http://urdu.dawn.com/2013/08/23/jamaat-morsi-alqaeda-and-democracy-am-abid-aq/
Friday 23 August 2013
عبدالمجید عابد
جنرل سیسی اور جنرل ضیاء میں کوئی خاص فرق نہیں اور دونوں ہی کے اقدامات قابل مذمت ہیں۔ ان دونوں واقعات میں ایک واضح فرق البتہ موجود ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے جنازے کو کندھا دینے والی جماعت آج مصر کے حالات پر احتجاج کرنے میں مصروف ہے — فائل فوٹو
Friday 23 August 2013
عبدالمجید عابد
جنرل سیسی اور جنرل ضیاء میں کوئی خاص فرق نہیں اور دونوں ہی کے اقدامات قابل مذمت ہیں۔ ان دونوں واقعات میں ایک واضح فرق البتہ موجود ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے جنازے کو کندھا دینے والی جماعت آج مصر کے حالات پر احتجاج کرنے میں مصروف ہے — فائل فوٹو
وہ ملک بہت قربانیوں کے بعد فوجی آمریت کے عفریت سے چھٹکارا حاصل کر سکا تھا۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے آمریت کے خلاف تحریک میں حصہ لیا تھا۔ اس ملک کی تاریخ کے پہلے ’صاف شفاف‘ انتخابات کے نتیجے میں ایک جماعت نے واضح کامیابی حاصل کرلی۔
امریکہ اس نئی حکومت کو زیادہ پسند نہیں کرتا تھا، یہ اور بات کہ اس جماعت کے سربراہ نے کیلی فورنیا کی ایک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہوئی تھی جس نے کچھ دیر صبر کا مظاہرہ کیا لیکن جلد ہی اقتدار کے نشے میں اس نے بھی آمر کا روپ دھار لیا۔
رفتہ رفتہ مذہبی جماعتوں کے جائز و ناجائز مطالبات مان لیے گئے اور اس سربراہ نے اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوششیں شروع کر دیں۔ ایک موقعے پر جناب نے آئین کے ذریعے عدلیہ کی طاقت میں بھی کمی کی کوشش کی۔ ان کی ان حرکتوں سے تنگ آ کر ان کی جماعت کے خلاف ملک گیر ہنگامے شروع ہو گئے۔ حالات اتنے کشیدہ ہو گئے کہ فوج نے پھر سے اقتدار سنبھال لیا۔
ظلم کا ایک نیا دور طلوع ہوا۔ ہزاروں افراد کو غیر قانونی طور پر جیلوں میں بند رکھا گیا، ان پر ظلم کیا گیا اور کئی مقامات پر قتل عام بھی کیا گیا۔ طاقت سنبھالنے والے جرنیل نے بیان دیا کہ؛
’منتخب حکومت عوام کا اعتماد کھو بیٹھی ہے۔ فوج مداخلت نہ کرتی تو ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جاتا۔ فوج ضرورت سے ایک دن بھی زیادہ بیرکوں سے باہر نہیں رہے گی۔ ملک میں بہت جلد نئے سرے سے انتخابات کروائے جائیں گے۔‘
اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ مصر کی کہانی ہے تو آپ غلط سمجھ رہے ہیں، یہ پاکستان کی تاریخ کا ہی ایک باب ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان میں فوج کو آتے آتے چھہ سال لگ گئے اور مصر کی فوج ایک ہی سال میں اکتا گئی۔
جنرل سیسی اور جنرل ضیاء میں کوئی خاص فرق نہیں اور دونوں ہی کے اقدامات قابل مذمت ہیں۔ ان دونوں واقعات میں ایک واضح فرق البتہ موجود ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے جنازے کو کندھا دینے والی جماعت آج مصر کے حالات پر احتجاج کرنے میں مصروف ہے۔
جماعت اسلامی، جس نے تاریخی طور پر ہر پاکستانی فوجی آمر کا ساتھ دیا ہے، آج مصر میں فوجی اقتدار پر معترض ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
