ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

Amal

Chief Minister (5k+ posts)

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز


امام ابویوسف رحمتہ اللہ علیہ ہارون الرشید کے زمانے میں پورے عالم اسلام کے قاضی القضاۃ تھے، ایک بار ان کے پاس خلیفہ ہارون الرشید اور ایک نصرانی کامقدمہ آیا، امام نے فیصلہ نصرانی کے حق میں کیا، اس طرح کے درخشاں واقعات تاریخ اسلام کے ورق ورق پر بکھرے پڑے ہیں،لوگ اس کو ’’دور ملوکیت‘‘ کہتے ہیں، وہ کس قدر مبارک ’’دور ملوکیت تھا‘‘ کہ ایک طاقتور بادشاہ اور خلیفہ اپنی رعایا میں سے ایک غیر مسلم کے ساتھ عدالت کے کٹہرے میں فریق بن کر حاضر ہیں، امام ابو یوسفؒ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو

فرمانے لگے:’’اے اللہ! تجھے معلوم ہے کہ میں نے اپنے زمانہ قضا میں مقدمات کے فیصلے میں کسی بھی فریق کی جانبداری نہیں کی، حتیٰ کہ دل میں کسی ایک فریق کی طرف میلان بھی نہیں ہوا، سوائے نصرانی اور ہارون الرشید کے مقدمے کے کہ اس میں دل کا رجحان اور تمنا یہ تھی کہ حق ہارون الرشید کے ساتھ ہو اور فیصلہ حق کے مطابق اسی کے حق میں ہو لیکن فیصلہ دلائل سننے کے بعد ہارون الرشید کیخلاف کیا‘‘۔ یہ فرما کر امام ابویوسف رونے لگے اور اس قدر روئے کہ دل بھر آیا۔اس سے امام ابویوسف کے تقویٰ کے بلند مقام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مقدمہ میں دل کا رجحان طبعی طو رپر ایک فریق کی طرف تھا اور فیصلہ بھی اس کیخلاف ہوا لیکن اس طبعی رجحان پر بھی انہیں خوف رہا کہ کہیں پکڑ نہ ہو جائے، اللہ اکبر۔


ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے



19554039_1480301328695221_5408786653596629940_n.jpg



 

اللہ کا بندہ

MPA (400+ posts)
امام ابو حنیفہ ؒ نے ،جو فقہ اسلامی کے مدّون او ّل ہیں ، اپنی فقہ کو دین اسلام کے مجموعی مزاج کو مدّ نظر رکھتے ہوئے جمہوری انداز میں مرتّب کیا اور ٓزادانہ تحقیق و جستجو پہ زور دیا تا کہ شخصی تقلید راہ نہ پا سکے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی فقہ کو ایک مستقل مذہب کا درجہ دے کر اس کی تقلید کو ضروری قرار دے دیا جائے گا۔ اسی طرح امام مالکؒ اپنی کتاب مؤطا(جسے انہوں نے منصور کی فرمائش پہ لکھا تھا) کو سلطنتِ عباسیہ کا قانون بنانے پر رضامند نہ ہوئے کیونکہ اس سے تقلید کی راہ ہموار ہو جاتی۔ ان دونو ں جلیل القدر ائمہ نے عباسیوں کا آلۂ کار نہ بننے کی پاداش میں سخت تکلیفیں اٹھائیں ۔ امام ابو حنیفہ ؒ نے انتہائی دباؤ کے باوجود قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہ کیا ، لیکن ان کی وفات کے بعدان کے شاگرد ابو یوسف نے یہ عہدہ قبول کر لیا اور ملوکیّت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ فقۂ حنفی کو سلطنتِ عباسیہ کی سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا اور آزادانہ تفقّہ فی الدّین کی راہیں عملًا بند کر دی گئیں۔ یہ اسلام میں تقلیدِ شخصی کا آغاز تھا۔
 

Desibaba

Politcal Worker (100+ posts)
Well Written.....
امام ابو حنیفہ ؒ نے ،جو فقہ اسلامی کے مدّون او ّل ہیں ، اپنی فقہ کو دین اسلام کے مجموعی مزاج کو مدّ نظر رکھتے ہوئے جمہوری انداز میں مرتّب کیا اور ٓزادانہ تحقیق و جستجو پہ زور دیا تا کہ شخصی تقلید راہ نہ پا سکے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی فقہ کو ایک مستقل مذہب کا درجہ دے کر اس کی تقلید کو ضروری قرار دے دیا جائے گا۔ اسی طرح امام مالکؒ اپنی کتاب مؤطا(جسے انہوں نے منصور کی فرمائش پہ لکھا تھا) کو سلطنتِ عباسیہ کا قانون بنانے پر رضامند نہ ہوئے کیونکہ اس سے تقلید کی راہ ہموار ہو جاتی۔ ان دونو ں جلیل القدر ائمہ نے عباسیوں کا آلۂ کار نہ بننے کی پاداش میں سخت تکلیفیں اٹھائیں ۔ امام ابو حنیفہ ؒ نے انتہائی دباؤ کے باوجود قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہ کیا ، لیکن ان کی وفات کے بعدان کے شاگرد ابو یوسف نے یہ عہدہ قبول کر لیا اور ملوکیّت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ فقۂ حنفی کو سلطنتِ عباسیہ کی سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا اور آزادانہ تفقّہ فی الدّین کی راہیں عملًا بند کر دی گئیں۔ یہ اسلام میں تقلیدِ شخصی کا آغاز تھا۔
 

Back
Top