Narcissist
Banned
تانگہ پارٹیاں ، آبپارہ کے فرشتے اور الیکشن کا موسم ۔
اگر آپ اپنا شمار اہل دل میں کرتے ہیں اور گاہے با گاہے آپکو اپنی دلپشوری واسطےادھر ادھر دشت نوردی بھی کرنی پڑتی ہے ۔ تو حاضر خدمت ہے پاکستان کی سیاست؛ آپ کو غالباً دلپشوری کیلئے اس سے زیادہ رنگین ،الجھا ہوا ، سدا بہار ساماں کہاں سے راس آئے گا؟ خاصکر انکے سیاسی مدبھیڑ کامرغوں اور بٹیر کی لڑائی سے زیادہ مزا نا آئے تو پیسے واپس!!!
اخبار اور انٹرنیٹ پر دیکھو تو لگتا ہے: جمود تو گویا نام کو نہیں ہے اور شایدجلد ہی ہم قومی ترقی و بلوغت اور وجدان کی منزلوں پر منزلیں طے کر تے کسی دن اوج ثریا کی بلندیوں کو جالیں گے۔ حقیقی تصویر تاہم دوسری ہے ،اور منظر یہ ہے کہ ملک کے حالت ہر گزرے پل پتلی سے پتلی ہوتی جارہی ہے؛ بھوک کے باعث خودکشیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے،بیروزگاری تو اب کسی کی بھی توجہ نہیں پا رہی، جن کو کل تک دو وقت کی روٹی میسر تھی ،انکے ہاتھ سے ایک وقت کی بھی چھنتی دکھائی دیتی ہے۔ مڈل کلاسیوں کاسفید پوشی کا بھرم ،فاقہ مستی کے بعد کشکول پکڑنے کے تجربے تک جا پہنچا ہے ۔میدان چاہے کوئی بھی ہو دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور ہم پچھواڑے سے ہو کے ظلمت کی راہوں میں سرگرداں ہیں۔ہرنئے آنے والے دن میں چیزیں اپنی کل والی پوزیشن سے آگے پیچھے سرک چکی ہوتی ہے۔ لگتا کچھ یوں ہے کہ پچھلے ایک عرصے سےسیاسی جھاڑ پچھاڑ کا ایک میدان آباد ہے، ہر کوئی کھلے داو پیچ لگا کر تماشائیوں کے دل لوٹ رہا ہے۔ حد ظلم یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کےحالات حاضرہ کے پروگراموں میں سطحی گپ شپ اور جملے بازی ایک گھٹیا تفریح کی حیثیت طے کر چکی ہے۔ لیکن وہاں بھی کچھ ہیوی ویٹ پہلوان لنگوٹ پہنے 'چنگا کھاو ،ننگا نہاوتے مندا بولو' کی کرتوت کرنے کے بعد فالتو وقت میں نورا کشتی پر ہی اکتفا کئے دکھائی دیتے ہیں ، جس سے شائقین کو آج کل پرلے درجے کی اکتاہٹ ہو رہی ہے۔
ایسے میں جب سوچ یہ ہوتی، کہ ملک دو پارٹی نظام کی طرف آگے بڑھتا، آبپارے کے فرشتوں نے تماشائیوں کے بھر پور اصرار پر انکی دلپشوری کا مزید ساماں پیداکرنے کے واسطےبچوں جموروں اور بھانڈوں کا پورا ایک ٹولہ اور سیاسی فسادوں بھری پٹاری کے پلو بیچ بازار کھول دیئے ہیں۔ اب ملک میں دو پارٹی سسٹم کی بجائے سیاسی آکھاڑہ ایک مچھلی منڈی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے بے موسمے توتے مینا آن موجود ہوئے ہیں ، تمام کونے کھدروں سےبچے جمورے اپنااپنا بہاولپوری منجھن ، سرائیکی مسواک ، ہزاروی ریوڑیاں اورپوٹھواری گھٹکا بیچنے آ نکلے ہیں۔ اور کچھ عادی جواری بھی جیت کی امید میں شہری سندھ اور دیہی سندھ پر 'منگ پتا' کھیلنے آن وارد ہوئے ہیں۔ توتا کہتا ہے 'میں جاگیرداروں کا پتہ پانی کر دوں گا' اور مینا پکارتی ہے کہ 'وہ کرپٹ سیاستدانوں کو ختم کر کے ہی آرام سے بیٹھے گی۔اور انکی بیرون ملک جائیدادیں ملک کے عوام میں مفت بانٹ دے گی'۔ کون جانے یہ توتا مینا کہانی کب تک چلے گی، اور کیسے انکی اصولوں بھری داستان کا اختتام ہو گا۔ اور دلپشوری کرنے والے حضرات ٹکٹکی باندھے، بتیسی نکالے اس سیاسی بھانڈ پنے سے مہجوز ہو تے ہوں گے۔
یہ سب بچے جمورے اور انکی تانگہ پارٹیاں ، بااصول حصہ بقدر جثہ، اس سیاسی سرکس سے اپنی کمائی کر کے شام سے پہلے پہلے گھروں کو لوٹ جائیں گی کہ بعد ازاں انکی کمائی کو نامعلوم رہزن اپنے پلے ڈال کر انکی ساری مشقت کو بے معنی نا بنا دیں۔ لیکن ان تانگہ پارٹیوں کے لئے کافی خطرے کی بات ہو گی جو ساری سرکس کو ہی اپنی جیب میں سمیٹنے کا خیال ذہین میں بٹھا کر اس کھیل میں اتریں گی۔ شاید انکو خالی جیب اور بھاری دل واپسی کرنا پڑے گی۔ آپ کا کیا خیا ل ہے؟؟؟
اگر آپ اپنا شمار اہل دل میں کرتے ہیں اور گاہے با گاہے آپکو اپنی دلپشوری واسطےادھر ادھر دشت نوردی بھی کرنی پڑتی ہے ۔ تو حاضر خدمت ہے پاکستان کی سیاست؛ آپ کو غالباً دلپشوری کیلئے اس سے زیادہ رنگین ،الجھا ہوا ، سدا بہار ساماں کہاں سے راس آئے گا؟ خاصکر انکے سیاسی مدبھیڑ کامرغوں اور بٹیر کی لڑائی سے زیادہ مزا نا آئے تو پیسے واپس!!!
