تیزی سےبچوں میں مقبول ہوتا کھلونا "کلیکر (ٹک ٹک)" نقصان دہ؟

tik1h11i3.jpg

ان دنوں آپ پاکستان کی کسی بھی گلی سے گزریں تو آپ کو بچے ایک خاص قسم کے ’ٹک ٹک‘ نامی کھلونے سے کھیلتے ہوئے ضرور دکھائی دیں گے۔

ٹک ٹک کلیکر کھلونا آج کل پاکستان میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے، اس کھلونے کو ٹک ٹک بھی کہا جاتا ہے اور کلیکر بھی۔۔ یہ کھلونا سائنس کے بنیادی اصولوں جیسے انرجی، مومنٹم اور فریکشن پر مبنی ہے۔ دو گیندوں کو خاص رفتار سے اچھالا جاتا ہے تاکہ وہ آپس میں ٹکراتے رہیں اور ایک ردھم بن جائے

ٹک ٹک کا جنون پاکستان کے ہر شہر میں پھیل چکا ہے۔ گلی محلوں میں تقریبا ہر بچہ یہ کھلونا ہاتھ میں اٹھاکر پھررہا ہوتا ہے۔ بچوں کے والدین اور بڑے اس کھلونے کے شور سے پریشان ہیں، مگر بچوں کا جنون رکنے کا نام نہیں لے رہا۔

پاکستان میں ٹک ٹک کے نام سے مشہور کھلونے کو اصل میں کلیکر ٹوائے کہا جاتا ہے۔ یہ کھلونا 1960 ءکی دہائی میں امریکا میں بنایا گیا تھا اور 1970 ءکے بعد یہ دنیا بھر میں مقبول ہوا۔

امریکی نیوز ویب سائٹ کوارٹز کے مطابق یہ ’کلیکر‘ ٹوائے کوئی نئی چیز نہیں ہے، یہ 1960 کی دہائی میں امریکہ میں بنایا گیا تھا اور سنہ 1970 کے بعد یہ پوری دنیا میں مقبول ہوا۔۔ 1966 ء کے ایک ایکٹ کے تحت ایف ڈی اے کو خطرناک کھلونوں پر پابندی کا اختیار ملا، جس میں کلیکر بھی شامل تھا۔

اس کھلونے کو جان لیوا کھلونا قرار دیا گیا، پہلے اس کھلونے کی گیندیں شیشے میں تھیں جو بہت خطرناک اور جان لیوا تھا، پھر یہ پلاسٹک میں متعارف ہوا مگر اسے پھر بھی خطرناک قرار دیا گیا، یہ کھلونا اس لحاظ سے خطرناک قرار دیا گیا کہ اسکے ایک طرف سے ٹوٹنے سے گیند کسی کے سر یا آنکھ میں لگنے کا خدشہ رہتا تھا۔کھلونے کی گیند کی رفتار تیز ہونا جان لیوا بھی ہوسکتا تھا۔

کلیکرز کو خطرہ قرار دیے جانے کے بعد یہ کھلونا امریکی مارکیٹ سے وقتی طور پر غائب تو ہو گیا لیکن مکمل طور پر ختم نا ہوسکا جس کا ثبوت ہمیں پاکستان کی گلیوں میں بھی اس سے کھیلتے بچوں کی صورت میں مل سکتا ہے۔ یہ کھلونا پاکستان میں 50 روپے سے 100 یا 150 میں دستیاب ہے۔

پاکستان میں متعارف کرایا گیا کھلونا پھر بھی کچھ حد تک مختلف ہے،ان میں پلاسٹک کی جدید قسم استعمال ہوتی ہے جس کے ٹوٹنے کا خدشہ بھی کم ہے، مگر ہاتھ سے نکلنے کی صورت میں یہ بچوں اور پاس موجود افراد کو نقصان ضرور پہنچا سکتا ہے۔

مگر کھیل کے دوران دھاگہ ٹوٹنا کسی آس پاس کےگزرنے والے کو نقصان پہنچاسکتا ہے۔کسی کی آنکھ میں لگنے سے آنکھ یا سر پر لگنے سے جان لیوا ہوسکتا ہے۔بے دھیانی یا مہارت دکھانے کے چکر میں اپنا نقصان بھی کرسکتا ہے ۔

اس وقت اس کھلونے کا بچوں میں جنون ہے لیکن ماضی قریب میں سپنر، پوپ اٹ اور لٹو کا بھی جنون تھا جو اب بچوں کے ہاتھ میں کم نظر آتا ہے۔ توقع ہےکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کھلونے کا جنون بھی کم ہوتا جائے گا ۔