حامل قرآن امت

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
quran-book.png


محمد سمیع

صاحب قرآن احمد مجتبیٰ محمد مصطفیpbuh نے اپنی حامل قرآن امت سے فرمایا تھا’’اے اہل قرآن! قرآن کو بس اپنا تکیہ نہ بنالو،بلکہ دن اور رات کے اوقات میں اس کی تلاوت کیا کرو جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے اور اس کو (چار دانگ عالم میں) پھیلائو اور اس کو خوش الحانی سے حظ لیتے ہوئے پڑھا کرو اور اس پر غور و فکر کیا کرو تاکہ فلاح پائو۔‘‘ ہم نے سب سے پہلے یہ کیا کہ جس پیار ے خطاب سے حضورpbuhنے ہمیں نوازا تھا اسے ایسے مخصوص گروہ پر چسپاں کردیا جس کو ہم عرف عام میں منکرین حدیث کہتے ہیں ۔ہمارا یہ فیصلہ افسوسناک ہی نہیں حیرتناک بھی ہے کہ ہم انہیں اہل قرآن کہہ کر پکاریں جو کہتے ہیں کہ اللہ کی کتاب (قرآن) ہی ہمارے لیے کافی ہے اور جو سنن و احادیث کو قرآن فہمی کے لیے ناگزیر نہیں سمجھتے بلکہ ان کی اہمیت کی تخفیف کی ناکام کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ہم نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ قرآن کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تکیہ یعنی سہارا بنالیا۔ ہاں ہم قرآن کی تلاوت تو ضرور کرتے ہیں لیکن اس طرح نہیں جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے۔ تلاوت کے معنی پیچھے پیچھے آنے یعنی پیروی کرنے کے ہیں اور قرآن کی تلاوت کا حق اس وقت ادا ہوگا جب ہم ان آیات میں بیان کردہ احکام کی پیروی کریں۔لیکن مسلمانو ں کی اکثریت قرآن کی ناظرہ تعلیم تو حاصل کرلیتی ہے لیکن جن آیات کی تلاوت کرتی ہے اس کا مفہوم نہیں سمجھتی کیونکہ وہ عربی زبان سے نابلد ہے ۔ ہمیں حضورpbuh کی وہ حدیث مبارکہ تو ازبر کرادی گئی ہے جس کے مطابق قرآن کے ہر حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ ہم نے بس اس حدیث مبارکہ پر تکیہ کرلیا اور تلاوت کو اپنے لیے حصول ثواب اور اپنے مرحومین کے لیے ایصال ثواب کا ذریعہ بنالیا۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اس حدیث مبارکہ سے واقف ہیں جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ قرآن یا تو آخرت میں ہمارے حق میں حجت بنے گا (اگر ہم نے اپنی دنیوی زندگی میں اس کے احکام کی پیروی کی ہے) یا ہمارے خلاف حجت بنے گا (اگر ہم نے دنیوی زندگی میں اس کے احکام پر عمل سے اعراض کیا)۔یہ معاملہ صرف افراد تک محدود نہیں بلکہ افراد کے مجموعے یعنی قوم کے لیے بھی ہے۔ ایک اور حدیث مبارکہ کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن ) کے ذریعے (اس کے احکام پر عمل کے نتیجے میں)قوموں کو عروج بخشے گااور (اس کے احکام پر عمل سے اعراض کے نتیجے میں) قوموں کو رسوا کرے گا۔ امت مسلمہ کے دور عروج کی تاریخ پڑھ جائیے اور آج کی امت مسلمہ کے حال پر نظر ڈال لیجئے ، آپ پر اس حدیث مبارکہ کی حقانیت واضح ہوجائے گی۔ذرا غور فرمائیں۔جس قوم میں ایسے لوگ حکمراں ہوں جنہیں یہ نہیں معلوم کہ قرآن تیس پاروں پر مشتمل ہے یا چالیس پاروں پر اور ایسے بھی ہیں جو سورۃ الاخلاص کی درست تلا وت نہیں کرسکتے وہ اگر مختلف نوعیت کے عذاب سے گزاری جارہی ہو تو اس میں حیرت کیا ہے۔