بلوچ طلبا کی بازیابی کیلئے مظاہرے پرسندھ پولیس کا تشدد،سوشل میڈیا برہم

bloch-students-sindh-police-ts.jpg


کراچی پولیس نے سندھ اسمبلی کے باہر لاپتہ افراد کے رہائی کے لیے احتجاج کرنے والے خواتین کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ پولیس نے بلوچ مظاہرین کو سندھ اسمبلی کی طرف جانے سے روکنے کیلئے تشدد کیا اور 28 افراد کو حراست میں لے لیا۔

واضح رہے کہ دودا بلوچ اور غمشاد بلوچ کو لاپتہ ہوئے 8 روز گزر چکے ہیں۔ کراچی پریس کلب کی سامنے احتجاجی دھرنا تیسرے روز احتجاجی مظاہرے میں تبدیل ہوگیا تھا جس میں سینکڑوں کی تعداد میں خواتین اور بچوں نے بھی شرکت کی۔

احتجاجی مظاہرہ لاپتہ طلبا کے لواحقین کی اپیل پر کیا گیا تھا۔ مظاہرے کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ترقی پسند طلبا تنظیموں کی حمایت حاصل تھی۔

مظاہرین نے کراچی پریس کلب سے سندھ اسمبلی تک مارچ کرنے کی کوشش کی تاہم سندھ پولیس نے مظاہرین کو فوارہ چوک کے مقام پر روک دیا، جہاں مظاہرین نے دھرنا دے دیا۔ بالاخر مظاہرین تمام رکاوٹوں کو عبور کر کے سندھ اسمبلی کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ جہاں سندھ حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف سخت نعرے بازی کی گئی۔

صحافی ہارون رشید نے ردعمل دیتے ہوئے کہا "لاپتہ افراد کے حق میں مظاہرہ کرنے والی خواتین سے بہیمانہ سلوک۔ شرمناک' شرمناک۔ قصور وار ہیں تو ان کا قصور بتائیے' ورنہ رہا کیجیے۔ عدالتی اور تفتیشی نظام کو پسماندہ اور پست رکھنا کیوں ضروری ہے۔ اصلاح کا آغاز تو کیجیے' بڑے لاٹ صاحب !"

https://twitter.com/x/status/1536444561769148416
سندھ پولیس نے مظاہرے کو منتشر کرنے کیلئے ان پر تشدد بھی کیا جس پر سوشل میڈیا کا شدید ری ایکشن دیکھنے میں آیا۔ صحر انور نے کہا کہ بلوچستان کی محرومیاں دور ھورھی ھیں۔

https://twitter.com/x/status/1536382113636704259
شبیر بلوچ نے لکھا کہ سندھ پولیس کا بلوچ مظاہرین، بچوں عورتوں سمیت لاپتہ بلوچ طالبعلموں کے ساتھیوں پہ شدید تشدد اور گرفتاریاں کرنے کا غیر قانونی عمل جاری ہے وہ بھی سندھ اسمبلی کے سامنے۔

https://twitter.com/x/status/1536384898155651072
رابعہ نے لکھا کہ نہ صرف لاپتہ افراد کے لواحقین بلکہ اس مظاہرے کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔

https://twitter.com/x/status/1536378253581111298
احتشام افغان نے لکھا کہ سندھ اسمبلی کے باہر پولیس کا لاپتہ افراد کے رہائی کے لیے احتجاج کرنے والے خواتین پر پولیس کی تشدد۔

فواد نے کہا کہ سندھ پولیس مظاہرین کو اسمبلی کی جانب بھی نہیں جانے دے رہی حالانکہ دونوں طلبا کو لاپتہ ہوئے 8 روز گزر گئے ہیں۔

https://twitter.com/x/status/1536341422202564610
سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری نے لکھا کہ سندھ پولیس خواتین کو بےدردی کے ساتھ گھسیٹ رہی ہے۔ شرم کریں

https://twitter.com/x/status/1536378071791861761
معاملے پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی آواز اٹھائی اور پولیس کے اس بربرانہ رویے کی مذمت کی اور دونوں طلبا کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

https://twitter.com/x/status/1536578265938378752
 
Last edited:

thinking

Prime Minister (20k+ posts)
Sindh tu pehlay hi Zardari mafia k qabzay m ha..Neutral k Laat Sahib Choro ko bachanay m lagay howay hain..shame on him..
 

surfer

Chief Minister (5k+ posts)
Didn't Maryum turn up at these protests? She was always turning up at these protests when they were held during last govt?
 

samisam

Chief Minister (5k+ posts)
حسب معمول باجوہ گردی اور اس کے پالتو کتے اور گشتی کے بچے حرام کے نطفے منشیات فروش ماڈل ٹاؤن میں حاملہ عورتوں اور بچوں کے قاتل ُاور پاکستان کے پر امن نہتے شہریوں معصوم عورتوں اور بچوں ُاور ریٹائرڈ فوجی افسروں افواج پاکستان نیوی اور ائیر فورس کے ریٹائرڈ افسروں افواج پاکستان کے حاظر ڈیوٹی اور ریٹائرڈ افسروں کی فیمیلیز عورتوں اور بچوں پر زہریلی گیس کے چالیس ہزار شیل چلا کر پاکستان کی فوج اور ُاور رینجرز کو انکے خلاف ظلم بربر یت اور ریاستی دہشت گردی کرانے اور وار کرائم کرنے والے حرام زادے اور گشتی کے بچے کی حرام زدگی اب سندھ میں اور بلوچی بھائی بہنوں تک پہچ گئی ہے یہ حرام زادہ ہوشیار پوری گشتی کی اولاد منشیات فروش اور قاتل کسی خنزیر کا ناپاک نطفہ اب بلوچی بچوں پر لڑکوں لڑکیوں عورتوں ُاور بچوں پر سندھ پولیس کی ریاستی دہشت گردی کے ساتھ پھر سے حملہ آور ہوا ہے باجوے پاکستان کو تباہ کرنے کے کونسے مشن پر ہے کہ جع اس نے اس گشتی کے بچے منشیات فروش دہشت گرد اور ماڈل ٹاؤن کے قاتل اور عورتوں بچوں بچیوں پر وار کرائم کرنے والے کالے کنجر گشتی کی اولاد رانے کنجر کو اب سندھ میں بلوچی بہین بھائیوں پر ریاستی دہشت گردی کے لئے اوپن ہینڈ دے دیا ہے