بلال' احد' ظالم' مظلوم

Username

Senator (1k+ posts)
اپنے مرضی کے جملے لکھنے کی بجائے جو پوچھا ہے اس کے ثبوت دو. جو حوالہ دیا ہے اس سے ثابت نہیں ہوتا ہے کسی کی خبر تھی کے قیدی بنایا گیا ہے

امیہ کو قیدی ہی بنا تھا تو امیہ مکہ ہی میں رہتا. اسے یہ بھی خیال نہیں آیا کے جنگ سے پہلے ہی قیدی بن کر اپنے قبیلے والوں کو کیا منہ دیکھائے گا. قیدی بنا تھا تو خود کو نبی
pbuh کے حوالے کرتا

Your question is your answer

If Bilal were fair and unbiaeed, he's let Abdul Rehman Bin Auf take Ummaya to Prophet SAW. He dint let it happen. He was too mad at Ummaya for something which happened years ago. He got overwhelmed by personal vendetta. He shouldn't have killed Ummaya. Should've hand it over to Prophet SAW and treated accordingly.

Khabar kaisay hoti? He killed him instantly. But he was thoroughly told by Abdul Rehman that Ummaya was a captive and shouldn't be killed.

Kia Bilal NE muhlat di kisi tarha ki
 
Last edited:

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
Your question is your answer

If Bilal were fair and unbiaeed, he's let Abdul Rehman Bin Auf take Ummaya to Prophet SAW. He dint let it happen. He was too mad at Ummaya for something which happened years ago. He got overwhelmed by personal vendetta. He shouldn't have killed Ummaya. Should've hand it over to Prophet SAW and treated accordingly.

Khabar kaisay hoti? He killed him instantly. But he was thoroughly told by Abdul Rehman that Ummaya was a captive and shouldn't be killed.

Kia Bilal NE muhlat di kisi tarha ki
امیہ کو آنا ہی نہیں چاہے تھا. آیا تو رسول کے پاس آتا. اس نے اپنی طرف سے چالاکی کی اپنے قبیلے سے غداری اور مسلمانوں سے بچنے کی تدبیر لیکن بچ نہیں سکا

جناب آپ پچھلے کمنٹس میں فرما چکے ہیں
There's many other incidents too where Prophet SAW kept quiet on innocent killings. For example killing of Amr Bin Hadrami who was killed by Abdullah Bin Jahsh in the sacred month of Rajab and without aggression. He was also forgiven by Prophet SAW. There's other examples too when Prophet SAW kept silent. I can quote em as needed.
پھر کس بات کی امید رکھتے ہو
 

Username

Senator (1k+ posts)
امیہ کو آنا ہی نہیں چاہے تھا. آیا تو رسول کے پاس آتا. اس نے اپنی طرف سے چالاکی کی اپنے قبیلے سے غداری اور مسلمانوں سے بچنے کی تدبیر لیکن بچ نہیں سکا

جناب آپ پچھلے کمنٹس میں فرما چکے ہیں
There's many other incidents too where Prophet SAW kept quiet on innocent killings. For example killing of Amr Bin Hadrami who was killed by Abdullah Bin Jahsh in the sacred month of Rajab and without aggression. He was also forgiven by Prophet SAW. There's other examples too when Prophet SAW kept silent. I can quote em as needed.
پھر کس بات کی امید رکھتے ہو

Yeah

There's no hope ; )

I was merely stating the brutal side of Bilal who's considered very Mazloom and God-fearing.
Stories of torture aimed at collecting sympathies, never reveal this side of him!
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
اگر تھریڈ اسٹارٹر کا ارادہ اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کا ہے تو وہ غلط فورم پر ہے۔ اہل تشیع کے فورم پر ایسی چیزوں کی گنجائش ہے۔ یہاں کسی کا ایمان خریدنا مشکل ہوگا۔
 

dilavar

Chief Minister (5k+ posts)
Yeah

There's no hope ; )

I was merely stating the brutal side of Bilal who's considered very Mazloom and God-fearing.
Stories of torture aimed at collecting sympathies, never reveal this side of him!

Thanks dear. Ok so Bilal was a brutal person and the Prophet saw did not punish him for killing an innocent person. Why did The Prophet (PBUH) keep quiet? Can you elaborate on that ?
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
Yeah

There's no hope ; )

I was merely stating the brutal side of Bilal who's considered very Mazloom and God-fearing.
Stories of torture aimed at collecting sympathies, never reveal this side of him!

پروپگنڈا مائنڈ سیٹ کا یہی مسئلہ ہے. ایک بات خود کرتے ہیں پھر اس کچھ دیر میں اس کی نفی بھی کر دتیے ہیں لیکن مانتے نہیں

If Bilal were fair and unbiaeed, he's let Abdul Rehman Bin Auf take Ummaya to Prophet SAW. He dint let it happen. He was too mad at Ummaya for something which happened years ago. He got overwhelmed by personal vendetta. He shouldn't have killed Ummaya. Should've hand it over to Prophet SAW and treated accordingly.

Khabar kaisay hoti? He killed him instantly. But he was thoroughly told by Abdul Rehman that Ummaya was a captive and shouldn't be killed.

Kia Bilal NE muhlat di kisi tarha ki

ایک طرف کہتے ہو کوئی امید نہیں دوسری طرف مہلت دھائی بھی. پہلے اچھی طرح سوچ لو کہانی کیا بنانی نے کس کے خلاف. تاکے یکسوئی ہے ایک محاذ بنا سکو. اندھیرے میں تیر چلانے کی شرمندگی سے بچ جاؤ گے
 

Username

Senator (1k+ posts)
پروپگنڈا مائنڈ سیٹ کا یہی مسئلہ ہے. ایک بات خود کرتے ہیں پھر اس کچھ دیر میں اس کی نفی بھی کر دتیے ہیں لیکن مانتے نہیں

If Bilal were fair and unbiaeed, he's let Abdul Rehman Bin Auf take Ummaya to Prophet SAW. He dint let it happen. He was too mad at Ummaya for something which happened years ago. He got overwhelmed by personal vendetta. He shouldn't have killed Ummaya. Should've hand it over to Prophet SAW and treated accordingly.

Khabar kaisay hoti? He killed him instantly. But he was thoroughly told by Abdul Rehman that Ummaya was a captive and shouldn't be killed.

Kia Bilal NE muhlat di kisi tarha ki

ایک طرف کہتے ہو کوئی امید نہیں دوسری طرف مہلت دھائی بھی. پہلے اچھی طرح سوچ لو کہانی کیا بنانی نے کس کے خلاف. تاکے یکسوئی ہے ایک محاذ بنا سکو. اندھیرے میں تیر چلانے کی شرمندگی سے بچ جاؤ گے

امید نہیں تھی کا مطلب تھا کہ امیہ کو کہیں سے بھی انصاف ملنے کی امید نہیں تھی


آپ کچھ عقل بھی استمعال کیا کریں- یقین دلاتا ہوں کم نہیں ہو گی
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
امید نہیں تھی کا مطلب تھا کہ امیہ کو کہیں سے بھی انصاف ملنے کی امید نہیں تھی

آپ کچھ عقل بھی استمعال کیا کریں- یقین دلاتا ہوں کم نہیں ہو گی
نہیں نہیں کہانی کے مطابق حضرت عبدالرحمن ابن عوف نے حتی الامکان کوشش کی لگتا ہے کہانی نویس کہانی لکھتے لکھتے ساری عقل استعمال کر بیٹھا اور اپنی ہی کہانی بھول گیا
 

Username

Senator (1k+ posts)
Re: حضرت بلال بن رباحؓ

حضرت بلال بن رباحؓ

عظیم احمد


شدید گرمیوں کے دن تھے۔ سورج کی تپش ریت کو انگاروں کی طرح دہکا رہی تھی۔ پیاس کے مارے حلق سوکھ کر کانٹا ہو رہے تھے۔ پرندے بھی اپنے اپنے گھونسلوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ گرمی کا ایک لمحہ بھی برداشت سے باہر تھا۔ ایسے میں امیہ بن خلف اپنے حبشی غلام بلال بن رباحؓ کے گلے میں رسی ڈالے انہیں گھسیٹتا ہوا لایا اور صحرا کی گرم اور تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیا۔


شدید گرمیوں کے دن تھے۔ سورج کی تپش ریت کو انگاروں کی طرح دہکا رہی تھی۔ پیاس کے مارے حلق سوکھ کر کانٹا ہو رہے تھے۔ پرندے بھی اپنے اپنے گھونسلوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ گرمی کا ایک لمحہ بھی برداشت سے باہر تھا۔ ایسے میں امیہ بن خلف اپنے حبشی غلام بلال بن رباحؓ کے گلے میں رسی ڈالے انہیں گھسیٹتا ہوا لایا اور صحرا کی گرم اور تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیا۔ بلال بن رباحؓ نے محمد ﷺ کا دین اختیار کر لیا تھا۔ وہ ایک اللہ پر ایمان لے آیا تھا اور محمدﷺ کے ساتھیوں میں شریک ہو گیا تھا۔ اب وہ بتوں کی عبادت سے متنفر تھا۔ بتوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ یہ بے معنی پتھر کے بت جنہیں لوگ خدا کہتے تھے۔ بلال بن رباحؓ نے انہیں خدا تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ خبر امیہ بن خلف پر بجلی بن کر گری۔ وہ تو بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ کو تمام غلاموں سے زیادہ چاہتا تھا۔ وہ تو آپ پر بڑا اعتماد رکھتا تھا۔ اس نے تو بت خانے کا انچارج بھی آپ کو مقرر کیا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی دل کو ایمان کی روشنی سے منور کر دیتا ہے تو ظلمت خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔

حضرت بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ کو جسے لوگ اسلام سے پہلے بلال بن رباحؓ کے نام سے جانتے تھے، اسلام لانے کے بعد وہ سیدنا بلال حبشیؓ کے لقب سے پکارے جانے لگے۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں دولت ایمان سے سرفراز فرمایا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ صنم کدے میں بھی اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ دوسرے لوگ بتوں کو اور سیدنا بلال حبشیؓ اس وحدہٗ لاشریک کو سجدہ کرتے۔ جب امیہ بن خلف کو اس کی اطلاع ملی تو اس نے سیدنا بلالؓ کو اس عہدے سے معزول کر دیا۔ وہ تو پہلے ہی اسلام کا سخت دشمن تھا اس کے دل پر کفر کا قفل لگ چکا تھا۔ وہ یہ کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ اس اپنا غلام اس مذہب کا پیروکار ہو جائے جسے وہ سخت ناپسند کرتا ہے۔ اب امیہ بن خلف نے انہیں سزا دینے کا انوکھا طریقہ ایجاد کیا۔ وہ سیدنا بلالؓ کو شدید ترین گرمی میں دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیتا۔ جب اس سے بھی اس لعین کے سینے کی آگ ٹھنڈی نہ ہوتی، تو وہ اپنے انتقام کو کندن بنانے کے لیے سیدنا بلالؓ کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتا۔ نیچے گرم تپتی ہوئی ریت جسم جھلسا دیتی اور سینے پر بھاری پتھر جاں کی اذیت میں مزید اضافہ کر دیتا۔ سورج کی تپش رہی سہی کسر کو پورا کر دیتی۔

امیہ بن خلف نے اپنی طرف سے ہر کوشش کر ڈالی، مگر وہ سیدنا بلالؓ کے دل سے ایمان کی روشنی کم نہ کر سکا۔ وہ لعین آپ کو ہر روز نئی نئی اذیتیں دیتا اور کہتا :اگر میری بات نہیں مانو گے تو اسی طرح گھٹ گھٹ کر مر جاؤ گے اگر زندگی عزیز ہے تو اسلام سے کنارہ کشی اختیار کر لو، واپس اپنے باپ دادا کے دین پر آ جاؤ۔ مگر سیدنا بلالؓ کی زبان پر تو صرف یہی لفظ جاری تھا: احد، احد، احد۔ معبود ایک ہی ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ امیہ بن خلف کے حکم سے رات کے وقت سیدنا بلالؓ کو زنجیروں سے باندھ کر کوڑے مارے جاتے اور پھر اگلے دن ان زخموں کو گرم زمین پر ڈال کر اور زیادہ زخمی کیا جاتا۔ شیطان پوری طرح اس لعین امیہ بن خلف کا ساتھ دے رہا تھا۔ امیہ بن خلف کے حکم سے ہر روز تکلیفوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جاتا، تاکہ سیدنا بلالؓ ان تکلیفوں سے گھبرا کر اسلام سے پھر جائیں یا پھر تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دیں۔ عذاب دینے والے اکتا جاتے، ظلم کرتے کرتے وہ تھک جاتے، ان کے حوصلے کمزور پڑ جاتے مگر سیدنا بلالؓ کی استقامت میں کوئی فرق نہ آتا بلکہ ہر تکلیف پر آپؓ کا حوصلہ بڑھ جاتا۔ کبھی ابوجہل آپؓ کو عذاب دینے میں پیش پیش ہوتا اور کبھی امیہ بن خلف کا نمبر آ جاتا

اور کبھی کسی اور شخص کی باری آ جاتی اور ہر شخص اسی کوشش میں رہتا کہ وہ انہیں ایذائیں دینے میں اپنا پورا زور صرف کر دے۔ تذکرہ ملتا ہے کہ حضرت بلال بن رباحؓ اسلام آنے کی خبر سنتے ہی دامن اسلام کی آغوش میں آ گئے اور اس لعین امیہ بن خلف نے اپنے غلاموں کو حکم دیا : دن چڑھے بلال کے بدن پر ببول کے کانٹے چبھو دیا کرو اور جب سورج اپنے پورے شباب پر ہو تو انہیں گرم زمین پر لٹا کر سر سے پاؤں تک پورے جسم پر گرم پتھر رکھ دیا کرو تاکہ وہ ہل نہ سکیں اور ان کے گرد آگ لگا دیا کرو۔ کہا جاتا ہے کہ آفتاب نصف النہار پر پہنچ جاتا اور گرمی اپنے عروج پر ہوتی اور زمین تنور کی طرح دہک رہی ہوتی تو بلال بن رباحؓ کو مکہ کی پتھریلی زمین کے کھلے میدان میں لے جایا جاتا تھا اور انہیں برہنہ کر کے اس چلچلاتی دھوپ میں ہاتھ پاؤں باندھ کر گرم ریت پر لٹا دیا جاتا، اور وہ ریت اور پتھر جن پر گوشت بھن کر کباب ہو جائے ایسے وقت وہ لعین آپ کے سینے پر پتھر اور گرم ریت ڈالتے تاکہ آپ ان تکالیف سے گھبرا کر محمد ﷺ کے دین کو چھوڑ دیں۔ سختیاں جس قدر شدت اختیار کرتی جاتیں آپ پر مستی عشق اور زیادہ غالب آ جاتی۔ بعض اوقات امیہ بن خلف کا رویہ اور زیادہ سخت ہو جاتا۔

وہ آپ کو مکہ کے لڑکوں کے حوالے کر دیتا جو آپ کو مکہ کے گلی کوچوں میں گھسیٹتے پھرتے دیتے اور سیدنا بلال بن رباحؓ کی زبان پر ایک ہی صدا رہتی: اللہ ایک ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں ایمان لایا اس خدا پر جو زمین وآسمان کا خالق ہے نہ صرف دن کو بلکہ جب شام ہوتی تو آپ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اندھیرے میں رکھا جاتا اور امیہ بن خلف اپنے غلاموں کو حکم دیتا: اسے باری باری کوڑے مارو یہاں تک کہ وہ اپنی ضد چھوڑ دے یا پھر اس کی روح اس کے جسم کا ساتھ چھوڑ جائے اگر یہ اپنی بات پر قائم رہے تو صبح تک اسے کوڑے مارے جائیں۔ دن گزرتے چلے گئے۔ ہر روز حضرت بلال بن رباحؓ پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے۔ ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ مشکل گزرتا مگر آپ کے پائے استقلال میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی۔ آپ کی زبان پر صرف ایک ہی ورد جاری رہتا: اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں : میں ایک دن حضرت بلالؓ کے پاس سے گزرا تو وہ ازلی بدبخت امیہ بن خلف آپ کو ایذائیں دے رہا تھا اور کہتا جا تا تھا :بتوں پر ایمان لے آؤ ورنہ تمہیں جان سے ہارنا پڑے گا۔ آپ جواب دیتے:میں بتوںسے بیزار ہوں۔ یہ سن کر امیہ بن خلف لعین کا غصہ اور تیز ہو جاتا پھر میں نے دیکھا کہ وہ آپ کے سینے پر چڑھ گیا اور دو زانو بیٹھ کر آپ کا گلا گھونٹنے لگا یہاں تک کہ آپ کی سانس بند ہو گئی اور بے حس و حرکت پڑے محسوس ہونے لگے۔ میں سمجھا کہ آپ فوت ہو گئے۔

میں جس کام کے لیے جا رہا تھا، اسے پورا کر کے واپس لوٹا تو ابھی تک آپ بے ہوش پڑے ہوئے تھے۔ میرے آتے وقت آپ اچانک ہوش میں آئے تو اس لعین نے پھر پوچھا: اے بلال بتوں پر ایمان لاؤ گے یا نہیں؟ حضرت بلالؓ نے آسمان کی طرف منہ کر کے کچھ کہا لیکن میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ اس لیے کہ کمزوری اور نقاہت کی وجہ سے آپ کی آواز نہ ہونے کے برابر تھی۔ حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں : میں نے اس شخص سے سنا جس نے حضرت بلالؓ سے سنا تھا۔ حضرت بلالؓ نے بتایا : اس امیہ نے ایک روز مجھے موسم گرما میں باندھ کر تمام رات اسی حالت میں رہنے دیا۔ پھر دوپہر کے وقت برہنہ کر کے دھوپ میں سنگریزوں پر ڈال دیا اور گرم پتھر لا کر میرے سینے پر رکھ دیئے جس سے میں بے ہو ش ہو گیا معلوم نہیں کس شخص نے وہ پتھر میرے سینے سے اتارے جب ہوش میں آیا تو شام ہو چکی تھی۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور کہا : وہ مصیبت میں کیسی نعمت ہے۔ بعض روایات میں آیا ہے۔ وہ لعین لوہے کی سلاخیں گرم کر کے آپ کی زبان پر رکھ دیتا اور کہتا : اب تو محمد ﷺ کا نام لینا چھوڑ دے۔ لیکن حضرت بلال بن رباحؓ اور زیادہ محمد ﷺ، محمد ﷺ کہتے یہاں تک کہ بے ہوش ہو جاتے۔ حضرت بلال بن رباحؓ کا بیان ہے: ایک روز اس خبیث نے مجھ پر ظلم ڈھایا کہ اونٹ کے بالوں کی ایک پچاس گز لمبی رسی میری گردن میں ڈال کر مکہ کے لڑکوں کو پکڑا دی وہ مجھے اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کھینچتے یہاں تک کہ میری گردن زخمی ہو گئی۔

اس کے بعد مجھے خدا تعالیٰ نے اس سے نجات دی۔ ورقہ بن نوفل کا ایک روز گزر ہوا۔ حضرت بلال بن رباح حبشیؓ پر ظلم و تشدد جاری تھا اور ان کی حالت دیکھ کروہ تھر ا اٹھے۔ کچھ دیر کھڑے ہو کر ان کی احد احد کی پکار سنی اور کہنے لگے:بخدا اے بلال ! احد احد کے سوا کچھ نہیں۔ روایت ہے کہ ابوجہل لعین نے حضرت بلالؓ کو دیکھ کر کہا: تم بھی وہی کہتے ہو جو محمد ﷺ کہتے ہیں۔ پھر انہیں پکڑ کر منہ کے بل گرا کر دھوپ میں لٹا دیا اور ان کے سینے کے اوپر چکی کا پاٹ رکھ دیا اور وہ احد احد پکارتے رہے۔ ایک دن وہاں سے حضرت ابوبکرؓ کا گزر ہوا تو امیہ بن خلف کے گھر سے آہ و زاری کی آوازیں آ رہی تھیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ حضرت بلال حبشیؓ کے ساتھ ظلم وستم ہو رہا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے امیہ بن خلف کو ملامت کی: تیرا اس کام سے کیا سنورتا ہے؟ تو بلالؓ کو اذیت نہ دے۔ امیہ بن خلف نے کہا :میں نے اسے دام دے کر خریدا ہے۔ تیرا دل چاہتا ہے تو اسے خرید لے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاں ایک رومی غلام فسطاط تھا جو حضرت ابوبکرؓ کی دعوتِ اسلامی قبول نہیں کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا:وہی غلام اور ساتھ چالیس اوقیہ چاندی لے کر بلالؓ میرے حوالے کر دو۔

امیہ بن خلف نے منظور کر لیاسودا طے پا جانے کے بعد امیہ بن خلف ہنسنے لگا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سبب پوچھا تو امیہ بن خلف نے کہا :تم اتنے زمانہ شناس انسان ہو اور کامیاب تاجر ہو مگر آج تم نے گھاٹے کا سودا کر لیا۔ مجھے بے حد قیمتی غلام اور ساتھ چالیس اوقیہ چاندی دے کر ایک بیکار غلام خرید لیا۔ ایسے غلام کو جسے میں ایک درہم کے عوض فروخت کرنے پر تیار تھا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا:بخدا آج تو مجھ سے بلالؓ کے عوض میں یمن کی بادشاہت بھی مانگتا تو وہ بھی تجھے دینے کو تیار تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت بلالؓ کے گرد و غبار کو اپنی چادر سے صاف کیا اور امیہ بن خلف کے سامنے انہیں نیا لباس پہنایا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں لائے اور عرض کیا:یا رسول اللہﷺ میں نے اسے آزاد کیا لیکن شرط یہ ہے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں زندگی بسر کریں۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا :میں حضورﷺ سے جدائی نہیں چاہتا، آپ یہ شرط چاہے رکھیں یا نہ رکھیں۔ حضرت بلالؓ کی استقامت و استقلال کو ان کا یہ صلہ ملا کہ رسول اللہ ﷺ کے مؤذن بنے اور سفر و حضر میں ہمیشہ اذان کی خدمت ان کے سپرد ہوئی۔ مولانا روم فرماتے ہیں: امیہ بن خلف نے حضرت بلالؓ کو سستے داموں خریدا۔ وہ آپ سے دن بھر کام لیا کرتا تھا۔ ایک دن حضرت بلالؓ نے سرکار ﷺ کی زیارت کی تو ان ہی کے ہو کر رہ گئے۔ جسم کافر کا غلام کا تھا لیکن روح زلف مصطفیٰﷺ کی اسیر تھی۔ وہ تمام دن اپنے مالک کا کام کرتے رہتے لیکن دل یاد مصطفی ﷺ کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ دست بکار دل بہ یار۔ ایک دن جوش محبت میں حضرت بلالؓ احد احد اور محمدﷺ، محمدﷺ کے نعرے لگانے لگے۔

امیہ نے سنا تو مارنے لگا۔ تو محمد ﷺ کو کیوں پکار رہا ہے ؟ اے میرے غلام کیا تو میرے دین کا منکر ہے؟ مالک سخت دھوپ میں آپ کو کانٹوں کے ساتھ مارنے لگا لیکن حضرت بلالؓ بڑے افتخار کے ساتھ احد احد پکار نے لگے۔ اس دوران حضرت ابوبکرؓ بھی تشریف لائے۔ آپ بلالؓ کا حال دیکھ کر سخت مضطرب ہوئے۔ دوسرے دن پھر آپ نے یہی منظر دیکھا تو آپ نے حضرت بلالؓ کو علیحدگی میں مشورہ دیا کہ تمہارا مالک کافر ہے۔ اس کے سامنے محمد عربی ﷺ کا نام مبارک نہ لیا کرو۔ اپنے محبوب کو دل ہی دل میں یاد کر لیا کرو۔ حضرت بلالؓ نے جواب دیا:نہیں صدیق ! یہ میرے بس کا روگ نہیں، رہی بات امیہ کے ظلم وستم کی اس کی مجھے قطعاً پرواہ نہیں وہ مجھے شہید بھی کر ڈالے تو میرے بدن کا ہر مو یار کا نام پکارے گا۔ حضرت بلالؓ کے والد کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔آپ کی کنیت ابو عبداللہ یا ابو حازن تھی۔ آپ سراۃ میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کے اسلامی بھائی کا نام خالد اور بہن کا نام عفراء تھا۔ آپ حبشی النسل تھے۔ حضرت بلالؓ خالص حبشی تو نہ تھے بلکہ ان کی والدہ حبشی تھی لیکن ان کے والد عرب کی سر زمین ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا رنگ کالا تھا، جسم دبلا پتلا اور لمبا، سینہ آگے کو ابھرا ہوا تھا۔ سر پر گھنے بال تھے، رخساروں پر گوشت بہت کم تھا۔ ان اوصاف سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ خالص حبشی نہ تھے۔ بعض تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ ان کے ایک بھائی بھی تھے جن کا نام خالد اور کنیت ابو رویحہ تھی لیکن وہ ان کے حقیقی بھائی نہ تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے جب مسلمانوں میں بھائی چارہ قائم کیا تو خالد ان کے بھائی بنے تھے۔ حضرت بلالؓ کی پرورش مکہ میں قریش کے مشہور قبیلے بنو جمح میں ہوئی اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تینوں موذن حضرت بلالؓ، حضرت مخدورہؓ اور عمرو بن کلثومؓ نے مکہ کے اسی قبیلے میں پرورش پائی۔

زمانہ جاہلیت میں اس قبیلے کے لوگ تیروں کے ذریعے فال نکالا کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس قبیلے میں پرورش پانے کی وجہ سے حضرت بلالؓ کو اس قبیلے کی رسموں سے سخت نفرت ہو گئی تھی، اور رات دن دیکھتے رہتے تھے کہ ان کے قبیلے کے لوگ مکار تھے، دھوکہ باز تھے، رحمدلی ان سے کوسوں دور تھی۔ یہی نفرت ان کے اسلام لانے کا سبب بنی۔ خانہ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا صرف ایک اللہ واحدہ لاشریک کی عبادت کے لیے لیکن پھر انسانی ذہنوں میں کچھ ایسا خلفشار پیدا ہوا کہ یہ عظیم عبادت گاہ لکڑی اور پتھروں سے بنائے ہوئے بتوں کا گودام بن کر رہ گئی۔ ان بتوں کو عرب اپنے خداؤں کا درجہ دیتے تھے لیکن پہلے تو اس قادر مطلق کا تصور گم ہوا۔ پھر اس کی جگہ بتوں نے لے لی، اور پھر ایک نہیں سینکڑوں خداؤں کا تصور ابھرا اور پھر وحدانیت الٰہی کی یہ قدیم علامت تین سو ساٹھ بتوں کا مسکن بن گئی۔ وہ خدا جو فروخت کیے جاتے تھے۔ خریدے جاتے تھے اور ان خداؤں کی خرید و فروخت پر منافع کمایا جاتا تھا۔ ہر خدا مختلف کام کے لیے مخصوص تھا۔ کوئی دن کا خدا تھا، کوئی رات کا، کوئی معذوروں کا خدا تھا، کوئی صحت مندوں کا۔ خوش نصیبی کے خدا الگ تھے۔ سفر کے الگ اور کچھ دنیوی منفعت کے لیے۔ ابدی بہبود اور اخروی بہتری کا کوئی عنصر ان کی عبادت میں شامل نہ تھا۔

