بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان
(صدر پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی)
ہرزمانے میںکچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو تاریخ میں اس طرح سے امر ہوجایاکرتی ہیں کہ ان کے ذکر کے بغیر تاریخ پھیکی پھیکی سی لگتی ہے، یہ بات نوابزادہ نصراللہ خان جیسی شخصیت پر صادرآتی ہے۔ ملک میں جب بھی جمہوریت کے حوالے سے تاریخ لکھی جائے گی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے بانی نوابزادہ نصراللہ خان کانام ہمیشہ سنہری لفظوں سے لکھاجائے گا،نوابزادہ نصراللہ خان ایک جہد مسلسل کانام ہے جنہوں نے پاکستان میں جمہوریت کی آبیاری کے لیے د ن رات ایک کردیئے بظاہرانہیں کوئی ذاتی فائدہ حاصل نہ ہوالیکن ان کی دوراندیش بصارت اور سیاسی بصیرت ملک میں انقلاب کانقطہء آغاز بن چکی ہے۔ ملک میں جمہوریت کاموجودہ استحکام نوابزادہ نصراللہ خان کی شبانہ روز جدوجہد کانتیجہ ہے،ان کا ملک کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن میں قربت پیدا کرکے انہیں ایک ٹیبل پر بٹھاناایک ایساکارنامہ ہے جس نے پاکستان کی تاریخ بدل کررکھ دی ہے۔
قائدجمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان ایک دلآویز اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے، ہمیشہ صاف ستھری چمکتی ہوئی سفید شلوار قمیص میں ملبوس ملک میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لیے کوشاں اجلاسوں میں شرکت اور اہم شخصیات وسیاست دانوں سے ملاقاتیں کرتے نظرآتے ،وطن اور وطن کے عوام سے محبت کایہ عالم تھا کہ دم آخر بھی اجلاس میں شرکت پر اصرار تھا۔ اٹھارویں صدی میں نوابزادہ نصراللہ خان کے آبائو اجداد افغانستان سے آکرپاکستان میں پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کے علاقے میں آباد ہوئے ، یہاں منتقل ہونے کے بعد ان کے والد محترم نے 1000مربے زرعی زمین خریدی جومظفر گڑھ سے تقریباً 20کلومیٹر دور خان گڑھ میںہے جبکہ لاہورمیں ان کی رہائش ریلوے اسٹیشن کے پاس32۔ نکلسن روڈ کے سادہ سے کرائے کے مکان میں تھی جوپاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کاصدردفتر بھی تھاجس کے چھوٹے سے کمرے میں پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدان سیاسی مشاورت اور بات چیت کے لیے تشریف لاتے رہے ہیں۔متحدہ ہندوستان میں انگریز حکومت نے نوابزادہ نصراللہ خان کے والد کو 1910ء میں نواب کاخطاب دیاتھا۔ ۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی تقریباً 55سالہ سیاسی زندگی مسلسل جدوجہد ،محنت اور لگن سے عبارت ہے وہ، ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے اپنی خاندانی روایات کوتوڑااور حکومتوں سے تعاون کے بجائے اقتدار کی مخالفانہ سیاست کاآغاز کیا،انہوں نے 1933ء طالب علم کی حیثیت سے سیاست میں حصہ لیناشروع کیا اور اپنے خاندان کے بزرگوں کے برعکس حکمراں جماعت یونینسٹ پارٹی میں شامل ہونے کے بجائے مجلس احرار میں شمولیت اختیارکی،مجلس احرار کانصب العین انگریزوںکابرصغیر سے انخلاء تھا۔انہوں نے انگریزوں کی برصغیر سے بیدخلی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحرک ہوئے ۔1951ء کے صوبائی الیکشن میں خان گڑھ کے دوحلقوں سے کامیاب ہوئے،تاہم جب مسلم لیگ حکومت نے شہری آزادیوں پر پابندیاں لگانی شروع کیں توانہوں نے حکومتی پالیسیوں پر شدید تنقید کی اورپارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی سیاست میں جمہوریت اور اسلام اہم ترین عناصر رہے انہوں نے ممتازدولتانہ کی زرعی اصلاحات کی مخالفت میں پیرنوبہارشاہ کے ساتھ مل کر انجمن تحفظ حقوق زمینداران تحت الشریعہ بھی قائم کی اور بعد میں 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں اہم کردار اداکیا۔یادرہے اس تحریک کوکچلنے اور دبانے کے لیے ملکی تاریخ میں پہلی بار فوج کااستعمال کیاگیاتھا۔1956ء میں جب پاکستان کاپہلادستور بناتو وہ اس دستورسازاسمبلی کاآپ حصہ تونہیں تھے لیکن اس کے تحفظ کے لیے دیگر اکابرین کے ساتھ پیش پیش رہے۔1958ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگایاتونوابزادہ نصراللہ خان کے سرگرم ترین سیاسی دور کاآغاز ہواوہ اس وقت تک عوامی لیگ میں شامل ہوچکے تھے جس کے سربراہ حسین شہید سہروردی تھے۔1962 ء میں باالواسطہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور انکی کوششوں سے جنرل ایوب خان کے خلاف حزب
اختلاف کی جماعتوں کااتحاد ڈیموکریٹک فرنٹ (این ڈی ای) وجود میںآیاانہیں اس اتحاد کاکنوینئربنایاگیااس پلیٹ فارم سے انہوں نے ایوب خان کے باالواسطہ انتخابی نظام کے خلاف اور 1956ء کے آئین کی بحالی کی جدوجہدکی۔1965ء کے صدارتی انتخاب میںنواب زادہ نصراللہ خان نے بانیء پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ مادر ملت فاطمہ جناح کی حما یت میں حزب مخالف کو ایک پلیٹ فارم پراکٹھاکرنے میں ایک بار پھر اہم کردار ادا کیا گوفاطمہ جناح ان متنازعہ انتخابات میں ہارگئیں اور نوابزادہ نصراللہ خان کوبھی انتخابات میں شکست ہوئی لیکن پارلیمانی نظام کی بحالی کے لیے ان کی شروع کردہ جمہوری تحریک زورپکڑتی چلی گئی ۔
نوابزادہ نصراللہ خان نے شیخ مجیب الرحمٰن کی جانب سے چھ نکات پیش کیے جانے کے بعد ان سے علیحدگی اختیار کرکے عوامی لیگ کی الگ جماعت قائم کرلی تھی،اس کے باوجود انہوں نے ایوب خان کے فوجی راج کو ختم کرنے کے لیے شیخ مجیب کی جماعت سمیت تمام جماعتوں کو جمہوری مجلس عمل (ڈیک) کے اتحاد میں جمع کرلیاجس کی عوامی مہم کی زبردست کامیابی کے نتیجے میں ایوب خان نے سیاسی رہنمائوں سے بات چیت کے لیے گول میزکانفرنس بلائی۔نوابزادہ نصراللہ خان نے ایوب خان کے خلاف سیاسی اتحاد بنانے کاجوکام شروع کیا تھا وہ آخردم تک ان کی پہچان بن گیااور وہ متضاد سیاسی جماعتوں کوایک پلیٹ فارم پرجمع کرنے کے ماہر کی حیثیت سے معروف ہوگئے۔یہ ان کاخاصہ تھا کہ انہوں نے ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر بھی کام کیا آج بھی انہیں بابائے جمہوریت کے نام سے یادکیاجاتاہے،حالانکہ مخالفین یہاں تک کہتے تھے کہ انہوں نے جمہوری حکومتوں کی بھی مخالفت کی جبکہ انہوں نے ہمیشہ آئین اور قانون کی بالادستی اداروں کی بحالی، آزاد عدلیہ اور آزادالیکشن کمیشن کے لیے جدوجہد کی مگر یہ ملک اور ملک کے عوام کی قسمت ہی کہیئے کہ جب کسی حکومت کے خلاف بنائے اتحاد کوکامیابی ہوتی تو بجائے اصلاحات کے ملک کے حکمرانوں پر آمرانہ سوچ غالب آجاتی اور یہ نوابزادہ نصراللہ خان کوہرگز گوارا نہ ہوتا جس کے بعد وہ پھر سے ہمت مجتمع کرتے اور تمام محب وطن اور جمہوری جماعتوں کوملاکر جدوجہد کوآغاز کرتے تھے۔
1970
ء کے انتخابات کے نتیجے میںذوالفقارعلی بھٹوکی حکومت بنی ایک مرتبہ پھرانہوں نے پیر صاحب پاگارا کی سربراہی میں حزب مخالف کومتحد کرلیااور 1977کے انتخابات سے پہلے پیپلزپارٹی اور بھٹو کی زبردست مقبولیت کے باوجود نوجماعتوں کاقومی اتحاد تشکیل دیا۔
انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف قومی اتحادکی تحریک کانتیجہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی صورت میں نکلاتوچند سال بعدہی نوابزادہ نصراللہ خان نے پیپلزپارٹی کواس کے زبردست مخالفین کے ساتھ بٹھاکر جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے خلاف تحریک بحالی ء جمہوریت (ایم آر ڈی)کی بنیاد اپنے دیرینہ رفیق سالارجمہوریت مشتاق مرزا کی رہائش گاہ ( مرزاہائوس ) کراچی میں رکھی، اس اتحاد نے جنرل ضیاء کے خلاف 1983ء میں زبردست احتجاجی تحریک چلاکر آمروقت کو ریفرنڈم کرانے اور 1985ء کے انتخات کرانے پر مجبورکردیا۔
نوابزادہ نصراللہ خان کی جمہوریت کی آبیاری کی جدوجہد جنرل ضیاء کی موت کے بعدبھی جاری رہی،بے نظیربھٹو کے پہلے دورحکومت میں کمبائنڈ اپوزیشن کے نام سے حزب مخالف
جماعتوںکواکٹھاکیااور جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کوصدر اسحٰق خان نے رخصت کیاتو 1990ء کے انتخابات کے بعدبننے والی نوازشریف کی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی کے ساتھ آل پارٹیز کانفرنس کی بنیادرکھی۔جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کوصدر فاروق لغاری نے رخصت کیاتو وہ ایک بار پھر نئے انتخابات کے بعدبننے والی نواز شریف حکومت کی پالیسیوں کے خلاف سرگرم ہوگئے۔
بارہ اکتوبر کوجنرل مشرف کے اقتدار پرقابض ہونے کے بعد نوابزادہ نصراللہ خان نے دوبڑے حریفوں بے نظیربھٹو اور نوازشریف کو بحالی ء جمہوریت کی تحریک (اے آرڈی ) کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے ملکی تاریخ کابڑاکارنامہ انجام دیا۔نوابزادہ نصراللہ خان کی تمام تر جدوجہد کامقصد ملک میں جمہوریت کافروغ اور عوام کی بھلائی تھاکسی حکمران سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں بلکہ عوام دشمن اقدامات کے خلاف ان کے ضمیر کی آواز تھی۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے روایات سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے لیے حزب اختلاف کاکردار پسند کیااور نصف صدی سے زائداس کردار کوبڑی خوبی سے نبھایا۔
(یوم وفات 26 ستمبر 2003ئ)
http://jasarat.com/index.php?page=03&date=2013-09-26