
سابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بڑا انکشاف کردیا انہوں نےکہا جب میں حکومت میں تھا تو بہت سارے لوگ بے اختیار سمجھتے تھے، کچھ لوگوں نے کٹھ پتلی جیسے ہتک آمیز الفاظ بھی استعمال کیے مگر میں اُس وقت بھی اور آج بھی اپنے تمام اقدامات کی ذمہ داری لیتا ہوں۔
سابق نگراں وزیراعظم نے کہاکہ موجودہ حکومت یہ تاثر قطعاً نہیں دے سکتی کہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کررہی ہے اور انہیں کچھ پتا نہیں بلکہ متعلقہ فورمز موجود ہوتے ہیں جہاں کھل کر گفتگو ہوتی ہے اور اس میں بات سنی جاتی ہے۔
انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ میں نے بطور نگراں وزیراعظم جب بھی فوجی سائیڈ کو کوئی رائے دی اور حتیٰ کہ کچھ فیصلوں سے عدم اتفاق کیا تو مجھے اہمیت دی گئی، سنا گیا اور جہاں منطقی انداز سے سمجھا گیا کہ میری بات درست ہے تو اُس رائے کو تبدیل بھی کیا گیا,وہ آج بھی یہ نہیں سمجھتے کہ منتخب حکومت کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی یا ان کو صرف بتا دیا جاتا ہے۔
عمران خان کے حوالے سے سوال ہر انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ مقبول لیڈر دنیا بھر میں انتخابی بادشاہت قائم کرتے ہیں۔ حکومتوں کو سروس ڈیلیوری کرنی ہوتی ہے۔ سماجی خدمات، سیکیورٹی اور معاشی بہتری ہونی چاہیے اور اسی پر حکومتوں کو دیکھا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ ہمارے ہاں کارکردگی کے بجائے سیاسی خواب بیچے جاتے ہیں,موجودہ تنازع میں اسٹیبلمنٹ پیچھے ہٹے گی یا عمران خان؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ تیسرا فریق موجودہ حکومت ہے اس کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔اس سوال پر کہ محسن نقوی کیسے وزیر داخلہ بنے؟ ان کا کہنا تھا کہ اس میں بھی موجودہ حکومت اور نظام کی مرضی شامل تھی ورنہ وہ بالکل وزیر داخلہ نہ بنتے۔ ’وہ کسی جماعت کا حصہ نہیں مگر ان کی قربت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ محسن نقوی کی پیپلزپارٹی کی قیادت سے قربت بھی واضح ہے۔
انہوں نے کہا پاکستان میں بلوچستان کا مسئلہ درست طریقے سے نہیں سمجھا جارہا,یہ احساس محرومی نہیں احساس شناخت کا مسئلہ ہے۔ بطور وزیراعظم مجھے کٹھ پتلی جیسے ہتک آمیز القابات دیے گئے مگر فوج اہم اجلاسوں میں نہ صرف میری بات سنتی تھی بلکہ منطق درست ہونے پر اپنی رائے بھی تبدیل کر لیتی تھی۔وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ آپریشن عزم استحکام پر حکومت سے کمیونیکیشن میں کمزوری ہوئی ہے، اصل میں یہ پرانے آپریشنز جیسا نہیں ہوگا کیونکہ اس میں عوام کو اپنے علاقوں سے نہیں نکالا جائے گا۔
انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ ماہ رنگ بلوچ کو جب اسلام آباد پریس کلب کے باہر سوا ماہ احتجاج کرنے دیا گیا وہ کسی نے نہیں سراہا، مگر رات ڈیڑھ بجے جب وہ مین ہائی وے پر رکاوٹ پیدا کرنا شروع ہوئے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے راستہ تو کلیئر کرنا تھا اور اس پر تنقید شروع ہوگئی۔
انہوں نے کہاکہ ماہ رنگ بلوچ پر کوئی ایسا تشدد نہیں ہوا جس سے جان جانے کا اندیشہ ہو، صرف پانی پھینکا گیا تو کیا اسے غزہ سے ملانا درست ہوگا، جہاں 9 ہزار بچے شہید ہوئے، 40 ہزار عام افراد شہید ہوئے اور صہیونی ریاست کی بربریت ساری دنیا نے دیکھی۔
اس حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ مزاکرات کرنا یا طاقت کا استعمال ریاست کے دو طریقے ہیں۔ پہلے تو نتائج پر بات ہونی چاہیے کہ مطلوبہ نتائج کیا ہیں؟
انہوں نے کہاکہ کیا ریاست میں فری موومنٹ ہونی چاہیے جس کے تحت معاشی اور تجارتی سرگرمی ہونی چاہیے یا نہیں ہو نی چاہیے۔ جب ان دو سوالوں کا جواب مل جائے گا تو پھر ریاست فیصلہ کرے کہ کرنا کیا ہے۔
اب اگر کوئی گروہ بڑے بڑے مظاہرے کررہا ہو، احتجاج کے ذریعے مطالبات سامنے رکھ رہا ہو تو ان سے ریاست کو مذاکرات کرنے چاہییں کیونکہ وہ پرامن جدوجہد کرکے بات سامنے لا رہے ہیں۔
مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ 20 سے 25 لوگوں کے گروہ نکل کر لوگوں پر حملے کررہے ہیں اور سرکاری تنصیبات کو تباہ کررہے ہیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اب ایسے میں کس سے مذاکرات کیے جائیں۔ مذاکرات کے لیے دوسری سائید کا راضی ہونا بھی ضروری ہے‘۔
انہوں نے کہاکہ بی ایل ایف کے سربراہ اللہ نظر نے ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں مگر آپ نو آبادیاتی پاور ہیں اور ہماری سرزمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کو بلائیں اور یہاں سے جانے کا وقت اور تاریخ دیں تو بات کریں گے,انہوں نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہاکہ یقیناً اتنی سادہ صورتحال نہیں ہے، دنیا میں کسی سینٹرل اتھارٹی نے علیحدگی پسندوں کے سامنے سرنڈر نہیں کیا، چاہے وہ یورپ ہو یا کوئی اور براعظم، تو پھر پاکستان میں کون سی انوکھی بات ہو رہی ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/5anwakskfofumbbart.png