دستک(حامد میر)
تھینک یو جنرل اسلم بیگ
حیرت میں جب خوشی شامل ہو جائے تو خوشگوار حیرت کہلاتی ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی سوانح حیات کے نام نے مجھے حیرت میں مبتلا کیا۔ ’اقتدار کی مجبوریاں‘ کے نام سے شائع ہونے والی اس سوانح عمری کا ٹائٹل بڑا دلچسپ ہے۔
اس میں جنرل صاحب کی تصویر کے نیچے ایک خاکی روبوٹ نما انسان ایک کچے دھاگے پر چل رہا ہے اور اس کے پیچھے ایک قینچی نظر آ رہی ہے، جو کسی بھی وقت دھاگے کو کاٹ سکتی ہے۔ ٹائٹل حیرت سے بھرپور تھا لیکن جب کتاب کا مطالعہ مکمل کیا تو یہ ناچیر خوشگوار حیرت کے احساس سے دوچار تھا۔ خلافِ توقع پاکستانی فوج کے ایک سابق سربراہ نے اپنی سوانح عمری میں کچھ ایسے اعترافات کیے ہیں، جو میرے لیے تو نئے نہیں تھے لیکن جنرل مزرا اسلم بیگ کی زبانی ان سچائیوں کا سامنے آنا گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔
جنرل صاحب کی زندگی کی یہ کہانی کرنل اشفاق حسین نے لکھی ہے۔ یہ وہی کرنل اشفاق حسین ہیں، جو 'جنٹل مین بسم اللہ‘ اور 'جنٹل مین استغفرللہ‘ جیسی مشہور کتابوں کے مصنف ہیں۔ بارہ اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ان کی پہلی تقریر انہی کرنل اشفاق حسین صاحب نے اس وقت کے کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل مظفر عثمانی کے ساتھ مل کر لکھی تھی۔
مشرف کی تقریر لکھنا ایک پیشہ ورانہ ذمہ داری تھی لیکن جنرل مرزا اسلم بیگ کی سوانح عمری لکھ کر کرنل اشفاق حسین نے ایک قومی ذمہ داری ادا کی ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ ان پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزام میں کوئی مقدمہ درج نہ ہو۔
سال ہا سال سے میں یہ سنتا آ رہا تھا کہ جنرل ضیاالحق کے طیارے کے حادثے میں جنرل مرزا اسلم بیگ ملوث تھے۔ ان پر اصغر خان کیس میں پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین میں خفیہ طور پر رقوم بانٹنے کا الزام بھی لگا۔ جنرل صاحب نے اپنی سوانح عمری میں ان تمام الزامات کا جواب دیا ہے۔ لیکن میرے لیے یہ زیادہ اہم ہے کہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے یہ اعتراف کیا کہ سن 1964ء میں جنرل ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کو زیادہ مقبولیت حاصل تھی لیکن انہیں دھاندلی کے ذریعے ہرا دیا گیا، جس سے مشرقی پاکستان کے عوام میں بددلی پھیلی۔
جنرل مرزا اسلم بیگ نے 1950ء میں پاکستانی آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔ وہ پہلے آرمی چیف تھے، جو پاکستان ملٹری اکیڈمی سے تربیت یافتہ تھے۔ جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کی طرح برطانوی فوج کے تربیت یافتہ نہیں تھے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں نہ صرف خدمات انجام دیں بلکہ بھارتی فوج کے خلاف ایکشن میں بھی شامل رہے۔
کتاب میں فرماتے ہیں کہ جولائی 1971ء تک فوج نے مشرقی پاکستان میں حالات کنٹرول کر لیے تھے، جس کے بعد لیفٹیننٹ کرنل مرزا اسلم بیگ نے تحریری طور پر لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی کو کہا کہ اب اقتدار سول انتظامیہ کے سپرد کر کے سیاسی عمل شروع کیا جائے۔ یہ بات جنرل نیازی کو پسند نہ آئی کیوں کہ وہ طاقت کے نشے میں چور تھے۔ انہوں نے ایسے ریمارکس پاس کیے، جو ہمارے جنرل آفیسر کمانڈنگ کو پسند نہ آئے اور تلخ کلامی ہو گئی۔ تین دن کے اندر اندر کمانڈ تبدیل ہو گئی اور مرزا اسلم بیگ زیرعتاب آ گئے۔ انہیں واپس راولپنڈی بھیج دیا گیا۔ انہوں نے ایڈمرل احسن اور جنرل صاحب زادہ یعقوب علی خان کا بھی ذکر کیا ہے، جو سیاسی عمل بحال کرنے کے حامی تھے۔ جب ان کی بات نہ سنی گئی تو انہوں استعفیٰ دے دیا۔ یہی موقف فیض احمد فیض، حبیب جالب اور میرے والد پروفیسر وارث میر سمیت بہت سے سویلینز کا تھا، جو مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن کے خلاف تھے، لیکن ان سب کو غدار قرار دیا گیا، جب کہ مرزا اسلم بیگ بعد ازاں آرمی چیف بن گئے۔
