ہمیں پتہ ہی نہ لگا تیری چاہت کیا ہے۔ کبھی قطری کے قطرے، کبھی کپتان، کبھی کھسرا یہ تماشہ کیا ہے۔
ہماری چاہت کچھ بھی ہو۔ بوٹ اپنی اوقات میں رہے۔ جتنی تنخواہ ہم دیتے ہیں، اس پر گزارہ کرے، بینک لوٹ کر ساہو کار بننے کے سپنے دیکھنا چھوڑ دے۔
ہمیں پتہ ہی نہ لگا تیری چاہت کیا ہے۔ کبھی قطری کے قطرے، کبھی کپتان، کبھی کھسرا یہ تماشہ کیا ہے۔
ہماری چاہت کچھ بھی ہو۔ بوٹ اپنی اوقات میں رہے۔ جتنی تنخواہ ہم دیتے ہیں، اس پر گزارہ کرے، بینک لوٹ کر ساہو کار بننے کے سپنے دیکھنا چھوڑ دے۔
ہماری چاہت کچھ بھی ہو۔ بوٹ اپنی اوقات میں رہے۔ جتنی تنخواہ ہم دیتے ہیں، اس پر گزارہ کرے، بینک لوٹ کر ساہو کار بننے کے سپنے دیکھنا چھوڑ دے۔
بوٹ کی اوقات کا تو پتہ نہیں پر بوٹ اپنا کام نہیں کررہا ہے کیوں کہ بوٹ کا کام ہے ان برساتی کیڑے مکوڑوں کو کچل دینا جو ہر برسات میں نکل آتے ہیں۔ جس کی بہن کو سارا گاؤں بھابھی کہتا ہے وہی اٹھ کر پاکستان کے خلاف بکواس کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ بوٹ کا کام ہے کہ مار مار کر ان کے پچھواڑے سیب سے بھی زیادہ لال کرے بالکل ایسے ہی جیسے 27 فروری کو انڈیا کا کیا تھا۔
پاکستان کے خلاف دشمنی ہمیشہ بوٹ سرکار نے دکھائی۔ بوٹ سرکار نے اپنی صفوں میں میر جعفر اور میر صادق جیسے مار آستین گھسا رکھے ہیں۔ جنہوں نے 1971 میں ہمارا پاکستان دو لخت کیا۔ سیاچن کھویا، کارگل میں اپنی ماں مروائی، اور 70 سالوں کے اندر اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر اس کی بنیادیں ہلا دیں۔
کتنا حسین اتفاق ہے پاک فوج کے خلاف یا تو انڈیا بولتا ہے یا پھر امریکہ اور جب ملک کے اندر آتے ہیں تو ملک کی عوام تو محبت کرتی ہے پر کچھ لوگ جو کبھی نظر نہیں آتے پر اپنی بلوں میں چھپ کر پاک فوج پر زہر کے تیر برساتے ہیں۔ لوگ جتنے بھی بے وقوف ہوں پر انہیں یہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ دوست کا دوست اور دشمن کا دوست بھی دشمن ہوتا ہے۔ جو پاک فوج پر زہر افشانی کرتے ہیں اور انڈیا کی زبان بولتے ہیں۔ پہلے تو وہ واضح کریں کے ان کی ماں نطفے کہاں انجکٹ کرواتی رہی ہے تبھی پتہ لگے گا کو خون سے خون سے اتنی چاہ کیوں ہے اور کیوں لوگ مرے جا رہے ہیں پاک فوج کی برائی کرنے میں۔
ایبٹ آباد میں امریکہ بوٹ والوں کی امی کی شلوار اتار کے لے گیا، سلالہ میں ابوجی کی پتلون اتار کے بھاگ گیا۔ ابھی فروری میں ہندوؤں نے بالاکوٹ میں عزت اتار دی، اور یہ بے غیرت لگے ہیں سیاست دانوں کی گاف میں انگلی کرنے۔
جب فوج یہودیوں کی زبان بولتے ہوئے، اس ملک کے سیاسی نظام کو برباد کرنے کی کوششیں کرتی ہے، سیاست کے اندر اپنی ٹانگ گھسیڑتی ہے، تو ہر محب وطن پاکستانی پر لازم ہے کہ آئین پاکستان سے غداری کرنے والے میر جعفری فوجیوں کو آئینہ دکھائے۔
جس کام کے لیے رکھا ہے، بس وہ کام کرو۔ چوکیدار ہو، چوکیدار رہو۔ جاگیر پر قبضہ کرنے کی کوشش کرو گے تو ایسے ہی عزت افزائی کی جائے گی۔
پیسے لیتے ہو، اور دبا کے لیتے ہو۔ مفت میں فی سبیل اللہ کام نہیں کرتے۔
زبان کی تو چلو خیر ہے بری ہو سکتی ہے پر ذہنی گندگی برداشت سے باہر ہے۔ ابھی ایران پر امریکی دھمکی کے بعد جہاں پوری دنیا منہ میں چوسنی دے کر چپ ہوئی وہی پر یہی بوٹ والے تھے جو بولے۔ جس انڈین کی بہادری کے قصے سنا کر تو ہمیں متاثر کر رہا ہے کم سے کم ان کی احسان فراموشی کی داستان بھی سنا دیتا تو کوئی بات میں توازن قائم ہوتا۔رشیا کی گود سے اترے تو ان کو پہچاننے سے انکار کر دیا جن سے زندگی بھر تیل آدھی قیمت پر خریدتے رہے ان کی شکل سے ہی ناآشنا نظر آتے ہیں۔ پاک فوج پر خد ا کا خاص کرم ہے کہ نامساعد حالات میں بھی اپنی بساط سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی ہے اور یہی تکلیف ہے تمہیں ۔ اور تمہاری تکلیف کی پرواہ کرے گا بھی کون۔ جو انسان چند سکوں کی خاطر اپنا ایمان بیچ رہا ہو وہ چند سکوں کی خاطر اور کیا کیا نہیں بیچے گا۔
جرنیلوں کی گاف میں پیدائشی کیڑا ہے۔ عزت ان کو راس نہیں آتی۔ اپنا کام چھوڑ کر پرائے پھٹے میں ٹانگ اڑانا یہ فرض اولین سمجھتے ہیں۔
اگر اپنی عزت کروانی ہے تو اپنی حدود کے اندر رہو۔
یہ ملک ہم نے امرتسر کے بھڑووں کے لئے نہیں بنایا تھا کہ وہ یہاں پر مغل بادشاہ بن بیٹھیں۔ پاک فوج اس ملک کی فوج ہے ضرورت پڑے گی تو گھر کے اندر آکر بھی حفاظت کرےگی اسی کام کے پیسے لیتے ہیں وہ۔ اور جو اپنا ضمیر ایمان بیچ چکے ہیں ان چیخنے چلانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ تو کتنے بھی چرب زبان کیوں نہ ہو تم کسی بھوکے کو اس بات پر قائل نہیں کر سکتے کہ اسے بھوک نہیں لگی ہے۔
اور یہ کیڑے ناپنے کی خاطر مریم رانی تجھے بھیجتی ہے؟ ایک بات سمجھ لو جو اس ملک کے آگے آئے گا وہ جان سے جائے گا چاہے وہ اس کے اپنے ضمیر فروش شہری ہی کیوں نہ ہوں۔ جیسے باغ کے حسن کی خاطر تراش خراش کی جاتی ہے ویسے اس ملک کو صاف کرنے کے لئے اس ملک کی گندگی کو ٹھکانے لگا دیں گے۔
انڈین کو چھوڑو۔ وہ تو بدنام ہے، کافر ہے۔ تم جو پتہ نہیں کس منہ سے خود کو مسلمان کہتے ہو، کل تک جن کو مجاہدین کہا کرتے تھے، جن کے ذریعے کمیونسٹ سوویت یونین کو شکست دی، امریکہ کی دھمکی اور ڈالر کی چمک سے اپنا ایمان فراموش کر بیٹھے۔ مجاہدین کو دہشت گرد بنا دیا۔ چن چن کر مارا، مروایا، اور بیچ کر ڈالر کمائے۔
پہلے اپنے سیاہ کردار پر تھوڑی شرمندگی کا مظاہرہ کرو، توبہ کرو، پھر زبان کھول کر کوئی لیکچر دو۔ اس کردار پر لیکچر دینا سوٹ نہیں کرتا۔
ہمارے دیے ہوئے پیسوں سے اسلحہ خرید کر ہم ہی کو دھمکیاں دیتا ہے؟ بزدلوں اور بے غیرتوں کی یہی اوقات ہے۔ سویلیئنز کو جان سے مارنے کی دھمکی دیتا ہے اور بارڈر پر ہندو فوجیوں سے اپنی ماں مرواتا ہے۔
ابھی انڈین کی قصیدہ گوئی کر رہے تھے اب ان کو بدنام بول رہے ہو۔ پہلے کسی ایک جگہ پر کھڑے ہو جاؤ ابھی کہہ رہے تھے سیاچن، کارگل، مشرقی پاکستان پھر بالاکوٹ اور ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ سوویت یونین کو شکست دینا بھی ہمارا فخر ہے۔ اور امریکہ کو بھی اس کی چادر میں رہنے پر مجبور کرنا بھی ہماری بہادری اور عزم اور بھارت کو پودی دنیا کی حمایت کے بعد بھی دھول چٹانا بھی ہمارا طرہ امتیاز ۔ جلنے والے کا منہ کل بھی کالا تھا اور آج بھی کالا ہوگا۔
ہماری فوج ہماریے لئے ہے۔ اور ہماری حفاظت اس کا پہلا فرض ہے۔ جو ضمیر فروش اندر بیٹھے ہیں ان کو ناپنا بھی اتنا ضروری ہے جتنا باہر بیٹھے ہوئے دشمن کو۔ مجھے تو گلہ ہے کہ اندر بیٹھے والوں سے آہنی ہاتھ سے نبٹا نہیں جا رہا ہے۔ مریم رانی اور اس کے سوشل میڈیا سیل کو زہر کے پیالے پلا کر اس دنیا سے رخصت کر دینا چاہئے ۔
علامہ اقبال نہ بوٹ پہنتے تھے نہ وردی۔ بلکہ وہ انگریز کے بوٹ چاٹنے والے فوجیوں اور جرنیلوں کو غلام سمجھتے تھے۔
ہماری بدقسمتی کہ انگریز کے بوٹ چاٹ چاٹ کر اور اس کی چڈیاں سونگھ سونگھ کر پلنے والی فوج پاکستان پر قبضہ کرنے کے لیے دن رات پر تولتی رہتی ہے۔
© Copyrights 2008 - 2025 Siasat.pk - All Rights Reserved. Privacy Policy | Disclaimer|