
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی) جنرل ساحر شمشاد مرزا نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ حالیہ 96 گھنٹوں پر محیط عسکری تناؤ کے دوران پاکستان نے مکمل طور پر اندرونی عسکری صلاحیتوں پر انحصار کیا اور کسی بیرونی معاونت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جنرل شمشاد نے ان اطلاعات کو مسترد کیا کہ چین یا کسی دوست ملک نے سیٹلائٹ انٹیلیجنس یا کسی قسم کی تکنیکی مدد فراہم کی۔ ان کے مطابق، ’’جو ساز و سامان ہم نے استعمال کیا، وہ یا تو مقامی سطح پر تیار شدہ تھا یا پہلے سے موجود تھا، لیکن تنازع کے دوران جو کچھ استعمال کیا گیا، وہ مکمل طور پر پاکستان کی اپنی صلاحیت تھی۔‘‘
جنرل شمشاد کے مطابق یہ عسکری تصادم ماضی کے مقابلے میں نمایاں طور پر مختلف تھا، کیونکہ اس کے اثرات شہری علاقوں تک بھی دیکھے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آئندہ تنازعات صرف مخصوص سرحدی علاقوں تک محدود نہیں رہیں گے، اس بار شہروں میں بھی دباؤ محسوس کیا گیا۔‘‘
سرحدی تناؤ پر حکومتی سطح کا نادر تبصرہ
جنرل ساحر شمشاد کا یہ بیان پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ تناؤ پر حکومتِ پاکستان کی جانب سے ایک نادر اور براہ راست تبصرہ سمجھا جا رہا ہے، تاہم انہوں نے اس عسکری جھڑپ کی درست تاریخ یا محلِ وقوع کی وضاحت نہیں کی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگرچہ سرحدوں پر نسبتاً سکون ہے، لیکن شہری علاقوں میں تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے، جو آئندہ کسی بھی ممکنہ بحران کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔
رابطہ کاری کا فقدان اور انتہا پسندی کا خطرہ
جنرل شمشاد نے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان بحران سے نمٹنے کے لیے کسی مؤثر اور منظم طریقہ کار کی عدم موجودگی پر بھی اظہارِ تشویش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم صرف ڈی جی ایم او سطح کی ہاٹ لائن پر انحصار کرتے ہیں، جو ہائی انٹینسٹی بحرانوں کے لیے ناکافی ہے۔‘‘
انہوں نے جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندانہ سوچ کو ایک سنگین چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’جب آپ انتہا پسند ذہنیت سے نمٹ رہے ہوں تو بین الاقوامی ثالثی کی گنجائش بھی محدود ہو جاتی ہے۔‘‘
ان کے بقول، امریکا اور چند دیگر ممالک نے حالیہ بحران کے دوران مداخلت ضرور کی، تاہم ’’یہ راہداری اب بہت محدود ہو چکی ہے‘‘۔
آبی وسائل پر مؤقف
جنرل شمشاد مرزا نے بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاؤں کے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوششوں کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ ’’پاکستان کے پانی کو روکنے یا موڑنے کی کوئی بھی کوشش جنگی اقدام تصور کی جائے گی۔‘‘
یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ہفتے سنگاپور میں منعقدہ شنگریلا ڈائیلاگ میں بھی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نے جنوبی ایشیا میں جوہری تصادم کے خدشات اور خطے کی ترقی کو درپیش خطرات پر روشنی ڈالی تھی۔
- Featured Thumbs
- https://i.dawn.com/primary/2025/06/03130959d7ab0d0.jpg