سلام آباد چڑیا گھر سے جانوروں کی منتقلی میں مبینہ طور پر غفلت برتنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔
پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چڑیا گھر سے ریچھوں کو منتقل نہ کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران عدالت نے چڑیا گھر سے منتقلی کے دوران جانوروں کی ہلاکت پر حکام پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'ہم نے جانوروں کی منتقلی کی ذمہ داری سونپی تھی اور آپ نے جانوروں کے ساتھ یہ سلوک کیا۔ یہ عدالت آپ سب کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتی یے۔'
عدالت نے استفسار کیا کہ اسلام آباد چڑیا گھر کے شیروں کے ساتھ کیا ہوا؟ جس پر وائلڈ لائف بورڈ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ شیراور شیرنی کو لاہور منتقل کیا جا رہا تھا اور اس دوران پروفیشنلز کی خدمات بھی لی گئی تھیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایم سی آئی، وائلڈ لائف بورڈ اور وزارت موسمیاتی تبدیلی صرف سیاست کر رہے ہیں، تینوں محکموں میں سے کوئی ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شیر اور شیرنی کی اموات کی انکوائری وزارت موسمیاتی تبدیلی کے نمائندے کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
'وزیر مملکت موسمیاتی تبدیلی، معاون خصوصی، پارلیمانی سیکرٹری جانوروں کو منتقل کرنے کے لیے تشکیل دیے گئے بورڈ کے ممبران تھے۔'
عدالت نے جائزہ لیا ہے کہ کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، ان تمام ذمہ داران نے عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی کی ہے کیوں نہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔'
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شیر اور شیرنی کی اموات کی انکوائری وزارت موسمیاتی تبدیلی کے نمائندے کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا وہ اپنے خلاف انکوائری کریں گے؟ جو ریاستی نمائندے جانوروں کا خیال نہیں رکھ سکتے وہ انسانی کا خیال کیسے رکھیں گے؟
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے پر وفاقی حکومت بے نقاب ہو چکی ہے۔ عدالت نے سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی اور چیئرمین وائلڈ لائف بورڈ کو منگل کے روز ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے ذمہ داران کے نام طلب کر لیے۔
پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چڑیا گھر سے ریچھوں کو منتقل نہ کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران عدالت نے چڑیا گھر سے منتقلی کے دوران جانوروں کی ہلاکت پر حکام پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'ہم نے جانوروں کی منتقلی کی ذمہ داری سونپی تھی اور آپ نے جانوروں کے ساتھ یہ سلوک کیا۔ یہ عدالت آپ سب کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتی یے۔'
عدالت نے استفسار کیا کہ اسلام آباد چڑیا گھر کے شیروں کے ساتھ کیا ہوا؟ جس پر وائلڈ لائف بورڈ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ شیراور شیرنی کو لاہور منتقل کیا جا رہا تھا اور اس دوران پروفیشنلز کی خدمات بھی لی گئی تھیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایم سی آئی، وائلڈ لائف بورڈ اور وزارت موسمیاتی تبدیلی صرف سیاست کر رہے ہیں، تینوں محکموں میں سے کوئی ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شیر اور شیرنی کی اموات کی انکوائری وزارت موسمیاتی تبدیلی کے نمائندے کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
'وزیر مملکت موسمیاتی تبدیلی، معاون خصوصی، پارلیمانی سیکرٹری جانوروں کو منتقل کرنے کے لیے تشکیل دیے گئے بورڈ کے ممبران تھے۔'
عدالت نے جائزہ لیا ہے کہ کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، ان تمام ذمہ داران نے عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی کی ہے کیوں نہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔'
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شیر اور شیرنی کی اموات کی انکوائری وزارت موسمیاتی تبدیلی کے نمائندے کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا وہ اپنے خلاف انکوائری کریں گے؟ جو ریاستی نمائندے جانوروں کا خیال نہیں رکھ سکتے وہ انسانی کا خیال کیسے رکھیں گے؟
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے پر وفاقی حکومت بے نقاب ہو چکی ہے۔ عدالت نے سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی اور چیئرمین وائلڈ لائف بورڈ کو منگل کے روز ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے ذمہ داران کے نام طلب کر لیے۔
جانوروں کی ہلاکت: 'توہینِ عدالت کی کارروائی ہوگی'
اسلام آباد چڑیا گھر سے جانوروں کی منتقلی میں مبینہ طور پر غفلت برتنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زر
www.urdunews.com
چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کے دوران چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی حکومت پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور وزیر مملکت زرتاج گل، معاون خصوصی ملک امین اسلم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا عندیہ دیا۔
