دورِ حاضر میں موٹی موٹی کلاسیفیکشن کریں تو دو قسم کے لوگ کرہ ارض پر بستے ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے مذہب کو فرد کی پرسنل چوائس قرار دیا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ عقلی بنیادوں پر اپنی زندگی اور معاشرے کے فیصلے کریں گے۔ دوسری طرف وہ لوگ جنہوں نے کہا انسانی عقل ناقص ہے، ہم سیاست سے لے کر معاشرت اور معیشت تک ہر معاملے میں مذہب سے رہنمائی لیں گے، کسی بھی معاملے میں اپنی عقل کے گھوڑے نہیں دوڑائیں گے۔ اب ذرا پچھلے ڈیڑھ دو سو سال کی ہسٹری کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کے سائنسی رویے رکھنے والوں نے اس دنیا کو کیا دیا اور اس کے مقابلے میں مذہب کو فالو کرنے والوں نے دنیا کو کیا دیا۔
مذہب کو ماننے والوں نے جب پرندوں کو ہوا میں اڑتے دیکھا تو انہوں نے کہا یہ خدا کی قدرت سے اڑتے ہیں ، خدا ہی انہیں اڑاتا ہے اور جب یہ مان لیا جائے کہ کوئی کام خدائی ہے تو پھر انسان وہ کام کیسے کرسکتا ہے۔ لہذا اس سے آگے سوچنے کی انہوں نے ہمت ہی نہیں کی۔ دوسری طرف عقل استعمال کرنے والوں نے جب پرندوں کو اڑتے دیکھا تو انہوں نے اس بات کی کھوج لگانے کی کوشش کی کہ آخر یہ کس میکنزم کے تحت اڑتے ہیں۔ عقل کی کاوش رنگ لائی، انسان نے لفٹ کی فورس کو دریافت کرلیا اور ہوا میں اڑنے والے جہاز اور ہیلی کاپٹر بنا ڈالے۔ ایک جہاز کو بنانے کے عمل میں انسان کو کیا کیا پیچیدگیاں درپیش آئیں اور انسانی عقل نے کیسے ان پیچیدگیوں کو حل کیا، اس کو فی الحال ایک طرف رکھ دیتے ہیں، وگرنہ موضوع بہت طویل ہوجائے گا۔
انسانوں کو جب طاعون، ملیریا، خسرہ جیسی بیماریوں نے گھیرا تو مذہبی سوچ رکھنے والوں نے کہا یہ بیماریاں خدا کی طرف سے ہمارے گناہوں کی سزا ہے، ہمیں توبہ استغفار کرنی چاہئے ۔ دوسری طرف سائنسی اذہان رکھنے والے لوگوں نے کہا نہیں، بیماری کسی نہ کسی وجہ سے ہے، انہوں نے بیماریوں کی وجوہات تلاش کیں، پھر ان کا علاج دریافت کیا اور آج انسان ماضی کی بہت سی بیماریوں سے چھٹکارا پاچکا ہے۔ میڈیکل سائنس میں انسان نے عقل استعمال کرکے وہ وہ "معجزے" کر دکھائے ہیں کہ خود انسانی عقل حیران ہے۔ سٹیم سیل کے ذریعے بیماریوں کا علاج دنوں میں ممکن ہورہا ہے۔ جینیٹک انجینئرنگ کے ذریعے انسانوں اور جانوروں کے خواص کو آپس میں انٹرچینجبلی استعمال کیا جارہا ہے، مستقبل میں انسان جینٹک انجیئرنگ کے ذریعے کیا کیا کرسکے گا یہ ابھی ہماری سوچ سے بھی ماورا ہے۔ حال ہی میں سائنسدانوں نے چوہوں میں دانت گرنے کے بعد نئے دانت اگانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے اور اب انسانوں پر یہ تجربہ شروع ہونے والا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب انسان کو مصنوعی دانتوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔۔
بجلی، انجن، موٹر گاڑیاں، کمپیوٹر، موبائل، انٹرنیٹ، راکٹ ، سپیس سٹیشن اور نہ جانے کیا کیا، یہ سب انسانی عقل کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔ یہ سب کچھ انہی کی بدولت ممکن ہوا ہے جنہوں نے مذہب کو چھوڑ کر عقل استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری طرف مذہبی معاشرے کے لوگ ہیں، وہ بھی تحقیق کررہے ہیں،بڑی عرق ریزی سے تحقیق کررہے ہیں، وہ پچھلے چودہ سو سالوں سے ان صحیفوں میں گھسے ہوئے ہیں جن کو وہ خدا کی طرف سے بھیجا ہوا مانتے ہیں اور آج تک اس میں سے ایک بھی چیز ایسی نکال نہیں سکے جو انسانوں کے کسی کام آسکے۔ انسانی عقل کے اتنے کرشمے دیکھنے باوجود آج بھی وہ اس بات پر مصر ہیں کہ انسانی عقل ناقص ہے اور ہمیں تمام تر رہنمائی مذہب سے لینی چاہئے۔
