جسٹس قاضی فائز عیسی کا معاملہ سنا ہے کئی سو سال پہلے نعمت اللہ شاہ ولی نامی ایک بزرگ نے مندرجہ ذیل پیشن گوئی کی تھی۔ بینی تو قاضیاں را بر مسند جہالت گیرند رشوت از خلق علامہ با بہانہ "قاضیان یعنی ججوں کو تو جہالت کی مسندپر دیکھے گا۔ بڑے بڑے علم والے لوگ بہانہ سے لوگوں سے رشوت لیں گے" گردانگ از بہ رشوت در چنگ قاضی آری چوں سگ پئے شکاری، قاضی کند بہانہ " اگر تو قاضی (جج) کی مُٹھی میں چاندی کے چند سکہ دے دے گا تو قاضی شکاری کتے کی طرح بہانہ سازی کرے گا " از نعمت اللہ شاہ والی کل جسٹس قاضی فائز عیسی اور سندھ ھائی کورٹ جسٹس کے کے آغا کے خلاف کیسز کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج عمر عطا بندیال نے قرآن پاک کی سورہ الحجرات اور سورۃ آل عمران کا حوالہ دیتے ہوئے مندرجہ ذیل ریمارکس دئیے۔ "زیادہ گمان نہ کرو یہ گناہ ہے، جاسوسی نہ کرو یہ بھی گناہ ہے اور کسی پر غلط الزام لگا کر اپنی عاقبت خراب نہیں کرنی چاہئے۔" اس کے بعد جج موصوف نے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ ملک میں آئین (جس کی تشریح صرف ہم کر سکتے ہیں) بھی ہے اور ہزاروں کالے کوٹ ( وکیل ) والے بھی۔ آپ جانتے ہیں وہ گمان اور جاسوسی کیا کی جارہی ہے جس پر جسٹس صاحب قرآن سنا رہے ہیں؟ معاملہ یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب سے متعلق رپورٹ آئی کہ موصوف جب کوئٹہ ھائی کورٹ میں جج بنے تو اس کی دولت اور اثاثوں میں اچانک تیز رفتار اضافہ ہونا شروع ہوا اور سپریم کورٹ کا جج بنتے بنتے دولت کا کافی بڑا انبار اکھٹا کرلیا۔ لیکن حسب معمول ساری دولت بیرون ملک ہے رکھی بیوی بچوں کے نام پر اور اس کو کسی ٹیکس گوشوارے میں ظاہر نہیں کیا۔ اس دولت میں تین جائدادوں کی تفصیل یہ ہے۔ فور DL- ای الیون 40 آکڈیل روڈ لندن 2 لاکھ 70 ہزار پاؤنڈ میں خریدی گئی اب قیمت دگنی ہوچکی ہے۔ 5 این ڈبلیو 10 ای، 90 ایڈیلیڈ روڈ لندن 2 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈز میں خریدی گئی اب قیمت 3 لاکھ 25 ہزار پاؤنڈ ہوچکی ہے۔ 2 اےاین، 2 ڈبلیو 50 کوسٹس کورٹ کینڈل سٹریٹ لندن اس کی موجودہ قیمت 6 لاکھ پاؤنڈ ہے۔ صرف ان جائدادوں کی کل مالیت تقریباً سوا ملین پاؤنڈ ہے۔ پاکستان ان کی ملکیت کے تصدیق شدہ کاغذات لندن ھائی کمیشن سے حاصل کر چکا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی سے صرف یہ سوال کیا گیا کہ "یہ دولت کہاں سے آئی اور اس کو چھپایا کیوں؟" جواب میں قاضی موصوف سمیت کئی ججز اور ملک بھر کے وکلاء بھڑک اٹھے۔ میڈیا میں موجود لفافے بھی کھل کر جج کی حمایت میں آگئے۔ کافی لے دے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس سادہ سے سوال کا جو جواب جمع کرایا وہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ //پاکستان ہم نے بنایا۔ بلوچستان ہم نے پاکستان کے ساتھ شامل کیا تھا۔ ہم ایسے پاکستان کے لیے نہیں لڑے تھے جس میں شہریوں اور ججز کو بنیادی حقوق حاصل نہیں۔ پاکستان پولیس سٹیٹ بن چکا ہے۔ ایجنسیاں مجھ سے خفا ہیں کیونکہ میں نے کہا تھا کہ خادم حسین رضوی کا دھرنا ختم کرانے کے لیے ایجنسیوں نے کیوں ثالثی کی؟ آئی ایس آئی کو سیاسی معاملات سے دور رکھا جائے۔ شکایت کنندہ جھوٹا شخص ہے اور ایم کیو ایم کا رکن رہ چکا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اپنی دولت چھپائی ہے اور ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کی۔ میں نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے تو نہیں چھپائی ( بلکہ ان کے بغیر چھپائی ) میرے خاندان کی غیر قانونی طریقے سے جاسوسی کی گئی ہے اور ہماری ذاتی معلومات ( دولت و جائداد کی تفصیلات ) لیک کی گئی ہیں۔ // اس تمام تر شور و غوغا میں نہ دولت کی ملکیت سے انکار کیا اور نہ ہی یہ بتایا کہ آئی کہاں سے؟ جسٹس صاحب کی کوشش ہے کہ شور مچا کر، وکلاء تحریک کی دھونس دے کر اور قانونی موشگافیوں کا فائدہ اٹھا کر حکومت کو ریفرنس واپس لینے پر مجبور کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اٹارنی جنرل استعفی دے گیا اور دوسرا ہچکچا رہا ہے۔ اگر جج صاحب نے کچھ غلط نہیں کیا تو یہ بہترین موقع ہے ان کے پاس کہ اس دولت کا منی ٹریل دے کر قوم اور دنیا کے سامنے سرخرو ہوجائیں۔ لیکن فلحال وہ سرخرو ہونے کے موڈ میں نظر نہیں آرہے۔ کیونکہ جج صاحب کی بیگم صاحبہ کوئی بزنس نہیں کرتیں جس میں دولت کے یہ انبار اکھٹے کر سکتیں اور جس دوران یہ دولت حاصل کی گئی اس وقت جج موصوف کے بچے یا پڑھ رہے تھے یا ابھی تازہ تازہ پڑھائی سے فارغ ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ 2009ء سے 2015ء کے درمیان اس جج نے کئی اہم فیصلے کیے جس میں لوگوں نے ان کا جھکاؤ ایک خاص جانب محسوس کیا۔ ان تمام فیصلوں کا از سر نو جائزہ لینا بھی کافی دلچسپ ہوگا۔ حکومت کو رپورٹس ملی ہیں کہ بات صرف ان تین جائدادوں تک محدود نہیں۔ جس پر حکومت نے مزید تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے جس کے خلاف اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے حامی وکلاء اور ججز متحرک ہوچکے ہیں اور ان تحقیقات کو "ججوں کی جاسوسی" کا نام دے کر رکوانا چاہتے ہیں۔ اب تو جاسوسی کے خلاف قرآن سے بھی حوالے پیش کرنے لگے ہیں۔ ? اسی لیے انہوں نے "جاسوسی" کرنے والوں اور "سوال" کرنے والوں کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر لی ہے جس کو آیتیں سنانے والے جج نے فوراً منظور کر لیا ہے۔ جسٹس بندیال صاحب سے بہت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ قرآن میں اور بھی بہت سے احکامات ہیں مثلاً اوروں کا مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ انصاف کرو اور چوروں کے ہاتھ کاٹو۔ کبھی ان پر بھی غور کر لیجیے گا۔ نوٹ ۔۔۔ کروڑوں روپے کرپشن کے ملزم احسن اقبال کی ضمانت اسلام آباد ھائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے منظور کر لی۔ آئین کو اعلانیہ رد کرنے والے منظور پشتین کو بھی آج عدلیہ نے جیل سے رہا کروا دیا۔