
شام میں بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے نے خطے کی سیاسی صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے اور روس کے لیے ایک بڑے دھچکے کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ روسی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ بشار الاسد نے صدارت سے استعفیٰ دے کر ملک چھوڑ دیا ہے، تاہم ان کی موجودہ جائے پناہ کا انکشاف نہیں کیا گیا۔ ماسکو نے ان ڈرامائی واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جبکہ شام میں روسی فوجی اڈوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
2015 میں روس نے بشار الاسد کے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے بڑی عسکری مداخلت کی تھی، جسے ولادیمیر پوتن کی بین الاقوامی طاقت کے مظاہرے کے طور پر دیکھا گیا۔ ہزاروں روسی فوجی اور بھاری ہتھیار شام بھیجے گئے تھے، جن کی مدد سے روس نے نہ صرف اسد حکومت کو بچایا بلکہ مشرق وسطیٰ میں اپنی جغرافیائی حکمت عملی کو بھی تقویت دی۔
اس فوجی مداخلت کے بدلے، شام نے روس کو اپنے دو اہم ترین فوجی اڈے، لاذقیہ میں حمیمیم کا فضائی اڈہ اور طرطوس کی بحری بیس، 49 سال کی طویل مدت کے لیے لیز پر دے دیے تھے۔ یہ اڈے روس کے لیے بحیرہ روم میں اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ہیں، جہاں سے وہ افریقی ممالک اور مشرق وسطیٰ میں اپنی عسکری موجودگی کو برقرار رکھ سکتا ہے۔
تاہم اسد کے اقتدار سے بےدخلی نے ان اڈوں کے مستقبل کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔ روسی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ ان تنصیبات کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے، تاہم اس وقت براہ راست کوئی بڑا خطرہ نہیں بتایا گیا۔ روسی حکام کا کہنا ہے کہ وہ شام کے اپوزیشن گروپوں سے رابطے میں ہیں اور اڈوں کی سیکیورٹی کی ضمانت دی جا رہی ہے۔
اس وقت شام میں تقریباً 7500 روسی فوجی تعینات ہیں، جن میں سے بیشتر حمیمیم اور طرطوس کے اہم فوجی مراکز پر موجود ہیں۔ تاہم کچھ خصوصی فورسز کے دستے بھی مختلف علاقوں میں تعینات ہیں، جو باغیوں کی ممکنہ پیش قدمی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق، طرطوس سے کئی روسی بحری جہاز پہلے ہی روانہ ہو چکے ہیں، جبکہ لاذقیہ میں روسی فضائیہ کے طیارے تاحال موجود ہیں۔
روسی حکومت کے لیے بشار الاسد کی رخصتی کو کامیابی کے طور پر پیش کرنا مشکل ہو گا، کیونکہ کریملن نے ان کی حمایت میں سیاسی، مالی اور عسکری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا تھا۔ روسی پارلیمان کے ایوان بالا کے نائب سپیکر کونستانتین کوساتچیف نے اس صورت حال کو ایک "عالمی سانحہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ روس کی اولین ترجیح اپنے فوجیوں، سفارت کاروں اور شہریوں کی حفاظت ہے۔
موجودہ حالات میں شام میں روسی اڈوں کی بقا اور روسی اثر و رسوخ کا تسلسل خطے کی نئی سیاسی حقیقتوں پر منحصر ہے۔ بشار الاسد کے بعد شام میں نئی حکومت کا رویہ اور عالمی قوتوں کی سفارتی حکمت عملی ہی طے کرے گی کہ روس مشرق وسطیٰ میں اپنے عزائم کو کس حد تک برقرار رکھ پاتا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/3russianbasjhdjhjdhjsd.png