Syed Haider Imam
Chief Minister (5k+ posts)
جاوید چودھری اور ھمنوا بمقابلہ سوشل میڈیا
پردے میں رھنے دو پردھا نہ اٹھاؤ نہیں تو بھیس کھل جاے گا
انسان جب غصے کی حالت میں اتا ھے تو ھوش کھو دیتا ھے اور انسان کی اصلیت باہر
ا جاتی ہی . یہی ہوا جاوید چودھری اور ھمنوا کے ساتھ . سب کے سب اب کھل کر ایک ٹیم کی طرح سامنے آ گئے ہیں . بچ میں جو پردہ تھا وہ بھی اٹھ گیا ھے .شکریہ چودھری صاحب
پہلی کامیابی تو سوشل میڈیا کو مل گی کے یہ لوگ صحافتی لبادہ اوڑھ کر بیٹھے تھے ، بھیس کھلا تو پتا چلا کے یہ تو بادشاہ سلامت کے درباری ہیں . پتا تو پہلے بھی تھا
ہمیں ٢٥٠ الفاظ کی جادوگری کا تو پتا نہیں
لیکن ہم لوگ تحریر پڑھ کر لکھنے والے کا
دماغ پڑھ لیتے ہیں
کے وہ لفظوں کے ساتھ کھیل کر کیا حاصل کرنا چاهتا ھے .
سیدھی بات کو جلیبی بنا کر کوئی دانشور نہیں ھو جاتا البتہ شیر فروش ضرور بن جاتا ھے
انلوگوں کی خوش قسمتی ھے کے پاکستانی قاری کا علم اور سوچ بہت محدود ھے جس کی وجہ سے ایسے لوگ اندھوں میں کانا راجہ بن کر بادشاہ کے مصاحب بن بٹھے ہیں
آخر یہ لوگ زمانے میں ہونے والی تبدیلویوں کا سمجھ کیوں نہیں پا رہے . پہلے ایک کالم نویس ایک کالم لکھتا تھا . قاری اسکو خط لکھ کر اپنے احسساسات سے اگاہ کرتا تھا مگر اپ، ادھر کالم اخبار میں چھپا نہیں ، ادھر فیڈ بیک شورو
یہ راکٹ سائنس ہمرا کالم نویس سمجھنا ہی نہیں چاهتا یا اس عقل قل کو یہ بات ہضم ہی نہیں ھو رہی کے انکو بھی کوئی للکار سکتا ھے اور یلغار بھی کار سکتا ھے
آخر اس طرح کے جنریشن کی المیہ کیا ھے . ان لوگوں نے نئی ٹیکنالوجی کو تو گلے لگا لیا ھے مگر وہ روایتی اور دم توڑتی ، گلی سرڑی روایات اور گھسے پٹے سیاست دانو کو کیوں گلے لگایا ہوا ھے . سوشل میڈیا والے ایک جملے میں یہ بات ختم کر دیتے ہیں
نوٹ وکھا میرا موڈ بنے
کالم نویس تو کبھی بھی حکومت کا حامی نہیں ہوتا ھے ، اگر ہوتا ھے تو اسکو سوشل میڈیا صحافتی طوائف کے نام سے جانتا ھے جسسے تمام پاکستانی صحافتی طوائفوں کی باپ عرفان صدیقی اور اسکے خاندان کے افراد کی کافی لمبی لسٹ ھے
جہاں تک صحافتی طوائفوں کو گالی دینے کا تعلق ھے تو سوشل میڈیا تو تمام سیاست دانو کو بھی گالی دیتا ھے ، وہ لوگ تو مراثی کی طرح بار بار تعینا نہیں دیتے . کیا اپ لوگ بھی مقدس گئے بن گئے ھو ؟
آج اپ ٹیلی ویژن کے پروگرام اٹھا کر دیکھ لو ، چودھری شجاعت سے لے کر زرداری تک ، سب کی روزانہ کٹ لگتی ھے مگر وہ لوگ تو عمران خان کے پاس جا کر دھاڑیں مار مار کر نہیں روتے ؟
سوشل میڈیا والے ایسے پھپپے کٹنی صحافیوں کے بارے میں ایک مخصوص کوڈ استعمال کرتے ہیں
WTF
جہاں تک ان ماصوف کو اپنے بڑے زعم ھے کے وہ اسٹیج پر جا کر بونگیاں مارنے سے ایک انقلابی لیڈر بن جایئں گے تو یہ کوشس بہت سے معروف پاکستانی (عبدل قدیر خان ، پرویز مشرف سے لے کرنہ جانے کون کون ) کر کے گوشہ گومنامی میں چلے گئے ہیں . موصوف کو یہ بھی پتا نہیں کے پاکستان میں لیڈر کاسے بنتا ھے ؟
عمران خان ایک واحد مثال ھے ، اور یہی بات اس طرح کے شیر فروش صحافیوں کو سمجھ شریف میں نہیں اتی . انکی سمجھ شریف اس وقت کم کرتی ھے ھے جب
