
آف شور کمپنیاں ایسے ادارے ہوتے ہیں جنہیں ایسے ممالک میں قائم کیا جاتا ہے جہاں کا قانون نہ تو یہ پوچھتا ہے کہ آپ جو پیسہ یہاں لائے یہ کہاں سے کما کر کیسے لائے ہیں؟ اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی آڈٹ رپورٹ کی مانگ کی جاتی ہے۔ دنیا کے کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں ٹیکسوں میں چھوٹ دی جاتی ہے اور ٹیکس ریٹرن بھی ظاہر نہیں کیا جاتا۔
اب انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس نے پنڈروا پیپرز میں ایک مرتبہ پھر آف شور کمپنیوں کا پنڈورا باکس کھول دیا ہے جس میں ملکی و غیرملکی معروف شخصیات سمیت پاکستان کے بھی متعدد سیاست دان، فوجی جرنیل، وزرا اور دیگر مشہور شخصیات کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
دراصل آف شور کمپنیوں میں پیسہ رکھنا غیر قانونی نہیں لیکن پاکستانی پبلک آفس ہولڈرز کیلئے آف شور اکاؤنٹس کو ظاہر کرنا لازمی ہے۔ ان اکاؤنٹس کو ایف بی آر اور ایس ای سی پی میں ظاہر کرنا ہوتا ہے اور باہر بھیجے گئی رقم کی منی ٹریل دکھانا ہوتی ہے۔ سیاست دانوں کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن پاکستان میں اپنے اثاثے ظاہر کرتے وقت آف شور کمپنیاں بھی ظاہر کریں۔
دنیا میں کچھ ایسے ممالک موجود ہیں جہاں آف شور کمپنیاں بنائی جا سکتی ہیں ان میں برطانیہ، بیلیز، کیمن آئس لینڈ، پانامہ، ماریشس، سیشیلز، نیوس، برٹش ورجن آئی لینڈ، ہانگ کانگ، لابوان ، ویتنام، سنگاپور، سائپرس، جبرالٹر، لکسمبرگ، انگولیا، ساموا، وانواتو، مالٹا، نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، بھاماس و دیگر ممالک شامل ہیں۔
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/6FhJq51/off.jpg