جنرل صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ 1979 میں وہ میجر جنرل تھے، جنرل ضیاء نے اپنے افسروں کی رائے معلوم کی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جائے یا نہیں۔ جنرل بیگ نے پھانسی کی مخالفت کی اور کہا کہ اس سے پنجاب اور سندھ میں نفرت بڑھے گی۔ انہوں نے یہ ذکر بھی کیا ہےکہ جنرل ضیاء نے مسجد الحرام میں شاہ خالد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بھٹو کو پھانسی نہیں دیں گے، لیکن انہوں نے اپنے وعدے کا پاس نہیں کیا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل بیگ کو چیف آف جنرل اسٹاف بنا دیا گیا۔
جنرل صاحب نے دعویٰ کیا ہےکہ 1985ء میں انہوں نےجنرل حمید گل کے ساتھ مل کر ایک رپورٹ لکھی اور جنرل ضیاء کو سفارش کی کہ صاف ستھرے الیکشن کروا کر اقتدار منتخب نمائندوں کے سپرد کر دیا جائے، جس پر جنرل ضیاء نے کہا، ''تم چاہتے ہو کہ پھانسی کا پھندہ میرے گلے میں ہو۔‘‘
بعد ازاں جنرل ضیاء نے غیرجماعتی انتخابات کروائے اور محمد خان جونیجو وزیراعظم بن گئے۔ 1987ء میں جنرل ضیا نے جنرل زاہد علی اکبر کو وائس چیف آف دی آرمی اسٹاف بنانے کا فیصلہ کیا لیکن وزیراعظم جونیجو نے جنرل مرزا اسلم بیگ کا نام تجویز کیا، جسے جنرل ضیا نے قبول کر لیا۔ جنرل مرزا اسلم بیگ نے اپنی سوانح عمری میں مختلف دلائل اور شواہد کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ جنرل ضیاء کے طیارے کا حادثہ کوئی سازش نہیں تھی بلکہ تکنیکی خرابی کے باعث پیش آنے والا افسوس ناک واقعہ تھا۔ اگر ان کی سازش ہوتی تو وہ اقتدار پر خود قبضہ کر لیتے لیکن انہوں نے حادثے کے تین گھنٹے کے اندر اندر اقتدار اس وقت کے چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان کے حوالے کر دیا۔
1988ء کے انتخابات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔ مرزا اسلم بیگ نے محترمہ کے ساتھ اپنے ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر اعتراف کیا ہے کہ 1990 کے اوائل میں بھارت نے ہماری ایٹمی تنصیبات تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تو محترمہ نے صاحب زادہ یعقوب علی خان کو دہلی بھیجا اور بھارت کو پیغام دیا کہ باز آ جاؤ ورنہ تمہاری تنصیبات تباہ کر کے رکھ دیں گے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بڑی دانشمندی سے نیوکلیئر پالیسی آگے بڑھائی۔ اس دور میں محترمہ کی اجازت سے بھارت کے خلاف لائن آف کنٹرول پر ایک کامیاب سرجیکل اسٹرائیک کی گئی۔ بوسنیا میں مسلمانوں پر سرب فوج بڑا ظلم کر رہی تھی، محترمہ کی اجازت سے بوسنیا کو اینٹی ٹینک میزائل دیے گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی وزیراعظم تھیں، جو سیاچین کے بلند ترین محاذ کے دورے پر گئیں۔ جنرل صاحب نے محترمہ کے ساتھ اپنی غلط فہمیوں کا بھی ذکر کیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ محترمہ کے اصل اختلافات صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ 1990 میں محترمہ کی حکومت گرانے کے فیصلے پر میری خاموشی کو محترمہ نے سازش سمجھا اور پھر 1994ء میں میرے خلاف اصغر خان کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔ اس تلخ واقع کو نظرانداز کر کے جنرل مرزا اسلم بیگ نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والی پانچ شخصیات کے ساتھ اس ملک میں بہت ظلم ہوا۔ جنرل صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں کہا ہے، ''انہیں عدالتی قتل کے ذریعے ختم کیا گیا۔‘‘ (صفحہ244 ) جنرل ضیاء الحق نے ایٹمی پروگرام جاری رکھا اور سازش کے تحت قتل کیے گئے۔ (اس کتاب میں جنرل بیگ نے جنرل ضیاء کی موت کو ایک حادثہ بھی قرار دیا)۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان بدترین تضحیک کا نشانہ بنائے گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہماری ایٹمی قوت میں منطق اور ٹھہراؤ کا عنصر شامل کیا لیکن دہشت گردی کا شکار ہو گئیں۔ میاں نواز شریف کے بارے میں جنرل بیگ نے صفحہ 245 پر کہا ہے، ''انہوں نے ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو موثر جواب دیا لیکن آٹھ سال جلاوطن رہے۔ دوبارہ وزیراعظم بنے لیکن پھر سازش کے تحت انہیں کرسی اقتدار سے الگ کر دیا گیا۔‘‘
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل اور نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے کو سازش قرار دے کر جنرل مرزا اسلم بیگ نے مجھ سمیت بہت سے پاکستانیوں کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کیا ہے۔ انہوں نے مقبول بٹ کا ذکر بڑی محبت اور عقیدت سے کیا ہے اور بتایا ہے کہ مقبول بٹ بھارتی جیل توڑ کر واپس آئے تو جنرل ایوب خان کے حکم پر انہیں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیوں کہ مقبول بٹ 1964ء میں محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے انچارج کے ایچ خورشید کے ساتھی رہے تھے۔ جنرل صاحب نے عمران خان پر بھی کافی تنقید کی ہے۔ انہیں جلدباز اور پارلیمنٹ کو بے وقعت بنانے کی وجہ قرار دیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ پاکستانی فوج کے ایک سابق سربراہ کے خیال میں نہ تو ذوالفقار علی بھٹو غدار تھے، نہ ہی محترمہ بے نظیر بھٹو سکیورٹی رسک تھیں اور جو کچھ نواز شریف کے ساتھ ہوا، وہ سب ایک سازش تھی۔ اس کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ ایک انکشاف ایسا ہے، جس کا بلاواسطہ میری ذات کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اور جنرل صاحب نے میرا نام لیے بغیر مجھ پر لگائے جانے والے ایک بڑے مشہور الزام کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ اس انکشاف پر اگلے کالم میں بات کریں گے۔
آپ سب کو عیدالاضحیٰ مبارک!
سورس
اس میں جنرل صاحب کی تصویر کے نیچے ایک خاکی روبوٹ نما انسان ایک کچے دھاگے پر چل رہا ہے اور اس کے پیچھے ایک قینچی نظر آ رہی ہے، جو کسی بھی وقت دھاگے کو کاٹ سکتی ہے۔ ٹائٹل حیرت سے بھرپور تھا لیکن جب کتاب کا مطالعہ مکمل کیا تو یہ ناچیر خوشگوار حیرت کے احساس سے دوچار تھا۔ خلافِ توقع پاکستانی فوج کے ایک سابق سربراہ نے اپنی سوانح عمری میں کچھ ایسے اعترافات کیے ہیں، جو میرے لیے تو نئے نہیں تھے لیکن جنرل مزرا اسلم بیگ کی زبانی ان سچائیوں کا سامنے آنا گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔
جنرل صاحب کی زندگی کی یہ کہانی کرنل اشفاق حسین نے لکھی ہے۔ یہ وہی کرنل اشفاق حسین ہیں، جو 'جنٹل مین بسم اللہ‘ اور 'جنٹل مین استغفرللہ‘ جیسی مشہور کتابوں کے مصنف ہیں۔ بارہ اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ان کی پہلی تقریر انہی کرنل اشفاق حسین صاحب نے اس وقت کے کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل مظفر عثمانی کے ساتھ مل کر لکھی تھی۔
مشرف کی تقریر لکھنا ایک پیشہ ورانہ ذمہ داری تھی لیکن جنرل مرزا اسلم بیگ کی سوانح عمری لکھ کر کرنل اشفاق حسین نے ایک قومی ذمہ داری ادا کی ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ ان پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزام میں کوئی مقدمہ درج نہ ہو۔
سال ہا سال سے میں یہ سنتا آ رہا تھا کہ جنرل ضیاالحق کے طیارے کے حادثے میں جنرل مرزا اسلم بیگ ملوث تھے۔ ان پر اصغر خان کیس میں پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین میں خفیہ طور پر رقوم بانٹنے کا الزام بھی لگا۔ جنرل صاحب نے اپنی سوانح عمری میں ان تمام الزامات کا جواب دیا ہے۔ لیکن میرے لیے یہ زیادہ اہم ہے کہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے یہ اعتراف کیا کہ سن 1964ء میں جنرل ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کو زیادہ مقبولیت حاصل تھی لیکن انہیں دھاندلی کے ذریعے ہرا دیا گیا، جس سے مشرقی پاکستان کے عوام میں بددلی پھیلی۔