نوٹ وکھا میرا موڈ بنے
ملک بچانے کی جذباتی بات کر کے موصوف پتا نہیں کیا الفاظ کی جادوگری دکھانا چاھتے ہیں . ملک ٹوٹنا ھو تو ٹوٹ گیا ، اور اگر مزید ٹوٹنا ھو گا تو ٹوٹ جاے گا
موصوف کو ایک ملین ڈالر کا سوال یہ پوچھنا چاھے تھا
آخر ہم لوگ قومی المیوں اور بلونڈرس پر کب تک ریت میں سر دے کر بیٹھے رہیں
گے؟
آخر کب تک حکمرانو کے گھناھوں پر پردہ پوسشی کرتے رہیں گے ؟
اکر کب تک ان ہمکمرانو کے مکروہ وارداتوں پر پردہ ڈالتے رہیں گے ؟
موصوف نے اگر تاریخ پڑھی ھو تو چرچل نے زمانہ جنگ میں کونسا مشھور سوال اپنے مشیروں سے پوچھا تھا
کیا ملک میں لوگوں کو انصاف مل رھا ھے ؟
وسے بھی اگر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان نہیں ٹوٹا تو نواز شریف اور زرداری کے مرنے پر بھی بھی نہیں ٹوٹے گا . انشااللہ
پارلیمنٹ کے اگے تو مولانا فضل ور رحمان بھی بندے اکھٹے کر سکتا ھے . یہ بات جنید سلیم صاحب نے بھی اپنے پروگرام میں کہی ھے .
کیا کوئی بھی ٹیلی ویژن پر سوحیل احمد جیسا فنکار بیٹھا کر حسب حال کر سکتا ھے ؟
کیا یہ بہت بھی فٹ بیٹھی ھے ؟
سوال یہ ھے کے سوحیل احمد تو ایک ہی ھے . اور حسب حال بھی ایک ھے ، اس میں کہی گئے باتیں بھی ایک جیسی ہیں مگر آخر حسب حال اتنا کامیاب کیوں ھے ؟
اس طرح عمران خان بھی ایک ھے . انکی باتیں بھی منفرد ہیں . وہ جو دھرنا دے رہے ہیں اس میں کے گئے مطالبات بھی حقیقی ہیں ، وہ پارٹی بھی حقیقی ھے اور پورے ملک میں ھے . اس پارٹی نے نے خیبر پختونخوا میں ثابت کیا ھے کے پولیس کا نظام ، ٹھیک کیا جا سکتا ھے . گورنمنٹ کے لیول پر رشوت ختم کی جا سکتی ھے . تعلم پر
فوکس کیا جا سکتا ھے . اور بہت کچھ
مگر
مولانا فضل رحمان اپنے مدرسے کے بچوں کو لے کر تو بیٹھ جاے گا مگر
اب آپ لوگ اتنے بھی بچے نہیں
کے اس بات پر بحث کی جاے وہ بچوں سے ختم کروا کے حلوے منڈے ڈفے گا اور اس کے بعد کرے گا کیا ؟
آخر پاکستانی ان مولویوں کو انتخاب میں ریجیکٹ کیوں کرتے ہیں ؟
سوشل میڈیا جب اسطرح کی بات سنتا ھے یا پڑھتا ھے تو اسکا صرف ایک کوڈ میں جواب دیتا ھے
LMAO
تو اپ لوگ پھر خان صاحب سے ہماری شکایت کب کر رہے ہیں ؟
موصوف سوشل میڈیا صرف گالیاں ہی نہیں بکتا بلکے دلیل سے بات کرنا جانتا ھے . اسکے لئے صحافی ہونا ضرور ی نہیں بلکہ کامن سینس کا استعمال برقت کرنے سے اپ جیسوں کی چھابڑی الٹ بھی سکتا ھے
پردے میں رھنے دو پردھا نہ اٹھاؤ نہیں تو بھیس کھل جاے گا
انسان جب غصے کی حالت میں اتا ھے تو ھوش کھو دیتا ھے اور انسان کی اصلیت باہر
ا جاتی ہی . یہی ہوا جاوید چودھری اور ھمنوا کے ساتھ . سب کے سب اب کھل کر ایک ٹیم کی طرح سامنے آ گئے ہیں . بچ میں جو پردہ تھا وہ بھی اٹھ گیا ھے .شکریہ چودھری صاحب
پہلی کامیابی تو سوشل میڈیا کو مل گی کے یہ لوگ صحافتی لبادہ اوڑھ کر بیٹھے تھے ، بھیس کھلا تو پتا چلا کے یہ تو بادشاہ سلامت کے درباری ہیں . پتا تو پہلے بھی تھا
ہمیں ٢٥٠ الفاظ کی جادوگری کا تو پتا نہیں
لیکن ہم لوگ تحریر پڑھ کر لکھنے والے کا
دماغ پڑھ لیتے ہیں
کے وہ لفظوں کے ساتھ کھیل کر کیا حاصل کرنا چاهتا ھے .
سیدھی بات کو جلیبی بنا کر کوئی دانشور نہیں ھو جاتا البتہ شیر فروش ضرور بن جاتا ھے
انلوگوں کی خوش قسمتی ھے کے پاکستانی قاری کا علم اور سوچ بہت محدود ھے جس کی وجہ سے ایسے لوگ اندھوں میں کانا راجہ بن کر بادشاہ کے مصاحب بن بٹھے ہیں
آخر یہ لوگ زمانے میں ہونے والی تبدیلویوں کا سمجھ کیوں نہیں پا رہے . پہلے ایک کالم نویس ایک کالم لکھتا تھا . قاری اسکو خط لکھ کر اپنے احسساسات سے اگاہ کرتا تھا مگر اپ، ادھر کالم اخبار میں چھپا نہیں ، ادھر فیڈ بیک شورو
یہ راکٹ سائنس ہمرا کالم نویس سمجھنا ہی نہیں چاهتا یا اس عقل قل کو یہ بات ہضم ہی نہیں ھو رہی کے انکو بھی کوئی للکار سکتا ھے اور یلغار بھی کار سکتا ھے
آخر اس طرح کے جنریشن کی المیہ کیا ھے . ان لوگوں نے نئی ٹیکنالوجی کو تو گلے لگا لیا ھے مگر وہ روایتی اور دم توڑتی ، گلی سرڑی روایات اور گھسے پٹے سیاست دانو کو کیوں گلے لگایا ہوا ھے . سوشل میڈیا والے ایک جملے میں یہ بات ختم کر دیتے ہیں
نوٹ وکھا میرا موڈ بنے
کالم نویس تو کبھی بھی حکومت کا حامی نہیں ہوتا ھے ، اگر ہوتا ھے تو اسکو سوشل میڈیا صحافتی طوائف کے نام سے جانتا ھے جسسے تمام پاکستانی صحافتی طوائفوں کی باپ عرفان صدیقی اور اسکے خاندان کے افراد کی کافی لمبی لسٹ ھے
جہاں تک صحافتی طوائفوں کو گالی دینے کا تعلق ھے تو سوشل میڈیا تو تمام سیاست دانو کو بھی گالی دیتا ھے ، وہ لوگ تو مراثی کی طرح بار بار تعینا نہیں دیتے . کیا اپ لوگ بھی مقدس گئے بن گئے ھو ؟
آج اپ ٹیلی ویژن کے پروگرام اٹھا کر دیکھ لو ، چودھری شجاعت سے لے کر زرداری تک ، سب کی روزانہ کٹ لگتی ھے مگر وہ لوگ تو عمران خان کے پاس جا کر دھاڑیں مار مار کر نہیں روتے ؟
سوشل میڈیا والے ایسے پھپپے کٹنی صحافیوں کے بارے میں ایک مخصوص کوڈ استعمال کرتے ہیں
WTF
جہاں تک ان ماصوف کو اپنے بڑے زعم ھے کے وہ اسٹیج پر جا کر بونگیاں مارنے سے ایک انقلابی لیڈر بن جایئں گے تو یہ کوشس بہت سے معروف پاکستانی (عبدل قدیر خان ، پرویز مشرف سے لے کرنہ جانے کون کون ) کر کے گوشہ گومنامی میں چلے گئے ہیں . موصوف کو یہ بھی پتا نہیں کے پاکستان میں لیڈر کاسے بنتا ھے ؟
عمران خان ایک واحد مثال ھے ، اور یہی بات اس طرح کے شیر فروش صحافیوں کو سمجھ شریف میں نہیں اتی . انکی سمجھ شریف اس وقت کم کرتی ھے ھے جب
نوٹ وکھا میرا موڈ بنے
