تحریک انصاف: دل اس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا عدنان خان کاکڑ
2010 کے بعد عمران خان نے تواتر سے ٹاک شوز میں آنا شروع کیا۔ وہ ٹاک شو میں ایک مہذب انداز میں اپنا موقف قوم کے سامنے پیش کرتے، اپنی ماضی کی کارکردگی کا ٹریک ریکارڈ بتاتے، اپنے کرپشن سے دور ہونے اور مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی کرپشن کی داستانیں سنا کر انہیں برا کہتے۔ عمران خان کا ماضی ایک پلے بوائے کا تھا مگر ہماری قوم ووٹ دیتے ہوئے بہت سی خامیوں کو نظرانداز کرتی ہے۔ ان میں ذاتی زندگی اور کرپشن کے الزامات بھی شامل ہیں۔ اس لئے عمران خان کی ذاتی زندگی کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک بڑی تعداد نے ان کو اپنا مسیحا جانا۔ نتیجہ یہ کہ 30 اکتوبر 2011 کو عمران خان نے مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ کر کے پاکستانی سیاست کو تہ و بالا کر ڈالا۔
یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ عمران خان کے اس جلسے اور بعد کی مقبولیت میں جنرل پاشا کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی کوئی بھی ایجنسی عام لوگوں کو اس طرح اپنے خاندان سمیت کسی لیڈر کے جلسے میں شرکت کرنے پر مجبور کر سکتی ہے؟ عوام میں عمران خان کی حقیقی سپورٹ پیدا ہو چکی تھی۔ ان پر لوگوں کو اعتماد بھی تھا۔ اسی وجہ سے لوگ بغیر کسی پریشانی یا خوف کے اپنی فیملی اور چھوٹے بچوں کو بھی عمران خان کے جلسوں میں لے جاتے تھے۔
اس وقت جیالے پیپلز پارٹی کی حکومت کو ایک بے بس اور راضی بہ تقدیر حکومت سمجھنے لگے تھے۔ بے نظیر کے جانے کے بعد پیپلز پارٹی نے کارکن سے اپنا ناتہ توڑ لیا تھا اور ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والی پارٹی بن چکی تھی۔ پہلے اس کا تشخص اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کا تھا جو آصف زرداری کے اس دور میں ختم ہو گیا۔ پھر آصف زرداری کے خلاف دو دہائیوں سے چلنے والی کردار کشی کی مہم نے بھی جیالوں کی نئی نسل کو ان سے برگشتہ کر رکھا تھا۔ یہ سب نوجوان اپنے بڑوں کو بھی تحریک انصاف کے کیمپ میں کھِینچ کر لے گئے۔
نواز شریف کی حکومت سے بھی پڑھے لکھے طبقے کی ایک نمایاں تعداد بیزار تھی۔ وہ تبدیلی چاہتے تھے۔ وہ زندگی بہتر کرنے کی خاطر پاکستان چھوڑ کر جانے کی بجائے اپنی صلاحیت اور اہلیت کی بنیاد پر ادھر ہی اپنا مستقبل تعمیر کرنے کے متمنی تھے۔ نواز حکومت نے شہریوں کی روزمرہ زندگی بہتر کرنے پر کبھی توجہ نہیں دی۔ انہیں شہریوں کے لئے تعلیمی ادارے، صحت اور ملازمت کے نئے مواقع پیدا کرنے سے کہیں زیادہ دلچسپی مواصلاتی انفراسٹرکچر بنانے میں تھی۔ ان بیزار لوگوں میں سے بہت سے وہ تھے جنہوں نے اپنی تعلیم سنہ اسی اور نوے کی دہائی میں پائی تھی جب سرکاری تعلیمی ادارے بہت کم فیس لے کر امیر غریب سب طلبا کو ایک اچھی تعلیم دیا کرتے تھے۔ اس وقت آبادی کم ہونے کی وجہ سے ہسپتالوں پر بھی مریضوں کا اتنا بوجھ نہیں تھا۔ انگریزوں کے زمانے کی اقدار ابھی بیوروکریسی میں بری بھلی باقی تھیں۔
جب پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی حکومتوں میں ان اقدار اور سہولتوں کا خاتمہ ہوا تو یہ طبقہ کسی مسیحا کا انتظار کرنے لگا اور بالآخر یہ مسیحا عمران خان کی شکل میں دکھائی دے گیا۔ ہمیں بھی یہی لگا کہ یہ پڑھ لکھا شخص ہے، اس نے دنیا دیکھی ہے، لالچی نہیں ہے، ایک عام آدمی کی یعنی ہماری بات کرتا ہے۔ یہ ضرور تبدیلی لائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ 2013 کے انتخابات میں عمران خان کی بہت زیادہ حمایت نواز شریف کے گڑھ لاہور میں دکھائی دی۔ ہم خود ان کے جلسوں میں شریک ہوئے اور جب عین آخری دن عمران خان سٹیج سے گرے تو ہم شوکت خانم کے سامنے اکٹھے ہوئے لوگوں میں شامل تھے۔
اس کے بعد جب عمران خان نے جب دھاندلی کا شور مچانا شروع کیا تو ہمیں ان سے بھِی زیادہ غصہ نواز شریف پر چڑھ رہا تھا جس نے دھاندلی کر کے ہمارا قومی مسیحا ہم سے چھین لیا تھا۔ پھر جب چار حلقوں اور پینتیس پنکچروں کی بات بار بار ہوئی تو ہم نے سوچا کہ اگر یہ سیٹیں عمران خان کو مل بھی گئیں تو کیا فرق پڑے گا، مرکز میں حکومت تو پھر بھی نواز شریف ہی کی ہو گی۔ لیکن اس کے باوجود ہم عمران خان کی حمایت کرتے رہے اور ان کے 2014 کو مینار پاکستان میں ہونے والے جلسے میں بھی گئے۔
اس سے پہلے اگست میں عمران خان کے آزادی مارچ کے ساتھ نواز حکومت نے جو سلوک کیا تھا ہم اس پر شدید غصے میں تھے۔ ماڈل ٹاؤن میں قتل عام پر ہم نواز حکومت پر پہلے ہی تپے ہوئے تھے۔ پھر جب لاہور سے عمران خان کا قافلہ نکلا تو اس کی کم تعداد دیکھ کر مایوس ہوئے۔ گوجرانوالہ میں اس پر پونے والے پتھراؤ پر ہم نے نواز حکومت کو خوب برا بھلا کہا۔ پھر دھرنا ہو گیا۔ دھرنے کے ابتدائی دنوں میں ہم عمران خان اور طاہر القادری کی فتوحات پر خوش تھے اور جب وہ ریڈ زون پہنچ گئے تو مزید خوش ہوئے۔ لیکن اس کے بعد روزانہ تقاریر کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ان تقاریر میں ہم نے یہ نوٹ کرنا شروع کیا کہ طاہر القادری نے خود کو عمران خان سے کہیں بہتر لیڈر ثابت کیا ہے۔ وہ ٹو دی پوائنٹ بات کرتے تھے۔ مسائل پر بات کرتے تھے۔ عمران خان کی دنیا کچھ اور تھی۔ وہ سوا سو دن تک ایک ہی تقریر کرتے رہے۔ ابتدائی دنوں میں کارکنوں کو کھلے آسمان کے نیچے چھوڑ کر خود رات گزارنے بنی گالہ چلے جاتے تھے۔ یہ بھی ناپسندیدہ بات تھی۔ لیکن ان کی ایک ہی تقریر کی بار بار تکرار، اور پھر مسلسل یو ٹرن ہمارے لئے شدید مایوسی کا باعث بنے۔ ہر بڑا اعلان چوبیس گھنٹے کے اندر واپس ہو جاتا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب سول نافرمانی کا اعلان کیا اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ہنڈی کے غیر قانونی طریقے سے رقم بھیجنے کا کہا تو ہم نے اسی وقت سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ پریشانی کی بات نہیں ہے، کل تک عمران خان کو پتہ چل جائے گا کہ انہوں نے کیا کہا ہے اور وہ اعلان واپس لے لیں گے۔
لیکن ہم اس وقت بھی عمران خان کے حامی تھے۔ دھرنے نے جس طرح نواز حکومت کو ہراساں کر دیا تھا وہ ہمارے لئے امید کی کرن تھی۔ ہمارا خیال تھا کہ تمام تر حماقتوں کے باوجود عمران خان اس وقت نواز حکومت سے انتخابی اصلاحات کے قوانین منظور کروا لیں گے۔ نواز شریف نے چھے مطالبات میں سے پانچ مان بھی لئے تھے مگر عمران خان بضد رہے کہ وہ نواز شریف کے استعفے والا چھٹا مطالبہ منوا کر ہی دھرنا ختم کریں گے۔ سیاست میں دباؤ ڈال کر اگلے کی ٹانگ نہیں توڑی جاتی بلکہ اپنے کچھ مطالبات ختم کر کے کچھ ایسا سودا کیا جاتا ہے جس میں ہر ایک فریق کو یہ لگے کہ اسے سمجھوتہ کرنے سے کچھ حاصل ہوا ہے۔
دھرنے کی طوالت نے نواز حکومت کو اپنے قدم جمانے کا موقع دے دیا۔ دوسری طرف جس طرح دھرنے میں عصمت اللہ جونیجو جیسے شریف افسر کی پٹائی کی گئی اور ٹیلی وژن پر حملہ کیا گیا، اس کے بعد ہم عمران خان سے مایوس ہونے لگے۔ ان کی دانش پر شدید سوالات پیدا ہو چکے تھے۔ اب نواز حکومت اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ اس نے دھرنے کو لفٹ کروانا چھوڑ دیا تھا۔ اب تحریک انصاف کی حالت اس ناراض بہو کی تھی جسے سسرال سے کوئی منانے نہ پہنچا تو وہ تنگ آ کر اپنی سسرالی بھینس کی دم پکڑ کر واپس پہنچنے پر تیار تھی کہ ”میں تو نہیں آ رہی تھی، یہی بھینس زبردستی لے آئی“۔ عمران خان کو دھرنا ختم کرنے کا یہ موقعہ آرمی پبلک سکول کے سانحے نے فراہم کیا۔
اب ایک ابتدائی جذبایت سے باہر آ کر ہم نے عمران خان میں مسیحا دیکھنا ترک کر دیا تھا۔ ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ پختونخوا میں عمران خان کیا انقلاب لے کر آئے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے بہت با اختیار ہو چکے ہیں۔ تعلیم، صحت اور دوسرے بہت سے معاملات میں ان کے پاس بہت اختیار بھی ہے اور پیسہ بھی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے کیا کیا؟ کیا ادھر بورڈ میں سرکاری سکول پوزیشن لے رہے ہیں یا تحریک انصاف کے ایک لیڈر کا پرائیویٹ سکول؟ کیا ادھر سرکاری شعبے میں شوکت خانم کی ٹکر کا کوئی ایک بھی کینسر ہسپتال بنایا گیا ہے یا ادھر صرف عمران خان نے اپنا نجی کینسر ہسپتال ہی بنایا ہے؟
عمران خان کے کچھ اقدامات قابل تعریف ہیں۔ درختوں والا منصوبہ بہت اچھا ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی ہمیں شہباز شریف کی پنجاب حکومت، پرویز خٹک کی پختونخوا حکومت سے بہتر لگی ہے۔ تحریک انصاف کے دفاع میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ”شہباز شریف تو تیس سال سے حکومت کر رہا ہے، ہمیں پانچ سال ہوئے ہیں تو ہمارا اس سے تقابل کرنا غلط ہے“۔ اگر حکمران تبدیلی لانے والا ہو تو شیر شاہ سوری کی طرح آج سے پانچ سو برس قبل بنگال سے خیبر تک ایک بڑی سڑک بنا کر اس کے ہر دو کوس کے فاصلے پر آرام گاہیں بنوا سکتا ہے۔ طیب ایردوان کی طرح اپنے عوام کی زندگی میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ اور کام نہ کرنے والا ہو تو تیس برس بعد بھی یہ دلیل دے گا کہ ”انہیں تو ساٹھ برس ہو چکے ہیں، ہمارے تیس برس کا ان سے تقابل کرنا نا انصافی ہے“۔
