مجموعی صورت حال
ہر وہ جنگ جس میں دونوں فریق مسلمان ہو، ساری دنیا کے درد مند مسلمانوں کے لئے بری خبر بن کر آتی ہے، کیونکہ جیت کسی بھی فریق کی ہو، ہار ہمیشہ مسلمانوں کی ہوتی ہے۔لہذا ہماری یہی کوشش اور دعا ہوتی ہے کہ اللہ مسلمانوں کو اتفاق و اتحاد سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ایسی سازشوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
کرد (پیش مرگہ)
ہمارا ہمیشہ سے یہی موقف ہے کہ جس مسلم فرد گروہ تنظیم یا ملک نے امریکا کو اپنا دوست سمجھا وہ پچھتائے گا، اور جس نے امریکا کو اپنا دوست اور ایران کا دشمن سمجھا، اسے پچھتانے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اور آئے روز اس کا مظاہرہ ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ لہذا اس مشاہدہ کے باوجود اگر کوئی جماعت یا گروہ امریکی جھانسے میں آ جاتی ہے،تو اصولا کردوں کے ساتھ کوئی ہمدردی ہونی چاہئے، مگر نہ چاہتے ہوئے بھی اس لڑائی سے افسوس ہوتا ہے۔ شاید اس وجہ سے کہ کچھ بھی ہو، یہ بہرحال مسلمانوں کے درمیان لڑائی ہے، یا شاید اس وجہ سے کہ ایسی جنگوں میں متحاربین کے ساتھ ساتھ بے گناہ لوگ خصوصا عورتیں اور بچے بڑی تعداد میں نشانہ بنتے ہیں۔
البتہ مضحکہ خیز بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ جب تک کرد خود امریکی اتحادی بن کر دوسروں سے جنگ کرتے رہے، تب انہیں یاد نہیں آیا کہ امریکی بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ مگر جیسے ہی امریکا نے ان کے ساتھ غداری کی اور بیچ منجدھار میں چھوڑا، تو ان کو فورا یاد آ گیا کہ امریکا تو بہت ظالم ہے، چنانچہ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے ابو غریب اور دوسرے ٹارچر سیلوں کی تصاویر شائع کرنا شروع کر دیں۔
ترکی؛
ترکی کا کردار بہت مشکوک لگتا ہے اور مجھے اس بارے میں فیصلہ کرنے میں مشکل ہوتی ہے کہ طیب اردگان واقعی ویسا ہی ہے، جیسا کہ دیکھنے میں لگتا ہے، یا یہ شخص بھی کوئی فراڈ ہے۔بات صرف اسرائیل کے ساتھ تعلقات یا ترکی کے فحش ساحلوں کی نہیں،ترکی نے پچھلے اٹھارہ سال سے افغانستان میں امریکی سربراہی میں جاری ظلم و ستم میں پورا حصہ ڈالا ہوا ہے۔ افغانستان کے کئی ظالم لیڈر مثلا جنرل دوستم وغیرہ کو ترکی کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔بہت سے لوگ طیب اردگان کو اس وجہ سے پسند کرتے ہیں کہ اس نے ترکی کی معیشت کو ترقی دی ہے۔ جب کہ اس نام نہاد ترقی کا بھانڈا س وقت پھوٹ گیا جب امریکی صدر نے ایک ٹویٹ کی اور ترکی لیرا زمین پر آ رہا۔ہم ایسی ایسی خیراتی ترقی کومثالی نہیں مانتے جو دشمن کی مرہون منت ہو، اور دشمن جب چاہے اسے ختم کر دے۔ اسی طرح شام کے حوالے سے ترکی کا کردار ہر گز مثالی نہیں۔اب اسی بات کو دیکھ لیا جائے کہ ترکی نے جو حالیہ حملہ کیا ہے، وہ مکمل طور پر امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے کیا ہے۔ چنانچہ اب ترکی اپنا کام کرے گا، اور امریکہ صرف مذمتی بیان اور باپندیوں کی دھمکیوں اور ڈنگ ٹپاؤ کاموں تک محدود رہے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس جنگ سے مسلمانوں کے حق میں کچھ اچھا نتیجہ برآمد ہونا مشکل ہے۔
امریکا
