Afraheem
Senator (1k+ posts)
کئی سال پہلے ڈسکوری چینل پر جاپان کے ایک ائیرپورٹ پربنائی گئی ایک ڈاکومنٹری دیکھی تھی۔ وہ ائیرپورٹ سمندر کے اوپر بنایا گیا تھا اور اس مقصد کیلئے سمندر کا وہ حصہ پتھر اور مٹی سے بھرا گیا تھا۔ اس پراسیس کو ری کلیم کرنا بھی کہتے ہیں۔ وہ ائیرپورٹ تعمیر ہوگیا اور آرکیٹیکچر کے اعتبار سے ہر طرح سے انٹرنیشنل سٹینڈرڈز کے مطابق تھا لیکن پھر بھی جاپانیوں کی تسلی نہ ہوئی اور انہوں نے ائیرپورٹ کے مختلف مقامات کو مانیٹر کرنے کیلئے خصوصی آلات تنصیب کردیئے.
چند سالوں بعدان آلات کے ذریعے حاصل ہونے والی انفارمیشن سے پتہ چلا کہ ائیرپورٹ کا ایک حصہ نیچے کو دھنس رھا ھے اور اس دھنسنے کی رفتارسالانہ دو ملی میٹریا اس سے بھی کم تھی۔ کوئی اور ملک ہوتا تو اسے نظرانداز کردیتا لیکن جاپانیوں کو کون سمجھائے۔ انہوں نے اس خرابی کو دور کرنے کیلئے خاص قسم کے جیک بنالئے جو بالکل وہی کام کرتے تھے جو گاڑی اٹھانے والے جیک کرتے ہیں۔فرق صرف اتنا تھا کہ یہ جیک آٹومیٹڈ تھے اور ہر وقت زمین سے چھت تک کا فاصلہ مانیٹر کرتے رہتےتھے۔ جونہی زمین نیچے دھنستی، یہ جیک ایک خودکار نظام کے تحت اسی لمبائی کے مطابق کھل جاتے اور زمین اور چھت کے درمیان ستون کا کام دے دیتے۔ کہا جاتا ھے کہ اس ٹیکنالوجی کی بدولت وہ ائیرپورٹ کئی دہائیوں تک بغیر کسی نقصان کے اپنا سٹرکچر برقرار رکھ سکتا ھے۔
یہ تو تھا وہ ملک جو دوسری جنگ عظیم میں ایٹمی حملے کے بعد مکمل تباہ ہوگیا تھا۔
اب آجائیں پاکستان، جہاں ہر سال مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں اور ہمیں ہرسال پتہ ہوتا ھے کہ اس دفعہ سیلاب آئے گا لیکن مجال ھے کہ ہم کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی کرکے اربوں روپے کی مالی اور سینکڑوں کی تعداد میں ہونے والے جانی نقصان سے بچ جائیں۔
ایسی جمہوریت کا ہم نے اچار ڈالنا ھے جو سیلاب کے نقصان کو ختم نہ سہی، اس کی شدت ہی کم کردے؟ بے غیرتی سی بے غیرتی هے.
بقلم خود باباکوڈا
چند سالوں بعدان آلات کے ذریعے حاصل ہونے والی انفارمیشن سے پتہ چلا کہ ائیرپورٹ کا ایک حصہ نیچے کو دھنس رھا ھے اور اس دھنسنے کی رفتارسالانہ دو ملی میٹریا اس سے بھی کم تھی۔ کوئی اور ملک ہوتا تو اسے نظرانداز کردیتا لیکن جاپانیوں کو کون سمجھائے۔ انہوں نے اس خرابی کو دور کرنے کیلئے خاص قسم کے جیک بنالئے جو بالکل وہی کام کرتے تھے جو گاڑی اٹھانے والے جیک کرتے ہیں۔فرق صرف اتنا تھا کہ یہ جیک آٹومیٹڈ تھے اور ہر وقت زمین سے چھت تک کا فاصلہ مانیٹر کرتے رہتےتھے۔ جونہی زمین نیچے دھنستی، یہ جیک ایک خودکار نظام کے تحت اسی لمبائی کے مطابق کھل جاتے اور زمین اور چھت کے درمیان ستون کا کام دے دیتے۔ کہا جاتا ھے کہ اس ٹیکنالوجی کی بدولت وہ ائیرپورٹ کئی دہائیوں تک بغیر کسی نقصان کے اپنا سٹرکچر برقرار رکھ سکتا ھے۔
یہ تو تھا وہ ملک جو دوسری جنگ عظیم میں ایٹمی حملے کے بعد مکمل تباہ ہوگیا تھا۔
اب آجائیں پاکستان، جہاں ہر سال مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں اور ہمیں ہرسال پتہ ہوتا ھے کہ اس دفعہ سیلاب آئے گا لیکن مجال ھے کہ ہم کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی کرکے اربوں روپے کی مالی اور سینکڑوں کی تعداد میں ہونے والے جانی نقصان سے بچ جائیں۔
ایسی جمہوریت کا ہم نے اچار ڈالنا ھے جو سیلاب کے نقصان کو ختم نہ سہی، اس کی شدت ہی کم کردے؟ بے غیرتی سی بے غیرتی هے.
بقلم خود باباکوڈا
Last edited by a moderator: