں ہمیں اگر کسی منافق کی پہچان کرنی ہوتی تو یہ پہچان حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغض سے کر لیتے جس کے دل میں حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا بغض ہوتا صحابہ رضی اللہ عنہ پہچان لیتے کہ وہ منافق ہے اس لئے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ بھی جانتے تھے کہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے چلے گا۔ اس مفہوم کی دیگر روایات مندرجہ ذیل کتب میں بھی منقول ہیں۔ 1. سنن نسائي، 8 : 116، کتاب الايمان، باب علامة الايمان 2. سنن نسائي، 8 : 117، بخاری شریف میں حضرت براء رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : انت مني و انا منک )صحيح البخاري، 2 : 610( اے علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔ فرمایا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ علی! اعلان کر دو کہ دنیا والے جان لیں کہ علی رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ روایت عام ہے :حضرت یعلی بن مرۃ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جس نے حسین سے محبت کی حسین نواسوں میں ایک نواسا ہے۔ )جامع الترمذي، 2 : 29( حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے۔ 1. المعجم الکبير لطبراني، 11 : 55 2. مستدرک للحاکم، 3 : 126 - 127، رح : 11061 3. مجمع الزوائد، 9 : 114 حدیث پاک کا دوسرا حصہ کہ پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ 1. جامع الترمذی، 5 : 637، کتاب المناقب باب 21 2. کنز العمال، 13, 147، ح : 36462 ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ جس کو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم درکار ہے وہ علی کے دروازے پر آئے یہ در چھوڑ کر کوئی علم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز کو نہیں پا سکتا۔اس لیے کوئی بھی ولی صاحب ولایت اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتا جب تک وه سر جھکا کر علی کے چوکٹ تک نہ آ جاۓ اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حضرت علی کا ذکر عبادت ہے۔ 1. فردوس الاخبار للديلمي، 2 : 367، ح : 2974 2. کنزالعمال، 11 : 601، ح : 32894 علی کی عظمت و شان کا اندازه اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے کہ علی کا ذکر بھی عبادت ہے اور حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا اور حضرت علیکے درمیان غلط فہمی و تفریق کی جو بھی کہانیاں ہیں وه سب بعد میں گھڑی گئیں۔ئیں۔ جنگ جمل کے تلخ واقع کو ذھن میں رکھتے ہوئے عام طور پر بعض کوتاہ اندیش یہ سمجھتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے درمیان بغض وعداوت کی بلند و بالادیواریں قائم رہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، جنگ جمل کے اسباب کچھ اور تھے جو اس وقت ہمارے موضوع سے خارج ہیں لیکن ان دونوں عظیم ہستیوں میں مخاصمت کے افسانے تراشنے والوں کو اس روایت پر غور کرناچاہیے۔ اگر اماں عائشہ کے دل میں حضرت علی کے خلاف کوئی بغض یا کھوٹ ہوتا تو وه یہ حدیث بھی بیان نہ کرتیں حالانکہ اس وقت گھر میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی تیسرا شخص موجود نہ تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تنہا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سن رہی تھیں اگر چاہتیں تو باہر کسی سے بیان نہ کرتیں۔ دل میں )خدانخواستہ( کھوٹ یا میل ہوتا تو چپ سادھ لیتیں اور یہ حدیث چھپا لیتیں کہ اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان ہے۔ لیکن بلا کم و کاست فرمان رسول نقل کر دیا کیونکہ حقیقت چھپا کر رکھنا منافقت کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام اور اہلبیت اطہار کو بغض و منافقت جیسی روحانی بیماریوں سے کلیتاً صاف فرمایا تھا۔ اللہ کی عزت کی قسم اگرکسی کی ساری رات حب علی میں علی علی کرتے گزر گئی تو خدا کے حضور یہ ورد عبادت میں شمار ہو گا کیونکہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کے مطابق علی کا ذکر عبادت ہے۔ چہرہ علی رضی اللہ عنہ کو دیکھنا بھی عبادت اسی طرح ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی روایت کرتی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑی کثرت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھتے رہتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ حضرت علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔ )الصواعق المحرقه، 177( اسی طرح ایک اور روایت ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ 1. المستدرک للحاکم، 3 : 141 - 142 2. المعجم الکبير للطبراني، 10 : 77، ح، 32895 3. فردوس الاخبار للديلمي، 5 : 42، ح : 1717 4. کنز العمال، 11 : 60، ح : 32895 5. مجمع الزوائد، 9 : 111, 119 یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضرت علی شیر خدا کا ذکر جمیل بھی عبادت ہے حضرت ریاح بن حرث رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک گروہ حضرت علی کے پاس رحبط کے مقام پر آیا انہوں نے کہا اے ہمارے مولا تجھ پر سلام ہو آپ نے فرمایا میں کیسے تمہارا مولا ہوں جبکہ تم عرب قوم ہو انہوں نے کہا کہ ہم نے ’’غدیرخم،، کے مقام پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جس کا میں ولی ہوں اس کا یہ )علی( مولا ہے۔ )مسند احمدبن حنبل، 5 : 419( حضورپاک صلی الله علیہ وسلم نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی کہ جس کا میں والی اس کا علی مولا اب یہاں کچھ مکتبہ فکر کے نام نہاد ملاں اس کو شرک کہتے ہیں ان ملاؤں سے کوئی پوچھے کہ کیا حضورپاک صلی الله علیہ وسلم بھی شرک کی دعوت دینے آۓ تھے جو یہ فرما رہے ہیں کہ جس کا میں والی اس کا علی مولا۔ ان ملاؤں کواس بات پر کسی پر کفر و شرک کا فتوی ٹھونس دینے پر شرم آنی چاہیۓ جو مگر ان کو نہیں آتی۔ ایک دوسرے مقام پر آتا ہے : عن زيد بن ارقم عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال من کنت مولاه فعلي مولاه حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں جس کا مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔ )جامع الترمذي، 2 : 213( پہلے تاجدار عرب و عجم نے فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں علی اس کا مولا ہے پھر فرمایا جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے۔ نبی ہونے اور نبی کا امتی ہونے کا فرق رہتا ہے لیکن دوئی کا ہر تصور مٹ جاتا ہے اس لئے کہ باطل دوئی پسند اور حق لا شریک ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارگاہ خداوندی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے اور فرمایا میرے اللہ جو علی کو ولی جانے تو اس کا ولی بن جا یعنی جو علی سے دوستی کرے تو بھی اس کا دوست بن جا اور جو علی سے دشمنی کرے تو بھی اس کا دشمن ہو جا، جو علی کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر اور جو علی کے ساتھ ہے تو بھی اس کے ساتھ ہو جا، ذیل میں متعلقہ حدیث پاک درج کی جا رہی ہے حضرت عمرو بن ذی مرو اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم غدیرخم کے موقع پر خطبہ ارشاد فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں علی اس کے ولی ہیں۔ ’’ اے اللہ تو اس سے الفت رکھ جو علی سے الفت رکھتا ہے اور تو اس سے عداوت رکھ جو اس سے عداوت رکھتا ہے اور تو اس کی مدد کر جو اس کی مدد کرتا ہے اور اس کی اعانت کر جو علی کی اعانت کرتا ہے۔،، المعجم الکبير للطبراني، 4 : 17، ح : 3514 گویا حضرت علی کے چہرہ انور کو دیکھتے رہنا بھی عبادت، ان کا ذکر بھی عبادت، حضور فرماتے ہیں کہ علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ارشاد ہوا کہ جس کا ولی میں ہوں علی اس کا مولا ہے پھر ارشاد ہوا کہ جس کا میں مولا علی بھی اس کا مولا اور یہ کہ میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ، علم کا حصول اگر چاہتے ہو تو علی کے دروازے پر آ جاؤ اور دوستی اور دشمنی کا معیار بھی علی ٹھہرے۔ حضرت ابی طفیل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس رحبہ کے مقام پر بہت سارے لوگ جمع تھے ان میں سے ہر ایک نے قسم کھا کر کہا کہ ہم ميں سے ہر شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے غدیرخم کے موقع پر خطاب فرمایا جس کو وہاں کھڑے ہوئے تیس آدمیوں نے سنا۔ ابو نعیم نے کہا کہ بہت سارے لوگ جمع تھے انہوں نے گواہی دی کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے فرمایا کہ کیا تم جانتے نہیں کہ میں مومنین کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہوں انہوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کا میں ولی ہوں اس کا علی ولی ہے اے اللہ تو بھی الفت رکھ جو اس سے الفت رکھتا ہے اور تو اس سے عداوت رکھ جو اس کے ساتھ عداوت رکھتا ہے۔ )مسند احمد بن حنبل، 4 : 370( اس حدیث کو روایت کرنے والوں میں حضرت ابوہریرہ، حضرت انس بن مالک، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت مالک بن حویرث، ابو سعید خدری، حضرت عمار بن یاسر، حضرت براء بن عازب، عمر بن سعد، عبداللہ ابن مسعود، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ جو شخص ولایت علی کا منکر ہے وہ نبوت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے، جو فیض علی کا منکر ہے وہ فیض مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی منکر ہے جو نسبت علی کا منکر ہے، وہ نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے، جو قربت علی کا باغی ہے وہ قربت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باغی ہے، جو حب علی کا باغی ہے وہ حب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی باغی ہے اور جو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باغی ہے وہ خدا کا باغی ہے۔ حضرت عمار بن یاسر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص مجھ پر ایمان لایا اور جس نے میری نبوت کی تصدیق کی میں اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ علی کی ولایت کو مانے جس نے علی کی ولایت کو مانا اس نے میری ولایت کو مانا اور جس نے میری ولایت کو مانا اس نے اللہ عزوجل کی ولایت کو مانا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص قیامت تک مجھ پر ایمان لایا اور جس نے میری نبوت کی تصدیق کی میں اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ علی کی ولایت کو مانے۔ علی وصیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، ولایت علی وصیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، حضور علیہ السلام نے فرمایا جس نے علی کی ولایت کو مانا اس نے میری ولایت کو مانا جس نے میری ولایت کو مانا اس نے اللہ کی ولایت کو مانا، جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔ جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی، جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔ اور جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔ )مجمع الزوائد، 9 : 109( اسی مفہوم کی دیگر روایات مندرجہ ذیل کتب میں ملاحظہ کریں۔ 1. مسند احمد بن حنبل، 1 : 84 2. مسند احمد بن حنبل، 1 : 119 3. مسند احمد بن حنبل، 4 : 370 4. ابن ماجه المقدمه : 43، باب 11 فضل علي ابن ابي طالب، ح : 116 5. المعجم الکبري للطبراني، 2 : 357، ح : 2505 6. المعجم الکبري للطبراني، 4 : 173، ح : 4052 7. المعجم الکبري للطبراني، 4 : 174، ح : 4053 8. المعجم الکبري للطبراني، 5 : 192، ح : 4059 9. المعجم الاوسط لطبراني، 3 : 69، ح : 2131 10. المعجم الکبري الاوسط لطبراني، 3 : 100، ح : 2204 11. المعجم الصغير، 1 : 64 12. مسند ابي يعلي، 1 : 428, 429، ح : 567 13. مسند ابي يعلي، 2 : 80 - 81، ح : 458 14. مسند ابي يعلي، 2 : 87، ح : 464 15. مسند ابي يعلي، 2 : 105، ح : 479 16. مسند ابي يعلي، 2 : 105، ح : 480 17. م سند ابي يعلي، 2 : 274، ح : 454 18. مسند ابي يعلي، 3 : 139، ح : 937 19. کنز العمال، 13 : 154، ح : 3648 20. کنز العمال، 13 : 157، ح : 36486 21. کنز العمال، 13 : 158، ح : 36487 22. مجمع الزوائد، 9 : 106, 107 23. موارد النعمان، 544، ح : 2205 ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت ملاحظہ فرمائیں : حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ میں نے اپنے کانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا تحقیق اس نے اللہ سے بغض رکھا۔ )ايضاً : 132( حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا اے علی تو دنیا میں بھی سید ہے اور آخرت میں بھی سید ہے، جو تیرا حبیب )دوست( ہے وہ میرا حبیب ہے اور جو میرا حبیب ہے وہ اللہ کا حبیب ہے، جو تیرا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو میرا دشمن ہے وہ اللہ کا دشمن ہے اور بربادی ہے اس شخص کیلئے جو میرے بعد تجھ سے بغض رکھے۔ )المستدرک للحاکم، 3 : 128( بڑی واضح حدیث ہے فرمایا علی تو دنیا میں بھی سید ہے اور آخرت میں بھی سید ہے تیرا حبیب میرا حبیب ہے اور میرا حبیب خدا کا حبیب، تیرا دشمن میرا دشمن اور میرا دشمن خدا کا دشمن، آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ولایت علی کو ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دے رہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیوں؟ یہ حدیث اس کی وضاحت کر رہی ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تکرار کے ساتھ فرمایا : فانه منی و انا منه وهو وليکم بعدي علی مجھ سے ہے میں علی سے ہوں میرے بعد وہ تمہارا ولی ہے۔ )مسند احمد بن حنبل، 5 : 356( حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عرب کے سردار کو میرے پاس بلاؤ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا آپ عرب کے سردار نہیں ہیں یا رسول اللہ، آپ نے فرمایا کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی رضی اللہ عنہ عرب کے سردار ہیں۔ 1. مستدرک للحاکم، 3 : 124 2. مجمع الزوائد، 9 : 116 3. کنزالعمال، 11 : 619 ولایت علی کے فیض کے بغیر نہ کوئی ابدال بن سکا اور نہ کوئی قطب ہوسکا۔ ولایت علی کے بغیر نہ کسی کوغوثیت ملی اور نہ کسی کو ولایت، حضرت غوث الاعظم جو غوث بنے وہ بھی ولایت علی کے صدقے میں بنے، امامت، غوثیت، قطبیت، ابدالیت سب کچھ ولایت علی ہے، اس لئے آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا )مسند احمد بن حنبل، 6 : 323( ) المتدد، للحاکم، 3 : 121( جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھ کو گالی دی۔ اس سے بڑ ھ کردوئی کی نفی کیا ہوگی اور اب اس سے بڑھ کر اپنائیت کا اظہار کیا ہوگا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے علی کو گالی دی وہ علی کو نہیں مجھے دی۔ طبرانی اور بزار میں حضرت سلمان سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا 26. محبک محبي ومبغضک مبغضي علی تجھ سے محبت کرنے والا میرا محب ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔ المعجم الکبير للطبراني، 6 : 239، رقم حديث : 6097 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے )حضرت( علی کی اطاعت کی تحقیق اس نے میری اطاعت کی اور جس نے )حضرت( علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ المستدرک للحاکم، 3 : 121 حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی بتا رہے ہیں۔ مدعا یہ تھا کہ یہ بات طے پا جائے اور اس میں کوئی ابہام نہ رہے کہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض حضرت علی رضی اللہ عنہ سے چلا ہے اور علی کی اطاعت چونکہ رسول کی اطاعت ہے اور رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت کی ضامن ہے لہذا علی کی اطاعت اطاعت الہٰی کا ذریعہ ہے۔ علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ دونوں )اس طرح جڑے رہیں گے اور( جدا نہیں ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر مل کر میرے پاس آئیں گے۔ )ايضاً، 124( یہ کہہ کر بات ختم کر دی علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ، قرآن اللہ رب العزت کی آخری الہامی کتاب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چلتا پھرتا قرآن کہا جاتا ہے اوپر ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات سے علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو جدا نہیں کرتے۔ یہاں قرآن سے علی کے تعلق کی بھی وضاحت فرمائی کہ قرآن و علی اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ روز جزا بھی یہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے گا اور علی اور قرآن اسی حالت میں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔ قرابت دارانا ن رسول ہاشمی جب یہ آیت )مباھلہ( کہ ’’ہم )مل کر( اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو بلالیتے ہیں،، نازل ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور فرمایا اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔ )الصحيح لمسلم، 2 : 278( جب آیت مباہلہ نازل ہوئی توحضور علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیوں کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ 1۔ ہم اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ۔ 2۔ ہم اپنی ازواج کو لاتے ہیں تم اپنی عورتوں کو لاؤ۔ بیٹوں کو لانے کا وقت آیا تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے 1۔ حسن اور حسین رضی اللہ عنہ کو پیش کردیا۔ 2۔ عورتوں کا معاملہ آیا تو حضرت فاطمہ کو پیش کردیا اور اپنی جانوں کو لانے کی بات ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی جان کے درجے پر رکھا۔ آیت اور حدیث مبارکہ کے الفاظ پر غور فرمائیں آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ تعالوا ندع أبناء ناو أبناء کم و نساء نا و نسائکم و أنفسنا و انفسکم آ جاؤ ہم )مل کر( اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی )ایک جگہ پر( بلا لیتے ہیں۔ )آل عمران 3 : 61( حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمام لوگ جدا جدا درختوں سے ہیں مگر میں اور علی ایک ہی درخت سے ہیں۔ )معجم الاوسط للطبرانی، 5 : 89، ح : 4162( ایک ہی درخت سے ہونے میں ایک تو نسبتی قربت کا اظہار ہو رہا ہے، دوسری قربت وہ نظریاتی کومٹ منٹ تھی جو اسلام کے دامن رحمت میں آنے اور براہ راست شہر علم کے علم حکمت اور دانائی کے چراغوں سے روشنی کشید کرنے کے بعد حاصل ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے اور ان کے ماں باپ سے محبت کی وہ قیامت کے روز میرے ساتھ میری قربت کے درجہ میں ہو گا۔ ) جامع الترمذي، 5 : 642، ح : 3733( حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجا جب وہ واپس تشریف لائے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو فرمایا اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبریل امین آپ سے راضی ہیں۔ )المعجم الکبير، 1 : 319( حضرت حسن بن علی نے حضرت علی کی شہادت کے موقع پر خطاب فرمایا اے اہل کوفہ یا اہل عراق تحقیق تم میں ایک شخصیت تھی جو آج رات قتل کر دیئے گئے یا آج وفات پا جائیں گے۔ نہ کوئی پہلے علم میں ان سے سبقت لے سکا اور نہ بعد میں آنے والے ان کو پا سکیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ کو کسی سریہ میں بھیجتے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام ان کے دائیں اور حضرت میکائیل علیہ السلام ان کے بائیں طرف ہوتے، پس آپ ہمیشہ فتح مند ہوکر واپس لوٹتے۔ )مصنف ابن ابي شيبه، 12 : 60( حضرت ام سلمہ سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت غضب میں ہوتے تھے تو کسی میں یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کلام کرے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے۔ )2( المستدرک للحاکم، 3 : 130 حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کی گئی اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر ادا نہ فرمائی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ کیا تو نے نماز ادا نہیں کی؟ عرض کیا نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے اللہ بے شک علی رضی اللہ عنہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا پس اس پر سورج کو لوٹا دے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھا پھر میں نے اس کو غروب کے بعد طلوع ہوتے ہوئے دیکھا۔ )مشکل الآتار، 4 : 388( حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے بھیج تو رہے ہیں لیکن میں نوجوان ہوں میں ان لوگوں کے درمیان فیصلے کیونکر کروں گا؟ میں جانتا ہی نہیں ہوں کہ قضا کیا ہے؟ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے سینے پر مارا پھر فرمایا اے اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا کر اور اس کی زبان کو استقامت عطا فرما، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پیدا فرمایا مجھے دو آدمیوں کے مابین فیصلے کرتے وقت کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ )المستدرک، 3 : 135( یہی وجہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بصیرت دانائی اور قوت فیصلہ ضرب مثل بن گئی۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد عہد خلافت راشدہ تک تمام دقیق علمی، فقہی اور روحانی مسائل کے لئے لوگ آپ سے ہی رجوع کرتے تھے۔ خود خلفائے رسول سیدنا صدیق اکبر، فاروق اعظم اور سیدنا عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کی رائے کو ہمیشہ فوقیت دیتے تھے اور آپ نے ان تینوں خلفاء کے دور میں مفتی اعظم کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ اسی دعا کی تاثیر تھی کہ آپ فہم فراست علم و حکمت اور فکر و تدبر کی ان بلندیو ں پر فائز ہوئے جو انبیائے کے علاوہ کسی شخص کی استطاعت میں ممکن نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک جنت تین آدمیوں کا اشتیاق رکھتی ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ )جامع الترمذي، 5 : 667, 7 : 3797( حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا بے شک جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چار آدمیوں میں میری ذات اور آپ اور حسن و حسین ہوں گے اور ہماری اولاد ہمارے پیچھے ہو گی اور ہمارے پیروکار ہمارے دائیں اور بائیں جانب ہوں گے۔ المعجم الکبير، 3 : 119، ح : 950 حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ اور آپ کی حمایت کرنے والے میرے پاس حوض پر خوشنما چہرے اور سیرابی کی حالت میں آئیں گے ان کے چہرے سفید ہوں گے اور بے شک تیرے دشمن میرے پاس بھوک کی حالت میں بدنما صورت میں آئیں گے۔ المعجم الکبير، 1 : 319 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن و حسین جنت کے جوانوں کے دو سردار ہیں اور ان کے باپ ان دونوں سے بہتر ہیں۔ ابن ماجه، 1 : 44، ح : 118 المستدرک، 3 : 167 حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان کم کی اور نصاریٰ نے بڑھائی اور گمراہی و ہلاکت کے حقدار ٹھہرے اسی طرح میری وجہ سے بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے۔ محب يفرط لي لما ليس في و مبغض مفتر يحمله شناني علي ان يبهتني 1. مسند احمد بن حنبل، 1 : 160 2. المستدرک، 3 : 123 3. مسند ابي لعلي، 1 : 407 4. مجمع الزوائد، 9 : 133

Copy and WIN :
http://ow.ly/KNICZ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مسلمانوں پر حضرت علی(ع) کی ولایت کا بیان ہوا تھا۔ بالکل یہی مفہوم قرآن کریم کی اس آیت کا بھی ہے:اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللهُ وَرَسُوْلُہوَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰةَ وَیُوٴْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَھُمْ رَاکِعُوْنَ۔ تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں۔حضرت ابن عباس، حضرت ابوذر، حضرت انسبن مالک اور حضرت علی(ع) وغیرہ سے ایک روایت مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: مسلمان فقراء میں سے ایک فقیر مسجد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہوا اور بھیک مانگنے لگا۔ اس وقت حضرت علی(ع) نماز میں مشغول تھے۔ سائل کی بات سے امام کا دل پسیجا۔ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے پیچھے اشارہ کیا۔ آپ کی انگلی میں سرخ عقیق یمنی کی ایک انگوٹھی تھی جسے آپ نماز کے دوران پہنتے تھے۔ آپ نے سائل کو اشارہ سے سمجھایا کہ وہ انگوٹھی اتار لے۔ پس اس نے انگوٹھی اتار لی، آپ کے لئے دعا کی اور چلا گیا۔ ابھی کوئی شخص مسجد سے باہر نکلنے نہیں پایا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام خدا کا پیغام: اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ الله لے کر اترے ۲ اور حسان بن ثابت نے اس بارے میں اشعار کہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔قرآن کریم میں ولایت اور اولوالامر کا بیانالف۔ قرآن میں ولایت علی (ع)گزشتہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مسلمانوں پر حضرت علی(ع) کی ولایت کا بیان ہوا تھا۔ بالکل یہی مفہوم قرآن کریم کی اس آیت کا بھی ہے:اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللهُ وَرَسُوْلُہوَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰةَ وَیُوٴْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَھُمْ رَاکِعُوْنَ۔ ۱تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں۔حضرت ابن عباس، حضرت ابوذر، حضرت انسبن مالک اور حضرت علی(ع) وغیرہ سے ایک روایت مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: مسلمان فقراء میں سے ایک فقیر مسجد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہوا اور بھیک مانگنے لگا۔ اس وقت حضرت علی(ع) نماز میں مشغول تھے۔ سائل کی بات سے امام کا دل پسیجا۔ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے پیچھے اشارہ کیا۔ آپ کی انگلی میں سرخ عقیق یمنی کی ایک انگوٹھی تھی جسے آپ نماز کے دوران پہنتے تھے۔ آپ نے سائل کو اشارہ سے سمجھایا کہ وہ انگوٹھی اتار لے۔ پس اس نے انگوٹھی اتار لی، آپ کے لئے دعا کی اور چلا گیا۔ ابھی کوئی شخص مسجد سے باہر نکلنے نہیں پایا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام خدا کا پیغام: اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ الله لے کر اترے ۲ اور حسان بن ثابت نے اس بارے میں اشعار کہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔ابا حسن تفدیک نفسی و مھجتیوکل بطی ء فی الھدی و مسارعفانت الذی اعطیت اذ انت راکعفدتک نفوس القوم یا خیر راکعفانزل فیک الله خیر ولایة فاثبتھا فی محکمات الشرائع ۳اے ابولحسن میری جان اور روح آپ پر فدا ہوں نیز میدان ہدایت کا ہر تندور اور کندور شخص تجھ پر فدا ہوکیونکہ تو ہی تھا جس نے حالت رکوع میں (انگشتری) عطا کی تھی۔ اے بہترین رکوع کرنے والے! تجھ پر ملت کی جانیں قربان ہوں۔ اللہ نے تیری شان میں سب سے بہترین ولایت اتاری اور اس کو قرآن کی محکم آیات میں ہمیشہ کے لئے درج کر لیا۔اس آیت کی دلالت پر اعتراضبعض لوگوں نے مذکورہ روایات کے مفہوم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ سابقہ آیت:وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰةَ وَیُوٴْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَھُمْ رَاکِعُوْنمیں جمع کے صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ پس حضرت علی(ع) کے لئے جو واحد ہیں جمع کا صیغہ استعمال کرنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟یہ اعتراض محض ایک توہم ہے اگر واحد کا صیغہ استعمال کیا جائے اور اس سے مراد جمع لی جائے تو یہ غلط ہے۔ لیکن اس کے برعکس (یعنی لفظ جمع استعمال کر کے واحد کو مراد لینا) درست ہے۔ اس کا استعمال بھی عام اور رائج ہے۔ قرآن کریم میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر سورة منافقین کی یہ آیات ملاحظہ ہوں:اِذَا جَآء َکَ الْمُنٰافِقُوْنَ قَالُوْانَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُللهِ م وَاللهُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہط وَاللهُ یَشْھَدُاِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُوْنَ۴وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُوْلُ اللهِ لَوَّوْارُءُ وْسَھُمْ وَرَاَیْتَھُمْ یَصُدُّوْنَ وَھُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ۔ ۵اور اس کے علاوہہُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْاعَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْاط وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَفْقَھُوْنَO یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّج وَلِلّٰہِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِہوَلِلْمُوٴْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّالْمُنَافِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ ۶طبری نے اس سورة کی تفسیر میں کہا ہے:ان تمام آیات میں مراد عبداللہ بن ابی سلول منافق ہے۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اول سے آخر تک یہ پوری سورہ اتاری ہے اور ہم نے جو کچھ عرض کیا اہل تاویل نے بھی وہی کچھ کہا ہے نیز روایات بھی یہی کہتی ہیں۔سیوطی نے ان آیات کی تفسیر میں ابن عباسسے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:سورہ منافقین میں اللہ نے جتنی بھی آیات اتاری ہیں ان سب میں عبداللہ بن ابی ہی مراد ہے۔۷تفاسیر و سیرت کی کتب کی روشنی میں خلاصہ کلام کچھ یوں ہے:حضرت عمربن خطاب کے غلام صحابی رسول حضرت جہجاہ غفاریکا غزوہ بنی مصطلق کے بعد بنی خزرج کے حلیف سنان جہنی کے ساتھ پانی پر جھگڑا ہوا اور ایک دوسرے سے لڑ پڑے۔ جہنمی نے چلا کر پکارا:اے انصاریو!اور جہجاہ نے پکار کر کہا:اے مہاجرو!یہ دیکھ کر عبداللہ بن ابی اور اس قوم کے چند افراد غضبناک ہو گئے۔ ان لوگوں میں ایک جوان حضر زیدبن ارقم بھی تھے۔ عبداللہ نے کہا:کیا یہ ان لوگوں کا کرتوت ہے؟ ان لوگوں نے ہماری سرزمین کے اندر ہمارے ساتھ نسب اور تعداد میں مقابلہ کیا ہے۔ اللہ کی قسم ہم نے ان قریشی سانپوں کو اپنی آستینوں میں جس طرح پالا ہےاس پر کسی کا یہ قول صادق آتا ہے:اپنے کتے کو موٹا تازہ کرو تاکہ تجھے کھا جائے۔ خبردار رہو اللہ کی قسم اگر ہم واپس مدینہ پہنچ گئے تو عزت و الا، ذلت والے کو ضرور نکال باہر کرے گا۔اس کے بعد اس نے اپنی قوم کے حاضرین کی طرف رخ کیا اور کہا:یہ تمہارے اپنے کرتوت کا نتیجہ ہے۔ تو نے اپنی سرزمین ان کے لئے مباح کر دی۔ ان کے ساتھ اپنے اموال کو تقسیم کیا۔ جان لو اللہ کی قسم ! اگر تم انہیں محروم کر دو ان چیزوں سے جو تمہارے اختیار میں ہیں تو یہ تمہاری سرزمین سے چلے جائیں گے۔یہ بات حضرت زیدبن ارقم نے سنی۔ انہوں نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کی اور آپ(ص) کو اس بات سے مطلع کیا۔ اس وقت حضرت عمربن خطاب وہاں موجود تھے۔ یہ سن کر حضرت عمرخطاب نے کہا :یا رسول اللہ(ص) اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔آپ نے فرمایااس صورت میں یثرب میں کافی خون خرابہ ہو گا۔حضرت عمرنے کہا:یا رسول اللہ(ص)! اگر آپ کو یہ پسند نہیں کہ کوئی مہاجر اسے قتل کرے تو سعدبن معاذ اور سعد بن مسلمہکو حکم دیں کہ وہ دونوں اسے قتل کر دیں۔فرمایا:یہ مجھے پسند نہیں کہ لوگ کہیں: محمد(ص) تو اپنے صحابہ کو قتل کرتا ہے۔پھر عبداللہ بن ابی رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گیا اور قسم کھائی کہ اس قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ اس پر انصار نے حضرت زیدکی ملامت کی اور عبداللہ سے کہا:اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس چلے جاؤ تو وہ تمہارے لئے مغفرت کی دعا کریں گے۔یہ سن کر اس نے اپنا سر پھرا لیا اور کہا:تم لوگوں نے حکم دیا کہ ایمان لے آؤں تو میں ایمان لے آیا۔ پھر تم لوگوں نے مجھے اپنے مال سے زکات دینے کے لئے کہا تو میں نے دے دی۔ اب بس یہی رہ گیا کہ میں محمد(ص) کو سجدہ کروں۔تب اس کے بارے میں مذکورہ سورة نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے قول:ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا ۸یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں: جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر خرچ نہ کرنا یہاں تک کہ یہ بکھر جائیں۔نیز اسی سورہ میں خدا کے قول :وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُوْلُ اللهِ لَوَّوْارُءُ وْسَھُمْ۹اور جب ان سے کہا جائے: آوٴ کہ اللہ کا رسول تمہارے لئے مغفرت مانگے تو وہ سر جھٹک دیتے ہیں۔سے مراد عبداللہ بن ابی ہی ہے۔اس سورة میں عبداللہ بن ابی جو اکیلا بات کر رہا تھا اور واحد تھا اس کے بارے میں اللہتعالیٰ نے جمع کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور فرمایا ہے:ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ۔یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں:نیز فرمایا:وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُوْلُ اللهِ لَوَّوْارُءُ وْسَھُمْ۔اور جب ان سے کہا جائے: آوٴ کہ اللہ کا رسول تمہارے لئے مغفرت مانگے تو وہ سر جھٹک دیتے ہیں۔یہاں بات کرنے والا بھی واحد ہے اور فاعل بھی جیسا کہ اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے اور تمام روایات و احادیث یہی کہتی ہیں۔ ہم نے اسے فقط بطور مثال پیش کیا ہے ورنہ اس کی مثالیں قرآن مجید میں فراوان ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:وَمِنْھُمُ الَّذِیْنَ یُوٴْذُوْنَ النَّبِیَّ وَیَقُوْلُوْنَ ھُوَ اُذُنٌ۔ ۱۰اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نبی(ص) کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ کانوں کے کچے ہیں۔نیز یہ ارشاد :اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ ۱۱جب کچھ لوگوں نے ان (مومنین) سے کہا: لوگ تمہارے خلاف جمع ہوئے ہیں۔اور قرآن کی یہ آیت:یَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍ۔وہ کہتے تھے کہ کیا ہمیں بھی کچھ ملے گا؟ان آیات میں اور اس قسم کی دیگر آیتوں میں جمع کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جبکہ ان سے مراد واحد ہیں۔ قرآن میں اس کی مثالیں وافر ہیں۔-----------------------------------------------------------------------حوالہ جات۱ سورة المائدہ۔ آیت ۵۵۲ تفسیر طبری ج۶ صفحہ ۱۸۶، اسباب النزول للواحدی صفحہ ۱۳۳، شواھد التنزیل ج۱ صفحہ ۲۶۱، ۱۶۴، انساب الاشراف بلاذری صفحہ ۲۲۵ ج۱، غرایب القرآن نیشاپوری بر حاشیہ تفسیر طبری ج۶ صفحہ ۱۶۷، تفسیر در منثور ج۲ صفحہ ۲۹۳۔۳ کفایة الطالب باب ۶۱ صفحہ ۲۲۸، البدایہ والنہایہ ج۷ صفحہ ۳۵۷۴ سورة منافقون آیت ۱ ۵ سورة منافقون آیت ۵۶ سورة منافقون آیات ۷۔۸ ۷ تفسیر ابن جریر طبری ج۲۸ صفحہ ۲۷۰، در منثور ج۶ صفحہ ۲۲۳۸ سورة منافقون آیت ۷ ۹ سورہ منافقون آیت نمبر ۵ ۱۰ سورة التوبہ آیت ۶۱۱۱ سورہ آل عمران آیت ۱۷۳
 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)


پیرو، اس پر بات ہو چکی ہے، لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون
یاد ہے پیرو، آپ نے وہاں اپنے سعادت مند مرید پر فتویٰ بھی داغا تھا
جس پر آپ نے اس نا خلف مرید نے فرمائش کی تھی

وضاحت کیجیے اور اجر پائیے

آج تک اس وضاحت کا انتظار کر رہا ہوں

ویسے یہ کافر ہونا بھی کیا سعادت ہے یعنی جب سیدہ کائنات کے بیٹے کافر، مولا علی جو قسیم جنت و نار ہیں ، ان کے بیٹے بھی کافر، تو پھر مجھے کافر ہونے کو کس کافر نے روکا ہے؟

ہیں جی



.....................
 

sameer

MPA (400+ posts)


Thank you Sameer Bhai
Now there will be no answer but questions
(Please change your font to Ariel, if you can)

چند دن پہلے فونٹ انسٹال کیا ہے، کوشش جاری ہے سیکھنے کی
بس یہ یاد رکھیے گا، قیاس ان کے ہاں رائج نہیں، مسئلہ نص سے ثابت کریں
کم از کم اپنے بنائے اصول تو قائم رکھیں، اور یہ بھی بدعت ان کے ہاں بھی حرام ہیں
تو ذرا کسی امام سے یہ ثابت تو کریں کہ ماتم کس امام نے کیا؟
اگر نہیں کیا تو کیوں نہیں کیا؟
اگر یہ کرتے ہیں تو کس اصول کے تحت کرے ہیں
اسی طرح عید غدیر خم بھی ہے، کس امام نے منائی
نہیں منائی تو کیوں نہیں منائی

یاد رہے قیاس نہیں، نص
 
Last edited:
Status
Not open for further replies.

Back
Top