w-a-n-t-e-d-
Minister (2k+ posts)
بے حِس کتوں کی بستی
نوٹ :۔کمزور دِلحضرات اس پوسٹ کو نہ پڑہیں۔
میں شاید اس وقت چار یا پانچ سال کا تھا ، اور نرسری کلاس میں پڑھتا تھا ، ہاں مجھے یاد ہے کہ تب تک میری بہن بھی پیدا نہیں ہوی تھی۔ ہمارا خاندان ایک جوائنٹ فیملی سسٹم کا حصہ تھا، چار منزلہ مکان میں تین خاندان رہتے تھے جبکہ نیچے کا حصہ سرونٹ کوارٹر کے طور پر استعمال ہوتا تھا اسی لیے بھی کہ وہ اتنا بڑا نہ تھا۔ ہمارے گھر میں جو نوکر تھے انمیں سے ایک گاوں سے آی ہوی پندرہ سال کی لڑکی تھی ۔ انہیں دنوں ہمارے گھر میں کوی زیور چوری ہو گیا ، لٰہذا سب کا شک اسی نوکرانی پر گیا ۔ میری دادی نے کہا ٹھیک ہے اسنے کیا ہے یا نہیں اسکو واپس گاوں بھیج دو ہمیں ویسے بھی نوکر کی ضرورت نہیں رہی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے دوپہر کا وقت تھا ، سب مرد کام پر تھے اور خواتین سو رہی تھیں، میں کارٹون دیکھ رہا تھا ۔ اچانک کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی میں نے جا کر دیکھا کہ اس نوکرانی کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہے ۔ میں چونکہ بچہ تھا لٰہذا مجھے کچھ سمجھ نہ آیا اور واپس آکر کارٹون دیکھنے لگا۔ آواز سن کر میری امی اٹھیں اور نوکرانی کو دیکھ کر فوراً حرکت میں آئیں ۔ اسکو ہسپتال لیجایا گیا ، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکی اور فوت ہو گئی ۔ مجھے اپنی زندگی کے اس زمانے کی اور کوی بات یاد نہیں لیکن یہ واقعہ ایسا میرے دماغ میں بیٹھ گیا کہ مجھے اب پچیس سال بعد بھی یاد ہے کہ اس لڑکی نے کپڑے کس رنگ کے پہن رکھے تھے اور ان پر کس قسم کے ڈئزائن بنے ہوے تھے ۔
مندرجہ بالا واقعہ مکمل طور پر سچا ہے جو کہ انسانوں کی ایک قسم کو ظاہر کرتا ہے ، دوسری قسم کے انسان وہ ہیں جو مکمل طور پر بے حس ہیں جنکے بارے میں ، میں "دنیا بڑی کُتی چیز ہے" میں بھی لکھ آیا ہوں۔ کراچی میں پچھلے دن ایک پاکستانی نوجوان کا بے ہیمانہ قتل ہوا اور اس پر جس طرح میڈیا اُٹھ آیا اور گلی گلی شور مچ گیا سب ہی جانتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے مخصوص علاقوں میں رہنے والوں کے لیے یہ کوی بڑی بات نہیں نہ ہی یہ واقعہ اتنی اہمیت کا حامل تھا کہ اسکو اتنی کوریج دی جاتی ۔ اسکی وجہ یہ نہیں کہ وہ بھی بے حس کتوں کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی روزانہ کی زندگی میں جو کچھ دیکھتے اور جن حالات سے گزرتے ہیں وہ اس سے بھی کہیں زیادہ بدترین ہیں۔
ایک واقعہ کراچی میں ہوا میں آپکو اسی شخص کی زبانی سنانے کی کوشش کرتا ہوں جسکے ساتھ پیش آیا ۔
میرا ایک دوستے مارکیٹ سے کچھ خریدنے جا رہا تھا اسنے اپنے دوسرے دوست (جو کہ میرا بھی دوست ہے) کے بھتیجے کو بھی ساتھ بائیک پر بٹھا لیا ۔ راستے میں بائیک کو ٹرالر نے ٹکر مار دی اور بائیک چلانے والا موقعہ پر ہی جاں بحق ہو گیا ۔ بچے کو ہسپتال لیجایا گیا ، مجھے ایس ایم ایس ملا کہ خون کی ضرورت ہے فوراً ہسپتال پہنچو ، میں سمجھا کہ معاملہ اتنا سنگین نہیں ہے کہ صرف خون کی ہی ضرورت ہے اسی لیے میں ہسپتا پہنچا ۔ بچے کی حالت انتہای تشویش ناک تھی ، اسکا سینہ چھلنی پڑا تھا ۔ اسکے چاچے کہ چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
میں:ایک منٹ ، میں آپکی بات سے یہ سمجھا ہوں کہ بچا بیڈ پر اکیلا پڑا تھا ، کیا کوی ڈاکٹر اور نرس اسکے نزدیک نہ تھے ؟
وہ: نہیں کوی ڈاکٹر اور نرس بچے کے قریب نہ تھے ، وہاں بہت زیادہ شور تھا اور کوی ڈاکٹر توجہ دینے کو بھی تیار نہ تھا ۔اصل میں جس ہسپتال میں ہم اسکو لے کر گئے تھے وہ ایک حکومتی ہسپتال ہے سروسز ہسپتال وہاں بہت زیادہ رش ہوتا ہے ۔ میں بڑی مشکل سے ایک ڈاکٹر کی منت سماجت کر کے اسکو پکڑ کر لایا اسنے بچے کو دیکھا اور بڑے اعتماد کے ساتھ مجھے کہا کہ معمولی زخم ہیں انکی ڈریسنگ کرتے رہیں اور میں یہ ایک دو سیرپ لکھ کر دے رہا ہوں اسکو دیں بچہ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں اسکے اتنے اعتماد کے کافی حد تک مطمئن ہو گیا تھا ، لیکن تسلی کی خاطر ہم اسکو ایک پرائیویٹ ہسپتال لے گئے وہاں یعنی پرائیویٹ ہسپتالوں میں حادثات وغیرہ کے کیسیز نہیں لیے جاتے کیونکہ کافی قانونی کاروای ہوتی ہے جس سے یہ لوگ بچپنا چاہتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم ایک ہسپتال لے گئے وہاں ڈاکٹر نے دیکھتے ہی کہا کہ بچے کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے، اسکو آپریشن کی ضرورت ہے تم اسکے فلانے ہسپتال لے جاو۔ ہم نے کہا ابھی ہم وہاں سے ہی آرہے ہیں اور وہ لوگ کچھ نہیں کر رہے ۔ بہرحال ہم ایک دوسرے ہسپتال لے گئے جو کہ خاص بچوں کا ہسپتال تھا اور راستے میں پڑتا تھا ، انہوں نے تو دیکھتے ہی ہاتھ اٹھا لیے کہ اس معاملے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے ، تم اسی ہسپتال لے جاو۔ ابھی ہم اسی ہسپتال لے جا رہے تھے کہ بچے کا راستے میں ہی انتقال ہو گیا ۔ ان للہ و ان علیہ راجعون
پولیس ٹریلر والے کو پکڑ چکی تھی ، یہاں پاکستان میں میڈیا بہت بلیک میلنگ کرتا ہے ۔ میڈیا والے بھی ایک نمبر کے بے غیرت ہیں ، بہرحال جو اصل میں ٹریلر کا مالک تھا وہ تو نہیں آیا لیکن اسکی جگہ ایک اور شخص جو علاقے کی چوہدری کی طرح ہے وہ ٹریلر کا مالک بن کر آگیا اور اسی نے سارے معاملات سنبھالے ۔ بچے کے گھر والوں نے تو کہا کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے ہم یہ معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں ، جبکہ دوسرے خاندان نے کہا کہ ٹھیک ہے ہمارے خاندان کا ایک فرد تو اس دنیا سے چلا گیا اسکی تلافی نہیں ہو سکتی ، لیکن اسکی ایک بیوہ اور چار بچے ہیں لٰہذا تمہیں انکے لیے کچھ کرنا ہو گا ۔ تو بات یہ طے پائی کہ وہ ان بچوں کے نام ایک چھوٹا سا مکان سستے سے علاقے میں بنا کر دے گا ، لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ میڈیا والے بھی بڑے بے غیرت ہیں ، ایک میڈیا والے نے پتا نہیں کیا چکر چلایا اور کیا بات کی لڑکے کے باپ سے کہ انکو تھوڑے پیسے دے کر معاملہ نمٹا دیا ۔ اور سارا معاملہ رفع دفع ہو گیا ۔
کراچی کے ایک خاص علاقے میں ابھی کچھ دن پہلے ہی ایک خاص گروہ نے اپنے مخالفین کے دو بندوں کو کھلی سڑک پر قتل کیا ، یہ نوجوان کا قتل انکے مقابلے میں کسی حثیت کا نہیں، قاتلوں نے پہلے قتل کیا ، پھر انکے ناک کان کاٹے ، اور پھر انکے اوپر سے اپنی موٹر سائیکلیں گزاریں، لیکن یہ بات میڈیا میں نہیں آے گی ، کیونکہ میڈیا کو اسکی اجازت نہیں ہے ۔ اس خاص گروہ کو حکومت کی طرف سے خاص چھٹی ملی ہوی ہے ۔ اس گروہ کے سیکٹر ہیں علاقے میں ۔آر پی جی اور ایل ایم جی انکے پاس دیکھنا تو معمول کی بات ہے (میں نے آر پی جی اور ایل ایم کے جی نام صرف ایکس باکس گیم "دی آرمی آف ٹُو" جو کہ ایک دوست کھیلتا ہے میں سنے تھے اور میں ان ہتھیاروں کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا لیکن یہ باتیں سننے کے بعد میں نے وکی پیڈیا پر سرچ کی) انکے ایک سیکٹر کے پاس میں اکثر ایک لڑکے کو دیکھتا ہوں جسکی عمر تقریباً پندرہ یا سولہ سال ہو گی وہ ایم سِک سٹین (جو کہ امریکی اور اسرائیلی آرمی استعمالتی ہیں)پکڑے کھڑا ہوتا ہے ، ایک جگہ پر وہ پہرا دے رہا ہوتا ہے ۔
یہ خبریں میڈیا میں نہیں آئیں گی ،اس قسم کے واقعات پاکستان میں جس ترتیب سے ہوتے ہیں وہ ایک معمول کی حثیت رکھتے ہیں، لیکن عوام انکے بارے میں نہیں جانتی، بہت سے واقعات سے متعلق عوام مکمل طور پر علم بھی رکھتی ہے ، لیکن میڈیا ایک مداری کی طرح ہے جو کسی بھی واقعہ پر اپنی ڈگڈگی کو استعمالتے ہوے جس طرح چاہے عوام کو نچاتا ہے ۔سرفراز شاہ کے قتل پر جتنا افسوس آپ لوگوں کو ہے اتنا ہی مجھے بھی ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ ہمیں صرف سرفراز شاہ کے قتل پر ہی اتنا افسوس کیوں ہے ؟؟ اسکا جواب بھی میں ہی آپکو دے دیتا ہوں اسکی وجہ یہ ہے کہ اس خبر کو میڈیا نے کوریج دے دی ، میں آپکو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سرفراز شاہ کا واقعہ کچھ بھی نہیں اس میں یہ شور بھی مچایا جا سکتا ہے کہ رینجرز کو شہری علاقوں میں کام کرنے کی تربیت نہیں۔ میری ایک خفیہ پولیس کے افسرسے بات ہوی اسنے بتایا کہ ہمیں جس انداز سے تربیت دی جاتی ہے اس میں اگر لگے کہ مجرم تمہاری گَن پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو بلا جھجھک اسکو گولی مار دو، اور ویڈیو کو غور سے دیکھنے سے پتا چلتا ہے سرفراز شاہ معافی مانگنے کے واسطے اسکے قریب جا رہا تھا ، اسی لیے رینجر یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ وہ صورتِ حال کیو جہ سے ڈر گیا تھا ۔(لیکن یہ بلکل اسکے کسی کام نہ آے گی کیونکہ اس سے پہلے ہی پیچھے سے کوی آوازیں لگا رہا تھا کہ مار دے اسکو ) اسکے علاوہ اسی پولیس والے نے مجھے ایک دو ایسے واقعات بھی سنائے جہاں ایک پولیس والے حالات سے کنفیوژ ہو کر گولی چلا دی جس سے کوی مر گیا اور عدالت نے اسکو کوی سزا نہ دی وغیرہ وغیرہ ۔
لیکن یہ ویڈیو دیکھیں ، جو کہ اب تک یوٹیوب نے ہٹای نہیں ہے ۔ اس میں پاکستانی آرمی کچھ لوگوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انکو قتل کر دیتی ہے ۔ میں نہیں جانتا یہ لوگ کون ہیں ، نہ ہی میں جاننا چاہتا ہوں اور نہ ہی مجھے اس سے غرض ہے ۔ چاہے یہ بدترین قسم کے دہشت گرد ہیں ، لیکن کسی بھی طرح آپ انکو ایسے آنکھوں پر پٹی باند ھ کر قتل نہیں کر سکتے جیسے پاکستانی فوج نے کیا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ مجھے اور آپکو اس پر اتنا دُکھ کس وجہ سے نہیں ؟؟؟ اسکا جواب پھر میں آپکو دیتا ہوں ،کہ اسکو نہ تو جیو نے کوریج دی ، نہ ہی اے آر وای نے کوریج دی اور نہ ہی ، وقت اور دنیا نے لہذا ہمارے لیے یہ واقعہ کبھی ہوا ہی نہیں نہ ہی ہم اس پر افسوس کا اظہار کریں گے ۔ روشن خیال لوگ جنہوں نے اپنے بلاگوں پر بہت شور مچایا کہ اس قتل پر غیرانِ کراچیوں کو افسوس نہیں کہ یہ واقعہ اردو سپیکنگ کراچیے کے ساتھ ہوا (جو کہ بلکل غلط ہے ہمیں اس پر اتنا ہی افسوس ہے جتنا کراچی والوں کو یا اردو سپیکنگ کو۔ لیکن لعنت ہے ایسی گھٹیا سوچ پر)۔ میں ایسے خواتین و حضرات سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کیوں اس پر لا علم ہیں ؟؟؟ آپکو کیوں اس پر افسوس نہیں ۔ آپ کی لاعلمی دیگر معاملات پر تو نہیں انہی معاملات پر کیوں ؟؟؟؟
آپ لوگوں کو سیالکوٹ میں جو دو بھائیوں کے ساتھ ہوا وہ تو یاد ہو گا نا بے شک میڈیا نے اسکی کوریج بند کر دی ہے لیکن وہ ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں موجود ضرور ہو گا، بہت معذرت کے ساتھ مزید کچھ پڑھنے سے پہلے میں چاہوں گا کہ آپ اس کو دوبارہ ایک دفعہ اپنے دماغ کے خانے میں کر لیں تاکہ مزید کچھ پڑھنے سے پہلے ہی آپکے دل اتنے مکدر ہو جائیں کہ جو کچھ آگے آپ پڑھیں گے اسکو پڑھتے ہوے آپ اپنے دل میں اتنی زیادہ تنگی محسوس نہ کریں۔
مارچ ڈی جے خان میں ایک واقعہ ہوا کہ ایک شخص ایک مذہبی گروہ کی معزز شخصیات کو گالیاں دیا کرتا تھا ، ایک بوڑھا شخص جسکا نام حافظ عبداللہ تھا وہ برداشت نہ کر سکا اسنے پولیس کو رپورٹ کی جس پر پولیس نہ کوی ایکشن نہ لیا ، آخر میں تنگ آکر حافظ عبداللہ نے اس شخص کو قتل کر دیا اور تھانے میں جا کر خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ۔ پولیس نے اسکو گرفتار کر لیا اور جس گروہ کے شخص کو قتل کیا گیا تھا انکے حوالے کر کر دیا ، ان لوگوں نے حافظ عبداللہ کو اینٹیں اور پتھر مار مار کر ہلاک کر اسکے بعد انہوں نے حافظ عبداللہ کی لاش کو موٹر سائیکل کے ساتھ باندھ کر گھسیٹا اور بالآخر جلا ڈالا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جمال لغاری جو کہ سینٹ کا میمبر تھا اسنے اسکی خبر سینٹ میں حکومت تک پہنچائی اور حکومت نے اس پر صرف ایک ہی ایکشن لیا کہ میڈیا کو یا میڈیا تک اس خبر کی تشہیر پر پابندی لگا دی ، یوٹیوب نے یہ ویڈیو اپنے پیغام کے ساتھ ہٹا دی ۔
The video has been removed as a violation of YouTube’s policy on shocking and disgusting content.
دعویٰ کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ اکاسی لوگوں کے خلاف اف آی آر درج کی جا چکی ہے جو کہ سب کے سب ایران بھاگ گئے ہیں ۔ اس واقعے کی خبر بالآخر اخبار کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں اکتوبر میں شائع ہوی یعنی تقریباً سات سے آٹھ مہینے بعد ، (لعنت ہے میڈیا والوں پر بھی ) امت کی اس پر رپورٹ یہاں دیکھی جا سکتی ہے ، اس واقعے کی تصویریں یہاں دیکھی جا سکتی ہیں اور کچھ ویڈیوز یہاں دیکھی جا سکتی ہیں ۔
کل حامد میر نے جنگ میں ایک مضمون لکھا ہے ، جس میں اسنے میڈیا والوں کی شان میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیے ہیں ، اسی میں اسنے میڈیا کی شان میں جو قصیدہ گایا ہے اس میں اس چیز کا بھی ذکر کیا ہے کہ میڈیا ہی نے سب سے پہلے سوات میں لڑکی کو کوڑے پڑنے والی ویڈیو جاری کی ۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جاتا ، بلکہ جاتے جاتے آپ لوگوں کے لیے سوال چھوڑ جاتا ہوں کہ جب یہ ثابت ہو چکا کہ وہ ویڈیو جعلی اور سٹوڈیو میڈ تھی اسکے بعد بھی حامد میر اتنی ہٹ دھرمی سے کیوں اسکو مییڈیا کی جھوٹی شان کے قصیدے میں شامل کر رہا ہے ۔
مندرجہ بالا واقعہ مکمل طور پر سچا ہے جو کہ انسانوں کی ایک قسم کو ظاہر کرتا ہے ، دوسری قسم کے انسان وہ ہیں جو مکمل طور پر بے حس ہیں جنکے بارے میں ، میں "دنیا بڑی کُتی چیز ہے" میں بھی لکھ آیا ہوں۔ کراچی میں پچھلے دن ایک پاکستانی نوجوان کا بے ہیمانہ قتل ہوا اور اس پر جس طرح میڈیا اُٹھ آیا اور گلی گلی شور مچ گیا سب ہی جانتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے مخصوص علاقوں میں رہنے والوں کے لیے یہ کوی بڑی بات نہیں نہ ہی یہ واقعہ اتنی اہمیت کا حامل تھا کہ اسکو اتنی کوریج دی جاتی ۔ اسکی وجہ یہ نہیں کہ وہ بھی بے حس کتوں کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی روزانہ کی زندگی میں جو کچھ دیکھتے اور جن حالات سے گزرتے ہیں وہ اس سے بھی کہیں زیادہ بدترین ہیں۔
ایک واقعہ کراچی میں ہوا میں آپکو اسی شخص کی زبانی سنانے کی کوشش کرتا ہوں جسکے ساتھ پیش آیا ۔
میرا ایک دوستے مارکیٹ سے کچھ خریدنے جا رہا تھا اسنے اپنے دوسرے دوست (جو کہ میرا بھی دوست ہے) کے بھتیجے کو بھی ساتھ بائیک پر بٹھا لیا ۔ راستے میں بائیک کو ٹرالر نے ٹکر مار دی اور بائیک چلانے والا موقعہ پر ہی جاں بحق ہو گیا ۔ بچے کو ہسپتال لیجایا گیا ، مجھے ایس ایم ایس ملا کہ خون کی ضرورت ہے فوراً ہسپتال پہنچو ، میں سمجھا کہ معاملہ اتنا سنگین نہیں ہے کہ صرف خون کی ہی ضرورت ہے اسی لیے میں ہسپتا پہنچا ۔ بچے کی حالت انتہای تشویش ناک تھی ، اسکا سینہ چھلنی پڑا تھا ۔ اسکے چاچے کہ چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
میں:ایک منٹ ، میں آپکی بات سے یہ سمجھا ہوں کہ بچا بیڈ پر اکیلا پڑا تھا ، کیا کوی ڈاکٹر اور نرس اسکے نزدیک نہ تھے ؟
وہ: نہیں کوی ڈاکٹر اور نرس بچے کے قریب نہ تھے ، وہاں بہت زیادہ شور تھا اور کوی ڈاکٹر توجہ دینے کو بھی تیار نہ تھا ۔اصل میں جس ہسپتال میں ہم اسکو لے کر گئے تھے وہ ایک حکومتی ہسپتال ہے سروسز ہسپتال وہاں بہت زیادہ رش ہوتا ہے ۔ میں بڑی مشکل سے ایک ڈاکٹر کی منت سماجت کر کے اسکو پکڑ کر لایا اسنے بچے کو دیکھا اور بڑے اعتماد کے ساتھ مجھے کہا کہ معمولی زخم ہیں انکی ڈریسنگ کرتے رہیں اور میں یہ ایک دو سیرپ لکھ کر دے رہا ہوں اسکو دیں بچہ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں اسکے اتنے اعتماد کے کافی حد تک مطمئن ہو گیا تھا ، لیکن تسلی کی خاطر ہم اسکو ایک پرائیویٹ ہسپتال لے گئے وہاں یعنی پرائیویٹ ہسپتالوں میں حادثات وغیرہ کے کیسیز نہیں لیے جاتے کیونکہ کافی قانونی کاروای ہوتی ہے جس سے یہ لوگ بچپنا چاہتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم ایک ہسپتال لے گئے وہاں ڈاکٹر نے دیکھتے ہی کہا کہ بچے کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے، اسکو آپریشن کی ضرورت ہے تم اسکے فلانے ہسپتال لے جاو۔ ہم نے کہا ابھی ہم وہاں سے ہی آرہے ہیں اور وہ لوگ کچھ نہیں کر رہے ۔ بہرحال ہم ایک دوسرے ہسپتال لے گئے جو کہ خاص بچوں کا ہسپتال تھا اور راستے میں پڑتا تھا ، انہوں نے تو دیکھتے ہی ہاتھ اٹھا لیے کہ اس معاملے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے ، تم اسی ہسپتال لے جاو۔ ابھی ہم اسی ہسپتال لے جا رہے تھے کہ بچے کا راستے میں ہی انتقال ہو گیا ۔ ان للہ و ان علیہ راجعون
پولیس ٹریلر والے کو پکڑ چکی تھی ، یہاں پاکستان میں میڈیا بہت بلیک میلنگ کرتا ہے ۔ میڈیا والے بھی ایک نمبر کے بے غیرت ہیں ، بہرحال جو اصل میں ٹریلر کا مالک تھا وہ تو نہیں آیا لیکن اسکی جگہ ایک اور شخص جو علاقے کی چوہدری کی طرح ہے وہ ٹریلر کا مالک بن کر آگیا اور اسی نے سارے معاملات سنبھالے ۔ بچے کے گھر والوں نے تو کہا کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے ہم یہ معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں ، جبکہ دوسرے خاندان نے کہا کہ ٹھیک ہے ہمارے خاندان کا ایک فرد تو اس دنیا سے چلا گیا اسکی تلافی نہیں ہو سکتی ، لیکن اسکی ایک بیوہ اور چار بچے ہیں لٰہذا تمہیں انکے لیے کچھ کرنا ہو گا ۔ تو بات یہ طے پائی کہ وہ ان بچوں کے نام ایک چھوٹا سا مکان سستے سے علاقے میں بنا کر دے گا ، لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ میڈیا والے بھی بڑے بے غیرت ہیں ، ایک میڈیا والے نے پتا نہیں کیا چکر چلایا اور کیا بات کی لڑکے کے باپ سے کہ انکو تھوڑے پیسے دے کر معاملہ نمٹا دیا ۔ اور سارا معاملہ رفع دفع ہو گیا ۔
کراچی کے ایک خاص علاقے میں ابھی کچھ دن پہلے ہی ایک خاص گروہ نے اپنے مخالفین کے دو بندوں کو کھلی سڑک پر قتل کیا ، یہ نوجوان کا قتل انکے مقابلے میں کسی حثیت کا نہیں، قاتلوں نے پہلے قتل کیا ، پھر انکے ناک کان کاٹے ، اور پھر انکے اوپر سے اپنی موٹر سائیکلیں گزاریں، لیکن یہ بات میڈیا میں نہیں آے گی ، کیونکہ میڈیا کو اسکی اجازت نہیں ہے ۔ اس خاص گروہ کو حکومت کی طرف سے خاص چھٹی ملی ہوی ہے ۔ اس گروہ کے سیکٹر ہیں علاقے میں ۔آر پی جی اور ایل ایم جی انکے پاس دیکھنا تو معمول کی بات ہے (میں نے آر پی جی اور ایل ایم کے جی نام صرف ایکس باکس گیم "دی آرمی آف ٹُو" جو کہ ایک دوست کھیلتا ہے میں سنے تھے اور میں ان ہتھیاروں کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا لیکن یہ باتیں سننے کے بعد میں نے وکی پیڈیا پر سرچ کی) انکے ایک سیکٹر کے پاس میں اکثر ایک لڑکے کو دیکھتا ہوں جسکی عمر تقریباً پندرہ یا سولہ سال ہو گی وہ ایم سِک سٹین (جو کہ امریکی اور اسرائیلی آرمی استعمالتی ہیں)پکڑے کھڑا ہوتا ہے ، ایک جگہ پر وہ پہرا دے رہا ہوتا ہے ۔
یہ خبریں میڈیا میں نہیں آئیں گی ،اس قسم کے واقعات پاکستان میں جس ترتیب سے ہوتے ہیں وہ ایک معمول کی حثیت رکھتے ہیں، لیکن عوام انکے بارے میں نہیں جانتی، بہت سے واقعات سے متعلق عوام مکمل طور پر علم بھی رکھتی ہے ، لیکن میڈیا ایک مداری کی طرح ہے جو کسی بھی واقعہ پر اپنی ڈگڈگی کو استعمالتے ہوے جس طرح چاہے عوام کو نچاتا ہے ۔سرفراز شاہ کے قتل پر جتنا افسوس آپ لوگوں کو ہے اتنا ہی مجھے بھی ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ ہمیں صرف سرفراز شاہ کے قتل پر ہی اتنا افسوس کیوں ہے ؟؟ اسکا جواب بھی میں ہی آپکو دے دیتا ہوں اسکی وجہ یہ ہے کہ اس خبر کو میڈیا نے کوریج دے دی ، میں آپکو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سرفراز شاہ کا واقعہ کچھ بھی نہیں اس میں یہ شور بھی مچایا جا سکتا ہے کہ رینجرز کو شہری علاقوں میں کام کرنے کی تربیت نہیں۔ میری ایک خفیہ پولیس کے افسرسے بات ہوی اسنے بتایا کہ ہمیں جس انداز سے تربیت دی جاتی ہے اس میں اگر لگے کہ مجرم تمہاری گَن پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو بلا جھجھک اسکو گولی مار دو، اور ویڈیو کو غور سے دیکھنے سے پتا چلتا ہے سرفراز شاہ معافی مانگنے کے واسطے اسکے قریب جا رہا تھا ، اسی لیے رینجر یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ وہ صورتِ حال کیو جہ سے ڈر گیا تھا ۔(لیکن یہ بلکل اسکے کسی کام نہ آے گی کیونکہ اس سے پہلے ہی پیچھے سے کوی آوازیں لگا رہا تھا کہ مار دے اسکو ) اسکے علاوہ اسی پولیس والے نے مجھے ایک دو ایسے واقعات بھی سنائے جہاں ایک پولیس والے حالات سے کنفیوژ ہو کر گولی چلا دی جس سے کوی مر گیا اور عدالت نے اسکو کوی سزا نہ دی وغیرہ وغیرہ ۔
لیکن یہ ویڈیو دیکھیں ، جو کہ اب تک یوٹیوب نے ہٹای نہیں ہے ۔ اس میں پاکستانی آرمی کچھ لوگوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انکو قتل کر دیتی ہے ۔ میں نہیں جانتا یہ لوگ کون ہیں ، نہ ہی میں جاننا چاہتا ہوں اور نہ ہی مجھے اس سے غرض ہے ۔ چاہے یہ بدترین قسم کے دہشت گرد ہیں ، لیکن کسی بھی طرح آپ انکو ایسے آنکھوں پر پٹی باند ھ کر قتل نہیں کر سکتے جیسے پاکستانی فوج نے کیا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ مجھے اور آپکو اس پر اتنا دُکھ کس وجہ سے نہیں ؟؟؟ اسکا جواب پھر میں آپکو دیتا ہوں ،کہ اسکو نہ تو جیو نے کوریج دی ، نہ ہی اے آر وای نے کوریج دی اور نہ ہی ، وقت اور دنیا نے لہذا ہمارے لیے یہ واقعہ کبھی ہوا ہی نہیں نہ ہی ہم اس پر افسوس کا اظہار کریں گے ۔ روشن خیال لوگ جنہوں نے اپنے بلاگوں پر بہت شور مچایا کہ اس قتل پر غیرانِ کراچیوں کو افسوس نہیں کہ یہ واقعہ اردو سپیکنگ کراچیے کے ساتھ ہوا (جو کہ بلکل غلط ہے ہمیں اس پر اتنا ہی افسوس ہے جتنا کراچی والوں کو یا اردو سپیکنگ کو۔ لیکن لعنت ہے ایسی گھٹیا سوچ پر)۔ میں ایسے خواتین و حضرات سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کیوں اس پر لا علم ہیں ؟؟؟ آپکو کیوں اس پر افسوس نہیں ۔ آپ کی لاعلمی دیگر معاملات پر تو نہیں انہی معاملات پر کیوں ؟؟؟؟
آپ لوگوں کو سیالکوٹ میں جو دو بھائیوں کے ساتھ ہوا وہ تو یاد ہو گا نا بے شک میڈیا نے اسکی کوریج بند کر دی ہے لیکن وہ ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں موجود ضرور ہو گا، بہت معذرت کے ساتھ مزید کچھ پڑھنے سے پہلے میں چاہوں گا کہ آپ اس کو دوبارہ ایک دفعہ اپنے دماغ کے خانے میں کر لیں تاکہ مزید کچھ پڑھنے سے پہلے ہی آپکے دل اتنے مکدر ہو جائیں کہ جو کچھ آگے آپ پڑھیں گے اسکو پڑھتے ہوے آپ اپنے دل میں اتنی زیادہ تنگی محسوس نہ کریں۔
مارچ ڈی جے خان میں ایک واقعہ ہوا کہ ایک شخص ایک مذہبی گروہ کی معزز شخصیات کو گالیاں دیا کرتا تھا ، ایک بوڑھا شخص جسکا نام حافظ عبداللہ تھا وہ برداشت نہ کر سکا اسنے پولیس کو رپورٹ کی جس پر پولیس نہ کوی ایکشن نہ لیا ، آخر میں تنگ آکر حافظ عبداللہ نے اس شخص کو قتل کر دیا اور تھانے میں جا کر خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ۔ پولیس نے اسکو گرفتار کر لیا اور جس گروہ کے شخص کو قتل کیا گیا تھا انکے حوالے کر کر دیا ، ان لوگوں نے حافظ عبداللہ کو اینٹیں اور پتھر مار مار کر ہلاک کر اسکے بعد انہوں نے حافظ عبداللہ کی لاش کو موٹر سائیکل کے ساتھ باندھ کر گھسیٹا اور بالآخر جلا ڈالا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جمال لغاری جو کہ سینٹ کا میمبر تھا اسنے اسکی خبر سینٹ میں حکومت تک پہنچائی اور حکومت نے اس پر صرف ایک ہی ایکشن لیا کہ میڈیا کو یا میڈیا تک اس خبر کی تشہیر پر پابندی لگا دی ، یوٹیوب نے یہ ویڈیو اپنے پیغام کے ساتھ ہٹا دی ۔
The video has been removed as a violation of YouTube’s policy on shocking and disgusting content.
دعویٰ کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ اکاسی لوگوں کے خلاف اف آی آر درج کی جا چکی ہے جو کہ سب کے سب ایران بھاگ گئے ہیں ۔ اس واقعے کی خبر بالآخر اخبار کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں اکتوبر میں شائع ہوی یعنی تقریباً سات سے آٹھ مہینے بعد ، (لعنت ہے میڈیا والوں پر بھی ) امت کی اس پر رپورٹ یہاں دیکھی جا سکتی ہے ، اس واقعے کی تصویریں یہاں دیکھی جا سکتی ہیں اور کچھ ویڈیوز یہاں دیکھی جا سکتی ہیں ۔
کل حامد میر نے جنگ میں ایک مضمون لکھا ہے ، جس میں اسنے میڈیا والوں کی شان میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیے ہیں ، اسی میں اسنے میڈیا کی شان میں جو قصیدہ گایا ہے اس میں اس چیز کا بھی ذکر کیا ہے کہ میڈیا ہی نے سب سے پہلے سوات میں لڑکی کو کوڑے پڑنے والی ویڈیو جاری کی ۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جاتا ، بلکہ جاتے جاتے آپ لوگوں کے لیے سوال چھوڑ جاتا ہوں کہ جب یہ ثابت ہو چکا کہ وہ ویڈیو جعلی اور سٹوڈیو میڈ تھی اسکے بعد بھی حامد میر اتنی ہٹ دھرمی سے کیوں اسکو مییڈیا کی جھوٹی شان کے قصیدے میں شامل کر رہا ہے ۔


Last edited: