منہ زور کی کبھی نہ چھپ سکنے والی کتاب ،، نوجوانان شرستان،،سے ایک صفحہ
بھائی جاوید چودہری
محترم جاوید چودہری، ٹاک شوز کی ،،مال پکڑ،، دنیا میں ایک معتبر کارندے یعنی اینکر کے کے نام سے پہچانے جاتےہیں
،اینکر انگریزی زبان کا لفظ ہے،یہ بڑے بڑے جہازوں کو سمندر کی موجوں کےتھپڑوں سے بچا کر ایک جگہ قائم رہنے میں مدد دیتا ہے،چونکہ ٹاک شو کےکچھ میزبان،قوم کے بیشتر غاصبوں کو قوم سے بچا کرانہیں اقتدار پر قابض رہنے میں مدد دیتے ہیں ،اسلئے انہیں اینکر کہا جاتا ہے
محترم جناب چودہری صاحب کی زندگی،نوجوانوں کیلئے ایک مثال ہےآپ نےدیکھتے دیکھتے ایک مقام پاکر ملک کے سسکتے،بلکتے میرٹ کی دہائیاں دیتے ہوئے نوجوانوں کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ
،،،، اگر انسان میں لگن ہو،اگر انسان میں محنت ہو،کام کے انسان کی پہچان ہو،اوراگراسے کام کے آدمی کو پکڑ کر لٹک جانے کا فن آتا ہو،ہزار دکھے ہزار جوتے کھا کر بھی کام کے انسان سے چپکا رہنے کی ہمت ہو، تو بندہ پنڈ کی کوٹھری سے بحریہ ٹاؤن کی کوٹھی تک پہونچ ہی جاتا ہے
ایوب کی آمریت آخری ہچکیا ں لے رہی تھی، ہزاروں ٹوٹکوں اور عمل یات کے باوجودجان نکل کے نہیں دے رہی تھی،67کی آخری رات تھی،یعنی 31 دسمبر،نیو ایرنائیٹ منانے والوں کے علاوہ جو لوگ تھے،وہ بے چینی سے کروٹیں بدل رہے تھے،امن آسائش کے جو دن ایوب کی حکومت نے ملک کے سر ڈال دئے تھے اسے کوس رہے تھے،کہ اچانک قوم کے دن بدلنے کی نوید ملی، لالہ موسیٰ کے قریب کسی گاؤں میں جناب چودہری صاحب کی ولادت با سعادت ظہور پذیر ہوئی،،ہر طرف شادیانے تو نہ بج سکے،مگر گڑچاول پکا کر بانٹ دئے گئے، چونکہ قائداعظم کے کوئی بیٹا نہیں تھا،،اسلئے علامہ اقبال کے فرزند کے نام پر انکا نام ، جاوید،،یعنی جوید رکھدیا گیا،
شیر خواری کے وقتوں میں آپ مٹیالے سے رنگ ایک ننھے منے بچے جیسے تھے،مگر وہی بات کہ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظرآجاتے ہیں،سیانوں کو شروع سے ہی دیکھ کر اندازہ ہوچکا تھا، کہ یہ بچہ پنڈ کی معصوم،سیدھی سادی،سچی اور چھل کپٹ سے پاک زندگی سے اوپر کی چیز ہے،یہ بڑا ہوکر ضرور باالضرور یا تو خود کچھ بنے گا، یا پھر لوگوں کو بنائے گا،او واقعی بہت جلد یعنی لڑکپن میں ہی آپ نے بزرگوں کے قیافے کو سچ ثابت کرنا شروع کردیا
کم سنی سے ہی آپکی طبعیت میں اچھے کی طرف ،،لپک اور جیب دیکھ کر پکڑ کا میلان ،،نمایاں طور پر شخصیت کا حصہ نظرآتا ہے،،عام طور سے اس بچے کے ساتھ کھیلتے نظرآتے جس کی جیب میں ٹافی ہوتی، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ عادت ایسی پختہ ثابت ہوئی کہ ،،جوانی سے ہوتے ہوئے بڑھاپے
میں پہونچ گئے مگر عادت نہ چھوٹ کے دی
لڑکپن میں بات کا غلط جواب دینا اور وہ بھی منہ در منہ ،اور معقول بات کو توڑ مڑوڑ کر مشرق کی بات مغرب میں لےجانا ،،آپکی دوسری بڑی صلاحیت تھی،جسکی وجہ سے بعد میں ٹاک شوز میں نمایاں کامیاب رہے
مثلا" گلی ڈنڈا کھیل کر واپسی پر اگر گھر کا کوئی بڑا،پوچھتا،،،اؤئے جیدے، کدھر تھا توں،آپ ترنت جواب دیتے،،کہیں نہیں جی، میں تو ادھر ہی تھا
کوئی پوچھتا،،جیدے ادر گڑ رکھا تھا کدر گیا؟جواب آتا مجھے کیا پتہ ابا سے پوچھو،
اب ظاہر گھریلو،،ٹاک شو ،، میں ابا سے پوچھنے کی کس کو ہمت ہوتی ہے
باقی آئیندہ،
بھائی جاوید چودہری
محترم جاوید چودہری، ٹاک شوز کی ،،مال پکڑ،، دنیا میں ایک معتبر کارندے یعنی اینکر کے کے نام سے پہچانے جاتےہیں
،اینکر انگریزی زبان کا لفظ ہے،یہ بڑے بڑے جہازوں کو سمندر کی موجوں کےتھپڑوں سے بچا کر ایک جگہ قائم رہنے میں مدد دیتا ہے،چونکہ ٹاک شو کےکچھ میزبان،قوم کے بیشتر غاصبوں کو قوم سے بچا کرانہیں اقتدار پر قابض رہنے میں مدد دیتے ہیں ،اسلئے انہیں اینکر کہا جاتا ہے
محترم جناب چودہری صاحب کی زندگی،نوجوانوں کیلئے ایک مثال ہےآپ نےدیکھتے دیکھتے ایک مقام پاکر ملک کے سسکتے،بلکتے میرٹ کی دہائیاں دیتے ہوئے نوجوانوں کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ
،،،، اگر انسان میں لگن ہو،اگر انسان میں محنت ہو،کام کے انسان کی پہچان ہو،اوراگراسے کام کے آدمی کو پکڑ کر لٹک جانے کا فن آتا ہو،ہزار دکھے ہزار جوتے کھا کر بھی کام کے انسان سے چپکا رہنے کی ہمت ہو، تو بندہ پنڈ کی کوٹھری سے بحریہ ٹاؤن کی کوٹھی تک پہونچ ہی جاتا ہے
ایوب کی آمریت آخری ہچکیا ں لے رہی تھی، ہزاروں ٹوٹکوں اور عمل یات کے باوجودجان نکل کے نہیں دے رہی تھی،67کی آخری رات تھی،یعنی 31 دسمبر،نیو ایرنائیٹ منانے والوں کے علاوہ جو لوگ تھے،وہ بے چینی سے کروٹیں بدل رہے تھے،امن آسائش کے جو دن ایوب کی حکومت نے ملک کے سر ڈال دئے تھے اسے کوس رہے تھے،کہ اچانک قوم کے دن بدلنے کی نوید ملی، لالہ موسیٰ کے قریب کسی گاؤں میں جناب چودہری صاحب کی ولادت با سعادت ظہور پذیر ہوئی،،ہر طرف شادیانے تو نہ بج سکے،مگر گڑچاول پکا کر بانٹ دئے گئے، چونکہ قائداعظم کے کوئی بیٹا نہیں تھا،،اسلئے علامہ اقبال کے فرزند کے نام پر انکا نام ، جاوید،،یعنی جوید رکھدیا گیا،
شیر خواری کے وقتوں میں آپ مٹیالے سے رنگ ایک ننھے منے بچے جیسے تھے،مگر وہی بات کہ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظرآجاتے ہیں،سیانوں کو شروع سے ہی دیکھ کر اندازہ ہوچکا تھا، کہ یہ بچہ پنڈ کی معصوم،سیدھی سادی،سچی اور چھل کپٹ سے پاک زندگی سے اوپر کی چیز ہے،یہ بڑا ہوکر ضرور باالضرور یا تو خود کچھ بنے گا، یا پھر لوگوں کو بنائے گا،او واقعی بہت جلد یعنی لڑکپن میں ہی آپ نے بزرگوں کے قیافے کو سچ ثابت کرنا شروع کردیا
کم سنی سے ہی آپکی طبعیت میں اچھے کی طرف ،،لپک اور جیب دیکھ کر پکڑ کا میلان ،،نمایاں طور پر شخصیت کا حصہ نظرآتا ہے،،عام طور سے اس بچے کے ساتھ کھیلتے نظرآتے جس کی جیب میں ٹافی ہوتی، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ عادت ایسی پختہ ثابت ہوئی کہ ،،جوانی سے ہوتے ہوئے بڑھاپے
میں پہونچ گئے مگر عادت نہ چھوٹ کے دی
لڑکپن میں بات کا غلط جواب دینا اور وہ بھی منہ در منہ ،اور معقول بات کو توڑ مڑوڑ کر مشرق کی بات مغرب میں لےجانا ،،آپکی دوسری بڑی صلاحیت تھی،جسکی وجہ سے بعد میں ٹاک شوز میں نمایاں کامیاب رہے
مثلا" گلی ڈنڈا کھیل کر واپسی پر اگر گھر کا کوئی بڑا،پوچھتا،،،اؤئے جیدے، کدھر تھا توں،آپ ترنت جواب دیتے،،کہیں نہیں جی، میں تو ادھر ہی تھا
کوئی پوچھتا،،جیدے ادر گڑ رکھا تھا کدر گیا؟جواب آتا مجھے کیا پتہ ابا سے پوچھو،
اب ظاہر گھریلو،،ٹاک شو ،، میں ابا سے پوچھنے کی کس کو ہمت ہوتی ہے
باقی آئیندہ،