خانہ کعبہ میں آنے جانے والے قافلوں کے پاس صرف نفع کمانے کا تصور تھا جو بازاروں اور منڈیوں میں نظر آتا ہے۔ ہر سال ایک خاص مہینے میں عرب کے قبائل میلوں کی مسافت طے کر کے اپنے اپنے خداؤں کے حضور حاضری کے لیے آتے تھے۔ ایک میلہ سا لگ جاتا تھا۔ شام کے تاجر، یمن کے سمندری تجارت کرنے والے تاجر، فارس کے تاجر اور دور دراز مقامات سے آئے ہوئے غلاموں کی خرید و فروخت کرنے والے تاجر سب ہی یہاں جمع ہوتے تھے۔ اس میلے میں سونا، چاندی، کپڑے اور خوشبویات بھی فروخت ہوتی تھیں، غلام اور خدا بھی۔ موسم گرما کی ایک صبح تھی۔ امیہ بن خلف حسب معمول اپنے تاجر ساتھیوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے گھر سے نکلا۔ تاجروں کی یہ محفل خانہ کعبہ کے سائے میں لگتی تھی۔ تاجروں کے ساتھ ان کے غلام بھی ہوتے تھے جو کچھ فاصلے پر بیٹھے اپنے اپنے آقاؤں کے اشاروں کے منتظر رہتے تھے۔ ان غلاموں میں امیہ بن خلف کے غلام بلالؓ بھی تھے۔ تمام تاجر خانہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ان تاجروں کے غلام بھی سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ابو جہل کی آواز نے غلاموں کو چونکا دیا۔ ابوجہل کا غلام ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا مگر ابو جہل تو کچھ اور ہی کہہ رہا تھا۔ اسے دیکھو وہ کہتا ہے وہ خدا سے باتیں کرتا ہے۔ ابو جہل کا فقرہ قہقہوں میں ڈوب گیا۔ محمد بن عبداللہﷺ نے خاموشی اختیار رکھی۔ پیغمبر صاحب ! آپ ﷺ ہمیں پانی پر چل کر کیوں نہیں دکھاتے؟ اس بار امیہ بن خلف کی آواز ابھری۔ محمد بن عبداللہﷺ ہمیشہ کی طرح تنہا پہاڑوں کی سمت جا رہے تھے جہاں لوگ کہتے تھے کہ ایک فرشتے نے ان سے بات کی تھی۔

وہ ابوجہل کے طنز سے بے نیاز کعبہ کے گرد چلتے چلتے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ ادھر تاجروں کی محفل میں ہر چہرے پر ہنسی تھی۔ ہر شخص اس مذاق میں شریک تھا۔ صرف ابوسفیان تھا جس کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہ تھی۔ اچانک وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ محفل میں سنجیدگی لوٹ آئی وہ کہنے لگا : ایک خدا کو ماننے والا خدا کا منکر ہے۔ ہمیشہ کی طرح ابوسفیان نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا کیونکہ کفار کو سب سے زیادہ تکلیف اسی بات کی تھی کہ محمد بن عبداللہ ﷺ ایک خدا کی عبادت کی دعوت دیتا ہے۔ کفار نے اپنی ضعیف الاعتقادی میں موقع محل کے لحاظ سے کئی خدا بنا رکھے تھے۔ وحدہٗ لاشریک کا تصور ان کے دائرہ فکر سے باہر تھا۔ ابوسفیان فکرمند تھا:اگر ہم نے اس فتنے کو ختم نہ کیا تو خدا ہم سے ناراض ہو جائیں گے اور اپنی رحمتیں کسی اور شہر پر نچھاور کرنے لگیں گے۔ ابوجہل جو اب تک خاموش تھا۔ یکایک بول اٹھا:ابو لہب! تم اس کے چچا ہو۔ یہ تم قریبی رشتے داروں کی ذمے داری ہے کہ اسے سمجھاؤ اور اسے راہ راست پر لاؤ۔ ابولہب گھبرا گیا۔ اس نے اب تک دانستہ طور پر خود کو اس ساری گفتگو سے الگ رکھا تھا۔ وہ اس میں شریک نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اب ابو جہل نے خواہ مخواہ اسے گھسیٹ لیا تھا۔ راہ راست پر لاؤں اس کو ؟ محمد ﷺ کو وہ کوئی بچہ ہے ؟ چالیس سال کا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ سراسر بدنامی کا باعث ہے۔

میرے لیے، اپنے خاندان کے لیے، اپنے نسب عالی کے لیے۔ کل اس نے ایک غلام کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا ہے۔ جو کوئی اس سے کچھ مانگتا ہے اٹھا کر اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ جہاں بھر کے چور اچکوں اور مقروضوں کو کھلاتا ہے۔ جب دیکھو اس کے دروازے پر دس بارہ جمع رہتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ہو جو اس کے گھر سے کوئی بھیڑ بکری یا کچھ اور لے کر نہ جائے، ہم کیا کرسکتے ؟ گھبراہٹ میں ابولہب نے ابوسفیان کا بازو تھام لیا۔ ابوسفیان ! تم ہی بتاؤ ایک جوان شخص مضبوط و توانا، خوبصورت، سر کا ایک بال سفید نہیں، ایک رئیس عورت کا خاوند، خود عالی نسب، وہ مکہ میں جو چاہے کر سکتا ہے مگر کرتا کیا ہے۔ اپنے گھر کا آرام دہ بستر چھوڑ کر پہاڑوں کے غاروں میں بیٹھا سردی سے ٹھٹھرتا رہتا ہے۔ محض اس وہم پر کہ ایک فرشتہ اس سے باتیں کرتا ہے۔ یہ فرشتہ اس کی جان کا روگ بن گیا ہے۔ ابولہب تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ اس کے دوست بھی کچھ پریشان، کچھ شرمندہ لگ رہے تھے۔ ابولہب بیٹھا بیٹھا پھر کہنے لگا:ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا۔ سب اس کے دوست تھے۔ اس کی عزت کرتے تھے۔ اس وقت کسی کو اس پر ہنسنے کی جرأت نہ تھی۔ وہ تمہارے درمیان فیصلے کراتا تھا۔ تمہارے قرضے چکاتا تھا۔ وہ تمہاری امانت کا محافظ تھا۔ لوگ اسے صادق اور امین کہتے ہیں۔ لوگ اس کے پاس جاتے تھے اور اسے عادل و منصف سمجھ کر اپنے معاملات میں رہنمائی حاصل کرتے تھے۔

صرف ایک سال پہلے۔ پھر ابو لہب نے پکار کر کہا:مجھے یہ فکر نہیں ہے کہ وہ ہمارے خداؤں کے بارے میں کیا الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ ہمارے خدا اس سے خود ہی نمٹ لیں گے لیکن وہ انسانوں کو جو سبق پڑھا رہا ہے وہ بے حد خطرناک ہے مگر اس کا جلد فیصلہ ہو جائے گا۔سب سے پہلے ہم ان غلاموں اور لا وارثوں سے نمٹیں گے جو اس کے گرد جمع رہتے ہیں۔ حضرت بلال بن رباحؓ یہ سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ ان بتوں سے تو پہلے ہی متنفر تھے۔ اب جو انہوں نے نئے دین کے متعلق سنا تو ان کے دل و دماغ میں کشمکش جاری ہو گئی۔ ایک دن حضرت بلالؓ غلاموں کے مخصوص انداز میں دیوار سے ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ اتنے میں کچھ لوگ حضرت عمار بن یاسرؓ کو لے کر آئے اور انہیں دھکا دے کر زمین پر گرا دیا۔ حضرت بلالؓ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ بتاؤ محمد ﷺ تمہیں کیا سکھاتا ہے؟ ابوسفیان نے تیز لہجے میں پوچھا۔ حضرت عمار بن یاسرؓنے فرمایا:وہ سکھاتے ہیں کہ اللہ کی نظر میں سب انسان برابر ہیں، بالکل ایسے جیسے کنگھے کے دندانے۔ حضرت بلالؓ یہ سن کر سر تا پاؤں لرز گئے اور ان کے جسم میں ایک سرد لہر دو ڑ گئی مگر امیہ بن خلف کا چہرہ تپ کر سرخ ہو گیا تھا۔ ایک بار پھر حضرت عمارؓ کی آواز ابھری : محمد ﷺ ہمیں سکھاتے ہیں کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔

ابوسفیان کو دوسرے آقاؤں کے مقابلے میں نیک سمجھا جاتا تھا۔ غلاموں کے حلقے میں اس کی شہرت اچھی تھی۔ جہاں جنبش ابرو سے کام چل سکتا وہاں وہ کبھی زبان نہ ہلاتا تھا۔ شاید عمار بن یاسرؓ نے اسی دھیمے لہجے میں دھوکہ کھا لیا تھا جوسب کہتے چلے گئے۔ جب ابو سفیان نے اپنے مخصوص لہجے میں سوال کیا تو عمار بن یاسرؓ نے یہ سمجھا کہ وہ ان کے برابر کی حیثیت سے بات کر رہا ہے، اور واقعی ان سے صحیح جواب چاہتا ہے۔ایک اللہ، لیکن ہمارے تو تین سو ساٹھ خدا ہیں جو ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہماری مرادیں بر لاتے ہیں۔ پھر ابو سفیان قدرے توقف کے بعد بولا:محمد ﷺ کو احساس نہیں کہ ہم مکہ میں خداؤں کو گھر مہیا کرتے ہیں، یہی ہماری روزی ہے۔ سب قبائل کے اپنے اپنے خدا ہیں جن کی عبادت کے لیے وہ یہاں آتے ہیں۔ خدا ہمارے معبود بھی ہیں اور ہمارا ذریعہ معاش بھی اور کیا ہم غریبوں اور کمزوروں کی نگہداشت نہیں کرتے۔ ابوسفیان کہتے کہتے رک گیا۔ پھر کچھ توقف کے بعد دوبارہ بولا:اگر ہم تین سو ساٹھ بتوں کو چھوڑ کر ایک خدا کو ماننے لگیں جو نظر بھی نہیں آتا اور جو ہر جگہ بتایا جاتا ہے۔ اس باغ میں، طائف میں، مدینہ میں، یروشلم میں، چاند پر تو پھر مکہ کہاں جائے گا ؟

جب ہر گھر میں خدا ہو گا تو یہاں کوئی کیا کرنے آئے گا؟ اب امیہ بن خلف اپنا ریشمی لباس لہراتا ہوا حضرت عمار بن یاسرؓ کے قریب پہنچا اور کہنے لگا:یہ سیاہ فام بلالؓ جسے میں نے اپنے پیسے سے خریدا ہے، میرے برابر ہے؟ یہ کہہ کر وہ رکا اور بزعم خود اپنے سوال کی معقولیت کا لطف اٹھانے لگا۔ محمد ﷺ کہتے ہیں اللہ کے نزدیک تمام انسان برابر ہیں۔ خواہ وہ کسی نسل، کسی رنگ کے ہوں۔ محفل پر سناٹا چھا گیا۔ پھر حضرت بلال بن رباحؓ کے آقا امیہ بن خلف کی آواز ابھری: بلال! حضرت بلالؓ کو کچھ خبر نہ تھی کہ اس بار ان کا نام اس لیے پکارا جا رہا کہ انہیں ایک زندگی سے دوسری زندگی ملنے والی تھی۔ بس اللہ ہی ہے کہ جو جانتا ہے کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے۔ حضرت بلالؓ پلک جھپکنے میں حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہو گئے۔ امیہ بن خلف نے کہا :بلالؓ اسے بتاؤ کہ تم میں اور ایک رئیس مکہ میں کیا فرق ہے ؟ یہ لو اور مار مار کا اس کا چہرہ لہولہان کر دو، مسخ کر دو تاکہ اسے اس کی سرکشی کی سزا مل جائے اور یہ لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بن جائے۔ یہ کہہ کر امیہ بن خلف نے کوڑا حضرت بلالؓ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ کیسا واضح حکم تھا، کتنا مختصر اور جامع۔

حضرت عمار بن یاسرؓ نے زمین پر اوندھے پڑے پڑے سر اٹھا کر اپنا چہرہ حضرت بلالؓ کے سامنے سزا کے لیے پیش کر دیا۔ امیہ بن خلف کی آنکھیں غصے سے باہر کو ابلی آ رہی تھیں۔ ابوسفیان نے نظریں دوسری طرف پھیر لی تھیں۔ ابوسفیان سزا دینے کا تو قائل تھا مگر وہ اس میں براہِ راست شرکت کو اپنے منصب سے گری ہوئی بات سمجھتا تھا۔ حضرت عمار بن یاسرؓ حضرت بلالؓ کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ وہ ٹکٹکی باندھے حضرت بلالؓ کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی نظروں میں پاکیزگی تھی۔ سکون تھا بے خوفی تھی، سر تا پا مجبور مگر پر عزم۔ حضرت بلالؓ نے ان کی آنکھوں میں ایسی قوت دیکھی جو انہیں غلامی کے بندھن سے بھی زیادہ طاقتور محسوس ہوئی۔ ٹھیک اس لمحے امیہ بن خلف کا غلام، جو غلام ابن غلام تھا جو امیہ بن خلف کے ایک اشارہ ابرو پر اپنی جان قربان کر دینے کے لیے تیار رہتا تھا، کسی اور کا غلام ہو گیا۔ حضرت بلالؓ نے کوڑا ہاتھ سے گرا دیا۔ یہ دیکھ کر سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ایک اور غلام باغی ہو گیا ہے۔ لوگ حیرت زدہ ہو کر بلالؓ کی طرف دیکھنے لگے۔ حضرت عمار بن یاسرؓ نے گھسٹتے گھسٹتے ہاتھ بڑھا کر کوڑا پکڑنے کی کوشش کی۔ پھر انہوں نے وہ کوڑا دوبارہ حضرت بلالؓ کے ہاتھ میں پکڑا دیا اور انہوں نے سرگوشیانہ انداز میں کہا۔بلال ! یہ جو کہتے ہیں کرو، بلال ان کی حکم عدولی نہ کرو ورنہ یہ تمہیں مار ڈالیں گے۔ مگر حضرت بلالؓ کا ہاتھ بلند نہ ہوا۔ انہوں نے ایک بار پھر کوڑا زمین پر پھینک دیا۔

حضرت بلالؓ کو یوں محسوس ہوا، جیسے وہ نور میں نہا کر رہ گئے ہوں۔ یہ دیکھ کر ابو سفیان نے امیہ بن خلف کو اشارہ کیا۔ امیہ بن خلف کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ وہ خاموش تھا۔ اس کی تو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ کیا اس کا غلام بھی باغی ہو سکتا ہے۔ پھر یکدم اس نے حضرت بلالؓ کی طرف دیکھا اور کہنے لگا: بلالؓ اگر تمہیں یہ زعم ہے کہ تم انسان ہو اور تم کو بھی خدا رکھنے کا حق ہے تو میری بات کان کھول کر سن لو تمہارے خدا وہی ہوں گے جو تمہارے آقا کے خدا ہیں، کوئی نیا خدا میرے غلام خانہ میں نہیں لایا جا سکتا۔ پھر امیہ بن خلف نے نظر دوڑائی اور کہا :تمہاری اصلاح کرنی پڑے گی لیکن آج نہیں میں سورج کے نصف النہار پر آنے کا انتظار کروں گا آج وہ ذرا ڈھل گیا ہے۔ پھر اس نے اپنے دوسرے غلاموں کو اشارہ کیا اگلے ہی لمحے حضرت بلالؓ کے بازوؤں اور گردن کو رسیوں سے جکڑ دیا گیا۔ حضرت بلالؓ امیہ بن خلف کے غلام تھے، اور یہ لعین و بدبخت مشرک تھا۔ حضرت بلالؓ کا شمار ان سات اسلام لانے والوں میں ہوتا ہے جو سب سے پہلے اللہ کے آخری رسول ﷺ پر ایمان لائے۔ چونکہ یہ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا۔ دشمنانِ اسلام مسلمانوں کو چین سے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ اللہ کے نور کو بجھانے کے لیے دن رات ہر وقت کوشش میں مصروف رہتے لیکن حق تعالیٰ کو اپنا نور پھیلانا تھا۔ وہ منور ہو کر رہا اور کفار کی تمام کوششیں غارت ہو کر رہ گئیں۔ حضرت بلالؓ چاہتے تو اپنا ایمان مخفی رکھ سکتے تھے اور اس اخفاء کی بدولت کفار کی ایذارسانیوں سے محفوظ رہ سکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت نے کلمہ توحید ظاہر کرنے پر آپ کو مجبور کر دیا۔ حضرت بلالؓ کا نعرۂ حق لگانا تھا کہ آپ پر ظلم وستم کے پہاڑ ٹوٹنے لگے۔ کفار آپ کو اس قدر زد و کوب کرتے کہ آپؓ لہولہان ہو جاتے۔ پھر زخمی حالت میں آپ کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹا جاتا لیکن اس ظلم و تعدی کے باوجود حضرت بلالؓ سچے عاشق رسول نکلے۔ ان کے پایۂ استقلال میں رائی برابر لغزش نہ آئی آپ ان اذیتوں کو راہ حق میں آسان سمجھتے۔ امیہ بن خلف آپؓ کو دوپہر کے وقت مکہ کے رہ گزاروں میں لے جاتا اور آپ کے گلے میں رسی باندھ کر لٹا دیتا اور بہت بڑا پتھر آپؓ کے سینے پر رکھ دیتا، تاکہ آپؓ اس کے نیچے دبے دبے جان دے دیں یا حضور ﷺ کے منکر ہو جائیں اور لات و عزیٰ کی پرستش دوبارہ شروع کر دیں۔ حضرت بلالؓ کو رسیوں سے باندھ کر
مکہ کے گلی کوچوں میں پھرا جاتا لیکن وہ احد احد ہی پکارتے۔
جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


شدید گرمیوں کے دن تھے۔ سورج کی تپش ریت کو انگاروں کی طرح دہکا رہی تھی۔ پیاس کے مارے حلق سوکھ کر کانٹا ہو رہے تھے۔ پرندے بھی اپنے اپنے گھونسلوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ گرمی کا ایک لمحہ بھی برداشت سے باہر تھا۔ ایسے میں امیہ بن خلف اپنے حبشی غلام بلال بن رباحؓ کے گلے میں رسی ڈالے انہیں گھسیٹتا ہوا لایا اور صحرا کی گرم اور تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیا۔


تاریخ بیان کر رہےہیں یا نسیم خجازی کا ناول؟ تاریخ میں ایسے مبالغے اور داستان آرائی کی گنجائش نہیں ہوتی براہ کرم تاریخ بیان کرتے ہوئے لفاظی سے پرہیز کیا کریں-


حضرت بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ کو جسے لوگ اسلام سے پہلے بلال بن رباحؓ کے نام سے جانتے تھے، اسلام لانے کے بعد وہ سیدنا بلال حبشیؓ کے لقب سے پکارے جانے لگے

باپ کا نام ہٹا کر حبشی لگا دینے سے عزت کیسے بڑھ گئی تھی؟



امیہ بن خلف نے اپنی طرف سے ہر کوشش کر ڈالی، مگر وہ سیدنا بلالؓ کے دل سے ایمان کی روشنی کم نہ کر سکا۔ وہ لعین آپ کو ہر روز نئی نئی اذیتیں دیتا اور کہتا :اگر میری بات نہیں مانو گے تو اسی طرح گھٹ گھٹ کر مر جاؤ گے اگر زندگی عزیز ہے تو اسلام سے کنارہ کشی اختیار کر لو، واپس اپنے باپ دادا کے دین پر آ جاؤ۔ مگر سیدنا بلالؓ کی زبان پر تو صرف یہی لفظ جاری تھا: احد، احد، احد۔ معبود ایک ہی ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ امیہ بن خلف کے حکم سے رات کے وقت سیدنا بلالؓ کو زنجیروں سے باندھ کر کوڑے مارے جاتے اور پھر اگلے دن ان زخموں کو گرم زمین پر ڈال کر اور زیادہ زخمی کیا جاتا۔ شیطان پوری طرح اس لعین امیہ بن خلف کا ساتھ دے رہا تھا۔ امیہ بن خلف کے حکم سے ہر روز تکلیفوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جاتا، تاکہ سیدنا بلالؓ ان تکلیفوں سے گھبرا کر اسلام سے پھر جائیں یا پھر تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دیں۔ عذاب دینے والے اکتا جاتے، ظلم کرتے کرتے وہ تھک جاتے، ان کے حوصلے کمزور پڑ جاتے مگر سیدنا بلالؓ کی استقامت میں کوئی فرق نہ آتا بلکہ ہر تکلیف پر آپؓ کا حوصلہ بڑھ جاتا۔ کبھی ابوجہل آپؓ کو عذاب دینے میں پیش پیش ہوتا اور کبھی امیہ بن خلف کا نمبر آ جاتا


مکمل جھوٹ- بلال کے واقعہ کو ابن اسحاق اور ابن سعد نے بیان کیا ہے- دونوں نے یہ باتیں یا گفتگو نہیں لکھی- نہ ہی ایسی کوئی بات لکھی کہ بلال کو نت نئی سزائیں دی جاتی تھیں اس کا کوئی حوالہ دے کر ہم کم علموں پر مہربانی فرمائیں

امیہ بن خلف اپنے غلاموں کو حکم دیتا: اسے باری باری کوڑے مارو یہاں تک کہ وہ اپنی ضد چھوڑ دے یا پھر اس کی روح اس کے جسم کا ساتھ چھوڑ جائے اگر یہ اپنی بات پر قائم رہے تو صبح تک اسے کوڑے مارے جائیں۔


اس قدر مبالغہ- حیرت ہےاگر امیہ بلال کو قتل ہی کرنا چاہتا تو اسکے لئے کیا مشکل تھا- اسے کس نے پوچھنا تھا


اس امیہ نے ایک روز مجھے موسم گرما میں باندھ کر تمام رات اسی حالت میں رہنے دیا۔ پھر دوپہر کے وقت برہنہ کر کے دھوپ میں سنگریزوں پر ڈال دیا اور گرم پتھر لا کر میرے سینے پر رکھ دیئے

آپ اس واقعہ کو چوتھی بار بیان کر رہے ہیں الفاظ بدل کے- ہم جانتے ہیں یہی ایک سزا تھی جو بلال کو دی گئی اور اسکے راوی بھی ہیں-

بعض روایات میں آیا ہے۔ وہ لعین لوہے کی سلاخیں گرم کر کے آپ کی زبان پر رکھ دیتا اور کہتا : اب تو محمد ﷺ کا نام لینا چھوڑ دے۔ لیکن حضرت بلال بن رباحؓ اور زیادہ محمد ﷺ، محمد ﷺ کہتے یہاں تک کہ بے ہوش ہو جاتے۔

یہ بلکل جھوٹ اور لغو ہے- ایسی کسی بات کا کوئی تذکرہ کسی تاریخ کی کتاب میں نہیں ملتا براہ کرم حوالہ دے کر احسان کیجئے ان "روایات " کا- اور آیندہ بھی ریفرنس ساتھ لکھا کیجئے آپ کی کہانیاں ہی ختم ہونے کو نہیں آتیں


حضرت بلال بن رباحؓ کا بیان ہے: ایک روز اس خبیث نے مجھ پر ظلم ڈھایا کہ اونٹ کے بالوں کی ایک پچاس گز لمبی رسی میری گردن میں ڈال کر مکہ کے لڑکوں کو پکڑا دی وہ مجھے اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کھینچتے یہاں تک کہ میری گردن زخمی ہو گئی۔


کہاں آیا ہے یہ بیان؟ کس کتاب میں ؟ اور کیا بلال امیہ کو گالیاں دیتے تھے جیسا کہ آپ نے یہاں لکھا ہے؟ حوالہ دیں- تاریخ کی کسی کتاب میں ایسی کوئی بات نہیں آئی- یہ خود ساختہ ہے

و تشدد جاری تھا اور ان کی حالت دیکھ کروہ تھر ا اٹھے۔ کچھ دیر کھڑے ہو کر ان کی احد احد کی پکار سنی اور کہنے لگے:بخدا اے بلال ! احد احد کے سوا کچھ نہیں۔ روایت ہے کہ ابوجہل لعین نے حضرت بلالؓ کو دیکھ کر کہا: تم بھی وہی کہتے ہو جو محمد ﷺ کہتے ہیں۔ پھر انہیں پکڑ کر منہ کے بل گرا کر دھوپ میں لٹا دیا اور ان کے سینے کے اوپر چکی کا پاٹ رکھ دیا اور وہ احد احد پکارتے رہے۔ ایک دن وہاں سے حضرت ابوبکرؓ کا گزر ہوا تو امیہ بن خلف کے گھر سے آہ و زاری کی آوازیں آ رہی تھیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ حضرت بلال حبشیؓ کے ساتھ ظلم وستم ہو رہا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے امیہ بن خلف کو ملامت کی: تیرا اس کام سے کیا سنورتا ہے؟ تو بلالؓ کو اذیت نہ دے۔ امیہ بن خلف نے کہا :میں نے اسے دام دے کر خریدا ہے۔ تیرا دل چاہتا ہے تو اسے خرید لے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاں ایک رومی غلام فسطاط تھا جو حضرت ابوبکرؓ کی دعوتِ اسلامی قبول نہیں کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا:وہی غلام اور ساتھ چالیس اوقیہ چاندی لے کر بلالؓ میرے حوالے کر دو۔

پوری کی پوری روایت غلط ہے ابن اسحاق کے مطابق- یہ واقعہ میں اپنی تحریر میں بیان کر چکا ہوں اور امیہ اور ابو بکر کی حرف بہ حرف گفتگو بھی- آپ کی خود ساختہ کہانیاں کب ختم ہونگی؟ ابن اسحاق کی "سیرت رسول الله " کے صفحہ ١٤٤ کے پیراگراف ٤ میں یہ سارا واقعہ بیان ہوا ہے؟


امیہ بن خلف نے منظور کر لیاسودا طے پا جانے کے بعد امیہ بن خلف ہنسنے لگا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سبب پوچھا تو امیہ بن خلف نے کہا :تم اتنے زمانہ شناس انسان ہو اور کامیاب تاجر ہو مگر آج تم نے گھاٹے کا سودا کر لیا۔ مجھے بے حد قیمتی غلام اور ساتھ چالیس اوقیہ چاندی دے کر ایک بیکار غلام خرید لیا۔ ایسے غلام کو جسے میں ایک درہم کے عوض فروخت کرنے پر تیار تھا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا:بخدا آج تو مجھ سے بلالؓ کے عوض میں یمن کی بادشاہت بھی مانگتا تو وہ بھی تجھے دینے کو تیار تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت بلالؓ کے گرد و غبار کو اپنی چادر سے صاف کیا اور امیہ بن خلف کے سامنے انہیں نیا لباس پہنایا