کرپشن وغیرہ ہمارے ہاں ایک سیاسی سٹنٹ کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ سیاسی حریفوں کو کرپشن کے ذریعے ہٹانے کی سب سے پہلی مہم 1949 کے پروڈا قانون کے تحت چلائی گئی تھی۔ اس کے بعد ایوب کے ایبڈو، بعد کے تمام ڈکٹیٹروں اور 258 ٹو بی کی طاقت کے صدور نے اپنے سیاسی حریفوں سے جان چھڑانے کے لئے یہی بہانہ بنایا۔ جہاں تک ”دشمن سے تعلقات“ اور غداری کی بات ہے تو جس قوم کی مادرِ ملت ہی غدار اور دشمن ملک کی ایجنٹ قرار دی جا چکی ہوں، اس کو اس بارے میں مزید کیا کہیں۔
سیاست دان دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں، مگر ان پر کرپشن کے الزام میں پکڑ کرتے وقت صرف انہی کو پکڑا جاتا ہے جو مقتدر قوتوں کی مرضی پر چلنے کو تیار نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ 2002 کے انتخابات کے فوراً فیصل صالح حیات وغیرہ شدید کرپٹ تھے لیکن جیسے ہی انہوں نے مشرف کی ق لیگ کی حمایت کی تو وہ پاک صاف قرار پا گئے۔قوم کرپشن کو برداشت کر لیتی ہے۔ ایک کرپٹ ترین حکمران بھی پانچ سال بعد تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکا جا سکتا ہے۔ لیکن قوم کے لئے اس کے منتخب کردہ شخص کو حکومت نہ دینا سولہ دسمبر 1971 کا دن دکھا دیتا ہے۔
عمران خان کو اب ہم سیاست میں ایک نہایت منفی کردار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے قول و فعل کا تفاوت پریشان کن ہے۔ جو معیار وہ دوسروں کے لئے سیٹ کرتے ہیں خود اس پر پورے نہیں اترتے۔ لیکن سب سے بڑھ کر ان کی سو خوبیوں پر ان کی ایک خامی بھاری ہے۔ اور وہ یہ کہ انہوں نے پاکستان کی سیاست کو اس موڑ پر کھڑا کر دیا ہے کہ شہری اب سیاسی اختلاف کی بنا پر ایک دوسرے سے رشتے اور دوستیاں توڑنے لگے ہیں۔ بھٹو اور اینٹی بھٹو سیاست کے دنوں میں بھِی دونوں کیمپوں کے حامی ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوتے تھے۔
اب دونوں خنجر بکف کھڑے ہیں اور دوسرے کے خون کے پیاسے بنے کھڑے ہیں۔ جو جوتا نواز شریف پر چلا ہے، جو گولی احسن اقبال پر چلی ہے، کیا وہ پلٹ کر تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو نشانہ نہیں بنائیں گے؟ عمران خان نے اس زہر کا ایک ہلکا سا ذائقہ کراچی میں چکھ لیا ہے۔ کیا وہ اس روش کو جاری رکھیں گے یا قوم کو نفرت کی بجائے محبت سے معاملات طے کرنے کی طرف لے جائیں گے؟ دعا تو یہی ہے مگر امید نہیں ہے۔
چلیں بری بری باتیں چھوڑتے ہیں۔ ایک سدا بہار نغمے کا لطف اٹھاتے ہیں۔
تحریک انصاف: دل اس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا عدنان خان کاکڑ
2010 کے بعد عمران خان نے تواتر سے ٹاک شوز میں آنا شروع کیا۔ وہ ٹاک شو میں ایک مہذب انداز میں اپنا موقف قوم کے سامنے پیش کرتے، اپنی ماضی کی کارکردگی کا ٹریک ریکارڈ بتاتے، اپنے کرپشن سے دور ہونے اور مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی کرپشن کی داستانیں سنا کر انہیں برا کہتے۔ عمران خان کا ماضی ایک پلے بوائے کا تھا مگر ہماری قوم ووٹ دیتے ہوئے بہت سی خامیوں کو نظرانداز کرتی ہے۔ ان میں ذاتی زندگی اور کرپشن کے الزامات بھی شامل ہیں۔ اس لئے عمران خان کی ذاتی زندگی کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک بڑی تعداد نے ان کو اپنا مسیحا جانا۔ نتیجہ یہ کہ 30 اکتوبر 2011 کو عمران خان نے مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ کر کے پاکستانی سیاست کو تہ و بالا کر ڈالا۔
یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ عمران خان کے اس جلسے اور بعد کی مقبولیت میں جنرل پاشا کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی کوئی بھی ایجنسی عام لوگوں کو اس طرح اپنے خاندان سمیت کسی لیڈر کے جلسے میں شرکت کرنے پر مجبور کر سکتی ہے؟ عوام میں عمران خان کی حقیقی سپورٹ پیدا ہو چکی تھی۔ ان پر لوگوں کو اعتماد بھی تھا۔ اسی وجہ سے لوگ بغیر کسی پریشانی یا خوف کے اپنی فیملی اور چھوٹے بچوں کو بھی عمران خان کے جلسوں میں لے جاتے تھے۔
اس وقت جیالے پیپلز پارٹی کی حکومت کو ایک بے بس اور راضی بہ تقدیر حکومت سمجھنے لگے تھے۔ بے نظیر کے جانے کے بعد پیپلز پارٹی نے کارکن سے اپنا ناتہ توڑ لیا تھا اور ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والی پارٹی بن چکی تھی۔ پہلے اس کا تشخص اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کا تھا جو آصف زرداری کے اس دور میں ختم ہو گیا۔ پھر آصف زرداری کے خلاف دو دہائیوں سے چلنے والی کردار کشی کی مہم نے بھی جیالوں کی نئی نسل کو ان سے برگشتہ کر رکھا تھا۔ یہ سب نوجوان اپنے بڑوں کو بھی تحریک انصاف کے کیمپ میں کھِینچ کر لے گئے۔
نواز شریف کی حکومت سے بھی پڑھے لکھے طبقے کی ایک نمایاں تعداد بیزار تھی۔ وہ تبدیلی چاہتے تھے۔ وہ زندگی بہتر کرنے کی خاطر پاکستان چھوڑ کر جانے کی بجائے اپنی صلاحیت اور اہلیت کی بنیاد پر ادھر ہی اپنا مستقبل تعمیر کرنے کے متمنی تھے۔ نواز حکومت نے شہریوں کی روزمرہ زندگی بہتر کرنے پر کبھی توجہ نہیں دی۔ انہیں شہریوں کے لئے تعلیمی ادارے، صحت اور ملازمت کے نئے مواقع پیدا کرنے سے کہیں زیادہ دلچسپی مواصلاتی انفراسٹرکچر بنانے میں تھی۔ ان بیزار لوگوں میں سے بہت سے وہ تھے جنہوں نے اپنی تعلیم سنہ اسی اور نوے کی دہائی میں پائی تھی جب سرکاری تعلیمی ادارے بہت کم فیس لے کر امیر غریب سب طلبا کو ایک اچھی تعلیم دیا کرتے تھے۔ اس وقت آبادی کم ہونے کی وجہ سے ہسپتالوں پر بھی مریضوں کا اتنا بوجھ نہیں تھا۔ انگریزوں کے زمانے کی اقدار ابھی بیوروکریسی میں بری بھلی باقی تھیں۔
جب پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی حکومتوں میں ان اقدار اور سہولتوں کا خاتمہ ہوا تو یہ طبقہ کسی مسیحا کا انتظار کرنے لگا اور بالآخر یہ مسیحا عمران خان کی شکل میں دکھائی دے گیا۔ ہمیں بھی یہی لگا کہ یہ پڑھ لکھا شخص ہے، اس نے دنیا دیکھی ہے، لالچی نہیں ہے، ایک عام آدمی کی یعنی ہماری بات کرتا ہے۔ یہ ضرور تبدیلی لائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ 2013 کے انتخابات میں عمران خان کی بہت زیادہ حمایت نواز شریف کے گڑھ لاہور میں دکھائی دی۔ ہم خود ان کے جلسوں میں شریک ہوئے اور جب عین آخری دن عمران خان سٹیج سے گرے تو ہم شوکت خانم کے سامنے اکٹھے ہوئے لوگوں میں شامل تھے۔
اس کے بعد جب عمران خان نے جب دھاندلی کا شور مچانا شروع کیا تو ہمیں ان سے بھِی زیادہ غصہ نواز شریف پر چڑھ رہا تھا جس نے دھاندلی کر کے ہمارا قومی مسیحا ہم سے چھین لیا تھا۔ پھر جب چار حلقوں اور پینتیس پنکچروں کی بات بار بار ہوئی تو ہم نے سوچا کہ اگر یہ سیٹیں عمران خان کو مل بھی گئیں تو کیا فرق پڑے گا، مرکز میں حکومت تو پھر بھی نواز شریف ہی کی ہو گی۔ لیکن اس کے باوجود ہم عمران خان کی حمایت کرتے رہے اور ان کے 2014 کو مینار پاکستان میں ہونے والے جلسے میں بھی گئے۔
اس سے پہلے اگست میں عمران خان کے آزادی مارچ کے ساتھ نواز حکومت نے جو سلوک کیا تھا ہم اس پر شدید غصے میں تھے۔ ماڈل ٹاؤن میں قتل عام پر ہم نواز حکومت پر پہلے ہی تپے ہوئے تھے۔ پھر جب لاہور سے عمران خان کا قافلہ نکلا تو اس کی کم تعداد دیکھ کر مایوس ہوئے۔ گوجرانوالہ میں اس پر پونے والے پتھراؤ پر ہم نے نواز حکومت کو خوب برا بھلا کہا۔ پھر دھرنا ہو گیا۔ دھرنے کے ابتدائی دنوں میں ہم عمران خان اور طاہر القادری کی فتوحات پر خوش تھے اور جب وہ ریڈ زون پہنچ گئے تو مزید خوش ہوئے۔ لیکن اس کے بعد روزانہ تقاریر کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ان تقاریر میں ہم نے یہ نوٹ کرنا شروع کیا کہ طاہر القادری نے خود کو عمران خان سے کہیں بہتر لیڈر ثابت کیا ہے۔ وہ ٹو دی پوائنٹ بات کرتے تھے۔ مسائل پر بات کرتے تھے۔ عمران خان کی دنیا کچھ اور تھی۔ وہ سوا سو دن تک ایک ہی تقریر کرتے رہے۔ ابتدائی دنوں میں کارکنوں کو کھلے آسمان کے نیچے چھوڑ کر خود رات گزارنے بنی گالہ چلے جاتے تھے۔ یہ بھی ناپسندیدہ بات تھی۔ لیکن ان کی ایک ہی تقریر کی بار بار تکرار، اور پھر مسلسل یو ٹرن ہمارے لئے شدید مایوسی کا باعث بنے۔ ہر بڑا اعلان چوبیس گھنٹے کے اندر واپس ہو جاتا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب سول نافرمانی کا اعلان کیا اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ہنڈی کے غیر قانونی طریقے سے رقم بھیجنے کا کہا تو ہم نے اسی وقت سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ پریشانی کی بات نہیں ہے، کل تک عمران خان کو پتہ چل جائے گا کہ انہوں نے کیا کہا ہے اور وہ اعلان واپس لے لیں گے۔
لیکن ہم اس وقت بھی عمران خان کے حامی تھے۔ دھرنے نے جس طرح نواز حکومت کو ہراساں کر دیا تھا وہ ہمارے لئے امید کی کرن تھی۔ ہمارا خیال تھا کہ تمام تر حماقتوں کے باوجود عمران خان اس وقت نواز حکومت سے انتخابی اصلاحات کے قوانین منظور کروا لیں گے۔ نواز شریف نے چھے مطالبات میں سے پانچ مان بھی لئے تھے مگر عمران خان بضد رہے کہ وہ نواز شریف کے استعفے والا چھٹا مطالبہ منوا کر ہی دھرنا ختم کریں گے۔ سیاست میں دباؤ ڈال کر اگلے کی ٹانگ نہیں توڑی جاتی بلکہ اپنے کچھ مطالبات ختم کر کے کچھ ایسا سودا کیا جاتا ہے جس میں ہر ایک فریق کو یہ لگے کہ اسے سمجھوتہ کرنے سے کچھ حاصل ہوا ہے۔
دھرنے کی طوالت نے نواز حکومت کو اپنے قدم جمانے کا موقع دے دیا۔ دوسری طرف جس طرح دھرنے میں عصمت اللہ جونیجو جیسے شریف افسر کی پٹائی کی گئی اور ٹیلی وژن پر حملہ کیا گیا، اس کے بعد ہم عمران خان سے مایوس ہونے لگے۔ ان کی دانش پر شدید سوالات پیدا ہو چکے تھے۔ اب نواز حکومت اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ اس نے دھرنے کو لفٹ کروانا چھوڑ دیا تھا۔ اب تحریک انصاف کی حالت اس ناراض بہو کی تھی جسے سسرال سے کوئی منانے نہ پہنچا تو وہ تنگ آ کر اپنی سسرالی بھینس کی دم پکڑ کر واپس پہنچنے پر تیار تھی کہ ”میں تو نہیں آ رہی تھی، یہی بھینس زبردستی لے آئی“۔ عمران خان کو دھرنا ختم کرنے کا یہ موقعہ آرمی پبلک سکول کے سانحے نے فراہم کیا۔
اب ایک ابتدائی جذبایت سے باہر آ کر ہم نے عمران خان میں مسیحا دیکھنا ترک کر دیا تھا۔ ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ پختونخوا میں عمران خان کیا انقلاب لے کر آئے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے بہت با اختیار ہو چکے ہیں۔ تعلیم، صحت اور دوسرے بہت سے معاملات میں ان کے پاس بہت اختیار بھی ہے اور پیسہ بھی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے کیا کیا؟ کیا ادھر بورڈ میں سرکاری سکول پوزیشن لے رہے ہیں یا تحریک انصاف کے ایک لیڈر کا پرائیویٹ سکول؟ کیا ادھر سرکاری شعبے میں شوکت خانم کی ٹکر کا کوئی ایک بھی کینسر ہسپتال بنایا گیا ہے یا ادھر صرف عمران خان نے اپنا نجی کینسر ہسپتال ہی بنایا ہے؟
عمران خان کے کچھ اقدامات قابل تعریف ہیں۔ درختوں والا منصوبہ بہت اچھا ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی ہمیں شہباز شریف کی پنجاب حکومت، پرویز خٹک کی پختونخوا حکومت سے بہتر لگی ہے۔ تحریک انصاف کے دفاع میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ”شہباز شریف تو تیس سال سے حکومت کر رہا ہے، ہمیں پانچ سال ہوئے ہیں تو ہمارا اس سے تقابل کرنا غلط ہے“۔ اگر حکمران تبدیلی لانے والا ہو تو شیر شاہ سوری کی طرح آج سے پانچ سو برس قبل بنگال سے خیبر تک ایک بڑی سڑک بنا کر اس کے ہر دو کوس کے فاصلے پر آرام گاہیں بنوا سکتا ہے۔ طیب ایردوان کی طرح اپنے عوام کی زندگی میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ اور کام نہ کرنے والا ہو تو تیس برس بعد بھی یہ دلیل دے گا کہ ”انہیں تو ساٹھ برس ہو چکے ہیں، ہمارے تیس برس کا ان سے تقابل کرنا نا انصافی ہے“۔
