Abdul jabbar
Minister (2k+ posts)
ارشد صاحب ذرا اپنے اس قول پر غور فرمایں
آپ جتنے مرضی جوتے اور وٹے لے کر آسٹرلیا میں کھڑے رہیں آپ کی تعداد ان سے ہمیشہ کم ہی ہونی ہے جنہوں نے اس کو ووٹ دے کر عزت دی
چند بدتمیز لوگوں کے شور شرابے اور گالی گلوچ سے ایک فضا تو بن جاتی ہے پر ہے چند بدتمیز لوگ یہ نہیں سوچتے کے یہ عوام اپنی ووٹوں سے جو بے آواز گلیاں ان لوگوں کو دیتے ہے وہ کہیں زیادہ ذلت سے بھری ہوتی ہیں
پر ان کی ذہنی صلاحیت اتنی نہیں ہے کہ یہ سمجھ سکیں ان کو صرف عمران خان کی سکھائی بدزبانی ہی ذلت نظر اتی ہے
بے شک عزت اللہ پاک ہی دیتے ہیں اور جسے وہ ذات برحق عزت دینا چاہے اس کی مخلوق بھی اس کے سر پر اپنے سربراہ ہونے کی پگ رکھ دیتی ہے۔ نواز شریف پر اللہ پاک کی عطا ہے اور عوام کی محبت و اعتماد۔
پی ٹی آئی والوں کی اپنی ذہنیت ہے جس کا اندازہ ان کے حامیوں کی اکثر تحاریر سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایسی ہی میٹلیٹی خان صاحب کی اپنی بھی ہے۔ اور ایسے لوگوں کی اصلاح نا ممکن ہے،سو انہیں نظر انداز کر دینا ہی مناسب ہے۔
رہی مشتاق منہاس والی بات تو وہ ایک حق گو صحافی تھا۔جس بات کو درست سمجھتا تھا ببانگ دہل کہتا تھا۔ اس کے خیال میں موجودہ سیاستدانوں میں سب سے بہتر سیاستدان نواز شریف تھا اور اس کا اظہار وہ کرتا رہتا تھا۔ یہ وہی خیالات تھے جو اس ملک کے نواز شریف کے حامی کروڑوں ووٹرز کے تھے۔ وہ حکومت پر تنقید بھی کرتا تھا اس کے ساتھ ساتھ پی پی اور عمران کی اصل شکل بھی دکھاتا رہتا تھا۔بلاشبہ اس کے دیکھنے۔ سننے اور پسند کرنے والوں کا ایک وسیع حلقہ تھا۔ صحافیوں میں وہ ایک ممتاز نام تھا ۔
پھر اس نے صحافت چھوڑ کرسیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ وہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھتا تھا سو اپنے علاقے کی بہتری کے لئے اس کا یہ فیصلہ اس کی اپنی چوائس تھا۔ اس نے انتخاب میں حصہ لیا اور لوگوں نے اسے اپنا نمائندہ منتخب کر لیا۔ یہ لوگوں کا فیصلہ تھا۔ اس میں کردار میں کوئی جھول تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ ۔ یہ اس کا فیصلہ تھا ،عوام نے پزیرائی بخشی اور وہ وزیر بن گیا۔
اسے مبارک باد، اس کے چاہنے والوں کو مبارک باد
مگر جھوٹ مکر و فریب کے صحافتی نقار خانے کے ہائو ہو میں ایک متوازن، معقول اور حق پر مبنی آواز سیاست کی بھینٹ چڑھ جانے سے دل قدرے اداس اور مغموم سا ہے۔ منہاس صاحب نے مقامی سیاست کو اپنی نظریاتی صحافت پرترجیع دے کر پاکستان بھر کے اپنے لاکھوں سننے دیکھنے والوں سے خود کو دور کر لیا۔ میرے خیال میں ان کا صحافتی کردار ہی ایک بڑا جہاد اور قومی خدمت تھی جسے جاری رہنا چاہیئے تھا۔