پھر انہی مذہبی افراد میں ایک طبقہ ایسا ہے جو کہتا ہے کہ مذہب تو آپ کو سوچنے سے نہیں روکتا، عقل استعمال کرنے سے نہیں روکتا۔ کیا واقعی یہ سچ ہے؟ سوچنے کی پہلی شرط سوال کرنا ہے اور سوال کسی بھی قسم کا ہوسکتا ہے۔ مغرب میں سوچنے والوں نے خدا پر سوال اٹھائے ، عقلی بنیادوں پر خدا کا انکار کیا، یہ ان کی اپنی سوچ تھی، کیا مذہبی معاشروں میں یہ ممکن ہے؟ سوچنے والوں نے ان لوگوں پر سوال اٹھائے جنہوں نے خدا کا پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا، کیا مذہبی معاشروں میں یہ ممکن ہے؟ سوچنے والوں نے مذہب کی تعلیمات کو پرکھا، کھنگالا، اس پر سوالات اٹھائے، اس کو ہدفِ تنقید بنایا، کیا مذہب اس کی اجازت دیتا ہے، ہرگز نہیں۔۔۔ کسی بھی معاشرے میں ریشنل تھنکنگ کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے کے افراد کو عقل کے استعمال اور سوال اٹھانے کی کھلی اجازت ہو، تبھی اس معاشرے کے افراد اپنا پورا ذہنی پوٹینشنل استعمال کرسکتے ہیں اور معاشرے کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔۔۔
بوعلی سینا، فارابی، الرازی وغیرہ یہ وہ چند گوہرِ نایاب ہیں جو پیدا تو مسلم گھرانوں میں ہوئے، مگر انہوں نے عقل کے استعمال کو ترجیح دی، مذہب کو رد کیا۔ انہوں نے عقل کا استعمال کرتے ہوئے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے وہ آج بھی ان کا نام زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مسلمان ان کا نام بڑے فخر سے لیتے ہیں، حالانکہ ان کو علم نہیں کہ انہوں نے پیغمبروں کے بارے میں کیا کیا کچھ کہہ رکھا ہے، پیغمبروں کے بارے میں ان کے افکار تو میں یہاں لکھ بھی نہیں سکتا۔ خدا کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ خدا کا علم کامل نہیں ہے۔ ان کے انہی افکار کی وجہ سے امام غزالی نے اپنی کتاب میں ان کو کافر قرار دیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جنہوں نے بھی مذہب کی بجائے عقل کا راستہ اپنایا، انہوں نے انسانی علم میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہی کیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف مذہب والی برادری ہے، آج تک انسانی علم میں رتی برابر اضافہ نہیں کرسکی، نہ انسان کو کچھ ایسا دے سکی، جس سے انسانوں کی زندگی یا معاشرے بہتر ہوتے۔۔
مذہب کو ماننے والوں نے جب پرندوں کو ہوا میں اڑتے دیکھا تو انہوں نے کہا یہ خدا کی قدرت سے اڑتے ہیں ، خدا ہی انہیں اڑاتا ہے اور جب یہ مان لیا جائے کہ کوئی کام خدائی ہے تو پھر انسان وہ کام کیسے کرسکتا ہے۔ لہذا اس سے آگے سوچنے کی انہوں نے ہمت ہی نہیں کی۔ دوسری طرف عقل استعمال کرنے والوں نے جب پرندوں کو اڑتے دیکھا تو انہوں نے اس بات کی کھوج لگانے کی کوشش کی کہ آخر یہ کس میکنزم کے تحت اڑتے ہیں۔ عقل کی کاوش رنگ لائی، انسان نے لفٹ کی فورس کو دریافت کرلیا اور ہوا میں اڑنے والے جہاز اور ہیلی کاپٹر بنا ڈالے۔ ایک جہاز کو بنانے کے عمل میں انسان کو کیا کیا پیچیدگیاں درپیش آئیں اور انسانی عقل نے کیسے ان پیچیدگیوں کو حل کیا، اس کو فی الحال ایک طرف رکھ دیتے ہیں، وگرنہ موضوع بہت طویل ہوجائے گا۔
