
معروف صحافی و اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے سوشل میڈیا پر فوجی قانون سے متعلق ایک دعویٰ کیا جسے سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی و معروف وکیل ایمان مزاری نے جھوٹ قرار دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق غریدہ فاروقی نے ایک دعویٰ کیا تھا جس میں کہا کہ فوج کسی بھی شہری کا کورٹ مارشل کر سکتی ہے اور اس کیلئے قانون کی دلیل پیش کی جسے ایمان مزاری نے جھوٹ قرار دیا۔
غریدہ فاروقی نے لکھا کہ پاکستان آرمی ایکٹ دفعہ 31-(d) کے تحت کسی بھی شہری کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے، مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلایا جا سکتا ہے۔ جاسوسی، بغاوت پر اُکسانا اور دہشتگردی؛ ان جرائم کے تحت کسی بھی شہری کا آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد ایمان مزاری نے سوشل میڈیا پر اپنے سلسلہ وارٹوئٹس میں لکھا کہ یہ جھوٹ ہے. انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا آرمی ایکٹ 1952 کا سیکشن 31 بغاوت اور سرکشی پر ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ "تابع" کی اصطلاح استعمال کرتا ہے یعنی کوئی بھی شخص جو ایکٹ کے تابع ہے۔ آرمی ایکٹ کے سیکشن 31(d) کی مفصل تشریح واضح کرتی ہے کہ کسی سویلین کے کورٹ مارشل ٹرائل کی اجازت نہیں ہوگی۔
https://twitter.com/x/status/1557808112605663232
ایمان مزاری نے مزید کہا خاص طور پر اگر فوجی حکام کی جانب سے سویلین شہری کے خلاف ایک بظاہر prima facie قائم نہ کیا ہو اور اگر سویلین پر باضابطہ طور پر فرد جرم عائد نہ کی گئی ہو۔ آرمی ایکٹ سیکشن (d) (1) 2 کا تعلق عام شہریوں سے ہے (ایسے افراد جو بصورت دیگر ایکٹ کے تابع نہیں ہیں سوائے کچھ (انتہائی محدود بنیادوں پر)۔
https://twitter.com/x/status/1557808114828812289
ان کا کہنا تھا کہ ایک سویلین اِس ایکٹ کی اِن شقوں کے تحت "subject" نہیں بنتا جب تک کہ اس پر کسی بھی شخص کو اس کی حکومت کی وفاداری سے بہکانے کی کوشش کرنے کا "الزام" نہ ہو۔ جب سویلین کا کورٹ مارشل کرنا ہوگا تو پاکستان کے دفاعی منصوبوں کے ساتھ براہ راست تعلق کی ضرورت ہوتی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1557808119383838721
انہوں نے مزید قوانین کا حوالہ دیا کہ (PLD 1975 SC 506) آئین کے آرٹیکل 4 کے تحت، تمام شہریوں کو قانون کے مطابق نمٹنے کے حق کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہ ایک "ناقابل تسخیر" حق ہے اور اس میں خصوصی قانون کے تحت سختی سے برتاؤ کرنے کے بجائے، ریاست میں عام قانون کے تحت مقدمہ چلانے کا حق شامل ہے۔
https://twitter.com/x/status/1557808124123398144
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 1572 2017 SCMR میں سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ اگر کوئی شہری ریاست کے عام قانون کے تحت ڈیل کیا جاسکتا ہے، تو اس کے ساتھ خصوصی قانون کے تحت سخت سلوک کرنا (خاص طور پر جہاں وہ خصوصی قانون اس پر واضح طور پر لاگو نہیں ہوتا ہے) آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی ہوگی۔