ہم قرآن کو خوش الحانی کے ساتھ حظ لے کر اس وقت پڑھیں جب ہمیں معلوم ہو اطمینا ن قلب تو صرف اللہ کے ذکر میں ہے اور قرآن خود الذکر ہے۔ قرآنی غنا سے ہم نابلد لوگ تو اس پر یقین رکھتے ہیں کہ ہماری روح کی غذا موسیقی ہے۔ لہٰذا ہم موسیقی کو حظ لے کر بلکہ اس میں ڈوب کر سنتے ہیں۔جب قرآن سے ہمارے تعلق کا یہ حال ہے تو اس پر غور و فکر کامرحلہ کب آسکتا ہے اور اس کے چاردانگ عالم میں پھیلانے کا فریضہ ہم کیسے انجام دے سکتے ہیں۔ہم نے تو یہ کام چند مخصوص طبقات کے لیے چھوڑ رکھا ہے حالانکہ قرآن صرف انہی کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک کے عالم انسانیت کے لیے ہدایت بن کر نازل ہوا ہے اور آج بھی اس کے مطالعے اور اس پر غور و فکر کے نتیجے میں غیر مسلم بڑی تعداد میں اسلام قبول کررہے ہیں۔ قرآن دنیا کی ایسی کتاب ہے جو سب سے زیادہ تلاوت کی جاتی ہے بلکہ بار بار تلاوت کی جاتی ہے لیکن تلاوت کرنے والوں کی اکثریت اس کو سمجھ نہیں سکتی ۔ یہ تو قرآن کا اعجاز ہے کہ اس کے باوجود کہ اس کی تلاوت بغیر سمجھے کی جاتی ہے ،پڑھنے والوں کو اس سے کچھ نہ کچھ فیض حاصل ہوہی جاتا ہے۔ اس کتاب پر ایک بہت بڑا ظلم یہ ہے کہ اپنے دنیوی مفاد کے لیے اس کی قسم کھائی جاتی ہے۔ اور جب ایسا فرداس کی قسم کھانا شروع کردے جس کی اہلیہ شہد شاہد من اہلہا کے مصداق یہ گواہی دے کہ میرے شوہر میں سب سے بری بات یہ ہے کہ وہ جھوٹ بہت بولتے ہیںتو اندازہ لگائیں کہ یہ اس کتاب کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہے۔ہمارے ہاں رائج سیاست میں بہت ساری خرابیاں ہیںاور سیاسی میدان کے کھلاڑی خواہ وہ مسٹر ہوں یا مولانا ، خواہ جبہ و دستار زیب تن کرنے والے ہوں یا لاکھوں کے سوٹ پہننے والے،کوئی بھی ان خرابیوں میں ملوث ہونے سے بچا ہوا نہیں۔ یہ چلن جو حال ہی میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے شروع ہوکر ریاض ملک تک پہنچاہے اور آگے نہ جانے کس کس تک پہنچے ، اس کے بارے میں قرآن ہی کے الفاظ میں قسم کھانے والوں سے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ فھل انتم منتہون یعنی باز آتے ہویا نہیں ؟ اگر لوگ باز نہیں آتے تو عام مظلوموں کی فریاد تو رائیگاں نہیں جاتی ، قرآن کی فریاد کس طرح رائیگا ں جاسکتی ہے ۔ مظلوموں کی فریادوں کے نتیجے میں وطن عزیز مختلف النوع عذاب میں آئے دن مبتلا رہتا ہے اور اب بھی ہے ، قرآن کی فریاد کے نتیجے میں اس کا کیا بنے گا اس کا تصور ہی محال ہے۔ مولانا ماہر القادری مرحوم نے اپنی نظم ’’قرآن کی فریاد ‘‘ ان الفاظ میں بیان کی تھی جب قول و قسم لینے کے لیے تکرار کی نوبت آتی ہے پھر میری ضرورت پڑتی ہے ہاتھوں میں اٹھایا جاتا ہوں آج قرآن کے ساتھ جتنے نوع کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں تقریباً سب کا احاطہ اس نظم میں کیا گیا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ آج ہمارے پیش نظر محض دنیا اور اس کی فلاح ہے۔ آخرت کا تصور تو ہمارے ذہنوں سے اوجھل ہوچکا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم دنیوی فلاح کے حصول کے لیے قرآن کو استعمال کرنے میں بھی نہیں چوکتے۔ کاش کہ ہمارا آخرت پر ایمان یقین کی صورت میں ڈھل جائے۔