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امریکا نے اس لئے اپنی فوجیں شام سے نکال لی ہیں کہ وہاں حکومت تبدیل ہو گئی ہے، اورٹرمپ حکومت کو ایسی جنگیں پسند نہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں حکومت تبدیل ہونے سے پالیسیاں نہیں بدلی جاتیں، اور یہ جو کچھ ہو رہا ہے پہلے سے طے شدہ پلان کے تحت ہے۔اور کوئی بھی حکومت ہوتی، اس نے ایسا ہی کرنا تھا۔امریکہ کو مسلمانوں کے جہادی پوٹنشل کو ختم کرنے کے لئے داعش کے گھڑاگ کی ضرورت تھی،، داعش کو ختم کرنے کے لئے کرد پیش مرگہ، اور کردوں کو ختم کرنے کے لئے ترکی کی ضرورت تھی۔اور یہ سارا گیم پلان پہلے سے تیار تھا، اور اسی پر عمل ہو رہا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ امریکہ کے اس عمل سے اسے نقصان پہنچا ہے۔ اور اس پر تنقید ہو رہی ہے، اس کے دیگر اتحادیوں میں بد اعتمادی پیدا ہوئی ہے، اور اس کی کریڈیبلیٹی(ساکھ) کو شدید نقصان پہنچا ہے۔چنانچہ سوال یہ ہے کہ امریکہ نے یہ بدنامی مول کیوں لی۔اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ جنگوں سے تنگ آ چکا ہے، تو اسے پھر سب سے پہلے افغانستان سے انخلا کرنا چاہئے تھا، جہاں اس کا جانی و مالی نقصان کہیں ذیادہ ہے، جبکہ شام میں امریکہ کو کوئی خاص پریشانی نہیں تھی۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسا امریکا نے ہمیشہ کی طرح ایران کو فائدہ پہنچانے کے لئے کیا ہے۔ امریکہ زبانی کلامی دعوں کے برعکس، عملی طور پر پورے شام پر بشار الاسد کی عمل داری چاہتا ہے، جس میں کرد علاقے بھی شامل ہیں۔ اب اگر یہی حملہ شامی حکومت کرتی، اور امریکہ اسی طرح کردوں کو بیچ منجدھار چھوڑ کر چلا جاتا،تو اس کی ایران کے ساتھ دشمنی کا بھانڈا پھوٹ جاتا۔چنانچہ اس کا یہ حل نکالا کہ کردوں کا کانٹا ترکی کے ذریعے نکلوایا جائے۔ اور جب کرد اپنی طاقت ختم کر بیٹھیں، توبشار الاسد اورفرقہ پرست شیعہ ملیشئائیں آرام سے آ کر ان علاقوں پر قبضہ کرلیں، جن پر بصورت دیگر وہ قبضہ نہیں کر سکتے تھے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کرد خود ہی شامی حکومت کے ساتھ اتحاد پر مجبور ہو جائیں۔ جس کا مطلب ہے کہ پھر روس بھی میدان میں ہو گا۔ اور پھر ترکی کو یہ آپریشن روکنا پڑے گا۔ہر دو صورتوں میں بشار الاسد کی عملداری کاامریکی مقصد پورا ہو جائے گا۔
اگر آپ کو یقین نہیں، تو کچھ عرصہ انتظار کریں، اگر امریکی پلان پربعینہ عمل ہوا توجب جنگ کی گر د بیٹھ جائے گی، تو ہر دو صورت میں آپ دیکھیں گے کہ اس ساری صورت حال کا سب سے بڑا بینیفیشری (ہمیشہ کی طرح اتفاق سے)ایران ہو گا۔
دسیوں ہزار قیدی
اس حوالے سے دی گئی خبروں میں ان قیدیوں کا ذکر بار بار آ رہا ہے۔ایسے دور میں جب امت کا نوجوان یورپ جانے کے لئے کسی بھی حد کو جانے کے لئے تیار ہیں، یورپ کی رنگینیوں کو چھوڑ کر داعش کی جھوٹی خلافت کے چکر میں پھنسنے والے یہ لوگ امت مسلمہ کا سرمایہ ہیں۔ ان لوگوں میں ڈاکٹر تھے،انجینیر تھے،ماہر معیشیت تھے، سائنسدان اور پرفیسر تھے۔سب سے بڑھ کر ان میں قربانی کا جذبہ تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو کسی بھی آزاد اسلامی ریاست کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ان قیدیوں میں عورتیں اور بچے بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان لوگوں کی حفاظت فرمائے اور ان لوگوں کو داعشی فراڈ سے بچ کر، دین کی حقیقی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہر وہ جنگ جس میں دونوں فریق مسلمان ہو، ساری دنیا کے درد مند مسلمانوں کے لئے بری خبر بن کر آتی ہے، کیونکہ جیت کسی بھی فریق کی ہو، ہار ہمیشہ مسلمانوں کی ہوتی ہے۔لہذا ہماری یہی کوشش اور دعا ہوتی ہے کہ اللہ مسلمانوں کو اتفاق و اتحاد سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ایسی سازشوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