جنرل مرزا اسلم بیگ نے 1950ء میں پاکستانی آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔ وہ پہلے آرمی چیف تھے، جو پاکستان ملٹری اکیڈمی سے تربیت یافتہ تھے۔ جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کی طرح برطانوی فوج کے تربیت یافتہ نہیں تھے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں نہ صرف خدمات انجام دیں بلکہ بھارتی فوج کے خلاف ایکشن میں بھی شامل رہے۔
کتاب میں فرماتے ہیں کہ جولائی 1971ء تک فوج نے مشرقی پاکستان میں حالات کنٹرول کر لیے تھے، جس کے بعد لیفٹیننٹ کرنل مرزا اسلم بیگ نے تحریری طور پر لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی کو کہا کہ اب اقتدار سول انتظامیہ کے سپرد کر کے سیاسی عمل شروع کیا جائے۔ یہ بات جنرل نیازی کو پسند نہ آئی کیوں کہ وہ طاقت کے نشے میں چور تھے۔ انہوں نے ایسے ریمارکس پاس کیے، جو ہمارے جنرل آفیسر کمانڈنگ کو پسند نہ آئے اور تلخ کلامی ہو گئی۔ تین دن کے اندر اندر کمانڈ تبدیل ہو گئی اور مرزا اسلم بیگ زیرعتاب آ گئے۔ انہیں واپس راولپنڈی بھیج دیا گیا۔ انہوں نے ایڈمرل احسن اور جنرل صاحب زادہ یعقوب علی خان کا بھی ذکر کیا ہے، جو سیاسی عمل بحال کرنے کے حامی تھے۔ جب ان کی بات نہ سنی گئی تو انہوں استعفیٰ دے دیا۔ یہی موقف فیض احمد فیض، حبیب جالب اور میرے والد پروفیسر وارث میر سمیت بہت سے سویلینز کا تھا، جو مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن کے خلاف تھے، لیکن ان سب کو غدار قرار دیا گیا، جب کہ مرزا اسلم بیگ بعد ازاں آرمی چیف بن گئے۔
جنرل صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ 1979 میں وہ میجر جنرل تھے، جنرل ضیاء نے اپنے افسروں کی رائے معلوم کی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جائے یا نہیں۔ جنرل بیگ نے پھانسی کی مخالفت کی اور کہا کہ اس سے پنجاب اور سندھ میں نفرت بڑھے گی۔ انہوں نے یہ ذکر بھی کیا ہےکہ جنرل ضیاء نے مسجد الحرام میں شاہ خالد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بھٹو کو پھانسی نہیں دیں گے، لیکن انہوں نے اپنے وعدے کا پاس نہیں کیا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل بیگ کو چیف آف جنرل اسٹاف بنا دیا گیا۔
جنرل صاحب نے دعویٰ کیا ہےکہ 1985ء میں انہوں نےجنرل حمید گل کے ساتھ مل کر ایک رپورٹ لکھی اور جنرل ضیاء کو سفارش کی کہ صاف ستھرے الیکشن کروا کر اقتدار منتخب نمائندوں کے سپرد کر دیا جائے، جس پر جنرل ضیاء نے کہا، ''تم چاہتے ہو کہ پھانسی کا پھندہ میرے گلے میں ہو۔‘‘
بعد ازاں جنرل ضیاء نے غیرجماعتی انتخابات کروائے اور محمد خان جونیجو وزیراعظم بن گئے۔ 1987ء میں جنرل ضیا نے جنرل زاہد علی اکبر کو وائس چیف آف دی آرمی اسٹاف بنانے کا فیصلہ کیا لیکن وزیراعظم جونیجو نے جنرل مرزا اسلم بیگ کا نام تجویز کیا، جسے جنرل ضیا نے قبول کر لیا۔ جنرل مرزا اسلم بیگ نے اپنی سوانح عمری میں مختلف دلائل اور شواہد کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ جنرل ضیاء کے طیارے کا حادثہ کوئی سازش نہیں تھی بلکہ تکنیکی خرابی کے باعث پیش آنے والا افسوس ناک واقعہ تھا۔ اگر ان کی سازش ہوتی تو وہ اقتدار پر خود قبضہ کر لیتے لیکن انہوں نے حادثے کے تین گھنٹے کے اندر اندر اقتدار اس وقت کے چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان کے حوالے کر دیا۔