حوالہ؟ کہاں لکھا ہے یہ سب؟ راوی کون ہے- کتاب کونسی ہے ؟


مولانا روم فرماتے ہیں: امیہ بن خلف نے حضرت بلالؓ کو سستے داموں خریدا۔ وہ آپ سے دن بھر کام لیا کرتا تھا۔ ایک دن حضرت بلالؓ نے سرکار ﷺ کی زیارت کی تو ان ہی کے ہو کر رہ گئے۔ جسم کافر کا غلام کا تھا لیکن روح زلف مصطفیٰﷺ کی اسیر تھی۔ وہ تمام دن اپنے مالک کا کام کرتے رہتے لیکن دل یاد مصطفی ﷺ کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ دست بکار دل بہ یار۔ ایک دن جوش محبت میں حضرت بلالؓ احد احد اور محمدﷺ، محمدﷺ کے نعرے لگانے لگے۔

مولانا رومی شاعر تھے- مبالغہ انکی فطرت ثانی تھا- رومی اپنے مبالغے اور زبان دانی کی وجہ سے ہی مشھور ہیں- انکے اشعار تاریخ کا حوالہ کب سے ہو گئے؟


امیہ نے سنا تو مارنے لگا۔ تو محمد ﷺ کو کیوں پکار رہا ہے ؟ اے میرے غلام کیا تو میرے دین کا منکر ہے؟ مالک سخت دھوپ میں آپ کو کانٹوں کے ساتھ مارنے لگا لیکن حضرت بلالؓ بڑے افتخار کے ساتھ احد احد پکار نے لگے

کاپی پیسٹنگ کرتے ہوئے تھوڑا ہوش قائم رکھا کریں- ابھی ابھی آپ نے بلال کو آزاد کروایا تھا اور اب پھر سے امیہ کے پاس لے آئے ہیں؟ کیا مختلف کتابوں سے کاپی پیسٹ کر رہے ہیں ؟

اس دوران حضرت ابوبکرؓ بھی تشریف لائے۔ آپ بلالؓ کا حال دیکھ کر سخت مضطرب ہوئے۔ دوسرے دن پھر آپ نے یہی منظر دیکھا تو آپ نے حضرت بلالؓ کو علیحدگی میں مشورہ دیا کہ تمہارا مالک کافر ہے۔ اس کے سامنے محمد عربی ﷺ کا نام مبارک نہ لیا کرو۔ اپنے محبوب کو دل ہی دل میں یاد کر لیا کرو۔ حضرت بلالؓ نے جواب دیا:نہیں صدیق ! یہ میرے بس کا روگ نہیں، رہی بات امیہ کے ظلم وستم کی اس کی مجھے قطعاً پرواہ نہیں وہ مجھے شہید بھی کر ڈالے تو میرے بدن کا ہر مو یار کا نام پکارے گا۔

مکمل جھوٹ- آپ مجھے یہ الفاظ تاریخ کی کسی بھی مستند کتاب میں دکھا دیں میں دست بستہ معافی مانگ لونگا- اور اگر نہ دکھا سکیں تو بس اتنا کہوں گا شرم تم کو مگر نہیں آتی

شاید یہی وجہ تھی کہ اس قبیلے میں پرورش پانے کی وجہ سے حضرت بلالؓ کو اس قبیلے کی رسموں سے سخت نفرت ہو گئی تھی، اور رات دن دیکھتے رہتے تھے کہ ان کے قبیلے کے لوگ مکار تھے، دھوکہ باز تھے، رحمدلی ان سے کوسوں دور تھی

بلکل سفید جھوٹ- مکمل جھوٹ- بنی جما کے سردار امیہ بن خلف کی دوست پروری' مہمان نوازی اور کردار کی جھلک ہم اپنی تحریر میں دکھا چکے ہیں- عبدلرحمٰن بن عوف جیسے صحابی اور بنی اوس کے سردار سرکردہ لیڈر اور اولین صحابی سعد بن ماؤز کے امیہ کے ساتھ دوستی کے واقعات ہم صحیح احادیث اور مستند کتب سے حوالے سے بیان کر چکے ہیں-


خانہ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا صرف ایک اللہ واحدہ لاشریک کی عبادت کے لیے لیکن پھر انسانی ذہنوں میں کچھ ایسا خلفشار پیدا ہوا کہ یہ عظیم عبادت گاہ لکڑی اور پتھروں سے بنائے ہوئے بتوں کا گودام بن کر رہ گئی۔ ان بتوں کو عرب اپنے خداؤں کا درجہ دیتے تھے لیکن پہلے تو اس قادر مطلق کا تصور گم ہوا۔ پھر اس کی جگہ بتوں نے لے لی، اور پھر ایک نہیں سینکڑوں خداؤں کا تصور ابھرا اور پھر وحدانیت الٰہی کی یہ قدیم علامت تین سو ساٹھ بتوں کا مسکن بن گئی۔ وہ خدا جو فروخت کیے جاتے تھے۔ خریدے جاتے تھے اور ان خداؤں کی خرید و فروخت پر منافع کمایا جاتا تھا۔ ہر خدا مختلف کام کے لیے مخصوص تھا۔ کوئی دن کا خدا تھا، کوئی رات کا، کوئی معذوروں کا خدا تھا، کوئی صحت مندوں کا۔ خوش نصیبی کے خدا الگ تھے۔ سفر کے الگ اور کچھ دنیوی منفعت کے لیے۔ ابدی بہبود اور اخروی بہتری کا کوئی عنصر ان کی عبادت میں شامل نہ تھا۔

اس پیراگراف کا ٹاپک سے کیا تعلق؟ کاپی پیسٹنگ کرتے ہوئے پڑھ تو لیا کریں تو کیا پیسٹ کرنا ہو اور کیا نہیں


آپ کی تحریر کے آخری آٹھ پیراگراف مکمل طور پر جھوٹ اور داستان ہیں- ایسی کوئی شہادت تاریخ کی مستند کتب میں نہیں ہیں- بلکہ خود آپ کے اوپر دے گئے ٹیکسٹ کے بھی برعکس ہے آپ شاید قصے کہانیوں کے شوقین معلوم ہوتے ہیں- مگار ہم یہاںتاریخ اور مستند تاریخ کی بات کر رہے ہیں حوالہ جات کے ساتھ

براہ کرم آیندہ قصے کہانیاں سنانے کی زحمت نہ کیا کریں اور اگلی دفعہ جب لکھیں تو کم لکھیں لکھائی میں ربط اورتعلق ہونا چاہیے اور سب سے بڑھ کر کوئی ایک لائن بھی حوالہ کے بغیر نہ لکھیں- آپ نے اپنی رائے دینی ہے تو اسے علیحدہ سے دیں- تاریخی حقائق اوررائے دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں- مزید برآں حوالہ بھی صرف صحیح مسلم بخاری ابن اسحاق' ابن سعد' طبری یا پھر ابن کثیر کا دیں- ان کے علاوہ کوئی حوالہ قابل قبول نہیں- خود مجھ پہ بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے.



 

jahanzaibi

Senator (1k+ posts)
First Muhammad PBUD wants to kill him,

Narrated 'Abdullah bin Mas'ud:
Sa'd bin Mu'adh came to Mecca with the intention of performing 'Umra, and stayed at the house of Umaiya bin Khalaf Abi Safwan, for Umaiya himself used to stay at Sa'd's house when he passed by Medina on his way to Sham. Umaiya said to Sad, "Will you wait till midday when the people are (at their homes), then you may go and perform the Tawaf round the Ka'ba?" So, while Sad was going around the Ka'ba, Abu Jahl came and asked, "Who is that who is performing Tawaf?" Sad replied, "I am Sad." Abu Jahl said, "Are you circumambulating the Ka'ba safely although you have given refuge to Muhammad and his companions?" Sad said, "Yes," and they started quarreling. Umaiya said to Sad, "Don't shout at Abi-l-Hakam (i.e. Abu Jahl), for he is chief of the valley (of Mecca)." Sad then said (to Abu Jahl). 'By Allah, if you prevent me from performing the Tawaf of the Ka'ba, I will spoil your trade with Sham." Umaiya kept on saying to Sad, "Don't raise your voice." and kept on taking hold of him. Sad became furious and said, (to Umaiya), "Be away from me, for I have heard Muhammad saying that he will kill you." Umaiya said, "Will he kill me?" Sad said, "Yes." Umaiya said, "By Allah! When Muhammad says a thing, he never tells a lie." Umaiya went to his wife and said to her, "Do you know what my brother from Yathrib (i.e. Medina) has said to me?" She said, "What has he said?" He said, "He claims that he has heard Muhammad claiming that he will kill me."


Second at that time Muhammad PBUH was alive and this happen in there time and he didnt response to this event which means that the Bilal ra did the right thing.
also i mentioned that he was not a normal prisoner he was shatem-e-rasool and biggest enemy of Islam, and due to other reason his treatment was different.

in hanafi fiqh this is only forbiden to kill prisoner but in all other four fiqh including jafri it is allowed to kill such kind of prisoners.

in the same battle many other prisoners was freed after paying and also in other battles, but in banu qurza case Muhammad PBUH killed all males who were mature.




Thank you for quoting two Sahih Ahadith.

These Ahadith however do not justify Ummaya's killing for two reasons:

1. He's surrendered. He's under asylum of a prominent Sahabi. He's unarmed. He's a prisoner.

2. Whenever Prophet SAW wanted to get rid of somebody, he asked for volunteers to kill that person. For example in this list Kab was murdered. Prophet SAW sent two volunteers to kill him as stated in Sahih Bukhari. In Ummaya's case, his murder was NOT ordered. Neither were any volunteers sent to kill him. He was merely cursed.

It's a general perception amongst Muslims that Prophet SAW had never cursed. They quote the incidenf of Taif when he refused to curse but they don't know that Prophet had cursed and did BadDua for many people at different occasions. Thanks for bringing these facts forth.
 

Username

Senator (1k+ posts)
First Muhammad PBUD wants to kill him,

Narrated 'Abdullah bin Mas'ud:
Sa'd bin Mu'adh came to Mecca with the intention of performing 'Umra, and stayed at the house of Umaiya bin Khalaf Abi Safwan, for Umaiya himself used to stay at Sa'd's house when he passed by Medina on his way to Sham. Umaiya said to Sad, "Will you wait till midday when the people are (at their homes), then you may go and perform the Tawaf round the Ka'ba?" So, while Sad was going around the Ka'ba, Abu Jahl came and asked, "Who is that who is performing Tawaf?" Sad replied, "I am Sad." Abu Jahl said, "Are you circumambulating the Ka'ba safely although you have given refuge to Muhammad and his companions?" Sad said, "Yes," and they started quarreling. Umaiya said to Sad, "Don't shout at Abi-l-Hakam (i.e. Abu Jahl), for he is chief of the valley (of Mecca)." Sad then said (to Abu Jahl). 'By Allah, if you prevent me from performing the Tawaf of the Ka'ba, I will spoil your trade with Sham." Umaiya kept on saying to Sad, "Don't raise your voice." and kept on taking hold of him. Sad became furious and said, (to Umaiya), "Be away from me, for I have heard Muhammad saying that he will kill you." Umaiya said, "Will he kill me?" Sad said, "Yes." Umaiya said, "By Allah! When Muhammad says a thing, he never tells a lie." Umaiya went to his wife and said to her, "Do you know what my brother from Yathrib (i.e. Medina) has said to me?" She said, "What has he said?" He said, "He claims that he has heard Muhammad claiming that he will kill me."


Second at that time Muhammad PBUH was alive and this happen in there time and he didnt response to this event which means that the Bilal ra did the right thing.
also i mentioned that he was not a normal prisoner he was shatem-e-rasool and biggest enemy of Islam, and due to other reason his treatment was different.

in hanafi fiqh this is only forbiden to kill prisoner but in all other four fiqh including jafri it is allowed to kill such kind of prisoners.

in the same battle many other prisoners was freed after paying and also in other battles, but in banu qurza case Muhammad PBUH killed all males who were mature.




Whatever was the case, he was unarmed, a prisoner, under protection of a muslim sahabi, and had surrendered!
 

Username

Senator (1k+ posts)
First Muhammad PBUD wants to kill him,

Narrated 'Abdullah bin Mas'ud:
Sa'd bin Mu'adh came to Mecca with the intention of performing 'Umra, and stayed at the house of Umaiya bin Khalaf Abi Safwan, for Umaiya himself used to stay at Sa'd's house when he passed by Medina on his way to Sham. Umaiya said to Sad, "Will you wait till midday when the people are (at their homes), then you may go and perform the Tawaf round the Ka'ba?" So, while Sad was going around the Ka'ba, Abu Jahl came and asked, "Who is that who is performing Tawaf?" Sad replied, "I am Sad." Abu Jahl said, "Are you circumambulating the Ka'ba safely although you have given refuge to Muhammad and his companions?" Sad said, "Yes," and they started quarreling. Umaiya said to Sad, "Don't shout at Abi-l-Hakam (i.e. Abu Jahl), for he is chief of the valley (of Mecca)." Sad then said (to Abu Jahl). 'By Allah, if you prevent me from performing the Tawaf of the Ka'ba, I will spoil your trade with Sham." Umaiya kept on saying to Sad, "Don't raise your voice." and kept on taking hold of him. Sad became furious and said, (to Umaiya), "Be away from me, for I have heard Muhammad saying that he will kill you." Umaiya said, "Will he kill me?" Sad said, "Yes." Umaiya said, "By Allah! When Muhammad says a thing, he never tells a lie." Umaiya went to his wife and said to her, "Do you know what my brother from Yathrib (i.e. Medina) has said to me?" She said, "What has he said?" He said, "He claims that he has heard Muhammad claiming that he will kill me."


Second at that time Muhammad PBUH was alive and this happen in there time and he didnt response to this event which means that the Bilal ra did the right thing.
also i mentioned that he was not a normal prisoner he was shatem-e-rasool and biggest enemy of Islam, and due to other reason his treatment was different.

in hanafi fiqh this is only forbiden to kill prisoner but in all other four fiqh including jafri it is allowed to kill such kind of prisoners.

in the same battle many other prisoners was freed after paying and also in other battles, but in banu qurza case Muhammad PBUH killed all males who were mature.




Second at that time Muhammad PBUH was alive and this happen in there time and he didnt response to this event which means that the Bilal ra did the right thing.

Right and Wrong do not depend on the opinion of Prophet SAW. Right and Wrong have their own parameters and criteria.
 

pakistani786

Minister (2k+ posts)
It is relevant , What is your religion, you cannot be Muslim.

People love telling lies and fabricated stories. Islam is full of fabricated stories or Half Truths where people take their favourite piece of history and leave the rest.

Had you ever heard that Bilal had killed his former Boss so cold bloodedly, before?
Mullah don't discuss this story as it doesn't suit them. They'd rather collect sympathies by telling only one third of the story related to the misery of Bilal.
I'm telling the rest of the story

[/QUOTE]

Come up with arguments. No irrelevant discussion.[/QUOTE]
 

allahkebande

Minister (2k+ posts)
Thank you for quoting two Sahih Ahadith.

These Ahadith however do not justify Ummaya's killing for two reasons:

1. He's surrendered. He's under asylum of a prominent Sahabi. He's unarmed. He's a prisoner.

2. Whenever Prophet SAW wanted to get rid of somebody, he asked for volunteers to kill that person. For example in this list Kab was murdered. Prophet SAW sent two volunteers to kill him as stated in Sahih Bukhari. In Ummaya's case, his murder was NOT ordered. Neither were any volunteers sent to kill him. He was merely cursed.

It's a general perception amongst Muslims that Prophet SAW had never cursed. They quote the incidenf of Taif when he refused to curse but they don't know that Prophet had cursed and did BadDua for many people at different occasions. Thanks for bringing these facts forth.

ممتاز صحابی عبدالرحمان بن عوف کا معاہدہ تھا امیہ کے ساتھ- وہ رات کو اٹھے اور امیہ کو اپنا قیدی بنا لیا
ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی. ایسے کیسے قیدی بنا لیا. کون کون یہ بات جانتا تھا

Volume 3, Book 38, Number 498:
کہیں تذکرہ نہیں ہے کے کسی کو معاہدے کا بتایا گیا ہو یا قیدی بنانے/امان دینے کا کہا گیا ہو

ایک صحابی نے محض اس شبے میں ایک مخالف سپاہی کو قتل کر دیا کے اس نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا ہے. حضورpbuh نے صحابی کی سرزنش کی. آپpbuh کی طرف سے اس واقعہ پر کیا ردعمل تھا


اگر تھریڈ اسٹارٹر کا ارادہ اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کا ہے تو وہ غلط فورم پر ہے۔ اہل تشیع کے فورم پر ایسی چیزوں کی گنجائش ہے۔ یہاں کسی کا ایمان خریدنا مشکل ہوگا۔


First Muhammad PBUD wants to kill him,

Narrated 'Abdullah bin Mas'ud:
Sa'd bin Mu'adh came to Mecca with the intention of performing 'Umra, and stayed at the house of Umaiya bin Khalaf Abi Safwan, for Umaiya himself used to stay at Sa'd's house when he passed by Medina on his way to Sham. Umaiya said to Sad, "Will you wait till midday when the people are (at their homes), then you may go and perform the Tawaf round the Ka'ba?" So, while Sad was going around the Ka'ba, Abu Jahl came and asked, "Who is that who is performing Tawaf?" Sad replied, "I am Sad." Abu Jahl said, "Are you circumambulating the Ka'ba safely although you have given refuge to Muhammad and his companions?" Sad said, "Yes," and they started quarreling. Umaiya said to Sad, "Don't shout at Abi-l-Hakam (i.e. Abu Jahl), for he is chief of the valley (of Mecca)." Sad then said (to Abu Jahl). 'By Allah, if you prevent me from performing the Tawaf of the Ka'ba, I will spoil your trade with Sham." Umaiya kept on saying to Sad, "Don't raise your voice." and kept on taking hold of him. Sad became furious and said, (to Umaiya), "Be away from me, for I have heard Muhammad saying that he will kill you." Umaiya said, "Will he kill me?" Sad said, "Yes." Umaiya said, "By Allah! When Muhammad says a thing, he never tells a lie." Umaiya went to his wife and said to her, "Do you know what my brother from Yathrib (i.e. Medina) has said to me?" She said, "What has he said?" He said, "He claims that he has heard Muhammad claiming that he will kill me."


Second at that time Muhammad PBUH was alive and this happen in there time and he didnt response to this event which means that the Bilal ra did the right thing.
also i mentioned that he was not a normal prisoner he was shatem-e-rasool and biggest enemy of Islam, and due to other reason his treatment was different.

in hanafi fiqh this is only forbiden to kill prisoner but in all other four fiqh including jafri it is allowed to kill such kind of prisoners.

in the same battle many other prisoners was freed after paying and also in other battles, but in banu qurza case Muhammad PBUH killed all males who were mature.




اس کہانی میں کافی جھول ہیں ۔

پہلی بات یہ کہ امیہ بن خلف جنگ پر گیا ہی کیوں اگر صرف گرفتاری دینی تھی اور وہ بھی جنگ چھڑنے سے پہلے؟

دوسری بات یہ کہ میدان جنگ میں 1313 کے مجمعے میں امیہ بن خلف نے حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ سے کیسے رابطہ کیا اور گرفتاری پیش کی؟ ساتویں صدی میں تو موبائیل فون نہیں ہوتے تھے


تیسری بات یہ کہ امیہ بن خلف سردار تو مکہ میں تھا مگر پراپرٹی اسکی مدینہ موجود تھی؟ اور حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی ہجرت سے پہلے کون اس کی دیکھ بھال کرتا تھا ؟


اور اگر آپ کی کہانی کا تمام دارومدار حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی روایات پر ہے تو جناب ترمذی 3682 والی عشرۃ مبشرۃ کی روایت بھی حضرت عبد الرحمان بن عوف رضہی اللہ عنہ ہی کی ہے؛ اس پر بھی ایمان لے آئیے اور حضرت ابوبکر و
حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی برائیاں کرنا بند کیجئیے ۔ یہ نہیں چلے گا کہ ایک حدیث پر استدلال کریں گے اور دوسری کو متنازعہ بنائیں گے
 
Last edited:

ابابیل

Senator (1k+ posts)
ظلم وستم کی انتہا

حضرت بلال بن رباحؓ

عظیم احمد

ظلم وستم کی انتہا

حضرت بلالؓ نے محمد ﷺ کو کئی بار دیکھا تھا لیکن آج تک ان سے بات نہ کی تھی۔ عکاظ کے بیس روزہ سالانہ بڑے میلے کے بعد قافلے اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے مکہ سے نکلتے ہی اپنے گرد و غبار میں گم ہو جاتے تو مکہ سکڑ سا جاتا۔ گلیوں میں دوبارہ وہی جانے پہچانے لوگ نظر آتے لگتے۔ یہ سب چہرے حضرت بلالؓ کے واقف نہیں تھے لیکن صورت شناس وہ سب ہی کے تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے جو حضرت بلالؓ کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے کچھ لوگ پہچانتے بھی تھے لیکن ان کا ایک غلام کے ساتھ راہ و رسم، اس کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا لیکن محمدﷺ مختلف تھے۔ وہ جب بھی حضرت بلالؓ کے پاس سے گزرتے تو محبت کے انداز میں مسکرا کر دیکھتے۔ یہی و ہ محمدﷺ تھے جو اللہ کی وحدانیت کی باتیں کر رہے تھے۔ پتھر کے ان بے جا ن ٹکڑوں کو جسے اہل مکہ اپنے خدا تصور کرتے تھے محمد ﷺ ان کی تکذیب کرتے تھے اور کہتے تھے : یہ تو محض پتھر ہیں، نہ سن سکتے ہیں، نہ بول سکتے ہیں، نہ چل سکتے ہیں، یہ تمہارے خدا نہیں ہیں۔ اللہ تو ایک ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے۔اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا اور وہی انہیں مار کر دوبارہ زندہ کرے گا۔ حضرت بلالؓ کے نزدیک محمدﷺ کی مسکراہٹ ایک سچے انسان کی مسکراہٹ تھی۔ ان کا دل کہتا تھا: اگر محمدﷺ کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے تو وہ سچ ہی کہتے ہیں۔ یقینا اللہ ایک ہی ہو گا۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے آخری رسول ﷺ ہیں تو وہ واقعی اللہ کے آخری رسولﷺ ہوں گے۔ اگر محمدﷺ کہتے ہیں کہ وہ فرشتے سے ہم کلام ہوئے ہیں تو وہ ضرور ہوئے ہوں گے۔ حضرت بلال بن رباحؓ نے جب امیہ بن خلف کے حکم سے سرتابی کی اور بغاوت پر اتر آئے تو اس کے حکم سے اس کے دوسرے غلاموں نے آپ کو زنجیروں میں جکڑ کر قید کر دیا۔ رات کے وقت امیہ بن خلف ان کے پاس آیا اور براہ راست سوال کیا:سچ سچ بتا، تیرا معبود کون ہے؟ حضرت بلالؓ نے فوراً جواب دیا: محمد ﷺ کا معبود میرا معبود ہے۔ یہ جواب سنتے ہی امیہ بن خلف کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ شاید وہ اس جواب کے لیے تیار تھا۔ اس لیے کہنے لگا:تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تو ہمارے خداؤں سے انکار کرتا ہے؟ محمدﷺ الامین ہیں۔ وہ جھوٹ نہیں کہتے، انہیں ایک فرشتے نے بتایا ہے کہ اللہ ایک ہے۔ یہ سن کر امیہ بن خلف کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اب اس کا روز کا یہ معمول ہو گیا تھا کہ وہ حضرت بلالؓ کو غلام خانہ سے باہر نکالتا اور دھوپ میں جلتی ہوئی ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر تپتی ہوئی بھاری بھاری چٹانیں رکھ دی جاتیں کہ وہ ہل بھی نہ سکیں۔ ایسی حالت میں امیہ بن خلف ان پر کوڑے برساتا اور انہیں مجبور کرتا کہ وہ اس کے خداؤں کو تسلیم کر لیں۔ حضرت بلالؓ کی کمر پر چھالے پڑ گئے جو بعد میں زخموں میں تبدیل ہو گئے جن سے خون رسنا شروع ہو گیا مگر امیہ بن خلف کے معمول میں فرق نہ آیا بلکہ ہر روز اس کی شدت میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ ہر روز بلالؓ کے لیے گزشتہ دن سے زیادہ گرم ریت تلاش کی جاتی۔ پہلے سے زیادہ وزنی چٹانیں ڈھونڈی جاتیں اور پہلے سے زیادہ کوڑوں کی ضربیں لگائی جاتیں۔ حضرت بلالؓ ہر روز مرنے کے قریب ہو جاتے مگر امیہ بن خلف کے سوالات کے جواب میں احد احد کے سوا کچھ نہ کہتے۔ ایک دن اس نے تنگ آ کر انہیں بھوکا رکھا اور پھر گرم ریت پر لٹا کر مارنا شروع کر دیا مگر حضرت بلالؓ چٹانوں کے نیچے دبے دبے بھی اس کے ہر سوال کے جواب میں احد احد ہی دہراتے رہے۔ بنو جمح کے سارے محلے کو علم تھا کہ بلال کی اصلاح کی جا رہی ہے۔ بچہ بچہ ان کے نام سے واقف ہو گیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی اسی محلے میں رہتے تھے۔ وہ حضرت بلالؓ کو روزانہ دیکھتے اور نظریں نیچی کر کے چلے جاتے تھے۔ جب دھوپ اور کوڑوں کی سزا کارگر نہ ہوئی تو امیہ بن خلف نے حضرت بلالؓ کے گلے میں رسی باندھ کر بنو جمح کے لڑکوں کے حوالے کر دیا۔بچے سارا دن چیختے چلاتے، قہقہے لگاتے اور مکہ کے اونچے نیچے پتھریلے راستوں پر کھینچتے پھرتے۔ وہ رسی سے ان کی گردن کو جھٹکا دیتے تو حضرت بلالؓ گر پڑتے اور پھر وہ سب مل کر انہیں گھسیٹتے اگر وہ اٹھنے کی کوشش کرتے تو انہیں ٹھوکریں ماری جاتیں۔ اگر کبھی اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تو پھر رسی کے جھٹکے سے انہیں نیچے گرا دیتے۔ حضرت بلالؓ منہ کے بل گرتے تو پھر انہیں گھسیٹنا شروع کر دیتے۔ کبھی رسی اس زور سے کھینچتے کہ ان کا دم گھٹنے لگتا۔ نوکیلے کنکروں، سنگریزوں اور پتھروں کی رگڑ سے روز ہی ان کے جسم پر نئے زخم بنتے۔ پہلے زخم بھرنے بھی نہ پاتے تھے کہ پھر کھل جاتے۔ ان کا سارا جسم لہو لہان ہو جاتا۔ دوپہر کے وقت جب سارا مکہ تپ اٹھتا تو حضرت بلالؓ کے کپڑے اتروا کر انہیں لوہے کی زرہ پہنا دی جاتی اور پھر انہیں دھوپ میں لٹادیتے۔ ایک دن انہوں نے حضرت بلالؓ کو دہکتے ہوئے کوئلوں پر لٹا کر ان کے سینے پر ایک بھاری پتھر رکھ دیا۔ ایک روز حضرت بلالؓ روزمرہ کی طرح گرم چٹانوں تلے دبے امیہ بن خلف کے کوڑے کھا رہے تھے۔وہ لعین انہیں ہر کوڑے پر لات اور عزیٰ کی عبادت کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ادھر سے ورقہ بن نوفل کا گزر ہوا۔ وہ حضرت بلالؓ کے منہ سے احد احد کی آواز سن کر رک گئے اور انہوں نے بآواز بلند کہا : بلالؓ وہ واقعی ایک ہے۔ پھر انہوں نے امیہ بن خلف سے مخاطب ہو کر کہا :میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تو نے اسے مار ڈالا تو میں اس کی قبر پر درگاہ تعمیر کروں گا۔ مگر وہ لعین امیہ بن خلف پھر بھی باز نہ آیا۔ ہر روز دوپہر کو جب بچے حضرت بلالؓ کو مار مار کر نڈھال کر دیتے اور ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر گرم چٹانیں رکھ دیتے تو وہ بھی کوڑا گھماتا وہاں پہنچ جاتا اور ہر کوڑے کی ضرب کے بعد بلالؓ سے پوچھتا۔ تم محمد ﷺ کے اللہ کے منحرف ہوئے یا نہیں ؟ مگر حضرت بلالؓ کا جواب احد احد کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ حضرت بلالؓ کے والد کو غلام بنا لیا گیا تھا۔ حضرت بلالؓ تو پیدا ہی غلامی کی حالت میں ہوئے تھے۔ حضرت بلالؓ فرماتے ہیں: میں پیدا تو غلامی کی حالت میں ہوا تھا لیکن جب میں ماں کے شکم میں آیا تو میرے ماں باپ آزاد تھے۔ جب حضرت بلالؓ جوان ہوئے تو انہیں پہلی بار بازار میں فروخت کے لیے لایا گیا۔ اب وہ ابن غلام نہیں بلکہ بذاتِ خود غلام بننے والے تھے۔ پھر اس کے بعد وہ کوئی بار بکے۔ اونٹوں کے ساتھ، بکریوں کے ساتھ، بھیڑوں کے ساتھ اور بالکل انہی کی طرح۔ حضرت بلالؓ رات بھر غلام خانہ کے فرش پر کسمپرسی کی حالت میں پڑے کراہتے رہے۔ رسیوں سے جکڑے ہوئے، رسیاں ان کے زخموں میں دھنسی جاتی تھیں اور ان کی ذہنی کیفیت ایسی تھی جیسے اندر ہتھوڑے چل رہے ہوں۔ صبح ہو رہی تھی۔ حضرت بلالؓ گہرے گہرے سانس لے کر نئے دن کی تازہ ہوا کو اپنے اندر جذب کر رہے تھے۔ ان کا ذہن ایک اللہ کے تصور کی طرف چل پڑا تھا۔ ان دنوں وہ بالکل ان پڑھ تھے۔ اس دن اللہ کی توفیق سے بلالؓ نے خود کو ان ظالموں کے سپرد کر دیا۔ فیصلہ ہو چکا تھا کہ اگر وہ اپنے پرانے دین پر نہ لوٹے تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ اللہ کی قدرت سے سورج طلوع ہوا۔جب وہ ظالم حضرت بلالؓ کو لینے کے لیے آئے تو وہ سراپا تشکر تھے۔ ان بدنصیبوں کو کیا خبر تھی کہ یہاں کیا ہو چکا ہے۔ انہیں تو توقع تھی کہ بلالؓ ان کے سامنے گڑگڑا کر ان کے پاؤں پکڑ لیں گے۔ زمین پر ماتھا رگڑیں گے۔ ان سے رحم کی بھیک مانگیں گے لیکن جب ایسا نہ ہوا تو وہ سمجھے کہ بلالؓ پاگل ہو گئے ہیں۔ ان ظالموں نے عقوبت خانہ پر لے جانے کے لیے انہیں زمین سے اٹھایا مگر انہیں معلوم تھا کہ اللہ انہیں پہلے ہی ان کے ہاتھوں کی پہنچ سے کہیں بلندی پر لے جا چکا ہے۔ ان ظالموں نے حضرت بلالؓ کو اٹھایا اور تیزی سے باہر لے گئے۔ انہیں دیکھ کر گلی میں کچھ کھڑکیاں بند ہوئیں۔ سارا مکہ جانتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ غلاموں کو راہِ راست پر لانے کے معاملے میں اہل مکہ کا آپس میں مکمل اتفاق تھا۔ حضرت بلالؓ نے بغاوت کی تھی۔ حکم عدولی کی تھی۔ اپنے آقا کو اس کے احباب کے سامنے رسوا کیا تھا ان کے مذہبی عقائد سے ٹکر لی تھی۔ انہوں نے لات و عزیٰ کی معبودیت سے انکار کر دیا تھا اور ایک ان دیکھے خدا پر ایمان لے آئے تھے اور لات و عزیٰ کو جھٹلا دیا تھا۔ اہل مکہ کے نزدیک یہ بہت بڑا جرم تھا۔ بھلا یہ جرم کیسے معاف کیا جا سکتا تھا۔ یہ بے راہ روی ان کے لیے برداشت سے باہر تھی۔ وہ ظالم اور لعین حضرت بلالؓ کو ایک میدان میں لے گئے جس کے درمیان لکڑی کا ایک کھمبا گڑا ہوا تھا۔ اس کھمبے سے انہوں نے حضرت بلالؓ کو مضبوطی سے جکڑ دیا۔ اب امیہ بن خلف نے کوڑا سنبھال لیا۔ حضرت بلالؓ کے جسم مبارک پر کوڑے برس رہے تھے اور وہ زور زور سے اللہ کو پکار رہے تھے۔ اللہ کی رحمت جوش میں آ رہی تھی۔ حضرت بلالؓ کے دل کو اطمینان تھا کہ وہ خدائے واحد جو تمام زمین وآسمان کا مالک ہے جو سب مخلوق کا رازق ہے جو قادر مطلق ہے اس نے غلام کی پکار سن لی ہے۔ اب انہیں کوڑے پڑتے تھے تو وہ چیختے نہیں تھے۔ ہر کوڑے پر حضرت بلالؓ کی آواز مدھم ہو جاتی تھی مگر وہ نام اسی اللہ کا لے رہے تھے۔ انہوں نے اللہ سے رحم کی التجا کی، صرف اپنے اللہ سے رحم مانگا۔ امیہ بن خلف کوڑے برسا کر تھک جاتا تو کچھ دیر کے لیے سستانے لگتا۔ پھر دم لے کر دوبارہ ان پر کوڑے برسانے لگتا۔ حضرت بلالؓ پر کوڑے برسنے لگے۔ ایک، دو، تین نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت بلالؓ کا مزید امتحان لینا منظور نہ تھا۔ جب حضرت بلالؓ کھمبے کے ساتھ بے ہوشی کی حالت میں تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ وہاں تشریف لائے۔ انہوں نے جب مظالم کی انتہا دیکھی تو انہوں نے اپنے ایک رومی غلام فسطاط اور چالیس اوقیہ چاندی کے عوض حضرت بلالؓ کو امیہ بن خلف سے خرید لیا۔ اب انہوں نے حضرت بلالؓ کو اپنے ساتھ لیا اور بارگاہ نبوت ﷺ میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہﷺ حضرت بلالؓ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ارشاد فرمایا: ابوبکرؓ مجھے بھی اس نیک کام میں شریک کر لو۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا : یا رسول اللہﷺ گواہ رہیے کہ میں نے بلالؓ کو اللہ کی راہ میں آزاد کر دیا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ حافظہ تازہ رکھنے کے لیے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔ مختلف روایات میں مذکور ہے۔ حضرت حسان بن ثابتؓ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں: زمانہ جاہلیت کے ایام میں حج کے لیے مکہ مکرمہ گیا تو میں نے دیکھا کہ بلالؓ کو اوباش لڑکوں نے ایک رسے کے ساتھ باندھا ہوا ہے اور انہیں ادھر ادھر گھسیٹ رہے ہیں مگر بلالؓ مسلسل یہ بات دہراتے جا رہے ہیں۔ میں لات و عزیٰ اور سہل، نائلہ، بوانہ اور اساف ان تمام بتوں کی تکذیب کرتا ہوں۔ ایک دن امیہ بن خلف نے حضرت بلالؓ پر ظلم وستم کی انتہا کر دی تھی۔ وہ آپؓ پر بے انتہا ظلم کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ کہتا جاتا تھا:تم لات و عزیٰ پر ایمان لے آؤ۔ حضرت بلالؓ نے فرمایا:میں تو لات و عزیٰ سے بیزار ہو گیا ہوں۔ وہ خدا نہیں ہیں خدا تو صرف وہ ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا، وہی ہمارا رازق ہے۔ یہ سن کر بدبخت امیہ بن خلف غصے سے بے قابو ہو گیا اور حضرت بلالؓ کے سینہ مبارک پر بیٹھ گیا اور آپؓ کا گلا دبانے لگا۔ یہاں تک کہ حضرت بلالؓ بے حس و حرکت ہو گئے۔ صبح سے شام تک آپؓ بے ہوش پڑے رہے جب ہوش آیا تو امیہ بن خلف پھر آ ٹپکا اور بولا :کہہ دو کہ میں لات و عزیٰ پر ایمان لایا۔ حضرت بلالؓ نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور احد احد کہنے لگے۔ اسی اثناء میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ادھر سے گزر ہوا تو وہ حضرت بلالؓ کو اس حال میں دیکھ کر تڑپ اٹھے۔ فوراًرسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور حضرت بلالؓ پر ہونے والے ظلم وستم کا ذکر کیا۔ رسول اللہ ﷺ کی چشمانِ اطہر بھیگ گئیں۔ دوسرے دن پھر اسی طرح حضرت بلالؓ کو اذیت دی جا رہی تھی اور انہیں تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر گرم گرم پتھر رکھے ہوئے تھے۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا گزر اس طرف سے ہوا۔ حضرت بلالؓ کو اس حالت میں دیکھ کر بے تاب ہو گئے اور آبدیدہ ہو گئے۔ انہوں نے امیہ بن خلف سے فرمایا:اے امیہ ! اس غلام کو اذیت دینے سے تمہیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟ اللہ سے ڈر اور اس عذاب سے اپنا ہاتھ روک لے۔ امیہ بن خلف نے کہا :یہ میرا غلام ہے۔ مجھے حق ہے کہ اس کے ساتھ جیسا بھی سلوک کروں اسے میں نے اپنا مال دے کر خریدا ہے مجھے اسے سزا دینے کا پورا حق حاصل ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا:وہ شخص جو کہتا ہے کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں تو اس کو تکلیف اور اذیت دے رہا ہے یہ کس قدر ظلم ہے جو تم نے روا رکھا ہے۔ امیہ بن خلف نے کہا :اے ابو قحافہ کے بیٹے! تم نے ہی اس غلام کو اس نقصان کے راستے پر ڈالا ہے اور اسے بتوں سے نفرت دلائی ہے اور ان بتوں کی عبادت سے روکا ہے اور محمدﷺ کے دین کی طرف راغب کیا ہے۔ اب اس مصیبت سے تم ہی چھڑاؤ۔ اگر تمہارے دل میں اس کے لیے رحم کا جذبہ موجزن ہے تو اسے مجھ سے خرید لو۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور فرمایا:میں حضرت بلالؓ کے بدلے تمہیں ایک نصرانی غلام فسطاط اور چالیس اوقیہ چاندی دیتا ہوں۔ امیہ بن خلف نے منظور کر لیا۔ پھر ہنسنے لگا۔ حضرت ابوبکرؓ نے ہنسنے کا سبب پوچھا تو کہنے لگا:ربِ کعبہ کی قسم! تم نے بڑے نقصان کا سودا کیا ہے اگر تو مجھ سے اسے ایک درہم میں بھی خریدتا تو میں فروخت کر دیتا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا :اس خدائے واحد کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ میں نے بہت ہی اعلیٰ اور نفع بخش سودا کیا ہے۔ اگر تو مجھ سے اس ایک غلام کے بدلے میرا تمام مال طلب کرتا تو میں فوراً دے دیتا اور یہ غلام تم سے لے لیتا۔ یہ سن کر امیہ بن خلف خاموش ہو گیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت بلالؓ کا ہاتھ پکڑا اور اپنی چادر مبارک سے حضرت بلالؓ کے جسم مبارک پر لگے گرد وغبار کو صاف کیا اور حضورﷺ کی خدمت اقدس میں نیا لباس پہنا کر لے گئے اور فرمایا : یا رسول اللہﷺ ! گواہ رہیے کہ میں نے بلالؓ کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے آزاد کر دیا ہے۔ اس ضمن میں ایک اور روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت بلالؓ کو اس حالت میں خریدا کہ وہ ایک بہت بڑے بھاری پتھر تلے دبے ہوئے تھے اور سخت تکلیف میں مبتلا تھے۔ ہر روز حضرت بلالؓ پر اس طرح کفار مظالم ڈھاتے رہے۔ رسول اللہ ﷺ حضرت بلالؓ کی دین پر ثابت قدمی سے بہت خوش تھے مگر اس کے ساتھ ہی آپ ﷺ حضرت بلالؓ پر ہونے والے ظلم کی وجہ سے بہت بے چین تھے۔ ایک روز حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا: اگر ہمارے پاس مال ہوتا تو میں بلالؓ کو خرید لیتا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی شدت سے محسوس کیا کہ رسول اللہﷺ کی خواہش کو فوری طور پر پورا ہونا چاہیے۔ چنانچہ وہ حضرت عباسؓ سے ملے اور ان سے کہا : میرے لیے بلالؓ کو خرید لیں۔ حضرت عباسؓ امیہ بن خلف کی بیوی کے پاس تشریف لے گئے کیونکہ وہ ان کے لے پالک تھے۔ انہوں نے امیہ بن خلف کی بیوی سے فرمایا: اپنے اس غلام جس کا نام بلالؓ ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ مار کھا کھا کر تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور تم اس کی قیمت سے محروم ہو جاؤ اسے فروخت کر دو۔ امیہ بن خلف کی بیوی نے کہا :تم اس کو لے کر کیا کرو گے؟ وہ کسی کام کا نہیں رہا۔ اس نے حضرت عباسؓ کو ٹال دیا۔ حضرت عباسؓ تشریف لے آئے مگر وہ دوسری مرتبہ پھر اس کے پاس گئے اور اس مرتبہ اپنی بات منوا کر واپس ہوئے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ نے حضرت بلالؓ کو خرید کر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سپرد کر دیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت بلالؓ کو آزاد کر دیا۔ ایک روایت جو اس بارے میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے : حضرت بلالؓ امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ امیہ بن خلف بہت ہی دولت مند شخص تھا۔ اس کے کئی بیٹے اور بارہ غلام تھے، لیکن وہ حضرت بلالؓ کو سب سے زیادہ چاہتا تھا، اور انہیں اپنے بت خانہ کا نگران مقرر کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت بلالؓ کو دولت ایمان سے مالا مال کیا تو آپؓ بت خانے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے جبکہ دوسرے تمام لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ جب امیہ بن خلف کو اس بات کا علم ہوا تو وہ غصے سے آگ بگولا ہو گیا اور پوچھنے لگا : کیا محمد ﷺ کے رب کی پرستش کرتے ہو؟ حضرت بلالؓ نے جواب دیا:میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ سن کر امیہ بن خلف کا غصہ ساتویں آسمان پر جا پہنچا وہ آپؓ پر تشدد کرنے لگا۔ جب سورج نصف النہار پر آ جاتا اور گرمی کی تپش سے زمین لوہے کی مانند گرم ہو جاتی تو حضرت بلالؓ کو مکہ مکرمہ کے کھلے میدان میں لے جایا جاتا اور برہنہ کر کے گرم وزنی پتھر کہ جن پر گوشت بھن دیا جائے، ان کے سینہ مبارک اور پہلو پر رکھ دیے جاتے پھر جسم پر گرم گرم ریت ڈالی جاتی اور سخت تکلیف دی جاتی لیکن تمام تر تکالیف کے باوجود حضرت بلالؓ کی زبان مبارک پر احد احد کے الفاظ جاری ہوتے۔ کبھی آپؓ کو کانٹوں پر کھینچا جاتا یہاں تک کہ کانٹے آپؓ کے جسم میں گزرتے اور آپؓ کی ہڈیوں کو لگتے مگر آپؓ اس قدر تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہونے کے باوجود احد احد پکارتے رہتے۔ رسول اللہ ﷺ کو حضرت بلالؓ پر ہونے والے ظلم وستم کی مکمل خبر تھی اور آپ ﷺ اس بارے سخت بے چین بھی تھے۔ چونکہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کا گھر بنو جمع کے محلہ میں ہی تھا، اس لیے وہ ہر روز حضرت بلالؓ پر ہونے والے مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور بڑے بے تاب ہوتے۔ حضرت بلالؓ کو امیہ بن خلف کے ظلم سے بچانے کے لیے کافی غور و فکر کیا۔ ایک روز جبکہ امیہ بن خلف نے ظلم وستم کی انتہا کر دی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ سے مزید برداشت نہ ہو سکا اور امیہ بن خلف کے پاس جا پہنچے اور اس سے فرمایا:اے امیہ ! اس بے چارے غلام پر اس قدر ظلم نہ کرو اس میں تمہارا کیا نقصان ہے کہ وہ خدائے واحد کی عبادت کرتا ہے اگر تو اس پر مہربانی کرے گا تو یہ مہربانی قیامت کے دن تیرے کام آئے گی۔ امیہ بن خلف نے انتہائی حقارت سے جواب دیا :میں تمہارے قیامت کے دن کو نہیں مانتا میرے دل میں جو آئے گا وہ میں کروں گا۔ یہ میرا غلام ہے میں جو مرضی اس کے ساتھ سلوک کروں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے امیہ کو ایک بار پھر نرمی سے سمجھایا:تم قوت والے ہو یہ غلام تو بے بس ہے اور اس پراس قدر ظلم وتشدد کرنا تمہاری شان کو زیب نہیں دیتا۔ تم ایسا کر کے عربوں کی قومی روایات کو داغ دار کر رہے ہو۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی آخر اس بحث سے تنگ آ کر امیہ بن خلف نے کہا :اے ابوقحافہ کے بیٹے! اگر اس غلام کے تم اتنے ہی خیر خواہ ہو تو تم مجھ سے اسے خرید کیوں نہیں لیتے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے موقع غنیمت جانا اور فوراً ارشاد فرمایا:کیا قیمت لو گے اس کی؟ امیہ بن خلف بڑا چالاک آدمی تھا۔ اس نے خیال کیا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس ایک رومی غلام فسطاط بڑے کام کا ہے جس کی قیمت اہل مکہ کے نزدیک بہت زیادہ ہے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ وہ رومی غلام فسطاط دینے پر رضامند نہیں ہوں گے اور یوں اس بحث و مباحثہ سے نجات مل جائے گی چنانچہ اس خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے فوراً بولا : تم مجھے اپنا رومی غلام دے دو اور بلالؓ کو لے جاؤ۔ ادھر امیہ بن خلف کے منہ سے یہ بات نکلی ادھر فوراً ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ سودا منظور فرما لیا اور حضرت بلالؓ کے بدلے میں اپنا رومی غلام فسطاط دینے پر تیار ہو گئے۔ امیہ بن خلف نے جب یہ دیکھا کہ بات اتنی جلدی بن گئی ہے تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی اب اس نے پینترا بدلا اور کہنے لگا:میں رومی غلام بھی لوں گا اور اس کے ساتھ چالیس اوقیہ چاندی بھی لوں گا۔ امیہ بن خلف کا یہ خیال تھا کہ اس مرتبہ حضرت ابوبکرؓ نہیں مانیں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ حضرت ابوبکرؓ اس بات پر بھی رضامند ہو گئے اور یوں یہ سودا طے پا گیا۔ امیہ بن خلف اس زعم میں مبتلا تھا کہ اس نے بڑے ہی نفع کا سودا کیا ہے۔ حضرت بلالؓ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سپرد کر کے چالیس اوقیہ چاندی اور رومی غلام لے لیا۔ وہ اس سودے پر بڑا خوش تھا۔ گھمنڈ میں آ کر ہنسا اور بولا :اے ابوقحافہ کے بیٹے! اگر تمہاری جگہ پر میں ہوتا تو اس غلام کو ایک درہم کے چھٹے حصے کے بدلے میں بھی نہ خریدتا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا:اے امیہ ! تو اس غلام کی قدر و قیمت نہیں جانتا اس کی قدر مجھ سے پوچھ یمن کی بادشاہی بھی اس کے عوض کم ہے۔ یہ فرما کر حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت بلالؓ کو لے کر چل پڑے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں پہنچے اور اس واقعہ کے بارے میں اللہ کے آخری رسولﷺ کو بتایا حضورﷺ سن کر بہت خوش ہوئے اور ارشاد فرمایا:ابوبکرؓ مجھے بھی اس نیک کام میں شریک کر لو۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا :یا رسول اللہ ﷺ گواہ رہیے کہ میں نے بلالؓ کو آزاد کر دیا۔ اس پر رسولﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ ایک راوی بیان کرتے ہیں: جب سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ گرمی کے شعلے برساتا تو بدبخت امیہ بن خلف حضرت بلالؓ کو لوہے کی زرہ پہنا کر سخت دھوپ میں ڈال دیتا اور کبھی گائے یا اونٹ کی کھال میں لپیٹ کر کہتا :جب تک تم مر نہ جاؤ گے میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ ایک اور روایت میں ہے: ایک مدت تک امیہ بن خلف حضرت بلالؓ پر اپنے چیلوں کے ساتھ ظلم وستم کرتا۔ظلم وستم کا یہ سلسلہ کسی دن بھی نہ ٹوٹا۔ ہر روز یہ عمل دہرایا جاتا۔ حضرت بلالؓ کو دین حق سے باز رکھنے کے لیے اذیت کا ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ مشرکین آپؓ کو اذیتیں دے دے کر تھک جاتے تھے، مگر حضرت بلالؓ کی زبانِ اطہر سے سوائے احد احد کے کچھ نہ سن پاتے تھے۔ اس قدر کوشش کے باوجود جب اپنے مقصد میں ناکامی دیکھتے تو غضب ناک ہو کر دوبارہ تشدد کا حربہ استعمال کرتے مگر نتیجہ پھر بھی ان کے حق میں نہ ہوتا۔ ظلم و تشدد کی بھٹی میں پڑ کر حضرت بلالؓ کندن سے بھی زیادہ قیمتی بن چکے تھے۔ آپؓ کے جسم پاک کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو امیہ بن خلف کے تشدد کی وجہ سے متاثر نہ ہوا ہو۔ جسم کا انگ انگ زخمی تھا۔ وہ بھوکے پیاسے امیہ بن خلف کی مار سہتے جاتے تھے۔ جن جن بتوں کا وہ بدبخت نام لیتا آپؓ ان کی تکذیب کرتے اور احد احد پکارتے۔ یہ سب کچھ حضرت بلالؓ صرف اور صرف اس لیے برداشت کر رہے تھے کہ دین حق پر ایمان لے آئے تھے اور رسول اللہﷺ کی غلامی اختیار کر لی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مضبوط ایمان سے نواز دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے عشق و محبت میں اپنی جان کی پرواہ بھی نہ رکھی تھی۔ دل میں ایک امنگ ضرور تھی کہ کبھی تو امیہ بن خلف کے ظلم سے نجات ملے گی اور اپنے آقا ﷺ کے حضور حاضری دوں گا۔ دل میں یہ خیال آتا کہ میری حالت کی خبر میرے آقاﷺ کو ضرور ملتی ہے اور ان کی نظر کرم مجھ پر ضرور ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے جو جذبات میرے بارے میں ہیں میں ان میں کمی نہ آنے دوں گا۔ چاہے یہ ظالم میرے جسم کی بوٹی بوٹی نوچ لیں مگر اپنے آقا ﷺ کی غلامی سے منہ نہ موڑوں گا۔ ایک اور روایت میں حضرت عمرو بن العاصؓ سے مروی ہے: میں نے اس حالت میں بلالؓ کو دیکھا کہ امیہ بن خلف نے ان کو اس قدر تپتی ہوئی ریت پر لٹا رکھا تھا کہ جس پر گوشت رکھ دیا جائے تو وہ بھن جائے لیکن بلالؓ ایسی حالت میں کہہ رہے تھے:میں لات و عزیٰ کا انکار کرتا ہوں۔ اس قدر تشدد کے باوجود بھی حضرت بلالؓ نے دین حق سے منہ نہ موڑا تو امیہ بن خلف مزید بھڑک اٹھا اور اس نے اپنے دوسرے غلاموں اور بنی جمح کے آوارہ لڑکوں کو اشارہ کیا: محمد ﷺ کے نام لیوا پر اس قدر تشدد کرو کہ وہ (محمدﷺ ) اور (محمد ﷺ ) کے خدا کا نام لینا چھوڑ دے۔ امیہ بن خلف کے اشارے پر یہ لوگ آگے بڑھے اور حضرت بلالؓ پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی۔ یہ لوگ امیہ بن خلف کو خوش کرنے کے لیے حضرت بلالؓ کو بری طرح زد و کوب کرتے۔ ان کو برہنہ کر کے سارا دن لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں ڈال دیتے جب شام ہوتی تو ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک کوٹھڑی میں ڈال دیتے۔ رات کو بھی آپؓ پر تشدد جاری رہتا۔ اس وقت اذیت سہنے کے باوجود حضرت بلالؓ کی زبان مبارک سے صرف احد احد ہی نکلتا۔ حضرت بلالؓ کو جو کمالات و مراتب نصیب ہوئے۔ وہ سب کو معلوم ہیں۔ ان کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔ مروی ہے : حضرت عبدالرحمنؓ کو مال غنیمت میں سے کئی زرہیں ملیں، انہیں لے کر وہ چلے آ رہے تھے۔ راستے میں امیہ بن خلف اور ان کا بیٹا بندھے ہوئے قیدیوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دونوں باپ بیٹے اور حضرت عبدالرحمنؓ کی مکہ میں بڑی دوستی تھی۔ حضرت عبدالرحمنؓ کو دیکھتے ہی وہ دونوں پکار اٹھے:اے عبد الرحمنؓ اگر ان زرہوں سے زیادہ ہم تم کو پیارے ہیں تو ہمیں قتل ہونے سے بچا۔ حضرت عبدالرحمنؓ کو دوستوں کا خیال آگیا۔ زرہیں ہاتھ سے پھینک دیں اور ان دونوں کا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہﷺ کے پاس سفارش کے لیے لے کر چلے۔ مگر رسول اللہﷺ تو پہلے ہی امیہ بن خلف کی نسبت پیشین گوئی فرما چکے تھے: وہ میرے اصحاب کے ہاتھ سے مارا جائے گا۔ پھر بھلا وہ کیسے بچتا۔ اب قدرت کا تماشا دیکھیں کہ حضرت بلالؓ کبھی امیہ بن خلف کے غلام تھے اور یہ ان کو بہت ستایا کرتا تھا۔ کہیں راستہ میں مل گئے اور حضرت بلالؓ پکار اٹھے۔:مسلمانو! وہ دیکھو خدا اور رسول ﷺ کا دشمن امیہ یہ جاتا ہے۔لوگ دوڑ پڑے اور دونوں باپ بیٹے کو مار ڈالا۔ حضرت عبدالرحمنؓ ہزار شور و غل مچاتے رہے مگر کسی نے ان کی ایک نہ سنی۔ حضرت عبدالرحمنؓ بولے :اے بلالؓ تم پر خدا کی رحمت ہو تم نے میری زرہیں بھی کھوئیں اور میرے قیدیوں کو بھی قتل کرا دیا۔ مگر اس سے پہلے ان صعوبتوں کا ذکر ہو جائے تو اسلام کے نام لیواؤں پر گزریں۔ جب کفارِ مکہ مسلمانوں کی سخت جانی سے تنگ آ گئے تو اذیتوں کا ایک نیا دور شروع ہوا جو کوڑوں سے کہیں زیادہ اذیت ناک تھا۔ ایک اجتماعی سزا تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے سارے خاندان یعنی بنو ہاشم کے سب افراد کو شہری زندگی سے خارج کر دیا گیا۔ یہ محض ایک معاشرتی مقاطعہ نہیں تھا۔ قطع رحمی کی بدترین مثال تھی۔ اللہ کی زمین پر ایذا رسانی کی ایک انتہائی ہولناک صورت، انسان پر انسان کے ظلم کی ایک بدترین مثال تھی۔ بنو ہاشم سے ہر قسم کا لین دین، شادی بیاہ ممنوع قرار دیا گیا تھا کوئی ان کو مہمان نہیں ٹھہرا سکتا تھا۔ کسی صورت میں ان کی مد د نہیں کر سکتا تھا۔ نہ روپے پیسے کی صورت نہ جنس اجناس کی صورت میں۔ جب قریش نے یہ عہد کیا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب سے کسی چیز کی خرید و فروخت نہیں کریں گے تو تمام قریش نے اس عہد پر دستخط کیے۔ اس عہد سے بنی ہاشم کو بہت نقصان پہنچا اور وہ بڑی مصیبت میں گرفتار ہو گئے۔ رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ شعب ابی طالب میں چلے گئے۔ رسول اللہﷺ اور دوسرے مسلمان جب شعب ابی طالب میں پہنچے تو چونکہ مکہ سے ان کی روانگی انتہائی عجلت میں ہوئی تھی۔ اس لیے وہ مناسب مقدار میں اشیائے خورد و نوش اپنے ساتھ نہ لاسکے۔ حضرت بلالؓ بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شعب ابی طالب میں محصور ہوئے تھے اور آپؓ نے بھی رسول اللہ ﷺ او ر دوسرے مسلمانوں کے ساتھ وہاں انتہائی دردناک لمحوں اور بھیانک مصائب کا مقابلہ کیا۔ انہی دنوں جب مسلمان شعب ابی طالب میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے تو ایک دن حضرت خدیجہؓ کا بھتیجا اپنی پھوپھی کے لیے کچھ اشیائے ضرورت لے کر نکلا کیونکہ حضرت خدیجہؓ بھی رسول اللہﷺ کے ہمراہ اس گھاٹی میں قیام پذیر تھیں۔ قریش کے افراد نے جو اس بات کی نگرانی کر رہے تھے کہ مسلمانوں کو کسی طور اشیائے خورد و نوش فراہم نہ ہو سکے حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے کو مکہ سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا۔ انہوں نے اس کا تعاقب کیا اور پھرسارا سامان ضبط کرنے کے بعد اتنا زد و کوب کیا کہ وہ بے چارہ تین دن تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہا۔ رسول اللہﷺ اگر ضعیف العزم انسان ہوتے تو وہ ان مصائب سے گھبرا کر اپنے دین سے چشم پوشی کر لیتے یا کم از کم عارضی طور پر ان مصائب سے گھبرا کر اپنے دین کی تبلیغ ملتوی کر دیتے تاکہ جب قریش کا غصہ فروکش ہو جاتا اور ان کے غضب کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی تو مناسب موقع ملنے پر اپنے دین کی نئے سرے سے تبلیغ شروع کر دیتے لیکن چونکہ آپ ﷺ مضبوط ارادے اور آہنی عزم کے مالک تھے لہٰذا اپنے دین کو نہ چھوڑا۔ شعب ابی طالب میں مسلسل رنج اور دائمی بھوک کی وجہ سے حضرت خدیجہؓ عسرت اور تنگ دستی کی وجہ سے بیمار ہو گئیں اور ۶۱۹ء میں انہوں نے جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے دو دن بعد مسلمانوں کو دوسرا صدمہ پہنچا اور رسول اللہﷺ کے چچا ابوطالب چھیاسی سال کی عمر میں اس دار فانی کو وداع کر گئے۔ وہ بھی بھوک و ناداری اور ضعف کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے گئے تھے۔ اتفاق سے انہی دنوں مکہ والوں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ میں لٹکے ہوئے فرمان کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ صرف یہ عبارت باقی رہ گئی تھی: ساتھ تیرے نام کے اے اس گھر کے مالک۔ اس سے پہلے رسول اللہ ﷺ بھی پیشین گوئی فرما چکے تھے کہ فرمان کو دیمک نے چاٹ لیا ہے اور وہاں صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے۔ قریش نے جب یہ دیکھا کہ دیمک نے محمد ﷺ اور دوسرے مسلمانوں کے شہر بدر ہونے کے فرمان کو چاٹ لیا ہے اور صرف۔ خدا کا نام باقی رہنے دیا ہے تو ان پر انجانا خوف طاری ہو گیا۔اتفاقاً یہ واقعہ ٹھیک اس وقت پیش آیا جب ابو طالب انتقال کر چکے تھے۔ آخر تین سال کے بعد رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو اس قید سے رہائی ملی۔ ایک روایت میں ہے: رسول اللہﷺ نے اپنے چچا ابوطالب سے فرمایا: اے چچا ! قریش نے جو عہد نامہ لکھا تھا اللہ تعالیٰ نے اس پر دیمک کو مسلط کیا اور دیمک اس کو کھا گئی صرف خدا کا نام باقی چھوڑا ہے۔ ابوطالب نے کہا :کیا تمہارے خدا نے تم کو اس بات کی خبر دی ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا:ہاں ابوطالب یہ سن کر قریش کے پاس آئے اور کہا: اے گروہ قریش! میرے بھتیجے نے مجھے ایسا کہا ہے۔ پس تم اپنے عہد نامہ کو دیکھو۔ اگر واقعی اس کی یہی صورت رہی تو اپنے ظلم وستم سے جو تم لوگوں نے ہم پر روا کر رکھا ہے ہاتھ کھینچ لو۔ اگر میرے بھتیجے کا کہنا غلط ہوا تو میں اپنے بھتیجے کو تمہارے حوالے کر دوں گا۔ قریش اس بات پر راضی ہو گئے پھر جب عہد نامہ کو دیکھا تو اس کو رسول اللہﷺ کے فرمان کے مطابق دیمک کھا گئی تھی۔ صرف خدا کا نام باقی تھا۔ پھر اس عہد نامہ کو پھاڑ دیا گیا۔ اب حضرت بلالؓ ایک بار پھر آزاد تھے۔ رسول اللہﷺ کی تبلیغ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ انہیں کسی اجتماع میں خطاب کرنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ مشرکین مکہ کے سرداروں کا فیصلہ تھا۔ اس صورت حال میں اللہ کے آخری رسولﷺ خود بھی مکہ سے ہجرت کر کے کسی اور شہر میں سکونت پذیر ہونے کے لیے سوچ رہے تھے۔ کوئی ایسا شہر جہاں کے لوگوں کے دل سخت نہ ہوں۔ نفرتیں اتنی گہری نہ ہوں، غصے میں اتنی شدت نہ ہو۔ رسول اللہﷺ اکثر سوچا کرتے تھے کہ وہ طائف چلے جائیں۔ طائف مکہ سے جنوب میں ایک سرسبز اور پر فضا شہر تھا جو ایک پہاڑی پر آباد تھا۔ اس شہر میں لات کی پرستش ہوتی تھی۔ آخر ایک دن رسول اللہﷺ نے طائف کا رخت سفر باندھ لیا۔ طائف مکہ سے ستر میل دور تھا۔ رسول اللہﷺ حضرت زید بن حارثؓ کو ساتھ لے کر پاپیادہ وہاں کے لیے روانہ ہو گئے۔ جب رسول اللہﷺ طائف کے لیے روانہ ہو گئے تو حضرت بلالؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ نے سوچا کہ رسول اللہﷺ کا اس طرح جانا مناسب نہیں ہے۔ ان کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہونے چاہئیں۔ یہ سوچ کر وہ ان کے پیچھے روانہ ہو گئے اور کچھ ہی دیر میں انہیں جالیا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں دیکھا تو واپس بھیج دیا۔ رسول اللہﷺ بخیر و عافیت طائف پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر وہ سیدھے عمرو بن امیہ کے بیٹوں سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گئے۔ عمرو بن امیہ کے تینوں بیٹے طائف کے سب سے با اثر سردار تھے۔رسول اللہﷺ وہاں پہنچے تو دربار سا لگا ہوا تھا۔ تینوں بھائی گدوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے انواع واقسام کی اشیائے خوردنی رکھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے رسول اللہﷺ کو نہایت حقارت سے دیکھا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو ایک بھائی بولا :اگر اللہ نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے تو میں کعبہ کا نقاب نوچ کر پھینک دوں گا۔ دوسرا کہنے لگا:اللہ کو تم سے بہتر کوئی انسان نہیں ملا تھا؟ تیرے بھائی نے حد ہی کر دی، کہنے لگا:اگر تم اللہ کے رسول ہو تو ہمارا منصب نہیں ہے کہ ہم تم جیسے فرشتوں سے بات کر سکیں اور اگر تم رسول نہیں ہو تو تم جھوٹے اور فریبی ہو، اس صورت میں بھی ہمیں تم سے بات نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور پتھر اور کنکر جو ہاتھ میں آیا اٹھا اٹھا کر رسول اللہﷺ پر پھینکنے لگے۔ ان کے حواری بھی اس شغل میں ان کے شریک تھے۔ محلے کے بچے بھی شامل ہو گئے۔ چیختے چلاتے، طوفان برپا کرتے بچے جنہیں کچھ ہوش نہ تھا، کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ تفریح سمجھ کر ان پر پتھروں کے وار کیے جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ پتھروں سے نڈھال، جان بچا کر وہاں سے نکلے اور صحرا کی راہ لی۔ دو ہفتے بعد جب رسول اللہﷺ واپس آئے تو پہچانے نہیں جا رہے تھے۔ کمزور، نحیف، سارے بدن پر رستے ہوئے زخم بڑی مشکل سے قدم اٹھا رہے تھے۔ آتے ہی ہاتھ کے اشارے سے پانی مانگا۔ پانی پی کر خاموشی سے اندر چلے گئے اور جا کر بستر پر لیٹ گئے۔ سیدنا بلال حبشیؓ اپنے آقا ﷺ کی یہ حالت دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے۔ آنسو ان کی آنکھوں سے رواں تھے۔ وہ ان کی تکلیف پر پریشان ہو گئے۔ سیدنا بلال حبشیؓ امیہ بن خلف کے سیاہ فام سابق غلام جو اب مسلمانوں کے ایک ذمہ دار قائد تھے۔ جب وہ سوچتے تو ان کا دل خوشی سے جھوم جھوم اٹھتا، اور وہ اپنے رب سے التجا کرتے:اے میرے اللہ مجھے تکبر سے محفوظ رکھ۔ مکہ سے ہجرت کا معاملہ تھا۔ ایذارسانیاں عروج پر پہنچ چکی تھیں۔ مسلمان کفار کی دست برد سے محفوظ نہ تھے۔ آئے دن ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے تھے۔ انہیں مختلف طریقوں سے ستایا جاتا تھا۔ سیدنا بلال حبشیؓ اب آزاد تھے مگر اب بھی کفار کی ایذارسانیوں سے محفوظ و مامون نہ تھے بلکہ کوئی مسلمان بھی حتیٰ کہ اللہ کے آخری رسول ﷺ بھی ان کے شر سے محفوظ نہ تھے۔ ہر شخص ان کے خون کا پیاسا تھا۔ مکہ سے مسلمانوں کی ہجرت کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ سب کو مدینہ طیبہ جانا تھا۔ حکمت عملی یہ تھی کہ لوگ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی وقت صحرا میں نکل جائیں اور الگ الگ راستوں سے ہوتے ہوئے مدینہ طیبہ پہنچ جائیں۔ ہر ٹولی کی ہجرت کی رات رسول اللہﷺ خود متعین فرماتے تھے۔ یہ سب کام انتہائی احتیاط اور راز داری سے کیا جا رہا تھا۔ رسول اللہﷺ مہاجرین کی ہمت بندھاتے تھے اور ان کے زاد سفر کا انتظام کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ کو سب سے بڑا خدشہ یہ تھا کہ دشمن کہیں صحرا میں مسلمانوں کو گھیر کر ان کا قتل عام نہ کر دیں۔ہر کام احتیاط سے ہو رہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے حکم دے رکھا تھا۔ٹولیاں فاصلے فاصلے سے چلیں۔ ایک ٹولی کا قائد رسول اللہﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ کو مقرر کیا۔ سیدنا بلال حبشیؓ کی پہلی ملاقات اللہ کے آخری رسول ﷺ سے ہوئی تو وہ تنکوں کی ایک سادہ سی چٹائی پر اپنے عم زاد حضرت علیؓ کے ساتھ بیٹھے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ حضرت علیؓ نے جو ابھی بچے تھے ان کا ہاتھ تھام کر کہا: یارسول اللہﷺ آپ ﷺ انہیں دیکھ کر کیوں رو رہے ہیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا:علیؓ یہ وہ شخص ہے جسے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوئی ہے۔ یہ کہہ کر رسول اللہﷺ نے انہیں گلے سے لگا لیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: بلالؓ جب تک دنیا قائم ہے یہ بات یاد رکھی جائے گی کہ اسلام کی راہ میں اذیت برداشت کرنے والے پہلے شخص تم تھے۔ مدینہ منورہ کی آب و ہوا مہاجرین کو موافق نہ آئی اور وہاں جا کر موسمی بخار میں مبتلا ہو گئے۔ سیدنا بلالؓ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عامر بن فہیرہؓ تینوں ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ تینوں کو ایک ہی وقت میں بخار ہو گیا۔ بخار کی شدت میں سیدنا بلال حبشیؓ یہی کہا کرتے تھے:کاش مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی وقت ایسا بھی آئے گا جب میں مکہ کی وادی میں رات گزاروں گا اور میرے اردگرد اذخر اور جلیل گھاس ہو گی، اور کاش کوئی دن ایسا بھی میسر ہو گا جب میں مجنہ کے چشمہ سے پانی پیوں گا اور شام اور طفیل کی پہاڑیاں میرے سامنے ہوں گی۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کی یہ حالت دیکھی تو یہ دعا فرمائی:یا اللہ جس طرح تو نے ہمیں مکہ مکرمہ کی محبت عطا فرمائی ہے اس طرح مدینہ کی محبت بھی عطا فرما۔ اس سے زیادہ عطا فرما اور ہمارے صاع اور مد میں برکت عطا فرما اور ہمارے لیے اس کی آب و ہوا کو صحت بخش بنا دے اور اس کے بخار کو حجفہ کی جانب منتقل فرما دے۔ رسول اللہﷺ کی اس دعا کی برکت سے بیماروں کو تندرستی اور صحت کی دولت عطا ہوئی۔ روایات میں آتا ہے : ابھی مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر نہیں ہوئی تھی۔ سیدنا بلال حبشیؓ کے معمولات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ آپؓ ایک نیزہ اٹھا کر اللہ کے آخری رسولﷺ کے ساتھ ساتھ چلا کرتے تھے۔ اس لیے کہ جہاں کہیں نماز کا وقت ہو جاتا۔ رسول اللہﷺ اس جگہ پر امامت کے لیے کھڑے ہوتے اور سیدنا بلال حبشیؓ اللہ کے آخری رسول ﷺ کے آگے نیزہ گاڑ دیتے۔ اس طرح با جماعت نماز کی ادائیگی ہوتی تھی۔ روایت میں ہے کہ شاہ حبشہ اصحمہ جو کہ نجاشی کے لقب سے مشہور تھا۔ اس نے رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں چند نیزے تحفتاً بھیجے تھے اور یہ نیزہ بھی ان نیزوں میں سے ایک تھا۔ نجاشی کے بھیجے ہوئے نیزوں میں سے ایک نیزہ رسول اللہﷺ نے خود رکھ لیا تھا جبکہ دو نیزے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو عطا فرما دیے تھے۔ جو نیزہ سیدنا بلال حبشیؓ کو ملا تھا اس کے متعلق سیدنا بلال حبشیؓ کو حکم دیا گیا تھا۔اس نیزے کو ساتھ لے کر چلیں۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا بلالؓ اس نیزہ کو اٹھا کر ہمیشہ عیدین اور نماز استسقاء کے مواقع پر رسول اللہﷺ کے ساتھ ساتھ چلا کرتے۔ پھر نماز کھڑی ہونے سے قبل اس نیزہ کو رسول اللہﷺ کے آگے کچھ فاصلے پر زمین میں گاڑ دیا کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ بھی مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو وہاں پہنچنے کے دوسرے دن ہی رسول اللہ ﷺ نے تمام مسلمانوں کی مدد سے اس جگہ پر جہاں آپ ﷺ کی اونٹنی قصویٰ بیٹھی تھی، مسجد کی تعمیر شروع کر دی، اور بلا امتیاز سارے مرد جن میں خود رسول اللہﷺ بھی شامل تھے۔ اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈھوتے، گارا بناتے، اور مسجد کی تعمیر میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔ اس مسجد کی تعمیر میں سیدنا بلال حبشیؓ نے بھرپور حصہ لیا۔ اس مسجد کی تعمیر میں سات ماہ لگے تھے، اور مسلمانوں نے اس مسجد کو خاصا پائیدار اور مضبوط بنایا کیونکہ شہر مدینہ ایسا تھا جہاں بارشیں زیادہ ہوتی تھیں، اور اگر مسجد کو مضبوط نہ بنایا جاتا تو وہاں کی شدید بارشیں اسے نقصان پہنچا سکتی تھیں۔ ایک روایت میں ہے : مدینہ طیبہ ٹھہرنے کے فوراً بعد رسول اللہﷺ نے اس زمین کی بابت جہاں رسول اللہﷺ کی اونٹنی قصویٰ بیٹھی تھی۔ دریافت فرمایا: یہ زمین کس کی ملکیت ہے تاکہ اسے خرید کر یہاں مسجد بنائی جائے؟ حضرت معاذ بن عفراؓ نے عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺ سہل اور سہیل کی ہے۔ یہ دونوں بچے یتیم ہیں۔ میں ان دونوں کو معاوضہ دے کر راضی کر لوں گا۔ آپ ﷺ یہاں مسجد تعمیر کرائیں۔ رسول اللہﷺ نے معاوضہ دے کر یہ زمین خرید لی اور یہاں مسجد تعمیر ہونے لگی خود رسول اللہﷺ بھی اس کی تعمیر میں شریک ہوئے۔ مسلمان یہ رجز پڑھتے جاتے اور تعمیر کرتے جاتے تھے۔ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے۔ اے اللہ انصار اور مہاجرین پر رحم فرما سیدنا بلال حبشیؓ کے ہمراہ ہجرت کرنے والے حضرت عمار بن یاسرؓ بھی مسجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ سیدنا بلال حبشیؓ کا مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر میں حصہ لینے کا جذبہ بھی نہایت قابل دید تھا۔ آپؓ تندہی سے مسجد کی تعمیر کے کاموں میں حصہ لے رہے تھے۔ رسول اللہﷺ بھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے ساتھ مل کر اینٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے اور مٹی آپ ﷺ کے شکم مبارک پر لگ جاتی تھی۔ رسول اللہﷺ کو کام کرتے دیکھ کر بچے بھی شو ق و ذوق کے ساتھ رسول اللہﷺ کے کام میں ہاتھ بٹانے کی غرض سے اپنے اپنے طور پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ بچوں کے کام کرنے کا طریقہ بھی اپنا ہی ہوتا ہے لیکن رسول اللہﷺ انہیں سختی سے منع نہ فرماتے تھے تاکہ ان کی دل شکنی نہ ہو۔سیدنا بلال حبشیؓ کام کرتے ہوئے بچو ں کی اس طرح کی دخل اندازی دیکھ کر آگے بڑھے اور بچوں کو منع کرنے کی کوشش کی۔رسول اللہﷺ نے تبسم فرماتے ہوئے بچوں سے فرمایا: بچو دیکھو بلالؓ اکیلا کام کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی نہیں تم سب اس کی مدد کرو۔ بچوں نے رسول اللہﷺ کا یہ فرمان سنا تو وہ سب کے سب سیدنا بلال حبشیؓ کے گرد ہو گئے۔ اس صورت حال میں سیدنا بلال حبشیؓ کو بچوں سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا۔ بچوں کو سیدنا بلال حبشیؓ کے گرد ہوتا دیکھ کر رسول اللہ ﷺ تبسم فرماتے جاتے تھے۔ اللہ کے آخری رسول ﷺ کی قیادت میں سیدنا بلال حبشیؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کی کوششوں سے جب مسجد نبوی کی عمارت چھت تک پہنچی تو رسول اللہ ﷺ کے ارشاد مبارک کے مطابق کھجوروں کی شاخیں چھت پر ڈال دی گئیں اور کھجوروں کے تنوں کے ستون بنائے گئے، ان میں سے بعض محراب میں بھی استعمال کیے گئے۔ مسجد نبوی ﷺ کی ابتدائی تعمیر میں سیدنا بلال حبشیؓ نے بھی حصہ لیا۔ رسول اللہ ﷺ کو جتنے بھی سفر درپیش ہوئے، سیدنا بلال حبشیؓ آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو اسلام کا سب سے بڑا مؤذن ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات تک سیدنا بلال حبشیؓ یہ خدمت بجا لاتے رہے۔ ان کا یہ دستور تھا کہ اذان دینے کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دینے کی غرض سے حضور اکرم ﷺ کے حجرے کے دروازے پر جاتے اور اونچی آواز میں کہتے: حی علی الصلٰوۃ حی علی الفلاح الصلٰوۃ یارسول اللہ جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے تشریف لے آتے تو اقامت کہتے اور نماز شروع ہو جاتی۔ اذان سے پہلے سیدنا بلال حبشیؓ اکثر ایک شعر کہا کرتے تھے: ما البلال ثکلتہ امہ وابتل من نفسح دمہ جبینہ بلال کون ہے اسے ماں روئے اس کا ماتھا خون کے بہنے سے تر ہوا۔ حضرت بلالؓ اور اذان رسول اللہ ﷺ نے مدینہ پہنچ کر مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ کا سلسلہ جاری فرمایا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ کا بھائی حضرت خالد ابورویحہؓ کو بنایا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ زندگی بھر سیدنا بلال حبشیؓ اور ابو رویحہؓ کے درمیان گہری دوستی رہی۔ احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سیدنا بلال حبشیؓ کی تعلیم و تربیت کا بڑا خیال رکھتے تھے اور انہیں ہمیشہ مختلف نصیحتیں فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا: اے بلالؓ مومن کا سب سے اچھا عمل اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فقر کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: اے بلالؓ ہمیشہ غربت کی زندگی بسر کرو اور غربت ہی کی حالت میں اپنی جان اللہ کے سپرد کر دو۔ بعض اوقات رسول اللہ ﷺ سیدنا بلال حبشیؓ کو سبق دینے کے لیے کہتے:بلالؓ میرے پاس کچھ مال جمع ہو گیا ہے، میں اسے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا تم اسے لے جاؤ اور حاجت مند لوگوں میں تقسیم کر دو، تاکہ میرے دل سے ایک بوجھ اتر جائے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ سیدنا بلال حبشیؓ کو یہ سکھانا چاہتے تھے کہ انسان کو ہمیشہ قناعت کی زندگی بسر کرنی چاہیے اور مال جمع کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ سیدنا بلال حبشیؓ نے بھی ہمیشہ اپنے آقا ﷺ کے حکم کی تعمیل کی اور مرتے دم تک ایک کوڑی نہ جمع کی۔ ایک مرتبہ اللہ رب العزت نے رسول اللہ ﷺ کو جنت کا نظارہ دکھایا اور آپ ﷺ نے اپنے آگے سیدنا بلال حبشیؓ کے قدموں کی آواز سنی، نماز کے بعد آپ ﷺ نے پوچھا:بلالؓ تمہیں اپنے کس عمل کے نتیجہ میں سب سے زیادہ ثواب ملنے کی امید ہے، کیونکہ میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی آواز اپنے آگے سنی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سیدنا بلالؓ کو رسول اللہ ﷺ پر نعوذ باللہ کسی قسم کی بڑائی حاصل ہے جس کی وجہ سے ان کے قدموں کی آہٹ جنت میں رسول اللہ ﷺ کے قدموں سے آگے تھی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدنا بلال حبشیؓ کو رسول اللہ ﷺ کے سچے خادم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ سیدنا بلال حبشیؓ اپنی اطاعت و فرمانبرداری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے: میں نے اسلام کے دوران کوئی ایسا بڑا عمل نہیں کیا جس کی بنا پر خدا کے خاص انعام کا مستحق ٹھہرایا جاؤں، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر وضو کے بعد دو رکعت نفل پڑھ لیا کرتا ہوں۔ انکساری کا یہ کیسا اعلیٰ نمونہ ہے جو سیدنا بلال حبشیؓ نے دکھایا۔ مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ کا ایک خاص خدمت کے لیے انتخاب کیا۔ مدینہ منورہ میں حالات مکہ سے کہیں بدلے ہوئے تھے، یہاں مکہ کی سی بے بسی اور مجبوری نہ تھی۔ نماز کے لیے منادی کا ذریعہ اذان قرار دیا۔ اذان دینے پر مامور ہونا کوئی معمولی شرف نہ تھا اور اللہ کے آخری رسول ﷺ نے یہ شرف سیدنا بلال حبشیؓ ہی کو عطا فرمایا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ سیدنا بلال حبشیؓ کی آواز نہایت جاذب اور دلکش ہونے کے علاوہ بہت بلند تھی۔ سیدنا بلال حبشیؓ اذان دیتے اور جہاں جہاں تک آواز پہنچتی لوگ بے اختیار اپنے اپنے کام کاج چھوڑ کر اذان سننے لگ جاتے۔ اس سلسلے میں ایک روایت ہے: مرد، عورتیں اور بچے گویا کشاں کشاں ان کے پاس پہنچتے اور ان کے گرد جمع ہونے لگتے۔ اس کے بعد آپؓ آستانہ نبوت پر جا کر بصد ادب و احترام۔ حی الصلوٰۃ حی الفلاح کہتے، رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے اور تکبیر کے بعد نماز ہو جاتی۔ (طبقات ابن سعد ج ۱) اذان کی مشروعیت سے پہلے الصلوٰۃ جامعۃ پکارا جاتا اور یہ الفاظ سیدنا بلال حبشیؓ ہی پکارتے تھے۔ اذان کا آغاز رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ میں ۱ھ یا پھر ۲ھ میں کیا۔ روایت ہے کہ تعین نماز کے لیے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں سے مشورہ کیا:اس کی کون سی صورت اختیار کی جائے؟ کسی نے ناقوس بجانے کا مشورہ دیا، جیسا کہ نصاریٰ نماز کے لیے بجاتے ہیں۔ کسی نے یہود کی طرح سینگ پھونکنے کا مشورہ دیا۔ کسی نے کہا: کسی بلند جگہ پر آگ روشن کر دینی چاہیے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن زیدؓ جنہیں صاحب الاذان کہا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک مرد آسمان سے نیچے اترا، اس کے ہاتھ میں ناقوس تھا۔ حضرت عبداللہ بن زیدؓ نے اس سے کہا:اے بندۂ خدا اسے بیچتے ہو؟ اس شخص نے پوچھا:تم اس کا کیا کرو گے؟ حضرت عبداللہ بن زیدؓ نے فرمایا:میں اس سے نماز کے لیے لوگوں کو بلاؤں گا۔ اس پر اس شخص نے کہا:میں تمہیں اس سے بہتر چیز سکھاتا ہوں۔ تو اس نے اللہ اکبر اللہ اکبر تک مخصوص کیفیت کے ساتھ سکھایا۔ اسی طرح اقامت بھی سکھائی جب انہوں نے صبح کی تو اپنا خواب رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الرویا حق انشاء اللہ تعالیٰ۔ جاؤ سیدنا بلالؓ کو بلا لاؤ اور یہ کلمات بتاؤ۔ اس لیے کہ اس کی آواز بلند تر، نرم تر اور شیریں تر ہے۔ سیدنا بلال حبشیؓ نے اذان دی تو سیدنا فاروق اعظمؓ دوڑتے ہوئے اور اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے آئے اور عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! میں نے بھی وہی کچھ دیکھا ہے جو عبداللہ بن زیدؓ نے بیان فرمایا ہے۔ فللّٰہ الحمد! اگر ایسے ہی تو ہے ان دونوں خوابوں میں موافقت اللہ تعالیٰ ہی کو حمد ہے کہ اس نے اپنی طرف سے الہام فرمایا اور صدق و ثواب کا راستہ بتایا۔ بعض روایت کرتے ہیں:حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی یہی خواب دیکھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ روایت کرتے ہیں:جب رسول اللہ ﷺ معراج پر تشریف لے گئے اور سراپردۂ عزت میں حاضری ہوئی جو کہ کبریاحق کا محل خاص تھا وہاں ایک فرشتہ نمودار ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرائیلؑ سے دریافت فرمایا:یہ فرشتہ کون ہے؟ حضرت جبرائیل امینؑ نے عرض کیا:قسم ہے اس خدائے ذوالجلال کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ بارگاہ رب العزت میں، میں سب سے مقرب بندہ ہوں مگر میں نے فرشتہ کو اس ساعت سے پہلے جب سے مجھے پیدا کیا ہے نہیں دیکھا۔ پھر اس فرشتہ نے کہا:اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ پردۂ جلال کے پیچھے سے آواز آئی۔ میرے بندے تو نے سچ کہا، میں اکبر ہوں۔ اس کے بعد اذان کے بقیہ کلمات کو بیان کیا۔ تحقیق ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شب معراج اذان کے کلمات سنے لیکن حکم نہ ہوا کہ ان کلمات اذان کو نماز کے لیے کہا جائے۔ ایک روایت میں مذکور ہے: جب حضرت عبداللہ بن زیدؓ نے رسول اللہ ﷺ کو اذان کے کلمات بتائے تو رسول اکرم ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ کو بلا کر انہیں اذان کے کلمات یاد کرائے اور پھر انہیں اذان دینے کا حکم فرمایا۔ سیدنا بلال حبشیؓ نے حجرہ اقدس کے بالکل سامنے کھڑے ہو کر اسلام کی سب سے پہلی اذان دی۔ روایات میں آتا ہے: کبھی کبھی رسول اللہ ﷺ حجرہ مبارک کے اندر ہوتے اور اذان کا وقت ہو جاتا تو سیدنا بلال حبشیؓ اذان دینے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے حجرہ مبارک کے قریب جا کر فرماتے: الصلٰوۃ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ سیدنا بلال حبشیؓ کے یہ الفاظ سنتے ہی رسول اللہ ﷺ حجرہ مبارک سے باہر تشریف لے آتے۔ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ جب سیدنا بلال حبشیؓ فجر کی نماز کے لیے اذان دیتے تو اذان کے شروع ہی میں حضور اکرم ﷺ حجرہ مبارک سے باہر تشریف لے آتے۔ ایک دن سیدنا بلالؓ نے اذان دی مگر رسول اللہ ﷺ حجرہ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے۔ کچھ تاخیر ہوئی تو سیدنا بلال حبشیؓ بے چین ہو گئے اور اس بے چینی کی حالت میں سیدنا بلال حبشیؓ کی زبان مبارک سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے: الصلوٰۃ خیر من النوم۔ نماز نیند سے بہتر ہے۔ سیدنا بلال حبشیؓ کے یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ کے گوشِ مبارک تک پہنچے ہی تھے کہ رسول اللہ ﷺ حجرہ مبارک سے باہر تشریف لے آئے۔ رسول اللہ ﷺ کو سیدنا بلال حبشیؓ کی زبان مبارک سے نکلا ہوا یہ جملہ اس قدر پسند آیا کہ اس دن کے بعد اس کلمے کو فجر کی اذان میں پڑھنے کا حکم صادر فرما دیا۔ سیدنا بلال حبشیؓ جب اذان دیتے تو سننے والوں پر ایک عجیب طرح کا سرور طاری ہو جاتا۔ سب کو سیدنا بلال حبشیؓ کی آواز بہت اچھی لگتی تھی، بچے بھی بڑے شوق سے آپؓ کو سنا کرتے اور بڑی توجہ دیتے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ کا وصال مبارک ہو گیا تو سیدنا بلال حبشیؓ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اپنے آقا ﷺ کی جدائی میں دل ہی کیا دنیا ہی ویران ہو گئی اور انہوں نے عہد کر لیا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے لیے اذان نہ دوں گا۔ سیدنا بلال حبشیؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تمام صحابہ کرامؓ میں سے اذان دینے کے لیے مقرر فرمایا اور سیدنا بلال حبشیؓ نے اس خدمت کو بحسن و خوبی نبھایا۔ حیاتِ بلالؓ کے چند گوشے اس باب میں ہم چند ایک واقعات پر طائرانہ نگاہ ڈالیں گے تاکہ ہمارے حافظے میں یہ باتیں محفوظ رہیں اور واقعات کا تسلسل برقرار رہے اور آئندہ واقعات کے ساتھ یہ مربوط رہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ اہل مکہ نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی ہے۔ ادھر اہل مدینہ نے آپ ﷺ کو اپنے ہاں بار بار دائمی قیام کی دعوت پیش کی تو آپ ﷺ نے تمام صحابہ کرامؓ سے فرمایا:بیشک اللہ تعالیٰ نے تم سب کو بھائی بنایا اور ایک دار میں ٹھہرایا۔ تم سب امن و سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرو گے۔ اس لیے اس کی طرف ہجرت کر جاؤ۔ سیدنا بلال حبشیؓ نے یہ حکم سن کر اپنے دوستوں حضرت عمار بن یاسرؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے فرمایا:آنے والی رات کو تو میں ہجرت کر جاؤں گا۔ حضرت عمار بن یاسرؓ نے پوچھا:اس قدر جلدی کیوں ہے؟ سیدنا بلال حبشیؓ نے فرمایا:ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کا حکم فرمایا ہے۔ اس میں تاخیر کیسی؟ حضرت عمار بن یاسرؓ نے فرمایا:میں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔ تینوں دوست متفق ہو کر رات کے کسی حصہ میں مکہ مکرمہ سے چل پڑے اور چند دنوں کے بعد مدینہ طیبہ پہنچ گئے۔ سیدنا بلال حبشیؓ اپنے رفقاء سمیت بخیر و عافیت مدینہ پہنچ تو گئے لیکن وہاں رسول اللہ ﷺ کے بغیر ان کا دل نہیں لگتا تھا۔ ہر وقت آپ ﷺ کی یاد میں تڑپتے رہتے۔ جب حضرت فاروق اعظمؓ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ پہنچے اور سیدنا بلال حبشیؓ کو اس کی خبر ہوئی تو آپؓ نے جلدی سے حضرت عمرؓ کے ہاں پہنچ کر پوچھا:اے عمرؓ! آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ اور آپؓ کب تشریف لائے ہیں؟ حضرت عمر فاروقؓ نے سیدنا بلال حبشیؓ کی بے قراری دیکھ کر فرمایا:سیدنا بلالؓ ! تسلی رکھیں رسول اللہ ﷺ عنقریب تشریف لانے والے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ سے یہ سن کر سیدنا بلالؓ کو قدرے تسلی ہوئی لیکن آتش جدائی کی سوزش میں کمی نہ آئی۔ پھر ایک دن یہ خبر مشہور ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ سے روانہ ہو چکے ہیں۔ یہ خبر سیدنا بلال حبشیؓ نے بھی سن لی۔ اب وہ روزانہ چند ساتھیوں کو لے کر مدینہ طیبہ سے باہر نکل کر رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کا انتظار فرماتے، یہاں تک کہ دھوپ کی شدت سے دوسرے لوگ تو اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے لیکن سیدنا بلال حبشیؓ تنہا آپ ﷺ کے منتظر رہتے۔ ایک دن سخت گرمی کے باوجود دوپہر کے بعد تک بھی سیدنا بلال حبشیؓ مکہ کی راہ تک رہے تھے، مایوس ہو کر گھر لوٹ گئے، ابھی گھر پہنچے ہی تھے کہ کانوں میں آواز گونجی: اللہ کے نبی آ گئے، اللہ کے نبی آ گئے۔ یہ سنتے ہی خوشی خوشی گھر سے نکلے لیکن پھر سوچنے لگے:کیا واقعی رسول اللہ ﷺ آ گئے ہیں؟ یا میں ایک خیالی آواز سے اٹھ کھڑا ہوا ہوں؟ اسی سوچ میں تھے کہ وہی آواز گونجی:اللہ کے نبی ﷺ آ گئے، اللہ کے نبی ﷺ آ گئے۔ اب تو یقین مستحکم ہو گیا۔ اس لیے بے تحاشا دوڑے، ان کے ساتھ دوسرے عشاق بھی سخت دھوپ میں دوڑے جا رہے تھے۔ دور سے سیدنا بلال حبشیؓ کی نگاہ نے رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا استقبال کیا تو بے ساختہ منہ سے نکلا: بخدا وہ ہیں رسول اللہ ﷺ۔ شدت فرحت میں جان لبوں پر ہے اور دوڑنے میں سب سے آگے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے قریب پہنچ گئے۔ رسول اللہ ﷺ سواری سے اترے اور تمام مسلمانوں کے سلام کا جواب دیا اور قبا میں ڈیرہ جما لیا۔ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد جب رسول اللہ ﷺ کو علم ہوا کہ حضرت بلالؓ بھی دیگر مہاجرین کی طرح وبائی بخار کا شکار ہو گئے ہیں اور کافی پریشان بھی رہے تو آقا ﷺ سیدنا بلال حبشیؓ کی عیادت کو تشریف لے گئے اور دعا فرمائی۔ جس کی وجہ سے سیدنا بلال حبشیؓ صحت یاب ہو گئے اور پھر دربار رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہو گئے۔ یہ واقعہ ایک بار پھر دہرایا جاتا ہے تاکہ حافظہ میں تازہ رہے اور واقعات کا تسلسل بھی ذہن میں برقرار رہے۔ رسول اللہ ﷺ کی مخصوص خدمات سیدنا بلال حبشیؓ کے سپرد تھیں چنانچہ مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر سے پہلے عصا مبارک اٹھا کر بمنزلہ سترہ رسول اللہ ﷺ کے آگے کھڑا کرتے۔ بعض روایات میں عصا کی بجائے نیزے کا تذکرہ ملتا ہے۔ زندگی بھر عصا برداری سیدنا بلال حبشیؓ کے سپرد رہی، یہاں تک کہ عیدین اور نماز استسقاء کی نماز پر بھی عصا رسول اللہ ﷺ کے آگے گاڑ دیتے۔ سیدنا بلال حبشیؓ نے آزادی کے بعد رسول اللہ ﷺ کی غلامی اختیار کی یہاں تک کہ سفر و حضر، مکی زندگی اور مدنی زندگی کے تمام لمحات در مصطفی ﷺ پر بسر کیے۔ ہر جنگ میں، ہر سفر میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے سرشار رہے۔ مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر کے بعد آغاز اذان تک مستقل مؤذن منتخب ہوئے۔ کوئی نماز ایسی نہ گزری جس میں سیدنا بلالؓ نے اذان نہ دی ہو اور اذان دے کر نماز با جماعت کی اطلاع کے لیے تا دم زیست اپنے آقا ﷺ کے در پر جا کر عرض کرتے: حی الصلٰوۃ حی الفلاح، الصلوٰۃ یارسول اللہ۔ (داعی السمأ ص ۹۷) رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے حجرہ مبارک سے باہر تشریف لاتے تو سب سے پہلے زیارت کا شرف سیدنا بلال حبشیؓ کو نصیب ہوتا۔ ایسے ہی ہر اقامت کے لیے پشت مبارک کے جلوات سے سرشاری سیدنا بلال حبشیؓ کو نصیب تھی، وہ نماز جو معراج اور قرۃ العین النبی کا مرتبہ رکھتی ہے ہر پانچوں کی جماعت اور تہجد کی اذان اور اسے اپنے آقا ﷺ کے ساتھ مل کر ادا کرنا کس کے حصے میں آتی؟ وہ ہمارے ممدوح سیدنا بلال حبشیؓ ہی تو ہیں۔ سیدنا بلال حبشیؓ صرف اذان کے لیے نہیں نکلتے تھے بلکہ وہ ترنم سے ایسی بلند آواز میں اشعار پڑھتے جو اذان کی آواز سے بہت اونچی آواز میں ہوتے جو ان کے حال کے مطابق ہوتے کبھی توبہ پر مشتمل ہوتے، کبھی اللہ سے رحمت طلبی ہوتی ان سے یہ شعر بھی سنا گیا: ما البلال ثکلتہ امہ وابتل من نفسح ملے جیبہ بلال کون ہے اسے ماں روئے اس کا ماتھا خون کے بہنے سے تر ہوا سیدنا بلال حبشیؓ اور بعض مہاجرین مدینہ کی آب و ہوا میں بیمار پڑ گئے۔ اس زمانہ تک مدینہ کی زمین وبا اور بخار والی تھی لیکن رسول اللہ ﷺ کی آمد کے بعد وہ زمین طیب و صحت و سلامت ہو گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دعا سے اس شہر پاک کی وبا اور بخار کو حجفہ میں جو شرک و طغیان کا گھر تھا، منتقل کر دیا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدنا بلال حبشیؓ اور حضرت عامر بن فہیرہؓ بھی اس وبا میں مبتلا ہو گئے تھے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ اپنے والد محترم سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی عیادت کے لیے آئی ہوئی تھیں۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ شدید بخار کی حالت میں کہنے لگے: ہر شخص اپنے اہل و عیال میں صبح کرنے والا ہے حالانکہ موت اس کی جوتی کے بندھن سے زیادہ قریب ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے جب یہ سنا تو کہنے لگیں: خدا کی قسم میرے والد ہوش میں نہیں ہیں، انہیں خبر نہیں کہ وہ اپنی زبان سے کیا کہہ رہے ہیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے سیدنا بلال حبشیؓ اور حضرت عامر بن فہیرہؓ کو دوسرے گوشے میں مبتلا دیکھا۔ وہ کفارِ مکہ پر لعنت بھیج رہے تھے کہ انہوں نے مکہ سے نکالا۔ وہ مکہ کے چشموں، باغوں اور مرغزاروں کی یاد میں اشعار پڑھ رہے تھے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے ان کے احوال کی شکایت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جا کر کی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ ہمارے دلوں میں مدینہ منورہ کو ایسا محبوب بنا دے جیسا کہ ہم مکہ مکرمہ سے محبت رکھتے ہیں یا اس سے زیادہ اور مدینہ کی ہوا کو ہمارے جسموں کے لیے صحت و درست بنا دے اور ہمارے صاع اور مد میں برکت فرما اور اس جگہ سے بخار کو حجفہ کی طرف منتقل فرما دے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہجرت مدینہ سے قبل سیدنا عمر فاروقؓ کو سیدنا بلال حبشیؓ کا دینی بھائی بنا دیا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ بھی سیدنا بلالؓ سے قربت اور محبت کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور اس کو اپنے اور سیدنا بلال حبشیؓ کے لیے رسول اللہ ﷺ کا فضل و انعام تصور فرماتے تھے۔ اس لیے دونوں ایک دوسرے سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ سیدنا بلالؓ کی دل جوئی کا خاص خیال فرماتے تھے۔ سیدنا بلال حبشیؓ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ پہنچے اور حضرت سعد بن خثیمہؓ کے مہمان ہوئے۔ حضرت ابو رویحہؓ سے مواخات قائم ہوئی۔ ان دونوں میں اس قدر شدید محبت ہو گئی تھی کہ عہد فاروقی میں سیدنا بلال حبشیؓ نے شام کی مہم میں شرکت کا ارادہ فرمایا تو حضرت عمر فاروقؓ نے پوچھا:بلالؓ تمہارا وظیفہ کون وصول کرے گا؟ سیدنا بلال حبشیؓ نے جواب دیا: ابو رویحہؓ میرا وظیفہ وصول کریں گے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہم دونوں میں جو برادرانہ تعلق پیدا کر دیا ہے، وہ کبھی منقطع نہیں ہو سکتا۔ رسول اللہ ﷺ کے حضور میں رہنا سہنا بلکہ ایک نگاہ کرم بھی نصیب ہو تو قسمت کی یاوری کا کیا کہنا۔ پھر وہ خوش بخت کتنا ہی مقدر کا سکندر ہے جسے آقائے دوجہاں ﷺ اس کی صلاحیت کے پیش نظر ذمہ داری سپرد فرما دیں۔ سیدنا بلال حبشیؓ کے مقدر کا اندازہ لگائیں کہ ہر وقت حاضری رسول ﷺ کے علاوہ گھریلو ذمہ داریاں خود شاہ کونین محمد مصطفی ﷺ سپرد فرما رہے ہیں۔ ہجرت مدینہ کے بعد سیدنا بلال حبشیؓ مدینہ طیبہ میں حضرت سعد بن خثیمہؓ کے مہمان ہوئے۔ اتفاق سے ان دنوں مدینہ طیبہ میں بخار وبائی صورت میں پھیلا ہوا تھا۔ دیگر مہاجرین کی طرح سیدنا بلال حبشیؓ کو بھی شدید بخار ہو گیا۔ تیز بخار کی وجہ سے اکثر بے ہوش ہو جاتے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعا سے مہاجرین نے وبا سے نجات پائی۔ بخار اگر گیا لیکن سیدنا بلال حبشیؓ بہت دنوں تک نقاہت سے پڑے رہے حتیٰ کہ نماز بھی بیٹھ کر ادا فرماتے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے: اس بیماری کے دوران سیدنا بلال حبشیؓ کو مکہ کی یاد ستاتی اور وہ حضرت سعد بن خثیمہؓ کے مکان کے صحن میں جذبات سے بھرپور ترنم کے ساتھ یہ شعر پڑھا کرتے: الالیست شعری ھل ابتین لیلۃ بوادو حولی ذخر و جلیل وھل اردن یوماً میاہ مجنۃ وھل یبدون لی شامۃ وطفیل کاش معلوم ہو جائے کہ اب میں کوئی رات مکہ کی وادی میں بسر کروں گا۔ اور میرے پاس اذخر اور جلیل کا مرغزار ہو گا۔ اور مجنہ کے چشمہ پر بھی میرا گزر ہو گا۔ اور کیا شامہ اور طفیل کی پہاڑیاں اب بھی کبھی نظر نہ آئیں گی ان اشعار میں سیدنا بلال حبشیؓ کی ارض بطحا سے طبعی محبت کے چراغ روشن دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ سیدنا بلال حبشیؓ کی زندگی کا ایک مشکل ترین حصہ مکہ مکرمہ میں بسر ہوا لیکن پھر بھی انہیں مکہ مکرمہ کی یاد ستاتی تھی۔ شاید اس لیے کہ انہیں عشق رسول کریم ﷺ جیسی لازوال دولت کے خزانے اسی شہر میں ملے تھے اور وہ ابتدائے عشق کی وارداتوں کو شوق اور والہانہ شیفتگی کے عالم میں اپنے تصور کے پردوں پر ابھرتا دیکھتے۔ مکہ کا پس منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا اور وہ اشتیاق کے ساتھ درد و فراق کے اشعار پڑھنے لگتے۔ چند روز بعد رسول اللہ ﷺ بھی مدینہ طیبہ تشریف لے آئے۔ سیدنا بلال حبشیؓ کی علالت اور مکہ مکرمہ کے اشتیاق کا حال سنا تو عیادت کے لیے تشریف لائے پھر یہ دعا فرمائی: اے اللہ بلالؓ کی بیماری کو ٹال دے اور مکہ سے زیادہ مدینہ کو ہمارے لیے محبوب بنا دے۔ مدینہ طیبہ میں آواز کا عجیب عالم ہوا کرتا تھا، صدائے اللہ اکبر کے ساتھ ہی مسلمان اپنے تمام کام کاج چھوڑ کر اذان کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ اس آواز میں کمال کی دلآویزی تھی، ہر شخص صامت و ساکت رہ جاتا۔ اس نغمہ خداداد میں کیا اثر تھا جو صحابہ کرامؓ کو اپنی گرفت میں لے لیا کرتا تھا۔ سیدنا بلال حبشیؓ اذان سے قبل اذان کے انتظار میں بیٹھے رہتے اور مقررہ وقت پر اذان شروع فرماتے۔ اذان سے پہلے لحن کے ساتھ یہ فرمایا کرتے تھے: اللھم انی احمدک واستعیک علی قریش ان یقیموا دینک۔ اے اللہ ل میں تیری حمد و ثناء بیان کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد چاہتا ہوں کہ قریش تیرے دین پر قائم ہو جائیں۔ سیدنا بلال حبشیؓ کبھی کبھی اذان سے پہلے کوئی ایسا شعر بھی ترنم سے پڑھ دیتے جس میں ان کے اسلام کے ابتدا کا ذکر ہوتا۔ سیدنا بلال حبشیؓ سحر کی اذان تہجد کے آخر وقت میں دیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے اب تک مدینہ طیبہ میں فجر سے قبل دو اذانیں ہوتی ہیں۔ ۱۔ نماز فجر کے لیے۔ ۲۔ تہجد کے لیے رسول اللہ ﷺ کے وصال کے وقت جب آپ ﷺ کو آغوش لحد میں آسودہ کیا گیا تو مٹی ہموار کر کے سیدنا بلال حبشیؓ نے اپنے ہاتھوں سے اس پر پانی چھڑکا اور پھر غمگین دل کے ساتھ اپنے اس درد کی آخری اذان پڑھی۔ جونہی اشہد ان محمد رسول اللہ کی تکرار کی، صحابہ کرامؓ لرز اٹھے۔ سیدنا بلال حبشیؓ اس وقت شدتِ کیفیت میں ایسے ڈوبے کہ نڈھال ہو کر گر پڑے۔ (ابن سعد ص ۱۶۸ ج ۱) رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بار بار اصرار فرمایا تو سیدنا بلال حبشیؓ نے اذان پڑھنے کی معافی چاہی اور رو رو کر کہا: مجھے اس کے لیے مجبور نہ کریں۔ رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرما لینے کے بعد میں یہ خدمت انجام نہیں دے سکوں گا کیونکہ وہ حسنِ مطلق میری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے جس کے لیے اذان پڑھا کرتا تھا۔ حضرت سعد قرظیؓ جو عہد رسالت مآب ﷺ میں مسجد قبا کے مؤذن تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد سیدنا بلال حبشیؓ کے اذان پڑھنے سے معذرت کرنے کے بعد سیدنا بلال حبشیؓ کی اجازت سے مسجد نبوی ﷺ کے مؤذن مقرر کیے گئے۔ سیدنا بلال حبشیؓ کے علاوہ مسجد نبوی ﷺ میں نابینا صحابی حضرت ابن مکتومؓ بھی اذان دیا کرتے تھے۔ مکہ مکرمہ میں اذان کا فریضہ حضرت ابو مخدورہؓ کے سپرد تھا۔ ابن اسحاق بنی نجار کی ایک عورت سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی تھیں: میرے گھر کا صحن مسجد نبوی ﷺ سے ملا ہوا تھا۔ میں دیکھتی تھی کہ سیدنا بلال حبشیؓ ہر روز طلوع فجر سے پہلے دیوار پر بیٹھ جاتے اور طلوع فجر کا انتظار کرتے، یہاں تک کہ جب فجر طلوع ہوتی تو سیدنا حبشیؓ یہ دعا کرتے: اے اللہ! میں تیری حمد اور تعریف کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد چاہتا ہوں۔ اے اللہ! قریش کو ہدایت کر وہ تیرے دین کو قبول کریں اور اس پر قائم ہوں۔ پھر اذان شروع فرماتے۔وہ عورت فرماتی تھیں: میں نہیں جانتی کہ سیدنا بلال حبشیؓ نے ایک روز بھی اسی دعا کو ترک کیا ہو۔ سیدنا بلال حبشیؓ فرماتے ہیں:ایک دفعہ سردی کے دنوں میں میں نے اذان کہی اور بیٹھ رہا۔ رسول اللہ ﷺ جب مسجد میں نماز کے لیے تشریف لائے تو مسجد خالی تھی اور ان کے سوا کوئی نہ تھا۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ عزوجل! ان لوگوں سے سردی دور کر دے۔ آپ ﷺ کا فرمانا تھا کہ لوگ جوق در جوق نماز کے لیے مسجد میں آنا شروع ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ کو خازن کا عہدہ تفویض فرمایا۔ یہ کوئی معمولی عہدہ نہیں۔ سلطنت خداوندی کے مالک مختار محبوب ﷺ کا خازن مقرر ہونا تو سیدنا بلالؓ کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔ سیدنا بلال حبشیؓ تا دم زیست خازن رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ساری زندگی سیدنا بلال حبشیؓ پر اعتماد فرمایا اور جب رسول اللہ ﷺ نے آپؓ پر اعتماد کیا تو آسمان والوں نے بھی آپؓ پر اعتماد کیا۔ سیدنا بلال حبشیؓ کے لیے یہ بہت بڑی فضیلت تھی جو صرف اللہ کے محبوب بندوں کو نصیب ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ ہوازنؓ فرماتے ہیں: میں سیدنا بلال حبشیؓ سے ملا اور ان سے میں نے دریافت کیا: مجھے رسول اللہ ﷺ کے مصارف کی کیفیت بتاؤ۔ سیدنا بلال حبشیؓ نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی مال نہ تھا۔ بعثت سے وصال تک میں ہی حضور اکرم ﷺ کا خازن تھا۔ جب بھی کوئی مسلمان آپ ﷺ کے پاس اس حال میں آتا کہ اس کے پاس کپڑے نہ ہوں تو آپ ﷺ مجھے حکم فرماتے میں جا کر کسی سے قرض لیتا، اسے کھانا کھلاتا اور چادر خرید کر اسے کپڑے پہنا دیتا۔ وہ کون سا خزانہ تھا جس کے خازن سیدنا بلال حبشیؓ تھے وہ جو ظاہری زندگی میں فقر فخری کا اثاثہ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سیدنا بلال حبشیؓ کے پاس تشریف لائے۔ سیدنا بلال حبشیؓ کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا رکھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: اے بلالؓ یہ کیا ہے؟ سیدنا بلال حبشیؓ نے عرض کیا:میں نے آپ ﷺ کے اور آپ ﷺ کے مہمانوں کے لیے رکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں اس کا خوف نہیں کہ کھجوروں کا یہ ٹوکرا میرے لیے دوزخ کا ایندھن ہو۔ اے بلالؓ خرچ کیے جاؤ اور عرش کے مالک کی جانب سے کمی کا خوف نہ کرو۔ (مؤذن رسول ص ۵۷) حضرت انسؓ سے مروی ہے۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے اللہ کے بارے میں خوفزدہ کیا گیا، اس قدر کہ کسی دوسرے شخص کو اتنا خوفزدہ نہیں کیا گیا، مجھے اللہ کے راستے میں تکالیف دی گئیں، اتنی کہ کسی شخص کو اتنی تکالیف سے سابقہ نہ پڑا اور مجھ پر تیس دن ایسے گزرے ہیں کہ میرے اور بلالؓ کے کھانے کے لیے سوائے اس مقدار کے کچھ نہ ہوتا تھا جسے بلالؓ اپنی بغل میں چھپا لیتے تھے۔ سیدنا بلال حبشیؓ نے ان حالات میں آغوشِ نبوت میں پرورش پائی اور یوں اخلاق نبوی ﷺ سے فیض یاب ہوئے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ان سے ایسے امور کا مطالبہ کیا جن کا دوسرے صحابہ کرامؓ سے مطالبہ نہیں کیا تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ عالی شان ہے: بہترین مال وہ ہے جو نیک آدمی کے پاس ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ سے فرمایا: اے بلالؓ فقیر ہو کر مرنا، غنی ہو کر نہ مرنا۔ سیدنا بلال حبشیؓ دن رات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے اور رسول اللہ ﷺ کی تمام ضروریات کا خیال رکھتے۔ وہ حضور اکرم ﷺ کی ذرا سی تکلیف برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ ہر وقت خدمت بجا لانے کے لیے تیار رہتے تھے۔ سفر میں جب دوپہر کا وقت آ جاتا اور دھوپ تیز ہو جاتی تو سیدنا بلال حبشیؓ رسول اللہ ﷺ کے سر پر چادر تان دیتے۔ جنگ کے موقع پر وہ میدان جنگ سے کچھ فاصلے پر ایک سائبان کھڑا کر دیتے جہاں سے رسول اللہ ﷺ لڑائی کا نظارہ کرتے اور مجاہدین کو ضروری ہدایات دیتے جبکہ سیدنا بلال حبشیؓ رسول اللہ ﷺ کے خیمے کے گرد چکر لگاتے رہتے اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات فوج تک پہنچاتے۔ آٹھ سال کی جلاوطنی کے بعد جب رسول اللہ ﷺ فاتحانہ شان سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ کو حکم دیا: بلالؓ ! خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دیں۔ سیدنا بلال حبشیؓ نے اذان دی۔ جب ان کی آواز مکہ میں گونجی: اشہد ان لا الہ الا اللہ۔ یہ الفاظ سن کر مشرکین کو بڑا رنج ہوا اور ان میں سے بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا: شکر ہے میرا باپ تو پہلے ہی مر گیا تھا، ورنہ یہ الفاظ سننے کی تاب نہ لاتا۔ اذان کے بعد رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ صرف تین آدمی تھے۔ ۱۔ عثمان بن طلحہ جو کہ اس وقت خانہ کعبہ کے کلید بردار تھے یعنی خانہ کعبہ کی کنجی ان کے پاس تھی۔ ۲۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثؓ کے محبوب بیٹے۔ ۳۔ سیدنا بلال حبشیؓ۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سیدنا بلال حبشیؓ برابر مؤذن رہے۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد کچھ دن تک تو انہوں نے اذان دی لیکن پھر معذوری کا اظہار کر دیا اور صحابہ کرامؓ کے پُرزور اصرار پر بھی اذان دینے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عاشق رسول سیدنا بلال حبشیؓ کی زبان سے جب اشہد ان محمد الرسول اللہ نکلتا تو ان پر رقت طاری ہو جاتی کیونکہ ان کی آنکھیں رسول اللہ ﷺ کو نہ دیکھ پاتی تھیں۔ وہ رونے لگتے تھے تو دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ اشکبار ہو جاتے۔ اب سیدنا بلال حبشیؓ نے مدینہ منورہ میں بیٹھ کر زندگی گزارنے کے بجائے جہاد کرنا پسند فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر ساٹھ سال سے اوپر ہو چکی تھی۔ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے شام جانے کی اجازت چاہی اور اصرار کیا کہ انہیں وہاں جانے دیا جائے۔ لہٰذا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو مجبوراً اجازت دینا پڑی لیکن بعض تاریخ دان کہتے ہیں: حضرت ابوبکر صدیقؓ کی درخواست پر سیدنا بلال حبشیؓ نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور ان کی خلافت کے زمانہ میں آپؓ مدینہ میں ہی رہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت کا زمانہ آیا تو انہوں نے دوبارہ باہر جانے کی اجازت چاہی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے بھی انہیں روکنا چاہا لیکن اس بار ان کا اصرار اتنا شدید تھا کہ حضرت عمر فاروقؓ نے اجازت دے دی۔ سیدنا بلال حبشیؓ شام چلے گئے اور اسلامی لشکر کے ساتھ مل کر جہاد کرنے لگے اور پھر جہاد کے بعد دمشق کے قریب ایک چھوٹی سی جاگیر میں رہنے لگے اور کھیتی باڑی کر کے اپنی گزر اوقات کرنے لگے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ ایمان لانے کے بعد تقریباً ہر وقت آپ ﷺ کے ساتھ رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ غار حرا میں تھے۔ وہاں سے سیدنا بلالؓ کا گزر ہوا جو کہ اس زمانہ میں عبداللہ بن جدعان کی بکریاں چراتے تھے۔ یہ مکہ کے عجمی لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ اتفاق سے آپ ایک روز غارِ حرا کے پاس بکریاں چرا رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے چرواہے! کیا تمہارے پاس دودھ ہے؟ سیدنا بلالؓ نے جواب دیا:ان بکریوں میں سے سوائے ایک کے اور کسی میں دودھ نہیں ہے، اگر ارشاد ہو تو میں دودھ لا دیتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:لے آؤ۔ چنانچہ سیدنا بلالؓ نے بکری کو پکڑ کر اپنے برتن ہی میں دودھ دوہا اور آپ ﷺ کو پیش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے دودھ نوش فرمایا یہاں تک کہ آپ ﷺ سیر ہو گئے۔ وہ بکری کافی دودھ دینے والی تھی، اس لیے پھر اس کا دودھ دوہا اور حضرت بلالؓ کو پلایا وہ بھی سیر ہو گئے۔ اب رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا۔ میں اللہ کا رسول ہوں، تم اس کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ حضرت بلالؓ نے عرض کیا:میں آپ ﷺ کے دین کو اچھا پاتا ہوں۔ پھر حضرت بلالؓ بکریاں لے کر مکہ آ گئے۔ رات بھر میں اس بکری کا دودھ اور زیادہ ہو گیا۔ حضرت بلالؓ کے مالک نے کہا۔ کیا تو نے اس کو بہت تروتازہ جگہ پر چرایا ہے؟ حضرت بلالؓ نے اس کو تو کوئی جواب نہ دیا لیکن وہ آپ کی ملاقات اور آپ ﷺ کے دین سے بہت زیادہ متاثر ہو چکے تھے بلکہ آپ ﷺ کی نبوت کو تسلیم کر چکے تھے انہوں نے دل میں خیال کیا کہ دو چار روز وہیں چل کر بکریوں کو چرانا چاہئے تاکہ ایک تو ان کو روز دودھ پلایا جائے دوسرے اسلام کی تعلیمات حاصل کی جائیں۔ چنانچہ وہ مسلسل تین روز وہاں بکریاں لا کر آپ ﷺ کو دودھ پلاتے اور آپ ﷺ سے دین کی تعلیم بھی حاصل کرتے رہتے۔ حضرت شداد بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابوامامہؓ نے حضرت عمرو بن عبسہؓ سے پوچھا۔ آپ کس بنیاد پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام لانے میں آپ کا چوتھا نمبر ہے؟ انہوں نے فرمایا۔ میں زمانہ جاہلیت میں لوگوں کو سراسر گمراہی پر سمجھتا تھا اور بت میرے خیال میں کوئی چیز ہی نہ تھے۔ پھر میں نے ایک آدمی کے بارے میں سنا کہ وہ مکہ میں (غیب کی) خبریں بتلاتا ہے اور نئی نئی باتیں بیان کرتا ہے۔ چنانچہ میں اونٹنی پر سوار ہو کر فوراً مکہ پہنچا۔ وہاں پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ حضور اکرم ﷺ چھپ کر رہتے ہیں اور آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کے درپہ آزار اور بہت بے باک ہے اور میں بڑی حیلہ جوئی کے بعد آپ تک پہنچا اور میں نے عرض کیا:آپ ﷺ کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ کا نبی ہوں۔ میں نے عرض کیا۔ اللہ کا نبی کسے کہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ کی طرف سے پیغام لانے والے کو۔ پھر میں نے عرض کیا۔ کیا واقعی اللہ نے آپ ﷺ کو پیغام دے کر بھیجا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں! میں نے عرض کیا۔ اللہ نے کیا پیغام دے کر بھیجا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ نے مجھے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ اللہ کو ایک مانا جائے اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ کیا جائے اور بتوں کو توڑ دیا جائے اور صلہ رحمی کی جائے یعنی رشتہ داروں سے اچھا سلوک کیا جائے۔ میں نے آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا۔ اس دین کے معاملے میں آپ ﷺ کے ساتھ کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک آزاد اور ایک غلام۔ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق بن ابی قحافہؓ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے غلام حضرت بلالؓ تھے۔ میں نے عرض کیا۔ میں آپ ﷺ کا اتباع کرنا چاہتا ہوں۔ یعنی اسلام کو ظاہر کر کے یہاں مکہ میں آپ ﷺ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا فی الحال تمہارا میرے ساتھ رہنا تمہاری طاقت سے باہر ہے، اس لیے اب تم اپنے گھر چلے جاؤ اور جب تم سنو کہ مجھے غلبہ ہو گیا ہے تو میرے پاس چلے آنا۔ حضرت عمرو بن عبسہؓ فرماتے ہیں کہ مسلمان ہو کر میں اپنے واپس آ گیا اور حضور اکرم ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے۔ میں آپ ﷺ کی خبریں اور آپ ﷺ کے حالات معلوم کرتا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ مدینہ سے ایک قافلہ آیا۔ میں نے ان لوگوں سے پوچھا۔ وہ مکی آدمی جو مکہ سے تمہارے ہاں آیا ہے اس کا کیا حال ہے؟ ان لوگوں نے کہا۔ ان کی قوم نے ان کو قتل کرنا چاہا لیکن وہ قتل نہ کر سکے اور نصرت الٰہی ان کے اور قوم کے درمیان رکاوٹ بن گئی اور ہم لوگوں کو اس حال میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ سب آپ ﷺ کی طرف لپک رہے ہیں۔ حضرت عمرو بن عبسہؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ پہنچا اور حاضر ہو کر عرض کیا۔ یارسول اللہ ﷺ ! جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو سکھایا ہے اور میں نہیں جانتا ہوں، اس میں سے کچھ آپ ﷺ مجھے سکھا دیں۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے اسلام کو ظاہر کرنے والے سات آدمی ہیں۔ حضور اکرم ﷺ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمارؓ اور ان کی والدہ حضرت سمیہؓ اور حضرت صہیبؓ اور حضرت بلالؓ اور حضرت مقدادؓ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی حفاظت ان کے چچا کے ذریعہ سے کی اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی حفاظت ان کی قوم کے ذریعہ سے کی۔ باقی تمام آدمیوں کو مشرکین نے پکڑ کر لوہے کی زرہیں پہنائیں اور انہیں سخت دھوپ میں ڈال دیا جس سے وہ زرہیں بہت گرم ہو گئیں اور حضرت بلالؓ کے علاوہ باقی سب نے مجبور ہو کر ان مشرکوں کی بات مان لی لیکن حضرت بلالؓ کو اللہ تعالیٰ کے دین کے بارے میں اپنی جان کی کوئی پروا نہ تھی اور ان کی قوم کے ہاں ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ چنانچہ مشرکوں نے حضرت بلالؓ کو پکڑ کر لڑکوں کے حوالے کر دیا جو انہیں مکہ کی گلیوں میں چکر دیتے تھے اور وہ احد احد کہتے رہتے (یعنی معبود ایک ہی ہے) حضرت مجاہد ؒ کی حدیث میں اس طرح ہے کہ باقی حضراتؓ کو مشرکین نے لوہے کی زرہیں پہنا کر سخت دھوپ میں ڈال دیا جس سے وہ زرہیں سخت گرم ہو گئیں اور لوہے کی گرمی اور دھوپ کی گرمی کی وجہ سے ان حضراتؓ کو بہت زیادہ تکلیف ہوئی شام کو ابوجہل لعین نیزہ لیے ہوئے ان حضرات کے پاس آیا اور انہیں گالیاں دینے لگا اور انہیں دھمکیاں دینے لگا۔ حضرت مجاہد ؒ کی ایک حدیث میں یوں ہے کہ مشرکین حضرت بلالؓ کے گلے میں رسی ڈال کر مکہ کے دونوں پہاڑوں کے درمیان لیے پھرتے۔ ابن اسحاق ؒ سے روایت ہے کہ جب دوپہر کو تیز گرمی ہو جاتی تو امیہ حضرت بلالؓ کو لے کر باہر نکلتا اور مکہ کی پتھریلی زمین پر ان کو کمر کے بل لٹا دیتا۔ پھر وہ کہتا کہ ایک بڑا پتھر ان کے سینے پر رکھ دیا جائے چنانچہ ایک بڑا پتھر ان کے سینے پر رکھ دیا جاتا۔ پھر حضرت بلالؓ سے کہتا کہ تم ایسے ہی (ان تکلیفوں میں مبتلا) رہو گے۔ یہاں تک کہ یا تو تم مر جاؤ یا محمد ﷺ کا انکار کر کے لات اور عزیٰ کی عبادت شروع کر دو لیکن حضرت بلالؓ ان تمام تکلیفوں کے باوجود احد احد کہتے رہتے کہ معبود تو ایک ہی ہے۔ حضرت عمار بن یاسرؓ نے چند یہ اشعار کہے ہیں جن میں انہوں نے حضرت بلالؓ اور ان کے ساتھیوں کے تکلیفیں اٹھانے کا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حضرت بلالؓ کو آزاد کرنے کا ذکر کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا لقب عتیق تھا یعنی دوزخ سے آزاد۔ جزی اللہ خیرا عن بلال وصحبہٖ عتیقا واخری فاکھا و اباجھل اللہ تعالیٰ حضرت بلالؓ اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے عتیق (حضرت ابوبکر صدیقؓ) کو جزائے خیر عطا فرمائے اور فاکہ اور ابوجہل کو رسوا کرے۔ عشیۃ ھما فی بلال بسؤئۃ ولم یحذ راما یحذربہ المرء ذوالعقل میں اس شام کو نہیں بھولوں گا جس شام کو یہ دونوں حضرت بلالؓ کو سخت تکلیف دینا چاہتے تھے اور عقلمند آدمی جس تکلیف دینے سے بچتا ہے یہ دونوں اس سے بچنا نہیں چاہتے تھے۔ بتوحیدہٖ رب الانام و قولہٖ شہدت بان اللّٰہ ربی علی مہل وہ دونوں حضرت بلالؓ کو اس وجہ سے تکلیفیں دینا چاہتے تھے کیونکہ حضرت بلالؓ لوگوں کا ایک خدا مانتے تھے اور کہتے تھے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ میرا رب ہے اور اس پر میرا دل مطمئن ہے۔ فان یقتلوانی یقتلوانی فلم اکن لاشرک بالرحمن من خیفۃ القتل اگر یہ مجھے مارنا چاہتے ہیں تو ضرور مار دیں۔ میں قتل کے ڈر سے رحمن کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کر سکتا ہوں۔ فیارب ابراھیم والعبد یونس وموسٰی و عیسٰی نجنی ثم لاتبل لمن ظل یہدی الغی من ال غالب علٰی غیر بر کان منہ ولا عدل اے ابراہیم اور یونس اور موسیٰ اور عیسیٰ ؑ کے رب! مجھے نجات عطا فرما اور پھر مجھے آل غالب کے ان لوگوں کے ذریعہ آزمائش میں نہ ڈال جو گمراہ ہونا چاہتے ہیں اور نہ وہ نیک ہیں اور نہ انصاف کرنے والے۔ ایک مرتبہ ورقہ بن نوفل سیدنا بلال حبشیؓ کے پاس سے گزرے دیکھا کہ وادی بطحاء کے گرم پتھروں پر آپ کی پیٹھ پر بھاری پتھر رکھ کر سخت عذاب دیا جا رہا ہے لیکن وہ عاشق رسول ﷺ اور شیدائی اسلام اس عذاب کو اپنے لیے ایک امتحان سمجھ کر نہایت اطمینان اور خوشدلی سے برداشت کر رہا ہے اور زبان سے احد احد پکار رہا ہے۔ قریش سیدنا بلالؓ کو جو تکالیف اور عذاب دے رہے تھے ورقہ بن نوفل اس کو دیکھنے کی تاب نہ لا سکے۔ آپ نے گھبرا کر حضرت بلالؓ کو فرمایا: بلال! ان کی سزا اور تکالیف سے خلاصی اور نجات حاصل کرنے لیے جو یہ کہتے ہیں اس کو قبول کر لو۔ لیکن سیدنا بلالؓ کا جواب تھا: میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ اگر یہ لوگ مجھے قتل بھی کر دیں تو اللہ تعالیٰ بہترین انتقام لینے والا ہے۔ وہ میری مغفرت فرمائے گا لیکن میں کسی صورت ان کی بات ماننے والا نہیں ہوں۔ قریش کہتے کہ تیرا مذہب لات و عزیٰ کو ماننا او ر ان کی پوجا کرنا ہے لیکن ان کے جواب میں سیدنا بلالؓ فرماتے تھے کہ میرا رب الصمد اور احد ہے۔ سیدنا بلالؓ ظاہری شکل و صورت سے اگرچہ سیاہ فام تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کی ایک ہی نگاہ آئینہ تاب سے دل آئینہ کی طرح صاف و شفاف ہو گیا تھا اور نور ایمان نے ان کے دل کو اس قدر منور کر دیا تھا کہ قریش کی ایذاء رسانیاں انہیں گمراہی کی تاریکیوں میں نہ دھکیل سکیں۔ اس وقت گوری چمڑی اور سفید فام مخلوق ابولہب اور ابوجہل کی طرح غرور حسن اور زعم شرافت و نجابت میں ضلالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھی۔ تاریخی روایات کے مطابق اس وقت صرف سات نفوس تھے جن کو قبول ایمان کی توفیق حاصل ہوئی ان میں ایک یہ حبشی غلام تھے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ کمزور ہمیشہ ظلم وستم کی آماجگاہ رہتا ہے لیکن قریش مکہ نے تو رسول اللہﷺ کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جن کا تعلق اشراف مکہ سے تھا۔ سیدنا بلالؓ تو ایک غلام تھے ان پر تو اور بھی ظلم و ستم کیے گئے۔ ابو لہب کی بیوی ام جمیل نے تو یہ دستور ہی بنا لیا تھا کہ گھر کی ساری نجاست اکٹھی کر کے رسول اللہﷺ کے راستہ میں پھیلا دیتی لیکن آپ ﷺ زبان سے کچھ کہے بغیر راستہ سے وہ غلاظت ایک طرف ہٹا کر گزر جاتے۔ جب یہ لوگ خود رسول اللہﷺ کو ظلم و ستم اور طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے تھے تو سیدنابلالؓ کس شمار و قطار میں تھے۔ وہ تو کئی نسلوں سے غلام تھے۔ ان کے ساتھ قریش کا سلوک کیسے روا ہو سکتا تھا۔ چنانچہ غلام اور کمزور ہونے کی بنا پر وہ ظلم وستم کی آماجگاہ تھے۔ غلام ہونے کی وجہ سے وہ اور بھی ناموس جفا کے شکار ہوئے۔ گوناگوں مصائب اور زہرہ گداز مظالم سے ان کے استقلال و استقامت میں ذرہ برابر فرق نہ آیا۔ تپتی ہوئی ریت جلتے ہوئے سنگ ریزوں اور دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹائے گئے۔ مشرکین کے لڑکوں نے گلے میں رسیاں ڈال کر تماشا بنایا لیکن ان تمام روح فرسااور جان گسل آزمائشوں کے باوجود توحید خداوندی کی مضبوط رسی ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹی۔ ابوجہل تپتے ہوئے سنگ ریزوں پر لٹا کر اوپر بھاری پتھر رکھ دیتا اور جب آفتاب کی تمازت بے قرار کر دیتی اور آپ اس کی گرمی سے تڑپنے لگتے تو وہ کہتا:۔ بلال اب بھی محمدﷺ کے خدا سے باز آ جاؤ لیکن اس وقت بھی اس بندہ خدا کے لبوں سے یہی آواز سنی جاتی۔ احد احد حضرت بلالؓ پر امیہ بن خلف ظلم وستم کے پہاڑ ڈھانے میں سب سے زیادہ پیش پیش تھا، اور اس کی جدت طرازیوں نے ظلم و جفا کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے تھے وہ بے ایمان آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دیتا۔ ایک مرتبہ امیہ بن خلف نے حضرت بلالؓ کو گائے کی کھال پہنا دی پھر لوہے کی زرہ میں کس دیا اور دھوپ میں بٹھا کر کہا: بلال سن تیرا خدا لات و عزیٰ ہے۔ ان ساری آزمائشوں کے باوجود توحید کے اس وارفتہ کی زبان سے احد احد کے سوا اور کلمہ نہ نکلا۔ مشرکین اگر کہتے کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں تم بھی وہی کہو تو فرماتے کہ میری زبان تمہارے کہے ہوئے الفاظ کا اعادہ نہیں کر سکتی۔ سیدنا بلالؓ پر امیہ بن خلف اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے کہ آنکھیں اس جو رو ستم کو دیکھ کر اشکبار ہو جاتی تھی۔ ایک روز سیدنا ابوبکرؓ کا ادھر سے گزر ہوا۔ کفار کی ستم گری دیکھ کر انتہائی صدمہ ہوا۔ دریافت فرمایا: تم لوگ اس سیاہ حبشی زادے کے ساتھ یہ سلوک کیوں کر رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا:یہ لات و عزیٰ کو چھوڑ کر محمدﷺ کے ایک خدا کو ماننے لگا ہے۔ اس لیے اس کو یہ سزا دے رہے ہیں۔ سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا:اللہ کی قسم! تم لوگ اس کے جذبات کو نہیں دبا سکتے۔ امیہ بن خلف نے ابوبکرؓ کی یہ بات سن کر ساتھیوں سے کہا کہ میں تم کو وہ کھیل دکھاؤں گا جو تم لوگوں نے کبھی نہ دیکھا ہو۔ ابوبکرؓ ہنس پڑے اور امیہ بن خلف نے سیدنا ابوبکرؓ سے کہا۔ ابوبکرؓ یہ غلام آپ کے دین پر ہے آپ اسے ہم سے خرید کیوں نہیں لیتے؟ سیدنا ابو بکرؓ نے فرمایا۔ اگر تم فروخت کرنا چاہتے ہو تو میں اس کو خریدنے کے لیے تیار ہوں میرے غلام فسطاط (جو بہت موٹی کھال والا ہے جو آپ کو نصف دینار خراج کرتا تھا اور اسلام قبول نہیں کرتا تھا) سے بدل لیں۔ امیہ ہنس پڑا اور کہا۔ ابوبکر ! شرط یہ ہے کہ آپ اپنے غلام مع اس کی بیوی کے دیں تو پھر میں سوچ سکتا ہوں۔ سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا۔ اگر آپ تیار ہیں تو میں ایسا کر سکتا ہوں۔ امیہ نے کہا۔ آپ کو اختیار ہے کہ آپ اس کے بیوی بچے بھی عطا کر دیں لیکن ایک سو دینار بھی ساتھ دیں۔یہ کہہ کر امیہ ہنس پڑا۔ سیدنا ابوبکرؓ نے کہا۔ کیا آپ ایسے آدمی ہیں کہ جھوٹ سے حیا نہیں کرتے؟ امیہ نے جواب دیا۔لات وعزیٰ کی قسم ! یقین کیجئے اگر آپ کریں گے تو میں بھی کروں گا۔ سیدنا ابوبکرؓ نے ایک گراں قدر رقم دے کر سیدنا بلالؓ کو خرید لیا اور اسی وقت آزاد کر دیا۔ بعض روایات میں ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ سیدنا بلالؓ کو خرید کر سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کی۔ یا رسول اللہ ﷺ میں نے بلالؓ کو خرید لیا۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اس میں مجھ کو بھی شریک کر لیا جائے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کی۔ حضور ﷺ ! مشرکین نے جب اسے اپنے دین سے نکالنا چاہا تو میں نے فوراً حاصل کر کے اسے آزاد کر دیا۔ حافظ ابن قیم ؒ نے سیدنا ابوبکرؓ کے بارے میں لکھا ہے: سیدنا ابوبکرؓ جب کسی غلام کے پاس سے گزرتے جس کو کفار اپنی ستم گری کا ہدف بناتے تو اسے خرید لیتے اور پھر اس کو آزاد کر دیتے، ان میں بلالؓ، عامر بن فہیرہ، ام عبیس، زنیرہ، نہدیہ اور ان کی صاحبزادی اور بنی عدی کی ایک لونڈی جس کو سیدنا عمرؓ اسلام لانے سے قبل اس کے اسلام لانے کی وجہ سے ظلم وستم کا نشانہ بناتے تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو پانچ اوقیہ سونے کے بدلہ میں خریدا۔ قریش نے کہا اگر تم ایک اوقیہ کے عوض بھی بلالؓ کو لینا چاہتے تو ہم دے دیتے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا: اگر تم سو اوقیہ کے عوض بلالؓ کو فروخت کرنا چاہتے تو اس کو خرید لیتا۔ رسول اللہﷺ کو جب پتہ چلا کہ ابوبکرؓ نے بلالؓ کو قریش سے خرید لیا ہے تو آپ ﷺ نے بھی ان کی خریداری میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار فرمایا لیکن سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کی کہ میں نے بلالؓ کو آزاد کر دیا ہے۔ یقیناً حضور ﷺ نے حضرت بلالؓ کے جذبہ ایمانی اور عالی ہمتی کا مشاہدہ فرما لیا تھا اسی لیے حضرت ابوبکرؓ کے ثواب میں شریک ہونے کی خواہش فرمائی۔ ایک مرتبہ سیدنا عمرؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کے فضائل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یہ ہمارے سردار بلالؓ، ابوبکرؓ کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہیں۔ سیدنا بلالؓ کو ایک مرتبہ پتہ چلا کہ بعض لوگ انہیں سیدنا ابوبکرؓ پر فضلیت دیتے ہیں تو آپ نے فرمایا۔ تم لوگ مجھ کو ابوبکرؓ پر کیسے فضلیت دیتے ہو۔ میں تو ابوبکرؓ کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہوں۔ حضرت بلالؓ کے اس قول کا منشاء یہ تھا کہ میں حضرت ابوبکرؓ سے افضل کیسے ہو سکتا ہوں حالانکہ میں تو خود ان کی ایک نیکی ہوں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت زینبؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اے عورتو ! تم صدقہ کیا کرو۔ میں رسول اللہﷺ کی یہ بات سن کر عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئی اور کہا کہ تم بہت تنگ دست شخص ہو اور رسول اللہﷺ نے ہم کو صدقہ کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ لہٰذا آپ ان کے پاس جائیں اور پوچھیں کہ اگر آپ ﷺ مجھ کو اجازت دیں تو میں آپ کے سوا کسی اور کو نہ دوں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا۔ تم خود ہی جاؤ۔ چنانچہ میں خود ہی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس وقت انصار کی ایک عورت مجھ سے پہلے ہی آپﷺ کے دروازہ پر کھڑی تھیں۔ ان کی ضرورت بھی وہی تھی جو میری تھی۔ رسول اللہﷺ اس وقت پردہ میں تھے۔ سیدنا بلالؓ باہر تشریف لائے ہم نے ان سے کہا کہ رسول اللہﷺ کو خبر کر دیں کہ دو عورتیں دروازہ پر کھڑی ہیں اور وہ اپنے شوہروں پر صدقہ کرنے کے لیے اجازت طلب کرتی ہیں اور ان یتیموں کے لیے بھی جو ان کی زیر نگرانی ہیں لیکن آپﷺ کو بتانا نہیں کہ ہم کون ہیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ سیدنا بلالؓ رسول اللہﷺ کے پاس اندر گئے اور آپ ﷺ سے اجازت کے بارے میں دریافت کیا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:۔ وہ دو عورتیں کون ہیں؟ انہوں نے عرض کیا:ایک تو انصار کی ایک عورت ہے اور دوسری زینبؓ ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا:کون زینب؟ انہوں نے عرض کیا:عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی۔ آپﷺ نے فرمایا:ان کے لئے دو اجر ہیں۔ ایک تو قرابت کا اجر اور دوسرا صدقہ کا اجر۔ حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن صبح کے وقت حضور ﷺ نے حضرت بلالؓ کو بلا کر فرمایا: اے بلال ! تم کس عمل کی وجہ سے مجھ سے پہلے جنت میں چلے گئے؟ آج رات میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے آگے تمہارے چلنے کی آہٹ سنی۔ انہوں نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! جب بھی مجھ سے گناہ ہو جاتا ہے تو میں فوراً دو رکعت صلوۃ التوبہ پڑھتا ہوں اور جب بھی میرا وضو ٹوٹتا ہے تو میں اسی وقت وضو کر کے دو رکعت نفل (تحیۃ الوضو) پڑھتا ہوں حضرت بلالؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سردی کی ایک رات میں صبح کی اذان دی لیکن کوئی آدمی نہ آیا۔ میں نے پھر اذان دی لیکن پھر بھی کوئی نہ آیا اس پر حضورﷺ نے فرمایا: اے بلال ! لوگوں کو کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا۔ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں سردی بہت زیادہ ہے اس وجہ سے لوگ ہمت نہیں کر رہے ہیں۔ اس پر حضورﷺ نے یہ دعا فرمائی:اے اللہ! لوگوں سے سردی دور کر دے۔ حضرت بلالؓ کہتے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ لوگ صبح کی نماز میں اور اشراق کی نماز میں بڑے آرام سے آ رہے ہیں۔ انہیں سردی محسوس نہیں ہو رہی بلکہ کچھ لوگ تو پنکھا کرتے ہوئے آ رہے تھے۔ جب حضرت بلالؓ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو حضرت سعد بن خثیمہؓ کے مہمان ہوئے۔ وہاں حضورﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم فرمایا تو حضرت بلالؓ کو حضرت ابورویحہ(عبداللہ بن عبدالرحمن) کا بھائی بنا دیا۔ اس مواخات کی وجہ سے دونوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت کے عظیم جذبات پیدا ہو گئے۔ عہد فاروقی میں حضرت بلالؓ نے شامی مہم میں شرکت کا ارادہ کیا تو حضرت عمرؓ سے پوچھا۔ بلال !تمہارا وظیفہ کون وصول کرے گا؟ حضرت بلالؓ نے عرض کیا:میرا وظیفہ ابورویحہؓ نے وصول کریں گے کیونکہ حضورﷺ نے ہم دونوں میں جو برادرانہ تعلق پیدا کیا ہے وہ کبھی ٹوٹ نہیں سکتا حضرت سالمؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شاعر نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے صاحبزادے حضرت بلال بن عبداللہ کی تعریف میں یہ شعر کہا: عبداللہ بن عمرؓ کے بیٹے بلال بہترین بلال ہیں۔ جب حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے یہ شعر سنا تو فرمایا: تو جھوٹ بولتا ہے، بلکہ رسول اللہﷺ کے بلال بہترین بلال ہیں حضرت اسلمؓ کہتے ہیں کہ حضرت بلالؓ نے پوچھا: اے اسلم! تم لوگوں نے حضرت عمرؓ کو کیسا پایا؟ میں نے کہا:بہت اچھا پایا لیکن انہیں جب غصہ آ جاتا ہے تو پھر مسئلہ بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ حضرت بلالؓ نے فرمایا۔ آئندہ اگر تمہاری موجودگی میں حضرت عمرؓ کو غصہ آ جائے تو تم ان کے سامنے قرآن پڑھنے لگ جانا انشاء اللہ ان کا غصہ چلا جائے گا۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے خیبر اور مدینہ کے درمیان حضرت صفیہؓ کے ساتھ تین راتیں گزاریں اور میں نے آپ ﷺ کے ولیمہ کے لیے لوگوں کو بلایااس ولیمہ میں نہ روٹی تھی نہ گوشت۔ بلکہ آپ ﷺ کا ولیمہ یوں ہوا کہ حضورﷺ کے ارشاد پر حضرت بلالؓ نے چمڑے کے دسترخوان بچھائے اور ان پر کھجور، پنیر اور گھی رکھ دیا لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ حضرت صفیہؓ ام المومنین ہیں یا باندی؟ اس پر لوگوں نے کہا اگر حضورﷺ نے انہیں پردہ کرایا تو پھر یہ ام المومنین ہیں اور اگر پردہ نہ کرایا تو پھر یہ حضورﷺ کی باندی ہیں۔ جب آپ وہاں سے چلنے لگے تو آپ ﷺ نے حضرت صفیہؓ کے لیے اپنے پیچھے کچھ بچھا کر نرم جگہ بنائی اور پردہ لٹکایا۔ ایک مرتبہ آقائے دو عالم حضرت محمدﷺ نے حضرت بلالؓ کو کھانے کی دعوت دی۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا:میں روزہ سے ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہم اپنا رزق کھا رہے ہیں اور بلال کا رزق جنت میں محفوظ ہو گیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اے بلال ! کیا تمہیں علم ہے کہ جب تک روزہ دار کے پاس کھایا جاتا رہے اس کی ہڈیاں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہیں اور فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ سیدنا بلالؓ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم پر رات کا قیام واجب ہے، کیونکہ صالحین کی سرکاردو عالم ﷺ سے پہلے یہ عادت تھی اور رات کا قیام اللہ کے دربار میں قربت کا باعث ہے، گناہوں سے روکتا ہے، برائیوں کو ختم کرنے والا ہے اور بدن کو بیماری سے پاک کرنے والا ہے۔ یہ دراصل سب نماز تہجد کی فضلیت ہے۔ سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا سفینہؓ کو جو رسول اللہﷺ کے غلام تھے۔ سیدنا معاذ بن جبلؓ حاکم یمن کے پاس ایک خط دے کر بھیجا۔ جب وہ جا رہے تھے راہ کے درمیان ایک شیر بیٹھا ہوا تھا۔ شیر کو اس طرح راہ کے درمیان بیٹھا ہوا دیکھ کر وہ خوف زدہ ہو گئے کہ شیر حملہ آور ہو گا۔ بعض روایات میں ہے کہ شیر بھوکا تھا۔ سیدنا سفینہؓ نے اس کی طرف کھڑے ہو کر کہا کہ میں رسول اللہﷺ کا صحابی ہوں اور آپ ﷺ کی طرف سے ایک خط لے کر سیدنا معاذ بن جبلؓ کی طرف یمن جا رہا ہوں۔ شیر رسول اللہﷺ کا نام سن کر کھڑا ہو گیا۔ غراتا ہوا دبے پاؤں چلا پھر دھاڑا پھر دھاڑا اور راستہ سے ایک طرف ہو گیا۔ سیدنا سفینہؓ سیدنا معاذ بن جبلؓ کی طرف خط لے کر چلے گئے۔ جب وہ جواب لے کر واپس لوٹے تو دیکھا کہ وہ شیر اسی طرح راستہ میں بیٹھا ہوا تھا وہ پھر خوف زدہ ہو گئے کہ مبادا حملہ آور ہو۔ انہوں نے پھر شیر کو مخاطب کر کے کہا۔ میں رسول اللہﷺ کا صحابی ہوں اور میں رسول اللہﷺ کے خط کا جواب سیدنا معاذ بن جبلؓ سے لے کرواپس مدینہ جا رہا ہوں۔ پھر آپ نے اس خط کا جواب شیر کو دکھایا اور کہا یہ اس خط کا جواب ہے۔ شیر پھر کھڑا ہو گیا اور ایک دھاڑ ماری اور پھر راستہ سے ایک طرف ہو گیا۔ جب وہ صحابی سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپﷺ کو یہ سب ماجرا سنایا۔ سرکاردوعالمﷺ نے فرمایا: جانتے ہو کہ اس شیر نے پہلی مرتبہ کیا کہا، وہ شیر کہتا تھا کہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علیؓ کیسے ہیں؟ اور تمہاری واپسی پر یہ کہتا تھا کہ میری طرف سے ابوبکر، عثمان، علی، سلمان، صہیب اور بلالؓ کو سلام عرض کرنا۔ ایک مرتبہ شاہ حبشہ نجاشی نے رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں تین نیزے تحفہ کے طور پر بھیجے۔ آپﷺ نے ان میں ایک نیزہ سیدنا علیؓ کو مرحمت فرمایا اور ایک سیدنا عمرؓ کو عطا فرمایا اور ایک اپنے پاس رکھا۔ سیدنا بلالؓ عیدین کی نماز کے لیے عیدگاہ جاتے ہوئے آپﷺ کا یہ نیزہ ہاتھ میں لے کر آپﷺ کے آگے چلتے اور عیدگاہ میں پہنچ کر وہ نیزہ آپﷺ کی جائے نماز کے آگے گاڑ دیتے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کو سترہ بنا کر نماز عید پڑھاتے۔ سیدنا ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں بھی سیدنا بلالؓ کا یہی معمول رہا۔ خلافت صدیقی کے بعد سیدنا بلالؓ شام تشریف لے گئے لہٰذا ان کے بعد سیدنا سعد القرطؓ، سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کے آگے نیزہ لے کر چلتے تھے۔ مہاجرین گرم خشک علاقے سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ کی مرطوب آب و ہوا میں آئے تو انہیں مختلف قسم کے بخاروں نے آ گھیرا یہاں کا بخار۔ حمی یثرب پہلے ہی پورے عرب میں مشہور تھا چنانچہ مدینہ پہنچ کر کئی صحابہ کرامؓ بخار میں مبتلا ہو گئے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو نہایت تیز بخار ہو گیا۔ سیدنا بلالؓ اگرچہ حبش کے گرم علاقہ کے رہنے والے تھے لیکن ان کی عمر کا ایک اچھا خاصا حصہ بلکہ ایک روایت کے مطابق پوری زندگی مکہ کی وادیوں اور گلیوں میں گزری تھی چنانچہ وہ بھی سخت بخار میں مبتلا ہو گئے۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہﷺ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو ابوبکرؓ اور بلالؓ بخار میں مبتلا ہو گئے۔ میں ان کے پاس رسول اللہﷺ کی اجازت سے گئی۔ وہ ایک گھر میں مقیم تھے۔ فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے والد ابوبکرؓ اور بلالؓ سے مخاطب ہو کر: اے والد ماجد اور بلال! یہ حال کیسے ہو گیا۔ سیدنا ابوبکرؓ بخار میں سخت مبتلا تھے۔ اسی حالت میں فرمایا: کل امریء مصبح فی اھلہ الموت ادنی من شراک نعلہ ہر شخص اپنے گھر میں صبح منا رہا ہوتا ہے اور موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی قریب ہوتی ہے۔ سیدنا بلالؓ بھی بخار میں مبتلا تھے۔ بخار میں کچھ کمی ہوتی تو مکان کے صحن میں لیٹ جاتے اور مکہ مکرمہ کے شوق میں یہ پڑھتے: الالیست شعری ھل ابیتن لیلتہ بواد حولی اذخرو جلیل اے کاش! کیا میں کبھی اس وادی میں رات گزاروں گا جہاں میرے اردگرد اذخر اور جلیل (مکہ مکرمہ کی گھاس کی بعض قسمیں ہیں) ہوں۔ وھل اردن یوما میاہ مجنتہ وھل یبدن لی شامتہ وطفیل کیا میں کسی روز مجنہ کے چشموں پر جاؤں گا اور کیا شامہ اور طفیل (مقامات) مجھے دکھائی دیں گے۔ سیدنا بلالؓ یہ بھی فرماتے۔ اے اللہ! شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت فرما جنہوں نے اپنے وطن سے نکال دیا ہے گویا کہ آپ کو مکہ مکرمہ بار بار یاد آتا اور اس کی یاد میں روتے اور شعر پڑھتے تھے کیونکہ آتے ہی انہیں مختلف تکالیف و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ بیماری کے دوران انہیں مکہ مکرمہ کی چیزیں اور اس کے عمدہ عمدہ مقامات چشم تصو ر میں نظر آتے ہیں اور آپ انہیں یاد کر کے روتے اور ان کی یاد میں شعر پڑھتے کیونکہ آپ نے وہاں اپنی زندگی کا اچھا خاصا حصہ گزارا تھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ کے غلام عامر بن فہیرہؓ بھی بخار میں مبتلا ہو کر مختلف اشعار پڑھ پڑھ کر اس کی وادیوں کو یاد کرتے تھے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں ابوبکرؓ اور سیدنا بلالؓ وغیرہ کے بخار کو دیکھ کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئی اور ان لوگوں کی بیماری کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے اول تو ان کی عیادت فرمائی اور پھر دعا فرمائی: اے اللہ! ہمیں مدینہ بھی ایسا محبوب بنا دے کہ جیسا مکہ محبوب تھا یا مکہ سے بھی زیادہ ہمیں مدینہ کی محبت عطا فرما، اے اللہ ! مدینہ کے صاع اور مد میں ہمارے لیے برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے لیے اس کی آب و ہوا کو خوش گوار اور صحت بخش بنا دے اور اس بخار کو یہاں سے منتقل کر کے حجفہ پہنچا دے۔ نبوت کے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ حق تعالیٰ شانہ نے خالی واپس نہیں لوٹائے۔ آپﷺ کی دعا قبول ہوئی اور مدینہ منورہ کی آب و ہوا نہایت خوشگوار اور صحت مند ہو گئی اور آج تک ویسی ہی ہے۔ سیدنا بلالؓ اگر کسی روز مدینہ منورہ میں موجود نہ ہوتے تو سیدنا عبداللہ بن ام مکتومؓ ان کی نیابت کے طور پر مسجد نبوی میں اذان کا فریضہ ادا کرتے تھے۔ صبح کی اذان عموماً کچھ دیر سے دیتے یعنی صبح صادق سے قبل دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صبح کے وقت اکثر و بیشتر دو اذانیں ہوتی تھیں۔ پہلی اذان سیدنا بلالؓ دیتے تھے، اور دوسری اذان سیدنا عبداللہ بن ام مکتومؓ دیتے تھے۔ چونکہ وہ نابینا تھے اس لیے ان کو وقت سے آشنائی نہ ہوئی تھی۔ جب لوگ ان سے کہتے کہ صبح ہو چکی ہے تو اٹھ کر صدائے توحید بلند فرماتے۔ اسی وجہ سے رمضان المبارک میں بھی سیدنا بلالؓ کی اذان کے بعد کھانا پینا جائز تھا کیونکہ جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ بلالؓ کی اذان صرف اس لیے ہے کہ جو لوگ رات بھر عبادت الٰہی میں مصروف رہے ہیں۔ وہ اب کچھ دیر آرام اور استراحت کر لیں اور جو تمام رات خواب راحت میں سرشار رہے ہیں، وہ بیدار ہو کر سحری کھالیں اور نماز صبح کی تیاری کریں لیکن وہ صبح کا وقت نہ ہوتا تھا بلکہ کچھ رات باقی رہتی تھی۔ چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: (ان بلالا یوذن بلیل فکلو واشربوا حتی یوذن ابن ام مکتوم) بلالؓ اس وقت اذان دیتے ہیں جبکہ ابھی کچھ رات باقی ہوتی ہے۔ پس تم اس وقت تک کھا پی لیا کرو جب تک کہ ابن مکتوم اذان نہ دیا کریں۔ سیدنا بلالؓ نہ صرف حضر میں رسول اللہﷺ کے موذن تھے بلکہ حالت سفر میں بھی یہ رسول اللہﷺ کے محافظ اور موذن ہوتے تھے۔ ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے رسول اللہﷺ کو مقام ابطح میں دیکھا، حضرت بلالؓ آپﷺ کی خدمت پر مامور تھے۔ اتنے میں حضرت بلالؓ آئے اور نیزہ لے کر آپﷺ کے سامنے چلنے لگے حتیٰ کہ ایک جگہ پر اس نیزے کو رسول اللہﷺ کے سامنے گاڑ دیا اور آپ ﷺ نے نماز پڑھائی۔ غزوہ خیبر کی فتح کے بعد رسول اللہﷺ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر آپ ﷺ نے اخیر شب میں آرام و استراحت کی خاطر ایک وادی میں پڑاؤ ڈالا۔ یہ پڑاؤ آپ نے صحابہ کرامؓ کی خواہش پر ڈالا۔ صحابہ کرامؓ کی عرضداشت کو شرف قبولیت عطا فرماتے وقت آپ ﷺ نے فرمایا تھا: مجھے اندیشہ ہے کہ نیند تم کو نماز سے غافل کر دے گی۔ سیدنا بلالؓ کو اپنی شب بیداری پر اعتماد تھا۔ لہٰذا انہوں نے ذمہ لیا کہ وہ سب کو بیدار کر دیں گے۔ سیدنا بلالؓ کے اس اعتماد پر سب لوگ مشغول استراحت ہو گئے۔ سیدنا بلالؓ نے مزید احتیاط کے خیال سے شب زندہ داری کا ارادہ کر لیا اور رات بھر اپنے کجاوے پر ٹیک لگائے بیٹھے رہے لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ اس حالت میں نیند نے ان پر غلبہ پا لیا اور ان کی آنکھ لگ گئی، اور ایسی غفلت طاری ہوئی کہ طلوع آفتاب تک کوئی بھی بیدار نہ ہوا۔ رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے بیدار ہو کر سب سے ان کو آواز دی اور فرمایا: بلال تمہاری ذمہ داری کیا ہوئی؟ عرض کی :یا رسول اللہ ﷺ ! آج کچھ ایسی غفلت طاری ہوئی کہ اس سے قبل مجھے کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا۔ اس پر نبی کریمﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے تمہاری روحوں کو قبض کر لیتا ہے اور جب چاہتا ہے ان کو تم پر واپس کر دیتا ہے۔ اچھا بلال اٹھو اور اذان دو اور لوگوں کو نماز کے لیے جمع کرو بعض روایات میں ہے کہ آپﷺ سب سے پہلے گھبرا کر اٹھے۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو بیدار کیا اور اس وادی سے کوچ کر نے کا حکم فرمایا کہ یہاں شیطان ہے۔ اس وادی سے نکل کر آپ ﷺ نے آگے نزول فرمایا اور سیدنا بلالؓ کو اذان کا حکم دیا۔ وضو کر کے پہلے دو رکعت سنتیں پڑھیں۔ پھر سیدنا بلالؓ کو اقامت کے لیے فرمایا اور جماعت کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
Right and Wrong do not depend on the opinion of Prophet SAW


Now, it seems that you have exposed yourself by saying "Right and Wrong do not depend on the opinion of Prophet SAW". Are you a non-Muslim? because a Muslim can never say that right and wrong do not depend on the opinion of Prophet Muhammad pbuh. Allah says in Qur'an:

(Qur'an 33:36) وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا
It is not fitting for a Believer, man or woman, when a matter has been decided by Allah and His Messenger to have any option about their decision: if any one disobeys Allah and His Messenger, he is indeed on a clearly wrong Path.
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو لائق نہیں کہ جب الله اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دے تو انہیں اپنے کام میں اختیار باقی رہے اور جس نے الله اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ صریح گمراہ ہوا

Whatever was the case, he was unarmed, a prisoner, under protection of a muslim sahabi, and had surrendered!

Narrated 'Abdur-Rahman bin 'Auf: I got an agreement written between me and Umaiya bin Khalaf that Umaiya would look after my property (or family) in Mecca and I would look after his in Medina. When I mentioned the word 'Ar-Rahman' in the documents, Umaiya said, "I do not know 'Ar-Rahman.' Write down to me your name, (with which you called yourself) in the Pre-lslamic Period of Ignorance." So, I wrote my name ' 'Abdu 'Amr'. On the day (of the battle) of Badr, when all the people went to sleep, I went up the hill to protect him. Bilal(1) saw him (i.e. Umaiya) and went to a gathering of Ansar and said, "(Here is) Umaiya bin Khalaf! Woe to me if he escapes!" So, a group of Ansar went out with Bilal to follow us ('Abdur-Rahman and Umaiya). Being afraid that they would catch us, I left Umaiya's son for them to keep them busy but the Ansar killed the son and insisted on following us. Umaiya was a fat man, and when they approached us, I told him to kneel down, and he knelt, and I laid myself on him to protect him, but the Ansar killed him by passing their swords underneath me, and one of them injured my foot with his sword. (The sub narrator said, " 'Abdur-Rahman used to show us the trace of the wound on the back of his foot.") (Sahih Bukhari; Book #38, Hadith #498)

1. It is very clear from above hadeeth that as soon as Bilal (RA) saw Umaiya bin Khalaf he reacted by deciding to kill Umaiya bin Khalaf.

2. It may be an abrupt decision probably initially not aware of the full circumstances e.g., whether Umaiya bin Khalaf was prisoner or not

3. Above Hadeeth clearly mentions that it was NOT Bilal (RA) who killed Umaiya bin Khalaf but "a group of Ansar"

4. Probably, by the time Bilal (RA) realize the situation it was all over.

5. Now, assuming Bilal (RA) intentionally made Ansar to kill Umaiya bin Khalaf, he (RA) was Sahabi-e-Rasool pbuh but not infallible. He made a mistake. This type of mistake happens during war.


Second at that time Muhammad PBUH was alive and this happen in there time and he didnt response to this event which means that the Bilal ra did the right thing.

It is narrated on the authority of Usama b. Zaid that the Messenger of Allah (may peace be upon him) sent us in a raiding party. We raided Huraqat of Juhaina in the morning. I caught hold of a man and he said: There is no god but Allah, I attacked him with a spear. It once occurred to me and I talked about it to the Apostle (may peace be upon him). The Messenger of Allah (may peace be upon him) said: Did he profess" There is no god but Allah," and even then you killed him? I said: Messenger of Allah, he made a profession of it out of the fear of the weapon. He (the Holy Prophet) observed: Did you tear his heart in order to find out whether it had professed or not? And he went on repeating it to me till I wished I had embraced Islam that day. Sa'd said: By Allah, I would never kill any Muslim so long as a person with a heavy belly, i. e., Usama, would not kill. Upon this a person remarked: Did Allah not say this: And fight them until there is no more mischief and religion is wholly for Allah? Sa'd said: We fought so that there should be no mischief, but you and your companions wish to fight so that there should be mischief. (Sahih Muslim; Book #001, Hadith #0176)

Above Hadeeth shows that Prophet Muhammad pbuh were not happy when a Sahabi (RA) killed a person although the person professed "There is no God but Allah".

Now, in the case of Bilal (RA) we do not find any authentic narration showing whether Prophet Muhammad pbuh were happy or not with the incident of Umayyah ibne Khalaf. In such case we can not assume that Prophet Muhammad pbuh approved the killing of Umaiya bin Khalaf.

Allah knows best



 
Last edited:

Back
Top