کرپشن وغیرہ ہمارے ہاں ایک سیاسی سٹنٹ کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ سیاسی حریفوں کو کرپشن کے ذریعے ہٹانے کی سب سے پہلی مہم 1949 کے پروڈا قانون کے تحت چلائی گئی تھی۔ اس کے بعد ایوب کے ایبڈو، بعد کے تمام ڈکٹیٹروں اور 258 ٹو بی کی طاقت کے صدور نے اپنے سیاسی حریفوں سے جان چھڑانے کے لئے یہی بہانہ بنایا۔ جہاں تک ”دشمن سے تعلقات“ اور غداری کی بات ہے تو جس قوم کی مادرِ ملت ہی غدار اور دشمن ملک کی ایجنٹ قرار دی جا چکی ہوں، اس کو اس بارے میں مزید کیا کہیں۔
سیاست دان دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں، مگر ان پر کرپشن کے الزام میں پکڑ کرتے وقت صرف انہی کو پکڑا جاتا ہے جو مقتدر قوتوں کی مرضی پر چلنے کو تیار نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ 2002 کے انتخابات کے فوراً فیصل صالح حیات وغیرہ شدید کرپٹ تھے لیکن جیسے ہی انہوں نے مشرف کی ق لیگ کی حمایت کی تو وہ پاک صاف قرار پا گئے۔قوم کرپشن کو برداشت کر لیتی ہے۔ ایک کرپٹ ترین حکمران بھی پانچ سال بعد تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکا جا سکتا ہے۔ لیکن قوم کے لئے اس کے منتخب کردہ شخص کو حکومت نہ دینا سولہ دسمبر 1971 کا دن دکھا دیتا ہے۔
عمران خان کو اب ہم سیاست میں ایک نہایت منفی کردار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے قول و فعل کا تفاوت پریشان کن ہے۔ جو معیار وہ دوسروں کے لئے سیٹ کرتے ہیں خود اس پر پورے نہیں اترتے۔ لیکن سب سے بڑھ کر ان کی سو خوبیوں پر ان کی ایک خامی بھاری ہے۔ اور وہ یہ کہ انہوں نے پاکستان کی سیاست کو اس موڑ پر کھڑا کر دیا ہے کہ شہری اب سیاسی اختلاف کی بنا پر ایک دوسرے سے رشتے اور دوستیاں توڑنے لگے ہیں۔ بھٹو اور اینٹی بھٹو سیاست کے دنوں میں بھِی دونوں کیمپوں کے حامی ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوتے تھے۔
اب دونوں خنجر بکف کھڑے ہیں اور دوسرے کے خون کے پیاسے بنے کھڑے ہیں۔ جو جوتا نواز شریف پر چلا ہے، جو گولی احسن اقبال پر چلی ہے، کیا وہ پلٹ کر تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو نشانہ نہیں بنائیں گے؟ عمران خان نے اس زہر کا ایک ہلکا سا ذائقہ کراچی میں چکھ لیا ہے۔ کیا وہ اس روش کو جاری رکھیں گے یا قوم کو نفرت کی بجائے محبت سے معاملات طے کرنے کی طرف لے جائیں گے؟ دعا تو یہی ہے مگر امید نہیں ہے۔
چلیں بری بری باتیں چھوڑتے ہیں۔ ایک سدا بہار نغمے کا لطف اٹھاتے ہیں۔