کیا زرداری، کیا نواز اور کیا عمران؟ کیا پدّی اور کیا پدّی کا شوربہ؟
فوج بھی اسی عوام میں سے ہوتی ہے، لہٰذا جتنے حرص زدہ عوام ہیں، اسی طرح ہوس خوردہ فوجی جرنیل بھی۔
فوج کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ اب خود اقتدار میں آئی تو بین الاقوامی برادری نے انتہائی صدق دل سے انھیں جوتے لگانے ہیں، لہٰذا فوج کی بھی مجبوری ہے کہ انکا فرنٹ مین کوئی بچہ جمہورا ہی ہو۔ لیکن اس بچے جمہورے کی ٹانگوں کے مابین انھوں نے ایک ریموٹ کنٹرول بم باندھا ہوتا ہے۔
مسئلہ صرف اور صرف اس عوام کا ہے۔ آج اگر ایک ریڑھی بان تہیہّ کر لے کہ اس نے صرف زیادہ سے زیادہ مانفع نہیں کمانا بلکہ اللہ کی رضا کے لیئے صرف مناسب قیمت پر چیزیں فروخت کرنی ہیں، اور اسی طرح معاشرے کے دوسرے افراد بھی اپنے کام سے مخلصانہ طور انصاف کریں تو کوئی بھی انکا حکمران بن بیٹھے، جیسے ہی وہ حکمران کوئی غلط کام کرے گا، اسکا تخت سے تختہ کر دیا جائے گا۔ لیکن ابھی تو اس سسٹم میں وہی اوپر آتا ہے جسے نہ صرف علیم خان، جہانگیر ترین اور پرویز خٹک جیسے کرپٹوں کی سپورٹ ہوتی ہے، بلکہ جس کے سر پر جی ایچ کیو کے سڑیلے جرنیلوں کا آشیرباد بھی ہوتا ہے۔
جب تک ہماری قوم خود اس طرح کے کرپٹ حکمرانوں اور جرنیلوں کی نرسری بنی رہے گی، تبدیلی کبھی نہیں آسکتی۔
یاد رکھیں، ایسی تبدیلی کے لیئے تاریخ نے کبھی کسی جمہوری عمل کا سہارا نہیں لیا، بلکہ ہمیشہ انقلاب کی سیاہی سے ہی اپنے اوراق کی تصحیح کی ہے۔ نہیں تو دوسری صورت قدرت کے ہاتھوں کسی عذاب کی ہی رہ جاتی ہے۔