اخبار اور انٹرنیٹ پر دیکھو تو لگتا ہے: جمود تو گویا نام کو نہیں ہے اور شایدجلد ہی ہم قومی ترقی و بلوغت اور وجدان کی منزلوں پر منزلیں طے کر تے کسی دن اوج ثریا کی بلندیوں کو جالیں گے۔ حقیقی تصویر تاہم دوسری ہے ،اور منظر یہ ہے کہ ملک کے حالت ہر گزرے پل پتلی سے پتلی ہوتی جارہی ہے؛ بھوک کے باعث خودکشیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے،بیروزگاری تو اب کسی کی بھی توجہ نہیں پا رہی، جن کو کل تک دو وقت کی روٹی میسر تھی ،انکے ہاتھ سے ایک وقت کی بھی چھنتی دکھائی دیتی ہے۔ مڈل کلاسیوں کاسفید پوشی کا بھرم ،فاقہ مستی کے بعد کشکول پکڑنے کے تجربے تک جا پہنچا ہے ۔میدان چاہے کوئی بھی ہو دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور ہم پچھواڑے سے ہو کے ظلمت کی راہوں میں سرگرداں ہیں۔ہرنئے آنے والے دن میں چیزیں اپنی کل والی پوزیشن سے آگے پیچھے سرک چکی ہوتی ہے۔ لگتا کچھ یوں ہے کہ پچھلے ایک عرصے سےسیاسی جھاڑ پچھاڑ کا ایک میدان آباد ہے، ہر کوئی کھلے داو پیچ لگا کر تماشائیوں کے دل لوٹ رہا ہے۔ حد ظلم یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کےحالات حاضرہ کے پروگراموں میں سطحی گپ شپ اور جملے بازی ایک گھٹیا تفریح کی حیثیت طے کر چکی ہے۔ لیکن وہاں بھی کچھ ہیوی ویٹ پہلوان لنگوٹ پہنے 'چنگا کھاو ،ننگا نہاوتے مندا بولو' کی کرتوت کرنے کے بعد فالتو وقت میں نورا کشتی پر ہی اکتفا کئے دکھائی دیتے ہیں ، جس سے شائقین کو آج کل پرلے درجے کی اکتاہٹ ہو رہی ہے۔
ایسے میں جب سوچ یہ ہوتی، کہ ملک دو پارٹی نظام کی طرف آگے بڑھتا، آبپارے کے فرشتوں نے تماشائیوں کے بھر پور اصرار پر انکی دلپشوری کا مزید ساماں پیداکرنے کے واسطےبچوں جموروں اور بھانڈوں کا پورا ایک ٹولہ اور سیاسی فسادوں بھری پٹاری کے پلو بیچ بازار کھول دیئے ہیں۔ اب ملک میں دو پارٹی سسٹم کی بجائے سیاسی آکھاڑہ ایک مچھلی منڈی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے بے موسمے توتے مینا آن موجود ہوئے ہیں ، تمام کونے کھدروں سےبچے جمورے اپنااپنا بہاولپوری منجھن ، سرائیکی مسواک ، ہزاروی ریوڑیاں اورپوٹھواری گھٹکا بیچنے آ نکلے ہیں۔ اور کچھ عادی جواری بھی جیت کی امید میں شہری سندھ اور دیہی سندھ پر 'منگ پتا' کھیلنے آن وارد ہوئے ہیں۔ توتا کہتا ہے 'میں جاگیرداروں کا پتہ پانی کر دوں گا' اور مینا پکارتی ہے کہ 'وہ کرپٹ سیاستدانوں کو ختم کر کے ہی آرام سے بیٹھے گی۔اور انکی بیرون ملک جائیدادیں ملک کے عوام میں مفت بانٹ دے گی'۔ کون جانے یہ توتا مینا کہانی کب تک چلے گی، اور کیسے انکی اصولوں بھری داستان کا اختتام ہو گا۔ اور دلپشوری کرنے والے حضرات ٹکٹکی باندھے، بتیسی نکالے اس سیاسی بھانڈ پنے سے مہجوز ہو تے ہوں گے۔
یہ سب بچے جمورے اور انکی تانگہ پارٹیاں ، بااصول حصہ بقدر جثہ، اس سیاسی سرکس سے اپنی کمائی کر کے شام سے پہلے پہلے گھروں کو لوٹ جائیں گی کہ بعد ازاں انکی کمائی کو نامعلوم رہزن اپنے پلے ڈال کر انکی ساری مشقت کو بے معنی نا بنا دیں۔ لیکن ان تانگہ پارٹیوں کے لئے کافی خطرے کی بات ہو گی جو ساری سرکس کو ہی اپنی جیب میں سمیٹنے کا خیال ذہین میں بٹھا کر اس کھیل میں اتریں گی۔ شاید انکو خالی جیب اور بھاری دل واپسی کرنا پڑے گی۔ آپ کا کیا خیا ل ہے؟؟؟