1988ء کے انتخابات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔ مرزا اسلم بیگ نے محترمہ کے ساتھ اپنے ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر اعتراف کیا ہے کہ 1990 کے اوائل میں بھارت نے ہماری ایٹمی تنصیبات تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تو محترمہ نے صاحب زادہ یعقوب علی خان کو دہلی بھیجا اور بھارت کو پیغام دیا کہ باز آ جاؤ ورنہ تمہاری تنصیبات تباہ کر کے رکھ دیں گے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بڑی دانشمندی سے نیوکلیئر پالیسی آگے بڑھائی۔ اس دور میں محترمہ کی اجازت سے بھارت کے خلاف لائن آف کنٹرول پر ایک کامیاب سرجیکل اسٹرائیک کی گئی۔ بوسنیا میں مسلمانوں پر سرب فوج بڑا ظلم کر رہی تھی، محترمہ کی اجازت سے بوسنیا کو اینٹی ٹینک میزائل دیے گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی وزیراعظم تھیں، جو سیاچین کے بلند ترین محاذ کے دورے پر گئیں۔ جنرل صاحب نے محترمہ کے ساتھ اپنی غلط فہمیوں کا بھی ذکر کیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ محترمہ کے اصل اختلافات صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ 1990 میں محترمہ کی حکومت گرانے کے فیصلے پر میری خاموشی کو محترمہ نے سازش سمجھا اور پھر 1994ء میں میرے خلاف اصغر خان کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔ اس تلخ واقع کو نظرانداز کر کے جنرل مرزا اسلم بیگ نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والی پانچ شخصیات کے ساتھ اس ملک میں بہت ظلم ہوا۔ جنرل صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں کہا ہے، ''انہیں عدالتی قتل کے ذریعے ختم کیا گیا۔‘‘ (صفحہ244 ) جنرل ضیاء الحق نے ایٹمی پروگرام جاری رکھا اور سازش کے تحت قتل کیے گئے۔ (اس کتاب میں جنرل بیگ نے جنرل ضیاء کی موت کو ایک حادثہ بھی قرار دیا)۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان بدترین تضحیک کا نشانہ بنائے گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہماری ایٹمی قوت میں منطق اور ٹھہراؤ کا عنصر شامل کیا لیکن دہشت گردی کا شکار ہو گئیں۔ میاں نواز شریف کے بارے میں جنرل بیگ نے صفحہ 245 پر کہا ہے، ''انہوں نے ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو موثر جواب دیا لیکن آٹھ سال جلاوطن رہے۔ دوبارہ وزیراعظم بنے لیکن پھر سازش کے تحت انہیں کرسی اقتدار سے الگ کر دیا گیا۔‘‘
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل اور نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے کو سازش قرار دے کر جنرل مرزا اسلم بیگ نے مجھ سمیت بہت سے پاکستانیوں کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کیا ہے۔ انہوں نے مقبول بٹ کا ذکر بڑی محبت اور عقیدت سے کیا ہے اور بتایا ہے کہ مقبول بٹ بھارتی جیل توڑ کر واپس آئے تو جنرل ایوب خان کے حکم پر انہیں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیوں کہ مقبول بٹ 1964ء میں محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے انچارج کے ایچ خورشید کے ساتھی رہے تھے۔ جنرل صاحب نے عمران خان پر بھی کافی تنقید کی ہے۔ انہیں جلدباز اور پارلیمنٹ کو بے وقعت بنانے کی وجہ قرار دیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ پاکستانی فوج کے ایک سابق سربراہ کے خیال میں نہ تو ذوالفقار علی بھٹو غدار تھے، نہ ہی محترمہ بے نظیر بھٹو سکیورٹی رسک تھیں اور جو کچھ نواز شریف کے ساتھ ہوا، وہ سب ایک سازش تھی۔ اس کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ ایک انکشاف ایسا ہے، جس کا بلاواسطہ میری ذات کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اور جنرل صاحب نے میرا نام لیے بغیر مجھ پر لگائے جانے والے ایک بڑے مشہور الزام کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ اس انکشاف پر اگلے کالم میں بات کریں گے۔
آپ سب کو عیدالاضحیٰ مبارک!
سورس