کرد (پیش مرگہ)
ہمارا ہمیشہ سے یہی موقف ہے کہ جس مسلم فرد گروہ تنظیم یا ملک نے امریکا کو اپنا دوست سمجھا وہ پچھتائے گا، اور جس نے امریکا کو اپنا دوست اور ایران کا دشمن سمجھا، اسے پچھتانے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اور آئے روز اس کا مظاہرہ ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ لہذا اس مشاہدہ کے باوجود اگر کوئی جماعت یا گروہ امریکی جھانسے میں آ جاتی ہے،تو اصولا کردوں کے ساتھ کوئی ہمدردی ہونی چاہئے، مگر نہ چاہتے ہوئے بھی اس لڑائی سے افسوس ہوتا ہے۔ شاید اس وجہ سے کہ کچھ بھی ہو، یہ بہرحال مسلمانوں کے درمیان لڑائی ہے، یا شاید اس وجہ سے کہ ایسی جنگوں میں متحاربین کے ساتھ ساتھ بے گناہ لوگ خصوصا عورتیں اور بچے بڑی تعداد میں نشانہ بنتے ہیں۔
البتہ مضحکہ خیز بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ جب تک کرد خود امریکی اتحادی بن کر دوسروں سے جنگ کرتے رہے، تب انہیں یاد نہیں آیا کہ امریکی بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ مگر جیسے ہی امریکا نے ان کے ساتھ غداری کی اور بیچ منجدھار میں چھوڑا، تو ان کو فورا یاد آ گیا کہ امریکا تو بہت ظالم ہے، چنانچہ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے ابو غریب اور دوسرے ٹارچر سیلوں کی تصاویر شائع کرنا شروع کر دیں۔
ترکی؛
ترکی کا کردار بہت مشکوک لگتا ہے اور مجھے اس بارے میں فیصلہ کرنے میں مشکل ہوتی ہے کہ طیب اردگان واقعی ویسا ہی ہے، جیسا کہ دیکھنے میں لگتا ہے، یا یہ شخص بھی کوئی فراڈ ہے۔بات صرف اسرائیل کے ساتھ تعلقات یا ترکی کے فحش ساحلوں کی نہیں،ترکی نے پچھلے اٹھارہ سال سے افغانستان میں امریکی سربراہی میں جاری ظلم و ستم میں پورا حصہ ڈالا ہوا ہے۔ افغانستان کے کئی ظالم لیڈر مثلا جنرل دوستم وغیرہ کو ترکی کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔بہت سے لوگ طیب اردگان کو اس وجہ سے پسند کرتے ہیں کہ اس نے ترکی کی معیشت کو ترقی دی ہے۔ جب کہ اس نام نہاد ترقی کا بھانڈا س وقت پھوٹ گیا جب امریکی صدر نے ایک ٹویٹ کی اور ترکی لیرا زمین پر آ رہا۔ہم ایسی ایسی خیراتی ترقی کومثالی نہیں مانتے جو دشمن کی مرہون منت ہو، اور دشمن جب چاہے اسے ختم کر دے۔ اسی طرح شام کے حوالے سے ترکی کا کردار ہر گز مثالی نہیں۔اب اسی بات کو دیکھ لیا جائے کہ ترکی نے جو حالیہ حملہ کیا ہے، وہ مکمل طور پر امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے کیا ہے۔ چنانچہ اب ترکی اپنا کام کرے گا، اور امریکہ صرف مذمتی بیان اور باپندیوں کی دھمکیوں اور ڈنگ ٹپاؤ کاموں تک محدود رہے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس جنگ سے مسلمانوں کے حق میں کچھ اچھا نتیجہ برآمد ہونا مشکل ہے۔
امریکا
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امریکا نے اس لئے اپنی فوجیں شام سے نکال لی ہیں کہ وہاں حکومت تبدیل ہو گئی ہے، اورٹرمپ حکومت کو ایسی جنگیں پسند نہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں حکومت تبدیل ہونے سے پالیسیاں نہیں بدلی جاتیں، اور یہ جو کچھ ہو رہا ہے پہلے سے طے شدہ پلان کے تحت ہے۔اور کوئی بھی حکومت ہوتی، اس نے ایسا ہی کرنا تھا۔امریکہ کو مسلمانوں کے جہادی پوٹنشل کو ختم کرنے کے لئے داعش کے گھڑاگ کی ضرورت تھی،، داعش کو ختم کرنے کے لئے کرد پیش مرگہ، اور کردوں کو ختم کرنے کے لئے ترکی کی ضرورت تھی۔اور یہ سارا گیم پلان پہلے سے تیار تھا، اور اسی پر عمل ہو رہا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ امریکہ کے اس عمل سے اسے نقصان پہنچا ہے۔ اور اس پر تنقید ہو رہی ہے، اس کے دیگر اتحادیوں میں بد اعتمادی پیدا ہوئی ہے، اور اس کی کریڈیبلیٹی(ساکھ) کو شدید نقصان پہنچا ہے۔چنانچہ سوال یہ ہے کہ امریکہ نے یہ بدنامی مول کیوں لی۔اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ جنگوں سے تنگ آ چکا ہے، تو اسے پھر سب سے پہلے افغانستان سے انخلا کرنا چاہئے تھا، جہاں اس کا جانی و مالی نقصان کہیں ذیادہ ہے، جبکہ شام میں امریکہ کو کوئی خاص پریشانی نہیں تھی۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسا امریکا نے ہمیشہ کی طرح ایران کو فائدہ پہنچانے کے لئے کیا ہے۔ امریکہ زبانی کلامی دعوں کے برعکس، عملی طور پر پورے شام پر بشار الاسد کی عمل داری چاہتا ہے، جس میں کرد علاقے بھی شامل ہیں۔ اب اگر یہی حملہ شامی حکومت کرتی، اور امریکہ اسی طرح کردوں کو بیچ منجدھار چھوڑ کر چلا جاتا،تو اس کی ایران کے ساتھ دشمنی کا بھانڈا پھوٹ جاتا۔چنانچہ اس کا یہ حل نکالا کہ کردوں کا کانٹا ترکی کے ذریعے نکلوایا جائے۔ اور جب کرد اپنی طاقت ختم کر بیٹھیں، توبشار الاسد اورفرقہ پرست شیعہ ملیشئائیں آرام سے آ کر ان علاقوں پر قبضہ کرلیں، جن پر بصورت دیگر وہ قبضہ نہیں کر سکتے تھے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کرد خود ہی شامی حکومت کے ساتھ اتحاد پر مجبور ہو جائیں۔ جس کا مطلب ہے کہ پھر روس بھی میدان میں ہو گا۔ اور پھر ترکی کو یہ آپریشن روکنا پڑے گا۔ہر دو صورتوں میں بشار الاسد کی عملداری کاامریکی مقصد پورا ہو جائے گا۔
اگر آپ کو یقین نہیں، تو کچھ عرصہ انتظار کریں، اگر امریکی پلان پربعینہ عمل ہوا توجب جنگ کی گر د بیٹھ جائے گی، تو ہر دو صورت میں آپ دیکھیں گے کہ اس ساری صورت حال کا سب سے بڑا بینیفیشری (ہمیشہ کی طرح اتفاق سے)ایران ہو گا۔
دسیوں ہزار قیدی
اس حوالے سے دی گئی خبروں میں ان قیدیوں کا ذکر بار بار آ رہا ہے۔ایسے دور میں جب امت کا نوجوان یورپ جانے کے لئے کسی بھی حد کو جانے کے لئے تیار ہیں، یورپ کی رنگینیوں کو چھوڑ کر داعش کی جھوٹی خلافت کے چکر میں پھنسنے والے یہ لوگ امت مسلمہ کا سرمایہ ہیں۔ ان لوگوں میں ڈاکٹر تھے،انجینیر تھے،ماہر معیشیت تھے، سائنسدان اور پرفیسر تھے۔سب سے بڑھ کر ان میں قربانی کا جذبہ تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو کسی بھی آزاد اسلامی ریاست کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ان قیدیوں میں عورتیں اور بچے بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان لوگوں کی حفاظت فرمائے اور ان لوگوں کو داعشی فراڈ سے بچ کر، دین کی حقیقی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