محترم چیئرمین پاکستان تحریک انصاف
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
کھیل کے میدان سے سیاست کے میدان تک آپ کا سفر، جہاں خوشگوار یادیں بکھیرتا آیا، وہاں جہد مسلسل کی ایک تاریخ ہے۔ مگر گزشتہ دو سالوں میں آپ کی مسلسل تگ و دو کا ثمر آپ کی جھولی میں آگرا اور بالاخر پرانے چہروں سے مایو س پاکستان کے غیور طلبہ سیاسی مک مکا کیخلاف آپ کی قوت بن گئے۔ آپ کے وعدوں میں انہیں پیام صبح نو ملا، اور
مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی ایک کرن بن کر آپ ابھرے۔
مینار پاکستان میں آپ کے جلسے سے جس تگ و دو کا آغاز ہوا وہ پھر شہر شہر سونامی بنتا گیا۔ ہمیں آپ کے جلسوں میں نوجوانوں کے سونامی کے نظارے کبھی بھول نہیں پائیں گے۔آپ کے ملک گیر مہم کے نتیجے میں وہ نوجوان جو کبھی اپنے پڑوس کے مسائل کیلئے نہیں نکلتے ملکی اور قومی فکر کیلئے تبدیلی رضاکار بنتے گئے۔ کارواں مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ پھر گیارہ مئی کا دن آیا۔ اور تاریخ میں پہلی دفعہ کروڑوں لوگوں نے انقلابی جذبے سے سرشار ہوکر پولنگ سٹیشنز کی جانب رخ کیا۔ اس دن تبدیلی کے دو نشان تھے ایک وہ جو دھرنا دیکر نظام مسترد کیے بیٹھے تھے اور دوسرے وہ جو اپنا حق پہلی دفعہ نئی قیادت اور نئے پاکستان کیلئے استعمال کرنے نکلے تھے۔ دن کو جس سے پوچھا گیا کہ ووٹ کس کا۔۔ جواب ایک ہی تھا عمران خان کا۔۔۔ مگر وہ شام کے سائے نوجوانوں کی امیدوں پر پژمردگی چھوڑتے تاریکی بڑھاتے پھیلتے گئے۔جیسے کسی طلسمی چھڑی سے الیکشن کے رزلٹ کی کایا پلٹ دی گئی ہو۔نئے پاکستان کا خواب فرسودہ نظام کی نذر ہوگیا۔۔۔
جناب چیئرمین ۔ بارہ مئی کا سورج نکلا اور اس دن سے آج تک قوم کو ایک بات ہی سمجھ آئی جس کا اظہار اسمبلی کے پہلے خطاب میں، نیوز کانفرنسز اور ٹی وی پرگراموں میں بھی آپ نے کیا۔ آپ کا الیکشن کے بعد مقبول ترین جملہ ایک ہی رہا ”طاہر القادری ٹھیک کہتے تھے“۔۔
جی ہاں جو 23دسمبر کو عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے عوامی استقبال پر سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا نعرہ لیے اٹھے اور لانگ مارچ کے صبح و شام اذان دیتے رہے۔ آپ کو پکارتے رہے۔ وہ پنجاب کے بڑے شہروں میں جلسوں کے اندر صدا لگاتے رہے اور جو رونا آپ نے اور ہر ایک محب وطن نے رویا اس کی قبل از وقت بشارتیں دیتے رہے۔ گویا آپ کے بار بار اظہار نے طاہر القادری کے کہے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ مگر میں حیران ہوں کہ آپ پھر منی الیکشن کا حصہ بنے جو اس دھاندلی کے بدترین نظام کے تحت ہوا۔
جناب والا!! مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ ڈسا نہیں جاتا۔ اور وقتی اور معروضی حالات سے اپنا فائدہ اٹھانے والوں کو تاریخ نے ابن الوقت کا خطاب دیا۔ قائد وہ ہوتا ہے جو قوم کی رہنمائی کرے اور قوم کی حقیقی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دے۔آپ صاحب الشعور ہیں اور موجودہ نظام کو آزما کے آپ دیکھ چکے ہیں اب گھڑی فیصلے کی ہے۔۔ یہ گھڑی محشر کی ہے اور آپ اور ہم عرصہ محشر میں ہیں دیکھنا یہ ہے کہ آپ کے دفتر میں وعدوں کی پاسداری کتنی ہے، آپ کے مزاج میں سمجھداری کتنی ہے اور قوم سے وفاداری کتنی ہے۔۔۔
مئی سے آج تک آپ کی شخصیت آپ کے فیصلوں کے برعکس نظر آئی۔ عوام اور کروڑوں نوجوان آپکے ساتھ ہیں خود کو نظام کی زنجیروں سے آزاد کرا کے قوم کے نوجوانوں کو مایوسی سے نکالیں اور ظالمانہ نظام کیخلاف ایک نئی جدوجہد کا آغاز کریں۔ گزارش ہے کہ نظام کا قیدی بننے کے بجائے ضمیر کا قیدی بنیں۔ آپ کی فتح آپ کے ضمیر کی فتح میں مضمر ہیں۔