
فواد چوہدری اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں نے تحریک انصاف تو چھوڑدی لیکن پھر بھی پریشان ہیں کیونکہ تحریک انصاف چھوڑنے کے بعد وہ ن لیگ میں جا نہیں سکتے، پیپلزپارٹی کا پنجاب میں ووٹ بنک نہیں، جہانگیرترین گروپ کا ذاتی ووٹ بنک نہیں جبکہ عمران خان کا ہر حلقے میں مضبوط ووٹ بنک ہے۔
شاہ زیب خانزادہ کے مطابق فوادچوہدری چاہتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب بھی رہیں اور عمران خان اور اُن کے بیانیئے سے دور بھی رہیں مگر عمران خان کے نام پر پڑنے والا ووٹ انہیں ملتا رہے۔ اسکے لئے فوادچوہدری شاہ محمودقریشی سے ملے کہ وہ عمران خان کو سمجھائیں کہ وہ تحریک انصاف سے مائنس ہوجائیں مگر عمران خان کارکنوں کو سمجھائیں کہ اگر وہ مائنس بھی ہوجائیں تو انکے نام پر پڑنے والا ووٹ فوادچوہدری اور دیگر پارتی چھوڑنے والے رہنماؤں کو دیا جائے۔
مقتدر حلقوں نے فوادچوہدری اور دیگر رہنماؤں سے پارٹی تو چھڑوالی لیکن انکی پریشانی عمران خان کا ووٹ بنک بنا ہوا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کا ووٹ بنک کسی طرح جہانگیرترین گروپ کو منتقل ہوجائے جو ناممکن نظر آتا ہے اسکے لئے اب تحریک انصاف عمران خان کے بغیر متعارف کرانے کی کوشش کی جارہی ہے جیسی 2018 میں ایم کیوایم الطاف حسین کے بغیر کوشش کی گئی تھی۔
ایم کیوایم کو مائنس الطاف کرلیا گیا لیکن ایم کیوایم پاکستان کو ایم کیوایم کا ووٹ بنک نہ مل سکا، 2018 میں اور اسکے بعد ہونیوالے الیکشنز میں ٹرن آؤٹ انتہائی کم یعنی 15 سے 20 فیصد تک رہا، یہی کراچی تھا جہاں ٹرن آؤٹ50 فیصد سے کم نہیں ہوتا تھا۔الیکشن کے روز ایم کیوایم کا ووٹر گھر بیٹھا رہا۔
کراچی میں دو تجربات کئے گئے دونوں ہی ناکام رہے، ایک مائنس الطاف حسین کے بغیر اور دوسرا مصطفیٰ کمال کو لانچ کرکے پاک سرزمین پارٹی کی بنیاد۔۔ ایم کیوایم پاکستان تو پھر بھی سیٹیں لے گئی لیکن مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی تو ہر حلقے میں ضمانتیں ضبط کرابیٹھی، خود مصطفیٰ کمال کا جیتنا تودرکنار اپنی ضمانتیں ہی ضبط کراتے رہے۔
اب یہی تجربہ پورے پاکستان میں دہرانے کی کوشش ہورہی ہے، شاہ محمودقریشی یا فوادچوہدری کو خالدمقبول صدیقی اور جہانگیرترین کو مصطفیٰ کمال بنانے کی کوشش ہورہی ہے جس کے انجام کی پہلے سے پیشنگوئی ہورہی ہے۔
جہانگیرترین چند الیکٹیبلز کے بل بوتے پر الیکشن تو لڑسکتے ہیں لیکن عمران خان کا ووٹ نہیں توڑسکتے اور نہ ہی عمران خان کے سیاست میں آؤٹ ہونے کی صورت مٰں پی ٹی آئی کا ووٹر انہیں ووٹ دے گا۔ اگر تحریک انصاف عمران خان کے بغیر وجود میں آتی ہے تو پی ٹی آئی کارکن ووٹ دینے کی بجائے گھر بیٹھنے کو ترجیح دے گا جبکہ مقتدر حلقے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو میدان صاف نہیں دینا چاہئے اور اپنا ایک پریشر گروپ بنانا چاہتے ہیں ۔
تقریبا 200 کے قریب پی ٹی آئی کے بندے توڑ کر پی ڈی ایم اور مقتدر حلقے پریشان ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو عمران خان کارکنوں کو ٹکٹ دیدے اور وہ صرف عمران خان کے ووٹ کے بل بوتے پر جیت نہ جائیں ۔یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ 9 مئی کو زیادہ نہیں بیچا جاسکتا اور کہیں پی ٹی آئی چھوڑنے والے عین الیکشن کے ٹائم واپس ہی نہ آجائیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق اس کا حل یہ نکالا جارہا ہے کہ نہ صرف عمران خان کو نااہل گرفتارکیا جائے بلکہ تحریک انصاف کے امیدواروں کو دباؤ میں لاکر کاغذات نامزدگی واپس کروائے جائیں ۔امیدواروں کو پابند سلاسل کیا جائے۔
لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ ایک پلان انسان بناتا ہے اور ایک پلان اللہ بناتا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/fasaahsa.jpg