بات دو انسانوں کی ہے
بلال بن رباح بلال غلام ابن غلام تھے- ماں بھی غلام اور باپ بھی غلام اور اسی غلامی میں بلال پیدا ہوئے- اسلام کے ابتدائی دور میں جب غربا اور غلامان اسلام کی طرف مائل ہو رہے تھے بلال نے بھی اسلام قبول کر لیا
امیہ بن خلف اوائل اسلام مکے کی ایک محترم و مکرم شخصیت- مکہ کا طواف کرنے والوں کی خدمت میں پیش پیش اور اپنی دوست نوازی اور حسن سلوک سے وجہ سے مشہور- اس درجہ حسن سلوک اور دوست نوازی کہ ہجرت نبوی کے بعد اس وقت اپنے مسلمان دوست سعد بن ماعوز کو مکہ کا طواف کروانے لے گئے- جب فریقین میں تناؤ اپنے عروج پر تھا- ایسے ہی عبدالرحمن بن عوف جنکا پرانا نام عبدو عمر تھا اور جو مسلمان ہو کے ہجرت کر چکے تھے ان سے یہ معاہدہ کیا کہ امیہ مکہ میں انکی پراپرٹی اور خاندان کی حفاظت کریں گے جبکہ عبدالرحمان مدینہ میں امیہ کی پراپرٹی اور خاندان کی حفاظت کریں گے
بلال بن رباح بلال غلام ابن غلام تھے- ماں بھی غلام اور باپ بھی غلام اور اسی غلامی میں بلال پیدا ہوئے- اسلام کے ابتدائی دور میں جب غربا اور غلامان اسلام کی طرف مائل ہو رہے تھے بلال نے بھی اسلام قبول کر لیا
امیہ بن خلف اوائل اسلام مکے کی ایک محترم و مکرم شخصیت- مکہ کا طواف کرنے والوں کی خدمت میں پیش پیش اور اپنی دوست نوازی اور حسن سلوک سے وجہ سے مشہور- اس درجہ حسن سلوک اور دوست نوازی کہ ہجرت نبوی کے بعد اس وقت اپنے مسلمان دوست سعد بن ماعوز کو مکہ کا طواف کروانے لے گئے- جب فریقین میں تناؤ اپنے عروج پر تھا- ایسے ہی عبدالرحمن بن عوف جنکا پرانا نام عبدو عمر تھا اور جو مسلمان ہو کے ہجرت کر چکے تھے ان سے یہ معاہدہ کیا کہ امیہ مکہ میں انکی پراپرٹی اور خاندان کی حفاظت کریں گے جبکہ عبدالرحمان مدینہ میں امیہ کی پراپرٹی اور خاندان کی حفاظت کریں گے
بلال امیہ کے غلام تھے اور امیہ مکہ کےسرکردہ لیڈر ہونے کی وجہ سے اور اسلام کو ناپسند کرنے میں پیش پیش تھے- بلال کا اسلام قبول کرنا کیسے گوارا ہوتا کہ اپنے ہی گھر میں کوئی مسلمان بن جائے- بلال نے امیہ کے کہنے پر اسلام چھوڑنے سے انکار کر دیا- امیہ نے بلال کو مجبور کرنے کے لئے تشدد کا سہارا لیا- کیوں کہ امیہ اپنے قبیلے کے سردار تھے اس لئے وہ بلال پر تشدد کو ایک کیس کے طور پر اوروں کے سامنے رکھتے- اس تشدد میں امیہ کے قبیلے والے مدد کرتے اس لئے بلال پی تشدد کی بات سبھی جانب مشھور ہو گئی- ورقہ بن نوفل نے امیہ سے کہا اگر یہ غلام اس جگہ تشدد سہتے سہتے مر گیا تو میں ضرور اس جگہ اسکا مزار بناؤں گا- ایک دن ابو بکر وہاں سے گزر رہے تھے انہوں سے امیہ سے کہا کہ کب تک تشدد کرو گے- امیہ نے کہا کہ تم لوگوں نے بلال کو خراب کیا ہے اب تم ہی اسے بچاؤ- یہ الفاظ ابن اسحاق نے بیان کیے ہیں- اس پر ابو بکر نے امیہ سے کہا کہ میرے پاس ایک غیر اہل کتاب کالا غلام ہے- جو اس غلام (بلال) سے زیادہ طاقتور اور زیادہ مضبوط ہے- امیہ نے غلاموں کے تبادلہ کی حامی بھری اور ایسے ابو بکر نے بلال کی ملکیت حاصل کرنے کے بعد انہیں آزاد کر دیا
