سابقہ ریٹائیرڈ چیف جسٹس آف پاکستان جناب " میاں ثاقب نثار صاحب کہاں مصروف بیٹھے زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں،آجکل سلجھتے پاکستانی قومی نوعیت کے مقدمات کو الجھتا دیکھ کر جو سلجھتے محسوس ہورہے تھے نہ جانے کیوں ان کی پیچیدگی کو دیکھ کر مجھے ثاقب نثار کے دور کی یاد آجاتی ہے
مثلا موصوف نے کس کمال ہوشیاری سے اپنے آخری مدت ملازمت کے دور کو انگلینڈ میں بیٹھ کر اپنی بیٹی کو تعلیمی اسناد دلانے کو مشکلات میں پھنسی پاکستانی نیا کو اس بھنور سے نکالنے پر اپنی بیٹی کے امتحان کو ترجیح دیکر دراصل اپنی ملازمتی مدت کے توسیع کرانے پر کس خوبصورتی سے ساری قوم کی خواہشات پر پانی پھیرا تھا کہ یہ بے وقوف نہ سمجھ پائے۔
وہی بچا کچا پانی پھر " ڈیم " بنانے کے نعرے سے اپنی مدت ملازمت کا رہا سہا باقی ماندہ وقت اس ڈرامے میں گزار کر اپنی پینشن سید ہی کی اور شاید آجکل موصوف ان جمع شدہ نوٹوں کو گھر بیٹھے گنتے بیان آخر فرما رہے تھے کہ" ڈیم " اس طرح چندوں سے نہیں بنتے بلکہ "فُول " بنتے ہیں، اللہ ہمیں ان ذہین بیان دینے والوں کو سمجھنے کا شعور عطا فرمائے۔
مثلا موصوف نے کس کمال ہوشیاری سے اپنے آخری مدت ملازمت کے دور کو انگلینڈ میں بیٹھ کر اپنی بیٹی کو تعلیمی اسناد دلانے کو مشکلات میں پھنسی پاکستانی نیا کو اس بھنور سے نکالنے پر اپنی بیٹی کے امتحان کو ترجیح دیکر دراصل اپنی ملازمتی مدت کے توسیع کرانے پر کس خوبصورتی سے ساری قوم کی خواہشات پر پانی پھیرا تھا کہ یہ بے وقوف نہ سمجھ پائے۔
وہی بچا کچا پانی پھر " ڈیم " بنانے کے نعرے سے اپنی مدت ملازمت کا رہا سہا باقی ماندہ وقت اس ڈرامے میں گزار کر اپنی پینشن سید ہی کی اور شاید آجکل موصوف ان جمع شدہ نوٹوں کو گھر بیٹھے گنتے بیان آخر فرما رہے تھے کہ" ڈیم " اس طرح چندوں سے نہیں بنتے بلکہ "فُول " بنتے ہیں، اللہ ہمیں ان ذہین بیان دینے والوں کو سمجھنے کا شعور عطا فرمائے۔