ممثل مشہورہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور جب عدلیہ کی موت آتی ہے تو وہ کورٹ کے کاروائی براہ راست نشر کرواتا ہے۔۔ تھوڑا بہت جو بھرم بچا تھا وہ لٹانے کے لیے قاضی فائز عیسی اپنی تشہیر کی ہوس میں گنوا بیٹھے۔ یقین نہیں آتا کہآسمانی قلابے ملاتے ہوۓ جس ادارے کو سر پر چڑھا رکھا تھا وہاں کس قدر چھوٹے لوگ براجماں ہیں۔۔ وہاں کی کاروائی اتنی سطحی ہوگی یہ تو عوام کے وہم و گمان میں بھی نا تھا کہ کالے گاؤن پہن کر گردن اکڑاتے یہ کرپٹ بونے اتنی عامیانہ گفتگو بھی کر سکتے ہیں۔ ان سے تو لاکھوں درجہ بہتر قبیلے اور دیہاتوں کی پنچائیت ہوتی ہے جہاں انصاف کا بھرم رکھا جاتا ہے۔ جہان سردار سنجیدگی سے کسی مسلے پر فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ عدلیہ ہمیشہ مشکوک اور آمروں کے زیرسایہ ہی رہی مگر اتنی ہلکی بھی ہوسکتی ہے اس کا پردہ بھی فاش ہوا۔ عقل ماتم خواں ہے کہ کیسے کیسے لوگ کس کس منصب پر مامورکر دیے گئے۔ یعنی اب فیصلہ وہ لوگ کریں گے جن کا اپنا دامن گندہ ہے۔ پراگندہ دماغوں سے کیسے فیصلے صادر ہوں گے صاف نظر آرہا ہے - اس پر یقین و اعتماد ختم ہو چکا۔ یہ ادارے نہیں بلکہ افراد ہی ادارے بن بیٹھے جو بکاؤ بھی ہیں اور داغدار بھی۔۔ اس طرح سے غدار بھی۔