 
Last edited:

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
I think this is result of our ignorance that we have ended up divided and lost when it comes to islam and quran. People have become enslaved by personalities rather than main rules and principles of wisdom and understanding that free humanity from all sorts of problems.

It is like some one solves a mathematical problem and people memorise the solution and the person who solved the problem but pay no attention to the formula or the method the person used to do that.

When that happens people have nothing solid to fall back on to see the basis for themselves or to find any way to commonality.

We did the same in case of islam ie quran means this because so and so said it means this and have no proof for it other than the word of a chain of reporters. Not only that but what we are told most of the time is actually anti reality so we end up with all sorts of nonsense explanations to try to justify that in the face of reality which we in actual fact cannot so we end up with make beliefs.

That is how we arrive at the notion that whatever we believe is correct but the reality before our very eyes can be wrong. Thus we lose sense of reference altogether and keep on arguing without any end in sight.

The real question therefore is, have we discovered the formula that works so that we could use that as basis to interpret the quran and hadith? Once we think about it and work on it then we will get all things right. Till then people can argue all they like but they will not have any solid foundation to base their ideas upon so they will remain incomplete and unstable in confusion and chaos.

It is the very problem which people do not realise that there is no point in arguing over things if you do not accept proof and proving as basis to start with. If you accept proof and proving then you cannot believe things unless you have some proof for them. So make beliefs and proofs do not go together because one contradicts the other.

So long as our beliefs contradict real world universal laws, we are doomed to self destruction no matter how much we call on help of Allah, divisions will only go when we start educating ourselves and think things through critically and find basis for them that work.

This is why we cannot trust our translations and explanations of the quran or for that matter of the ahadith. Just as a formula is foundation for solving any math related problems so formulas are absolutely necessary for solving quran and hadith problems for proper understanding of islam.

Our wrong approach to quran and hadith had only given us bad name through out the world if we care to look around.

This ummah has condemned the very people who tried to put it back on track in various ways instead of supporting them and supported those instead who were actually responsible for this situation in the first place.

Ignorance is not not having the information but not having the information in a methodically or systematically organised way that makes sense. Wisdom is all about knowing things methodically and systematically so that they make sense and when put in to place in reality work properly. proof means saboot=completeness=saabat. Nothing is complete unless it works and not just works but fulfils the purpose it is supposed to serve.

The quran and hadith are useless unless we understand them for their set out purpose and when we realise their purpose or goal and interpret them the way we should then and only then they will serve the purpose and that will prove we have interpreted the scriptures for the purpose they were supposed to serve.

The purpose of the quran is to give us a manifesto and a constitution that when we build our human society upon gives us the humans the peace and prosperity.

Islam is the set goal for which the quran is revealed and this goal can only be served once we implement it properly and we can never do that unless we first open the quran and understand it for that purpose.

Unfortunately we have given the quran our self made purposes to serve and that is what we use it for eg to get our dead forgiven for their sins rather than making this world a secure place for our own good. We forget the living and remember him/her once one is dead. This is nothing less than diverting the quran from its set out purpose.
 

Back
Top