biomat

Minister (2k+ posts)


ایم ایس احمد
پٹنہ

t.gif

t.gif
20070818114910dishart203.jpg

دشرتھ مانجھی نے صرف ایک ہتھوڑی اور چھینی سے تن تنہا پہاڑ کاٹ کر اسے ہموار کر دیا
بہار کے فرہاد اور ماونٹین مین کے خطابات سے پہچانے جانے والے کوہ کن دشرتھ مانجھی جمعہ کو دم توڑ گئے۔
وہ یرقان کی وجہ سے بیمار تھے اور جمعہ کو دلی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں انہوں نے دنیا کو الوداع کہا۔ انکی عمر قریب باسٹھ سال تھی۔
دشرتھ مانجھی وہ شخص تھے جنہوں نے پہاڑ کاٹ کر ایک ایسا راستہ بنایا جس کے بننے سے اسی کلومیٹر کا فاصلہ محض آٹھ کلومیٹر کا رہ گیا۔
ضلع گیا کے مشہور سماجی کارکن پربھات شانڈیلہ کہتے ہیں دشرتھ مانجھی، ایک چھینی، ایک ہتھوڑی اور کٹ گیا پہاڑ۔
مسٹر شانڈیلہ کے مطابق دشرتھ مانجھی محنت مزدوری کر کے گھر چلاتے تھے۔ ان کی اہلیہ انکے لیے کھانے سے زیادہ پانی لے جانے میں پریشان رہتی تھیں۔ بقول مسٹر شانڈلیہ ایک دن پھگونی پتھر سے ٹکرا کر گری تو پانی کا برتن جو مٹی کا تھا ٹوٹ گیا۔ دشرتھ تو بیوی کی پُر مشقت زندگی سے پہلے پریشان تھے، اس واقعہ کے بعد انہوں نے صرف ایک ہتھوڑی اور چھینی سے تن تنہا پہاڑ کاٹ کر اسے ہموار کر دیا۔
دشرتھ مانجھی نے یہ کام بائیس سالوں میں پورا کیا اور ان کا یہ کارنامہ انیس سو اسّی کے عشرے میں عوام کے سامنے آیا۔
پہاڑ کاٹنے والا یا ماونٹین کٹر کے خطاب سے نوازے گئے دشرتھ نے قریب ایک لاکھ چالیس ہزار مکعب حجم میں پچیس فٹ کی اونچائی میں پہاڑ کاٹ کر قریب تین سو پچاس فٹ لمبا اور تیس فٹ چوڑا راستہ بنا دیا۔
دشرتھ مانجھی کے کارنامے کو سمجھنے کے لیے اس بات کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ گیا ضلع کے جس علاقے میں وہ رہتے تھے وہاں گرمیوں میں پانی کی سطح بہت نیچے چلی جاتی ہے۔
t.gif
20070818114924mountaincut203.jpg

دشرتھ نے پہاڑ کاٹ کر قریب تین سو پچاس فٹ لمبا اور تیس فٹ چوڑا راستہ بنا دیا۔

دشرتھ مانجھی ریاست کی اس برادری سے تعلق رکھتے تھے جو سماجی اور سیاسی لحاظ سے ہر طرح کی محرومیوں کا شکار ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ یہ کام کسی دوسری برادری کے شخص نے کیا ہوتا تو حکومت اسے کسی سرکاری اعزاز سے ضرور نوازتی اور سماجی سطح پر بھی انہیں کافی عزت بخشی جاتی۔
مسٹر شانڈلیہ کہتے ہیں دشرتھ کو تو پہلے لوگ دشرتھو بھویئاں ہی کہتے تھے، ذات برادی کے امتیازی سماج میں انہیں دشرتھ مانجھی جیسے نام سے پکارا جانا ہی بڑی بات ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دشرتھ کسی اونچی ذات سے تعلق رکھتے تو انہیں پدم گروپ کا کوئی ایوارڈ ضرور ملا ہوتا۔
دشرتھ مانجھی نے بائیس سال میں بلا ناغہ ایک ایک انچ کر کے پہاڑ تو کاٹ ڈالا لیکن انہیں اس راستے پر سڑک کی تعمیر کی منظوری دلانے کے لیے جتنی منتیں کرنی پڑیں وہ بھی اس بات کی شہادت ہے کہ نچلی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے دنیا میں اپنے دن کیسے گزارے ہیں۔
گزشتہ برس دشرتھ مانجھی موجودہ وزیر اعلٰی نتیش کمار سے ملنے پٹنہ آئے تو نتیش کمار نے انہیں اپنی کرسی پر بٹھا دیا۔ اس وقت انکے پہاڑ کاٹ کر بنائے گئے راستے پر سڑک بنانے کی منظوری ملی۔
گزشتہ ماہ جب دشرتھ مانجھی بیمار پڑے تو نتیش کمار اور دیگر رہنما ان کا حال پوچھنے خود پٹنہ میڈیکل کالج ہسپتال پہنچے تھے۔ بعد میں انہیں سرکاری خرچ پر دلی کے ہسپتال ایمس میں داخل کرایا گیا تھا۔ انکے انتقال پر گورنر آر ایس گوئی، وزیر اعلٰی نتیش کمار اور دیگر سیاسی رہنماوں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
حکومت اور انتظامیہ نے دشرتھ کو زندہ رہتے کچھ دیا ہو یا نہیں، انکی آخری رسومات سرکاری اعزاز کے ساتھ پوری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
وزیر اعلٰی نتیش کمار چاہتے تھے کہ اس سڑک کا افتتاح دشرتھ مانجھی کریں لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔ دشرتھ مانجھی کے صاحبزادے بھگیرتھ اور بیٹی لونگی دیوی شاید اس سڑک کے بننے کے بعد اپنے والد کی محنت کامیاب ہونے سے ضرور خوش ہوں گے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/story/2007/08/070818_dishart_passed_aw.shtml