
منصوبے میں اسرائیلی شرکت کی وجہ سے اسے امریکی منصوبے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے : رپورٹ
چند دن پہلے ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس میں بھارت، امریکہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، یورپی یونین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے مابین "انڈیا، مڈل ایسٹ، یورپ کوریڈور" تعمیر کے معاہدے میں ایک ایم او یو پر دستخط بھی ہوئے تھے۔ بھارت کو یورپ سے جوڑنے والی اس اقتصادی راہداری میں آنے والے ترکی کو منصوبے میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ معاہدے کے 2دن بعد ترک صدر رجب طیب اردگان کابیان سامنے آیا تھا کہ "یہ راہداری ترکی کے بغیر ناممکن ہے"۔
نیٹو کے رکن ملک ترکی کا کچھ حصہ ایشیا اور کچھ یورپ میں ہے جس کی وجہ سے وہ ایک ایسی کڑی ہے جو مغرب کو مشرق سے ملاتی ہے لیکن اسے اس اقتصادی راہداری میں شامل ہی نہیں کیا گیا؟ "انڈیا، مڈل ایسٹ، یورپ کوریڈور" منصوبے میں امریکی کردار کے حوالات سے بھی سوالات سامنے آئے ہیں جبکہ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا یہ منصوبہ چینی روڈ اینڈ بیلٹ انیشی ایٹو کا مقابلہ کرنے کیلئے لایا گیا ہے؟
انڈیا، مڈل ایسٹ، یورپ کوریڈور منصوبے کے حوالے سے ابھی زیادہ معلومات دستیاب نہیں لیکن بھارتی حکومت کے مطابق مشرقی راہداری سے بھارت خلیجی ممالک سے جڑے گا اور دوسری طرف شمالی راہداری خلیجی ممالک کو یورپ سے ملائے گی جس کے لیے سمندری، زمینی اور ریلوے ٹریک تیار کیا جائے گا۔ منصوبے کا مقصد سمندری راستہ پر خرچ ہونیوالے وقت اور ایندھن کی لاگت کو کم کرنا بتایا گیا ہے۔
بھارتی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے شعبہ ویسٹ ایشین سٹڈیز کی پروفیسر سجاتا ایشوریا کا بین الاقوامی اشاعتی ادارے بی بی سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اس اقتصادی راہداری سے ممبئی بندرگاہ سے سامان پہلے دبئی کی جبل علی بندرگاہ اور وہاں سے بذریعہ سڑک یا ریلوے ٹریک سعودی عرب پہنچے گا۔ سعودی عرب اسرائیل کی حفیہ بندرگاہ اور وہاں سے یونان کی پریوس بندرگاہ کے راستے یورپ پہنچے گا۔
سینئر ریسرچ فیلو انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز ڈاکٹر فضل الرحمن صدیقی کا کہنا تھا کہ منصوبے میں اسرائیلی شرکت کی وجہ سے اسے امریکی منصوبے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جسے چینی "بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ" کے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ چین کے ساتھ اچھے تعلقات والے ممالک مصر، ایران اور ترکی منصوبے سے پریشان ہیں اور معاشی واقتصادی نقصان کے علاوہ ترکی کچھ دیگر خدشات بھی رکھتا ہے۔
ترکی کا بحیرہ روم میں غلبہ ہے جو اس علاقے میں کسی حریف کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتااور سمجھتا ہے کہ یہ اقتصادی راہداری کے بجائے جیوپولیٹیکل راہداری میں بدل جائے گی۔ سجاتا ایشوریہ کو بھی شک ہے کہ یہ امریکی ایجنڈا ہو سکتا ہے۔سعودی عرب اور اسرائیل میں سفارتی تعلقات نہیں لیکن امریکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کیلئے اہم ثابت ہو گا اور اسرائیل کو جی 20 میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب کو ترکی کے اہم منصوبے سے باہر رہنے پر خطے میں سٹریٹجک برتری ملے گی اور ترکی کے "ٹرانس شپنگ زون" میں کمی ہو گی۔ اسرائیل سے ترکی کے بغیر بھی سامان یونان بھیجا جا سکتا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان نہیں آتا۔ ترکی قدرے اونچائی پر ہے جو راہداری کیلئے مناسب نہیں اور ترکی کو منصوبے میں شامل نہ کرنے کی کچھ اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔
سجاتا ایشوریا کے مطابق اسرائیل سے ترکی اور وہاں سے یونان سامان پہنچانے میں بڑی رکاوٹ قبرص بھی ہے جو اسرائیل اور ترکی میں پائپ لائن نہ بچھا سکنے کا باعث ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مشرقی بحیرہ روم میں سمندری حدود پر قبضے کیلئے متعدد بارہ کشیدہ حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ترکی کو منصوبے سے باہر رکھنے کی وجہ اس کی اردگرد کے ممالک سے بڑھتی ہوئی کشیدگی ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/turky-er-saudia-india-us.jpg