کیا پاکستانی فوج کے شب خون مصری فوج کے شب خون سے بہتر ہوتے ہیں؟
جماعت کی نگاہ میں اسلامی جماعتوں کا ہر مطالبہ ماننے والا بھٹو معتوب، اور اخوان کا نمائندہ مورسی معصوم کیوں ٹھہرتا ہے؟ کیا جمہوریت صرف تب ہی افضل ہے جب اس میں فرقہء مودودیہ یا فرقہء حسن البناء کو برتری حاصل ہو؟
جماعت کو مصر میں اخوان کے کارکنان کے قتل عام پر خوب تکلیف پہنچتی ہے لیکن اپنے وطن میں کئی سال سے اسلام کے نام پر جاری قتل عام پر اعتراض کا خیال بھی کیوں نہیں آتا؟
ہم مصری فوج کے شرمناک اقدام کی کسی طور حمایت نہیں کرتے اور اخوان کے نظریات سے شدید اختلاف کے باوجود اسکی حکومت کے یوں پلٹے جانے کے حق میں نہیں۔ ہمارے خیال میں بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔
مصر کی صورت حال میں ایک بہت اہم پہلو بہت سے نوجوانوں کو (جنہوں نے اپنی فیس بک ڈی پیز ’رابعہ‘ مسجد کے نام منسوب کر رکھی ہیں) معلوم نہیں اور جماعت اسلامی جیسی بد دیانت جماعت اس پہلو کا کبھی ذکر بھی نہیں کرتی کہ مصر کی فوج کو مصری سلفی جماعت کی بھرپور حمایت حاصل ہے! یعنی اسلام کے ٹھیکے دار وں نے امّہ کے تصور کو لات مارتے ہوئے اخوان کی، جو بزعم خود اسی نوعیت کی ٹھیکے داری کا دعوی رکھتی ہے، حکومت گرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مثل مشہور ہے، اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
اسی دوران سلفیت کے باوا آدم، سعودی عرب نے حال ہی میں مصری فوجی حکومت کے لیے بارہ ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کر دیا ہے، اور اس امداد میں کویت اور ابوظہبی کی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ ان حالات میں مسلم امہ کی تشکیل کا خواب آنکھوں میں سجائے جماعتی ارکان کس منہ سے مصری فوج کی مخالفت کر رہے ہیں؟
فیس بک پر اپنی تصاویر اخوان کے نام کرنے والے نوجوانوں سے درخواست ہے کہ کچھ وقت نکال کر پاکستانی کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور اپنے وطن میں بھی جمہوریت کی حفاظت کرنے کی قسم کھائیں۔ اور اگر برا نہ منائیں تو پاکستان میں آئے روز دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کی یاد میں بھی کبھی تصویر بدل لیا کریں، اور یہ یاد رکھیں کہ آپ کی غلط فہمی کے برعکس مصری فوج بھی مسلمان ہے، اس کی حمایت کرنے والے بھی مسلمان ہیں اور اس کے زیر عتاب اخوان والے بھی مسلمان ہیں۔
یاد رکھیں کہ کراچی میں شہداء رابعہ مسجد کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھانے والوں نے اس سے پہلے اسامہ بن لادن کی بھی غائبانہ نماز یوں ہی پڑھائی ہوئی ہے۔
یاد رکھیں کہ اسی جماعت کے کارندوں نے مشرقی پاکستان میں البدر اور الشمس نامی گروہوں میں شامل ہو کر بنگال دانشوروں اور طالب علموں کے قتل عام میں حصہ لیا تھا۔
اسی اجتماع میں سابقہ اخوان کارکن ایمن الظواہری کو بھی سراہا گیا۔ یہ حضرت آج کل القاعدہ نامی ایک تنظیم کے سربراہ ہیں۔ اور القاعدہ نے جتنی خدمت ’انسانی حقوق‘ اور ’جمہوریت‘ کی کی ہے، اسکے لیے گوگل سرچ کرلیں۔