ملک بچانے کی جذباتی بات کر کے موصوف پتا نہیں کیا الفاظ کی جادوگری دکھانا چاھتے ہیں . ملک ٹوٹنا ھو تو ٹوٹ گیا ، اور اگر مزید ٹوٹنا ھو گا تو ٹوٹ جاے گا
موصوف کو ایک ملین ڈالر کا سوال یہ پوچھنا چاھے تھا
آخر ہم لوگ قومی المیوں اور بلونڈرس پر کب تک ریت میں سر دے کر بیٹھے رہیں
گے؟
آخر کب تک حکمرانو کے گھناھوں پر پردہ پوسشی کرتے رہیں گے ؟
اکر کب تک ان ہمکمرانو کے مکروہ وارداتوں پر پردہ ڈالتے رہیں گے ؟
موصوف نے اگر تاریخ پڑھی ھو تو چرچل نے زمانہ جنگ میں کونسا مشھور سوال اپنے مشیروں سے پوچھا تھا
کیا ملک میں لوگوں کو انصاف مل رھا ھے ؟
وسے بھی اگر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان نہیں ٹوٹا تو نواز شریف اور زرداری کے مرنے پر بھی بھی نہیں ٹوٹے گا . انشااللہ
پارلیمنٹ کے اگے تو مولانا فضل ور رحمان بھی بندے اکھٹے کر سکتا ھے . یہ بات جنید سلیم صاحب نے بھی اپنے پروگرام میں کہی ھے .
کیا کوئی بھی ٹیلی ویژن پر سوحیل احمد جیسا فنکار بیٹھا کر حسب حال کر سکتا ھے ؟
کیا یہ بہت بھی فٹ بیٹھی ھے ؟
سوال یہ ھے کے سوحیل احمد تو ایک ہی ھے . اور حسب حال بھی ایک ھے ، اس میں کہی گئے باتیں بھی ایک جیسی ہیں مگر آخر حسب حال اتنا کامیاب کیوں ھے ؟
اس طرح عمران خان بھی ایک ھے . انکی باتیں بھی منفرد ہیں . وہ جو دھرنا دے رہے ہیں اس میں کے گئے مطالبات بھی حقیقی ہیں ، وہ پارٹی بھی حقیقی ھے اور پورے ملک میں ھے . اس پارٹی نے نے خیبر پختونخوا میں ثابت کیا ھے کے پولیس کا نظام ، ٹھیک کیا جا سکتا ھے . گورنمنٹ کے لیول پر رشوت ختم کی جا سکتی ھے . تعلم پر
فوکس کیا جا سکتا ھے . اور بہت کچھ
مگر
مولانا فضل رحمان اپنے مدرسے کے بچوں کو لے کر تو بیٹھ جاے گا مگر
اب آپ لوگ اتنے بھی بچے نہیں
کے اس بات پر بحث کی جاے وہ بچوں سے ختم کروا کے حلوے منڈے ڈفے گا اور اس کے بعد کرے گا کیا ؟
آخر پاکستانی ان مولویوں کو انتخاب میں ریجیکٹ کیوں کرتے ہیں ؟
سوشل میڈیا جب اسطرح کی بات سنتا ھے یا پڑھتا ھے تو اسکا صرف ایک کوڈ میں جواب دیتا ھے
LMAO
تو اپ لوگ پھر خان صاحب سے ہماری شکایت کب کر رہے ہیں ؟
موصوف سوشل میڈیا صرف گالیاں ہی نہیں بکتا بلکے دلیل سے بات کرنا جانتا ھے . اسکے لئے صحافی ہونا ضرور ی نہیں بلکہ کامن سینس کا استعمال برقت کرنے سے اپ جیسوں کی چھابڑی الٹ بھی سکتا ھے
Last edited: