Amal
Chief Minister (5k+ posts)
الله الرحمن الرحيم
حقوق العباد نہ دینا یہ ظلم کی وه قسم ہے کہ جس کا بدلہ اللہ تعالٰی لیے بغیر نہیں چھوڑیں گے ۔
(معارف القرآن جلد 2 ص، 550)
ظلم کیا ہے
کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹاکر رکھنے اورحد سے تجاوز کرنے کو ظلم کہتے ہیں ۔ یعنی اگر کوئی شخص کسی دوسرے کے مال یا زمین پر ناجائز قبضہ کرلے تو وہ ظلم ہے کیونکہ اس میں مال یا زمین پر اصل مالک کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ اسی طرح شرک کرنا بھی ظلم ہے کیونکہ اس میں اللہ کا حق مارا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ عبادت میں اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ کسی کو ناحق قتل کرنا، کسی کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا یا کسی کو تکلیف دینا یا کسی کا حق ادا نہ کرنا یا قدرت کے باوجود قرض کی
ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا بھی ظلم ہے ۔
ظلم حرام ہے
قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ظلم حرام ہے، اورsat بڑے ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے اکثر کا تعلق ظلم ہی سے ہے۔ ظالم قیامت کے دن ذلت آمیز اندھیروں میں ہو گا اور ظالموں کو جہنم کی دہکتی آگ میں ڈالا جائے گا، چنانچہ قیامت کے دن ظالموں سے مظلوموں کے حقوق ادا کروائے جائیں گے یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کو بدلہ دلوایا جائے گا اگر اُس نے بغیر سینگ والی بکری کو دنیا میں مارا ہوگا۔
شریعت اسلامیہ نے نہ صرف ظلم کی حرمت ونحوست کا بار بار ذکر کیا ہے اور اس کے برے انجام سے متنبہ کیا ہے بلکہ مظلوم کی مدد کرنے کی تعلیم وترغیب بھی دی ہے اور مظلوم کی بددعا سے بھی سختی کے ساتھ بچنے کو کہا گیا ہے کیونکہ مظلوم کی بددعا اللہ کے دربار میں رد نہیں کی جاتی۔ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ظلم کو حرام قرار دے کر سب کے ساتھ عدل وانصاف کیا جائے اور ظالموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے ورنہ غریبوں کو دو وقت کا کھانا ملنا بھی دشوار ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے تمام مذاہب میں ظلم کرنے سے روکا گیا ہے۔ دنیاوی قوانین بھی اس طرح بنائے گئے ہیں کہ ظلم پر روک لگائی جاسکے، لیکن ہر دور میں کچھ لوگ جیسے ہمارے ملک کے اداروں کے حکمران ، سیاست دان ، علما اور میڈیا اپنے مذہب کی تعلیمات اور عالمی وملکی قوانین کی دھجیاں اڑاکر کمزوروں اور غریبوں پر ظلم کرکے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔
مال ومنصب کے ملنے پر انسان کمزوروں پر ظلم کرنے لگتا ہے ، حالانکہ اسے سوچنا چاہئے کہ ساری کائنات کو پیدا کرکے پوری دنیا کے نظام کو تن تنہا چلانے والے نے خود اپنی ذات سے ظلم کرنے کی نفی کی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اللہ ذرّہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘ (النساء40) ۔ نبی اکرمﷺ حدیث قدسی میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر بھی حرام کیا ہے اور تم پر بھی حرام کیا ہے لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ ‘‘(صحیح مسلم ۔ باب تحریم الظلم) ۔
جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہ بڑے ظالم لوگ ہیں(البقرۃ 229) ۔ جو کوئی اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود سے آگے نکلے گا، اُس نے خود اپنی جان پر ظلم کیا (الطلاق 1)۔ اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کے متعلق اپنا اصول وضابطہ بیان کردیا ہے کہ جب تک بندے سے معاملہ صاف نہیں کیا جائے گا وہ معاف نہیں کرے گا لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ کسی بھی انسان پر کسی بھی حال میں ظلم نہ کرے، بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق دوسروں کی مدد کرے، ظالم کو ظلم کرنے سے حکمت کے ساتھ روکے اور مظلوم کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہو،جیسا کہ حضور کرمﷺ نے ارشاد فرمایا :اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ ! ہم مظلوم کی تو مدد کرسکتے ہیں، لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کس طرح ہوگی؟ حضور کرمﷺ نے فرمایا: ’’(ظالم کی مدد کی صورت یہ ہے کہ) اس کا ہاتھ پکڑ لو(یعنی اسے ظلم کرنے سے روک دو)‘‘(بخاری:باب اعن اخاک ظالماً او مظلوماً) ۔
ظلم کی مختلف اقسام
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’یقین رکھو کہ جو لوگ یتیموں کا مال اُن پر ظلم کرکے کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور انہیں جلدی ہی ایک دہکتی آگ میں داخل ہونا ہوگا۔‘‘ (النساء10)۔
اسی طرح کسی بھی انسان کے مال کو ناجائز طریقہ سے حاصل کرنے کے متعلق قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ کسی کی زمین پر قبضہ کرنا: کسی کمزور یا غریب کو دبا کر اس کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا بھی ظلم اور بہت بڑا گناہ ہے۔ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: « اگر کسی شخص نے ایک بالشت زمین بھی کسی دوسرے کی ظلماً لے لی تو سات زمین کا طوق اس کی گردن میں پہنایا جائے گا (بخاری : باب اثم من ظلم شیئاً من الارض)۔ جس شخص نے ناحق کسی زمین کا تھوڑا سا حصہ بھی لیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا(بخاری : باب اثم من ظلم شیئاً من الارض)۔ غیر مسلم پر ظلم کرنا: مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں سے بھی انسانیت کی بنیاد پر ایک ہی جیسا برتاؤ کیا جائے گا۔ کسی غیر مسلم پر بھی ظلم کرنا حرام ہے۔ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص ذمی (یعنی وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ملک میں رہتاہے) پر ظلم وزیادتی کرے گا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام لے گا یا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی رضا مندی کے لے گا تو اُس ذمی کی جانب سے اُس (ظالم ) شخص کے ساتھ دشمنی( جنگ ) کرنے والا میں (نبی اکرمﷺ) خود ہوں گا۔‘‘ (ابوداؤد : باب فی اہل تعشیر اہل الخدمہ)۔
مزدورکو اجرت نہ دینا : حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: تین طرح کے لوگ ایسے ہیں جن کا قیامت میں مَیں فریق بنوں گا( یعنی میں ان کے مخالف کھڑا ہوں گا): وہ شخص جس نے میرے نام پر وعدہ کیا( حلف اٹھایا ) اور پھر وعدہ خلافی کی( جیسے ہمارے ملک کے حکمران کرتے ہیں )، وہ شخص جس نے کسی آزاد کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی ہو (اور اس طرح اس کی غلامی کا باعث بنا ہو) ، اور وہ شخص جس نے کسی کو مزدوری پر لیا ہو، پھر کام تو اس سے پوری طرح لیا لیکن اس کی مزدوری نہ دی ہو۔‘‘ (بخاری : باب اثم من منع اجر الاجیر) ۔ اسی طرح فرمان رسولﷺ ہے: ’’مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ سوکھنے سے قبل دی جائے۔‘‘ (ابن ماجہ : باب اجر الاجراء)۔ لوگوں کے حق کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا: رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ ‘‘(بخاری ، مسلم) نیز رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے مگر کسی کا قرضہ معاف نہیں کرتا (مسلم)۔
ظلم کرنے کی تمام شکلوں سے بچنا چاہئے کیونکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکاۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیئے جائیںگے ، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ ‘‘(مسلم : باب تحریم الظلم)۔
مظلوم اور ہم کیا کریں؟: مظلوم صبر کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اپنی استطاعت کے مطابق ظالم کو ظلم سے روکے ۔ اگر ہم ظالم کو ظلم کرنے سے روک سکتے ہیں تو ضرور یہ ذمہ داری انجام دینی چاہئے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتے ہیں، پھر جب اچانک اس کو پکڑتے ہیں تو اس کو بالکل نہیں چھوڑتے۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ترجمہ’’ اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ شہروں کو پکڑتے ہیں جبکہ
وہ ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں، یقینا اس کی پکڑ بڑی دردناک ہے(بخاری ومسلم) ۔
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ ٱلْقَوْمِ ٱلظَّٰلِمِينَ
اے ہمارے رب ہمیں ظالموں کے ساتھ نہ ملا
(سورۃ الاعراف،آیت 47)
(معارف القرآن جلد 2 ص، 550)
ظلم کیا ہے
کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹاکر رکھنے اورحد سے تجاوز کرنے کو ظلم کہتے ہیں ۔ یعنی اگر کوئی شخص کسی دوسرے کے مال یا زمین پر ناجائز قبضہ کرلے تو وہ ظلم ہے کیونکہ اس میں مال یا زمین پر اصل مالک کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ اسی طرح شرک کرنا بھی ظلم ہے کیونکہ اس میں اللہ کا حق مارا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ عبادت میں اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ کسی کو ناحق قتل کرنا، کسی کو گالی دینا یا برا بھلا کہنا یا کسی کو تکلیف دینا یا کسی کا حق ادا نہ کرنا یا قدرت کے باوجود قرض کی
ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا بھی ظلم ہے ۔
ظلم حرام ہے
قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ظلم حرام ہے، اورsat بڑے ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے اکثر کا تعلق ظلم ہی سے ہے۔ ظالم قیامت کے دن ذلت آمیز اندھیروں میں ہو گا اور ظالموں کو جہنم کی دہکتی آگ میں ڈالا جائے گا، چنانچہ قیامت کے دن ظالموں سے مظلوموں کے حقوق ادا کروائے جائیں گے یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کو بدلہ دلوایا جائے گا اگر اُس نے بغیر سینگ والی بکری کو دنیا میں مارا ہوگا۔
شریعت اسلامیہ نے نہ صرف ظلم کی حرمت ونحوست کا بار بار ذکر کیا ہے اور اس کے برے انجام سے متنبہ کیا ہے بلکہ مظلوم کی مدد کرنے کی تعلیم وترغیب بھی دی ہے اور مظلوم کی بددعا سے بھی سختی کے ساتھ بچنے کو کہا گیا ہے کیونکہ مظلوم کی بددعا اللہ کے دربار میں رد نہیں کی جاتی۔ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ظلم کو حرام قرار دے کر سب کے ساتھ عدل وانصاف کیا جائے اور ظالموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے ورنہ غریبوں کو دو وقت کا کھانا ملنا بھی دشوار ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے تمام مذاہب میں ظلم کرنے سے روکا گیا ہے۔ دنیاوی قوانین بھی اس طرح بنائے گئے ہیں کہ ظلم پر روک لگائی جاسکے، لیکن ہر دور میں کچھ لوگ جیسے ہمارے ملک کے اداروں کے حکمران ، سیاست دان ، علما اور میڈیا اپنے مذہب کی تعلیمات اور عالمی وملکی قوانین کی دھجیاں اڑاکر کمزوروں اور غریبوں پر ظلم کرکے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔
مال ومنصب کے ملنے پر انسان کمزوروں پر ظلم کرنے لگتا ہے ، حالانکہ اسے سوچنا چاہئے کہ ساری کائنات کو پیدا کرکے پوری دنیا کے نظام کو تن تنہا چلانے والے نے خود اپنی ذات سے ظلم کرنے کی نفی کی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اللہ ذرّہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘ (النساء40) ۔ نبی اکرمﷺ حدیث قدسی میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر بھی حرام کیا ہے اور تم پر بھی حرام کیا ہے لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ ‘‘(صحیح مسلم ۔ باب تحریم الظلم) ۔
جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہ بڑے ظالم لوگ ہیں(البقرۃ 229) ۔ جو کوئی اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود سے آگے نکلے گا، اُس نے خود اپنی جان پر ظلم کیا (الطلاق 1)۔ اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کے متعلق اپنا اصول وضابطہ بیان کردیا ہے کہ جب تک بندے سے معاملہ صاف نہیں کیا جائے گا وہ معاف نہیں کرے گا لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ کسی بھی انسان پر کسی بھی حال میں ظلم نہ کرے، بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق دوسروں کی مدد کرے، ظالم کو ظلم کرنے سے حکمت کے ساتھ روکے اور مظلوم کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہو،جیسا کہ حضور کرمﷺ نے ارشاد فرمایا :اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ ! ہم مظلوم کی تو مدد کرسکتے ہیں، لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کس طرح ہوگی؟ حضور کرمﷺ نے فرمایا: ’’(ظالم کی مدد کی صورت یہ ہے کہ) اس کا ہاتھ پکڑ لو(یعنی اسے ظلم کرنے سے روک دو)‘‘(بخاری:باب اعن اخاک ظالماً او مظلوماً) ۔
ظلم کی مختلف اقسام
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’یقین رکھو کہ جو لوگ یتیموں کا مال اُن پر ظلم کرکے کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور انہیں جلدی ہی ایک دہکتی آگ میں داخل ہونا ہوگا۔‘‘ (النساء10)۔
اسی طرح کسی بھی انسان کے مال کو ناجائز طریقہ سے حاصل کرنے کے متعلق قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ کسی کی زمین پر قبضہ کرنا: کسی کمزور یا غریب کو دبا کر اس کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا بھی ظلم اور بہت بڑا گناہ ہے۔ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: « اگر کسی شخص نے ایک بالشت زمین بھی کسی دوسرے کی ظلماً لے لی تو سات زمین کا طوق اس کی گردن میں پہنایا جائے گا (بخاری : باب اثم من ظلم شیئاً من الارض)۔ جس شخص نے ناحق کسی زمین کا تھوڑا سا حصہ بھی لیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا(بخاری : باب اثم من ظلم شیئاً من الارض)۔ غیر مسلم پر ظلم کرنا: مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں سے بھی انسانیت کی بنیاد پر ایک ہی جیسا برتاؤ کیا جائے گا۔ کسی غیر مسلم پر بھی ظلم کرنا حرام ہے۔ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص ذمی (یعنی وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ملک میں رہتاہے) پر ظلم وزیادتی کرے گا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام لے گا یا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی رضا مندی کے لے گا تو اُس ذمی کی جانب سے اُس (ظالم ) شخص کے ساتھ دشمنی( جنگ ) کرنے والا میں (نبی اکرمﷺ) خود ہوں گا۔‘‘ (ابوداؤد : باب فی اہل تعشیر اہل الخدمہ)۔
مزدورکو اجرت نہ دینا : حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: تین طرح کے لوگ ایسے ہیں جن کا قیامت میں مَیں فریق بنوں گا( یعنی میں ان کے مخالف کھڑا ہوں گا): وہ شخص جس نے میرے نام پر وعدہ کیا( حلف اٹھایا ) اور پھر وعدہ خلافی کی( جیسے ہمارے ملک کے حکمران کرتے ہیں )، وہ شخص جس نے کسی آزاد کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی ہو (اور اس طرح اس کی غلامی کا باعث بنا ہو) ، اور وہ شخص جس نے کسی کو مزدوری پر لیا ہو، پھر کام تو اس سے پوری طرح لیا لیکن اس کی مزدوری نہ دی ہو۔‘‘ (بخاری : باب اثم من منع اجر الاجیر) ۔ اسی طرح فرمان رسولﷺ ہے: ’’مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ سوکھنے سے قبل دی جائے۔‘‘ (ابن ماجہ : باب اجر الاجراء)۔ لوگوں کے حق کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا: رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ ‘‘(بخاری ، مسلم) نیز رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے مگر کسی کا قرضہ معاف نہیں کرتا (مسلم)۔
ظلم کرنے کی تمام شکلوں سے بچنا چاہئے کیونکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکاۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیئے جائیںگے ، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ ‘‘(مسلم : باب تحریم الظلم)۔
مظلوم اور ہم کیا کریں؟: مظلوم صبر کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اپنی استطاعت کے مطابق ظالم کو ظلم سے روکے ۔ اگر ہم ظالم کو ظلم کرنے سے روک سکتے ہیں تو ضرور یہ ذمہ داری انجام دینی چاہئے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتے ہیں، پھر جب اچانک اس کو پکڑتے ہیں تو اس کو بالکل نہیں چھوڑتے۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ترجمہ’’ اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ شہروں کو پکڑتے ہیں جبکہ
وہ ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں، یقینا اس کی پکڑ بڑی دردناک ہے(بخاری ومسلم) ۔
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ ٱلْقَوْمِ ٱلظَّٰلِمِينَ
اے ہمارے رب ہمیں ظالموں کے ساتھ نہ ملا
(سورۃ الاعراف،آیت 47)