یقینا آپ کے دل میں امیہ کے خلاف اچھے جذبات نہیں ابھرے ہونگے یہ پڑھنے کے بعد مگر ایک متوازن رائے قائم کرنے کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا باقی لوگوں کا چلن بھی ایسا ہی تھا یا امیہ ہی ایک ظالم رہ گیا تھا مکہ میں- بلال پر تشدد کی جو روایات ابن اسحاق اور ابن سعد نے بیان کی ہیں انمیں بلال کو دھوپ میں لٹایا جانااور انکے سینے پر ایک بڑا پتھر رکھ دیا جانا ہے تاکہ وہ کروٹ نہ بدل سکیں- اس سے زیادہ کوئی اور چیز کسی کتاب میں بیان نہیں ہوئی- بلال غلام ابن غلام تھے- مرد تھے- جوان تھے- ان میں یہ تنگی اور تشدد سہنے کی ہمت تھی اور انہوں نے سہا - مگر اسی جگہ کچھ اوربھی لوگ تھے جو اپنے غلامان کے ساتھ اس سے بھی بڑھ کر غلط سلوک کر رہے تھے- غلام مرد تو ایک طرف وہ غلام خواتین تک پر تشدد کی انتہا کر دیتے تھے- آئیے آپ کو اصل تاریخ لفظ بہ لفظ یاد دلاتے ہیں- ابن اسحاق جنہوں نے بلال پر تشدد کو ریکارڈ کیا انہوں نے ہی اپنی کتاب سیرت رسول الله " کے صفحہ ١٤٤ کے پیراگراف نمبر ٤ میں لکھا ہے"
ابو بکرقبیلہ بنوعدی کی ایک برادری بنو موعمل کی ایک غلام "لڑکی" کے پاس سے گزرے- عمر بن خطاب اس "پر اسلام کو چھوڑنے کے لئے تشدد کر رہے تھے- عمر نے اسے اتنا مارا کہ مار مار کہ خود تھک گئے- کہا ابھی میں نے مارنا صرف اس لئے چھوڑا ہے کہ میں تھک گیا ہوں- غلام لڑکی نے جواب دیا- خدا تم سے بھی "ایسا ہی سلوک کرے- ابو بکر نے عمر سے اس لڑکی کو "خرید" لیا اور پھر اسے آزاد کر دیا
ذرا سوچئے کہ وہ عمر جن کی ہمّت اور طاقت کے قصے مسلمانوں میں زبان زد عام ہیں جب وہ مارتے ہونگے تو کیسا مارتے ہونگے اور جب وہ مارتے مارتے تھک جاتے ہونگے تو مار کھانے والا کیسے روئی کی طرح دھنک جاتا ہو گا- کتنا خون نکلتا ہو گا اور کتنی ہڈیاں ٹوٹتی ہونگی- مارنے والا عمر جیسا عظیم و شان اور مار کھانے والی محض ایک لڑکی- ایک غلام خاتون نہیں- ایک غلام لڑکی
تو پھر بلال کا "احد" ہی کیوں یاد رہا؟ پھر امیہ کی ستم کاری پہ زبان طرازی کیوں؟ ایمانداری سے سوچیں اور بتائیں کہ ان دونوں واقعات میں کون زیادہ ظالم تھا امیہ یا عمر اور کون زیادہ مظلوم تھا بلال یا وہ غلام لڑکی؟ سوچئے- کیوں کہ اس کا میری تحریر کے اگلے حصے سے گہرا تعلق ہے
بلال کی آزادی کو سالہا سال گزر چکے تھے- بدر کی جنگ میں امیہ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ آیا- ممتاز صحابی عبدالرحمان بن عوف کا معاہدہ تھا امیہ کے ساتھ- وہ رات کو اٹھے اور امیہ کو اپنا قیدی بنا لیا امیہ نے بدر کی لڑائی میں حصہ نہیں لیا تھا- وہ بھی عبدالرحمان بن عوف کے قیدی بن گئے- اس میں حکمت یہ تھی کہ ایک صحابی کا قیدی بن چکنے کے بعد امیہ کو قتل نہیں کیا جا سکتا تھا- پھر انکا حساب جنگی قیدی کے طور پر ہی ہونا تھا- اسی اثنا میں بلال کی نظر امیہ پر پڑ گئی- انہوں نے امیہ کو پہچان لیا اور یکایک شدید جذبات میں آ کے کہا "میں برباد ہوں اگر میں امیہ کو جانے دوں"یا یہ کہا "مجھے موت آئے اگر میں امیہ کو چھوڑ دوں"یہ کہنے کے بعد بلال نے شور کر کے انصار کو اکٹھا کیا اور امیہ اور عبدالرحمان کے پیچھے بھاگےعبدلرحمان بن عوف نے امیہ کے بیٹے سے کہا کہ وہ انصار کو مصروف رکھے تاکہ امیہ کو' جس نے سرنڈر کر دیا ہے اسے محفوظ جگا پہنچایا جا سکے- بلال کی سرکردگی میں امیہ کے بیٹے کو قتل کر دیا گیا اور امیہ کا پیچھا جاری رکھا گیا- آخر کار بلال نے امیہ کو آن لیا- عبدالرحمان بن عوف نے بتایا کہ اب امیہ قیدی ہے اور اسے قتل نہیں کیا جا سکتا- بلال نے سنی ان سنی کر دی عبدلرحمان بن عوف امیہ کو زمین پر گرا کر خود اسکے اوپر لیٹ گئے- تاکہ بلال امیہ کی جان نہ لے سکیں- وحشت اور نفرت کا یہ عالم تھا کہ عبدالرحمان بن عوف کو بھی نہ بخشا گیا- انکے جسم کو بھی داغدار کیا گیا اور انکے نیچے دبے ہوئے امیہ بن خلف کے کے جسم پر جہاں ہو سکا وار کر کے انکی جان لے لی- اس بات کے کچھ حصے کو اختصار کے ساتھ صحیح بخاری اس طرح بیان کرتی ہے اور راوی خود عبدالرحمان بن عوف ہیں
Volume 3, Book 38, Number 498:
Narrated 'Abdur-Rahman bin 'Auf:
I got an agreement written between me and Umaiya bin Khalaf that Umaiya would look after my property (or family) in Mecca and I would look after his in Medina. When I mentioned the word 'Ar-Rahman' in the documents, Umaiya said, "I do not know 'Ar-Rahman.' Write down to me your name, (with which you called yourself) in the Pre-lslamic Period of Ignorance." So, I wrote my name ' 'Abdu 'Amr'. On the day (of the battle) of Badr, when all the people went to sleep, I went up the hill to protect him. Bilal(1) saw him (i.e. Umaiya) and went to a gathering of Ansar and said, "(Here is) Umaiya bin Khalaf! Woe to me if he escapes!" So, a group of Ansar went out with Bilal to follow us ('Abdur-Rahman and Umaiya). Being afraid that they would catch us, I left Umaiya's son for them to keep them busy but the Ansar killed the son and insisted on following us. Umaiya was a fat man, and when they approached us, I told him to kneel down, and he knelt, and I laid myself on him to protect him, but the Ansar killed him by passing their swords underneath me, and one of them injured my foot with his sword. (The sub narrator said, " 'Abdur-Rahman used to show us the trace of the wound on the back of his foot.")
جب مسجد میں مولبی جمعہ کی نماز کے خطبے میں بلال پہ ہونے والے "ظلم و ستم" کی کہانی رو رو کے سنایا کرتے تھے تو ہم بھی "احد احد " کی آوازوں پر سر دھنا کرتے تھے- امیہ سا ظالم کوئی نظر نہ آتا اور بلال سا مظلوم کہیں دنیا میں نہ پایا جاتا - اوپر سے "مولبی ساب" کی پر سوزیت' آنسو' راگ'اور آواز کا زیرو بم لاؤڈ سپیکر کی کرشمہ کاری کے ساتھ مل کر دل پہ ایک عجیب اثر کرتا تھا- بلال کا ایک ایسا تخیل ذھن میں بنتا تھا جسکے سامنے سب ہیچ- جب بڑے ہوئے اور پڑھنا شروع کیا توایسے محسوس ہوا جیسے آہستہ آہستہ انددھیرےسے روشنی میں آرہے ہیں- جیسے دھند چھٹ رہی ہے- جیسے تخیلاتی بت' ذھن کے صنم خانے میں خود ہی آہستہ آ ہستہ چکنا چور ہوتے جا رہے ہیںامیہ کا بلال سے کوئی ذاتی عناد نہیں تھا- ہوتا تو امیہ کبھی بلال کا تبادلہ نہ کرتے بلکہ ہمیشہ پاس رکھتے اور تشدد کرتے رہتے- ذاتی مخاصمت ہوتی تو بلال کے قبول اسلام سے پہلے کبھی ان سے اچھا سلوک نہ کرتے-( کیوں کہ انکے اچھے سلوک کی بھی روایت ملتی ہے)- پھر بھی امیہ کا تشدد غلط' غیر من اور غیر انسانی تھی- پر کیا عمر کے تشدد سے بھی زیادہ غیر انسانی تھا؟ کیا بلال نے ظلم کی انتہا نہیں کر دی؟ کیا ایک نہتے' موٹے' خوفزدہ' ہتھیار ڈالے ہوئے جنگی قیدی کو قتل کرنا ظلم کی انتہا نہیں؟ جب امیہ اپنی طاقت کے عروج پر تھے اور بلال محض ایک غلام ابن غلام تب بھی امیہ نے بلال کا نہ خون بہایا اور جان لی- جونہی بلال کا بس چلا امیہ سے انکی زندگی ہی چھین لی- کوئی بتائے کہ بلال کےاحد" سے کیسے متاثر ہوا جائے- کیسے ان سے اظہار ہمدردی کی جائے- کیسے اس انسانیت سوز قتل اور ظلم ناروا کی حمایت کی جائے
Last edited: