Freedomlover
Minister (2k+ posts)
بیمار قوموں کے پڑھے لکھے نوجوان
تحریر: محمد غیث المعرفة
تحریر: محمد غیث المعرفة
ہمارے یہاں خطہ برصغیر کے پڑھے لکھے طبقہ ، چاہے اس کا تعلق لبرل اور سیکولر حلقوں سے ہو یا اسلام کے نام لیواؤں سے ان کا تعلق ہو ان کے احساسات اور سوچوں میں اس قدر ہم آہنگی ہے کہ حالات کو دیکھنے اور پرکھنے تک کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی البتہ نتائج اپنے اپنے اسکول آف تھاٹ کے مطابق اخذ کئے جاتے ہیں۔
ہمارا لبرل حلقہ سمجھتا ہے کہ مغرب نے ج...و ترقی کی ہے اس کی بنیادوں میں ان کی تہذیب اور کلچر ہے اس لیے کنسٹرٹس ، میرا تھون ریس، عورتوں کا جینز پہننا اور آزاد خیالی کی دوسرے لوازم انہیں ترقی کی نشانیوں کے طور پر نظر آتی ہیں۔ وہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ مغرب نے یہ بلندی صرف اس ذریعے سے حاصل کی ہے کہ ان کی عورتیں جسموں کو ننگا رکھتی ہیں اور ان کے مرد اپنی زندگی میں درجن بھر عورتوں سے استفادہ کرتے ہیں۔
وہیں ہمارے یہاں چند پڑھے لکھے اسلام پسندوں میں یہ خیال آن دھمکا ہے کہ ترکی اور مصر میں جو اتنی بڑی ترقی حاصل ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پینٹ کوٹ پہنتے ہیں اور ان کی عورتیں چہروں یا سروں کو ڈھانپنا ضروری نہیں سمجھتیں پھر وہ اس قدر معتدل مزاج واقع ہوئے ہیں کہ کنسٹرٹس جیسی چیزیں ان کے ہاں گناہ نہیں رہیں اور وسعت نظری یہ ہے کہ بغیر کسی روک اور جبر کے لوگوں کی سوچوں کو قبول کر رہے ہیں اور مرد و زن کی تفریق نہیں رکھ رہے بلکہ مخلوط جلسوں میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
مصر کے اندر ڈاکٹر محمد مرسی کے حمایت میں جاری مظاہرے اور خاص کر میدان رابعہ العدویہ اور میدان النھضہ نے اس سوچ کو تلچھٹ کا شکار کر دیا ہے ان پڑھے لکھوں کی سوچوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔ کیوں کہ وہاں ایک نئی قوت موجود ہے جو ایسی سوچوں سے بہت دور بس رہی ہے۔ لوگ جس مارچ اور ریلی کو اخوان المسلمون کی حکمت سمجھ رہے تھے اس نے میدان رابعہ العدویہ میں مخلوط محافل کی سوچ پر تھپڑ مارا ہے اور اپنے ایمان اور تقویٰ والی پہچان دنیا کے سامنے پیش کی ہے
میں سوچتا تھا کہ اخوان ہر وقت یہ ہی سوچ رہے ہوتے تھے کہ ایک چال مخالفین کی ہے ایک چال اللہ کی ہے اور اللہ ہمیشہ بہتر چال چلنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر اس حد تک یقین ہی تھا جس نے میدان رابعہ العدویہ سے آج تک نہیں اٹھنے نہیں دیا البتہ یہاں تو لگ گجرانوالہ یا ڈیرہ اسماعیل خان سے واپس مڑ آتے ہیں اور پھر مجھے حیرانگی ہوئی کہ امریکہ جس نے اس پلان کو ترتیب دیا اس نے اب تھوڑا دور رہنا اپنے لیے ضروری سمجھ لیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ایک چال مخالفین کی ہے ایک چال اللہ کی اور اللہ بہتر چال چلنے والا ہے پھر کچھ لوگ اب بھی اخوان کو سادہ لوح قرار دیتے ہیں۔
معقول بات یہ ہے کہ غلطیاں کس میں نہیں ہوتیں؟ کامیابی کب ازل کی چٹان کہلاتی ہے لیکن اخوان نے ثابت کیا ہے کہ ایمان اور تقویٰ کے سامنے کوئی غلطی نہیں رہتی اور آج انہوں نے ساری دنیا میں اپنے بارے تاثر کو مضبوظ کیا ہے اپنی پہچان کروائی ہے۔ جب مغربی دنیا کو کھلے عام دعوت دی گئی کہ آؤ دیکھو رابعہ العدیہ میں کون لوگ بیٹھے ہیں کس کردار اور طرز عمل کے لوگ یہاں بیٹھے ہیں تو مغرب سے روزانہ کی بنیاد پر وفد آنے لگے اور رابعہ العدویہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر دنگ رہ گئے، ناروے سے آنے والے وفد میں شامل ایک فرد رونے لگ گیا۔ خود جان مکین نے پینترا بدل لیا- آسٹن پر یوں نفسیاتی اثر پڑا کہ رابعہ العدویہ کے وزٹ کے بعد اس نے البرادعی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اسلام پر امن مذہب ہے آپ کیوں پر امن لوگوں کا خون کر رہے ہیں۔ اور پریس کانفرنس وقت سے پہلے چھوڑ کر چلی گئی کیوں کہ وہ نفسیاتی طور پر ہلکان ہو چکی تھی۔ اور خود مصریوں کے رویے اخوان بارے بدل گئے آزمائش اور عارضی شکست نئی صبح کی لذت اور بڑھا گئی کسی یورپی ملک سے آنے والے کٹر اینٹی اخوانی نے اپنی شادی رابعہ العدویہ میں کروانے کا اعلان کیا جس کا نکاح عید سے ایک دن قبل ہوا۔