حبیب اکرم نے حال ہی میں فوت ہونے والے اپنے بیٹے کے زندگی سے موت تک کے سفر کی ساری کہانی شیئر کردی۔
دنیانیوز پر شئیر ہونیوالی ویڈیو میں انکا کہنا تھا کہ عبداللہ میرا چوتھا بچہ تھا۔ جب وہ پیدا ہوا تو گھر میں خوشی کا وہی سماں تھا اس کے بہن بھائی پھولے نہیں سما رہے تھے اور ماں بستر پر لیٹی اپنے بچوں کو خوش ہوتا دیکھ رہی تھی۔
حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ ہماری یہ خوشی چند دن بعد تھوڑی سی پریشانی میں ڈھل گئی جب عبداللہ نے اپنے کمبل میں بے وجہ کانپنا شروع کردیا۔ ہم اسے لے کر ڈاکٹر کی طرف بھاگے اور پھر بھاگے ہی چلے گئے۔عبداللہ دراصل اسے سیریبرل پالسی نامی بیماری کاشکار تھا۔ اس مرض کی وجہ دماغ تک آکسیجن کم پہنچنا ہے اور اس کا نتیجہ دماغ اور دیگر جسمانی اعضا کے درمیان رابطہ منقطع ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔
حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ ہماری طرح ہمارے بچوں کیلئے بھی یہ تسلیم شدہ حقیقت تھی کہ عبداللہ ہمیشہ بچہ ہی رہے گا اور ہم سب کو اس کا خیال رکھنا ہے۔ لوگ ہم سے ہمدردی کرتے مگر ہمیں کبھی اس ہمدردی کی ضرورت کا احساس نہیں ہوا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کی دنیا میں آمد کے بعد ہمارا طرز زندگی بدلنے لگا مثلاً ایک دن وہ بیمار ہوا تو ڈاکٹر نے کہا: اسے گرمی زیادہ لگتی ہے، ہم نے پہلی بار اس کے لیے گھر کے ایک کمرے میں ایئرکنڈیشنر لگوایا، ورنہ اس سے پہلے ہم سبھی گرمیوں میں صرف پنکھے سے ہی گزارہ کیا کرتے تھے۔ اس نے بستر پر لوٹنا شروع کیا تو گھر میں قالین بچھائے گئے کہ اگر یہ بستر سے گر بھی جائے تو اسے چوٹ نہ لگے۔
حبیب اکرم کے مطابق اس کو ٹی وی پر چلتی ہوئی کوئی موسیقی پسند آ جاتی تو ہم سب وہی گنگنانے لگتے۔ کسی حرکت پر وہ مسکراتا تو ہم اس حرکت کی مشق کرتے رہتے کہ عبداللہ کو کرکے دکھائیں گے۔
اپنے بیٹے کی موت کا تذکرہ کرتے ہوئے حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ کافی عرصے بعد ہم سیر کیلئے نتھیاگلی پہنچے ، ہم نے صرف ایک رات قیام کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ رات تقریباً دو بجے تک سب جاگتے رہے اور عبداللہ اپنے بستر میں آرام سے سوتا رہا۔ اس کی ماں نے مجھے اسی شام بتایا کہ اس نے کھانا پینا کم کردیا ہے‘ مگر یہ کوئی تشویش کی بات نہیں تھی۔ وہ کبھی کبھار ایک دن کچھ بھی نہیں کھاتا تھا۔ ہم اطمینان سے سوگئے۔صبح عبداللہ کی والدہ نے اٹھایا کہ عبداللہ کی سانس درست نہیں چل رہی۔
حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ ہم ریسکیو والوں کی مدد سے نتھیاگلی کے چھوٹے سے سول ہسپتال میں پہنچے۔ وہاں موجود ڈاکٹر نے اسے دیکھ کر ابھی کچھ کہا بھی نہیں تھا کہ ہم سمجھ گئے کہ عبداللہ اب نہیں رہا۔ میں ایک بکھری ہوئی ماں، چیختے ہوئے بھائی اور روتی کانپتی بہن کو لیے لاہور کی طرف چل پڑا۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/habi11b1231.jpg