عدالت نے کارروائی کے لئے وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اور دیگر عہدیداروں کے نام بھی طلب کر تے ہوئے کہا کہ چئیرمین وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اور سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی کل ذاتی حیثیت میں پیش ہوں، عدالت کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی نااہلی سے جانور ہلاک ہوئے حالانکہ 21 مئی کے فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ جانوروں کی منتقلی کا ذمہ دار ہو گا۔
عدالت نے قراردیا کہ16 مارچ کو وفاقی کابینہ کی منظوری سے وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کا نوٹیفکیشن پیش کیا گیا اور عدالت کو بتایا گیا تھا کہ جانوروں کی پناہ گاہ کے بجائے شیر لاہور منتقل کیے جا رہے ہیں، عدالت کا کہنا تھا کہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے حکام جانوروں کی منتقلی سے زیادہ مینجمنٹ کا کنٹرول لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی طرف سے کون آیا ہے، اس دوران درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ چڑیا گھر سے شیر کو لاہور منتقل کیا جارہا تھا تو وہ ہلاک ہو گیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ یہ سب وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی نااہلی ہے، کیا آپ نے چڑیا گھر سے متعلق اس عدالت کا فیصلہ دیکھا ہے، وزارت ماحولیاتی تبدیلی، میٹرو پولیٹین کارپوریشن ( ایم سی آئی) اور وفاقی ترقیاتی ادارہ ( سی ڈی اے) سب سیاست کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے نوٹیفکیشن دیا تھا کہ بورڈ میں کون ہو گا، وزیراعظم کے ماحولیاتی تبدیلی کے معاون خصوصی کون ہیں، ماحولیاتی تبدیلی کی وزیر زرتاج گل ہیں، کیوں نہ ان تمام ممبران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ان تمام ممبران نے اس عدالت کے فیصلے کی توہین کی، کیا ان تمام ممبران کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جو جانوروں کا خیال نہیں رکھ سکتے وہ انسانوں کا کیا خیال رکھیں گے۔ عدالت نے متعلقہ فریقین کو طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کے دوران چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی حکومت پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور وزیر مملکت زرتاج گل، معاون خصوصی ملک امین اسلم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا عندیہ دیا۔
عدالت نے کارروائی کے لئے وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اور دیگر عہدیداروں کے نام بھی طلب کر تے ہوئے کہا کہ چئیرمین وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اور سیکرٹری ماحولیاتی تبدیلی کل ذاتی حیثیت میں پیش ہوں، عدالت کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی نااہلی سے جانور ہلاک ہوئے حالانکہ 21 مئی کے فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ جانوروں کی منتقلی کا ذمہ دار ہو گا۔
عدالت نے قراردیا کہ16 مارچ کو وفاقی کابینہ کی منظوری سے وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کا نوٹیفکیشن پیش کیا گیا اور عدالت کو بتایا گیا تھا کہ جانوروں کی پناہ گاہ کے بجائے شیر لاہور منتقل کیے جا رہے ہیں، عدالت کا کہنا تھا کہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے حکام جانوروں کی منتقلی سے زیادہ مینجمنٹ کا کنٹرول لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی طرف سے کون آیا ہے، اس دوران درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ چڑیا گھر سے شیر کو لاہور منتقل کیا جارہا تھا تو وہ ہلاک ہو گیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ یہ سب وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی نااہلی ہے، کیا آپ نے چڑیا گھر سے متعلق اس عدالت کا فیصلہ دیکھا ہے، وزارت ماحولیاتی تبدیلی، میٹرو پولیٹین کارپوریشن ( ایم سی آئی) اور وفاقی ترقیاتی ادارہ ( سی ڈی اے) سب سیاست کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے نوٹیفکیشن دیا تھا کہ بورڈ میں کون ہو گا، وزیراعظم کے ماحولیاتی تبدیلی کے معاون خصوصی کون ہیں، ماحولیاتی تبدیلی کی وزیر زرتاج گل ہیں، کیوں نہ ان تمام ممبران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ان تمام ممبران نے اس عدالت کے فیصلے کی توہین کی، کیا ان تمام ممبران کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جو جانوروں کا خیال نہیں رکھ سکتے وہ انسانوں کا کیا خیال رکھیں گے۔ عدالت نے متعلقہ فریقین کو طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت؛ زرتاج گل کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ - ایکسپریس اردو
جو جانوروں کا خیال نہیں رکھ سکتے وہ انسانوں کا کیا خیال رکھیں گے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ
www.express.pk