انسانوں کو جب طاعون، ملیریا، خسرہ جیسی بیماریوں نے گھیرا تو مذہبی سوچ رکھنے والوں نے کہا یہ بیماریاں خدا کی طرف سے ہمارے گناہوں کی سزا ہے، ہمیں توبہ استغفار کرنی چاہئے ۔ دوسری طرف سائنسی اذہان رکھنے والے لوگوں نے کہا نہیں، بیماری کسی نہ کسی وجہ سے ہے، انہوں نے بیماریوں کی وجوہات تلاش کیں، پھر ان کا علاج دریافت کیا اور آج انسان ماضی کی بہت سی بیماریوں سے چھٹکارا پاچکا ہے۔ میڈیکل سائنس میں انسان نے عقل استعمال کرکے وہ وہ "معجزے" کر دکھائے ہیں کہ خود انسانی عقل حیران ہے۔ سٹیم سیل کے ذریعے بیماریوں کا علاج دنوں میں ممکن ہورہا ہے۔ جینیٹک انجینئرنگ کے ذریعے انسانوں اور جانوروں کے خواص کو آپس میں انٹرچینجبلی استعمال کیا جارہا ہے، مستقبل میں انسان جینٹک انجیئرنگ کے ذریعے کیا کیا کرسکے گا یہ ابھی ہماری سوچ سے بھی ماورا ہے۔ حال ہی میں سائنسدانوں نے چوہوں میں دانت گرنے کے بعد نئے دانت اگانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے اور اب انسانوں پر یہ تجربہ شروع ہونے والا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب انسان کو مصنوعی دانتوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔۔
بجلی، انجن، موٹر گاڑیاں، کمپیوٹر، موبائل، انٹرنیٹ، راکٹ ، سپیس سٹیشن اور نہ جانے کیا کیا، یہ سب انسانی عقل کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔ یہ سب کچھ انہی کی بدولت ممکن ہوا ہے جنہوں نے مذہب کو چھوڑ کر عقل استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری طرف مذہبی معاشرے کے لوگ ہیں، وہ بھی تحقیق کررہے ہیں،بڑی عرق ریزی سے تحقیق کررہے ہیں، وہ پچھلے چودہ سو سالوں سے ان صحیفوں میں گھسے ہوئے ہیں جن کو وہ خدا کی طرف سے بھیجا ہوا مانتے ہیں اور آج تک اس میں سے ایک بھی چیز ایسی نکال نہیں سکے جو انسانوں کے کسی کام آسکے۔ انسانی عقل کے اتنے کرشمے دیکھنے باوجود آج بھی وہ اس بات پر مصر ہیں کہ انسانی عقل ناقص ہے اور ہمیں تمام تر رہنمائی مذہب سے لینی چاہئے۔
پھر انہی مذہبی افراد میں ایک طبقہ ایسا ہے جو کہتا ہے کہ مذہب تو آپ کو سوچنے سے نہیں روکتا، عقل استعمال کرنے سے نہیں روکتا۔ کیا واقعی یہ سچ ہے؟ سوچنے کی پہلی شرط سوال کرنا ہے اور سوال کسی بھی قسم کا ہوسکتا ہے۔ مغرب میں سوچنے والوں نے خدا پر سوال اٹھائے ، عقلی بنیادوں پر خدا کا انکار کیا، یہ ان کی اپنی سوچ تھی، کیا مذہبی معاشروں میں یہ ممکن ہے؟ سوچنے والوں نے ان لوگوں پر سوال اٹھائے جنہوں نے خدا کا پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا، کیا مذہبی معاشروں میں یہ ممکن ہے؟ سوچنے والوں نے مذہب کی تعلیمات کو پرکھا، کھنگالا، اس پر سوالات اٹھائے، اس کو ہدفِ تنقید بنایا، کیا مذہب اس کی اجازت دیتا ہے، ہرگز نہیں۔۔۔ کسی بھی معاشرے میں ریشنل تھنکنگ کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے کے افراد کو عقل کے استعمال اور سوال اٹھانے کی کھلی اجازت ہو، تبھی اس معاشرے کے افراد اپنا پورا ذہنی پوٹینشنل استعمال کرسکتے ہیں اور معاشرے کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔۔۔
بوعلی سینا، فارابی، الرازی وغیرہ یہ وہ چند گوہرِ نایاب ہیں جو پیدا تو مسلم گھرانوں میں ہوئے، مگر انہوں نے عقل کے استعمال کو ترجیح دی، مذہب کو رد کیا۔ انہوں نے عقل کا استعمال کرتے ہوئے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے وہ آج بھی ان کا نام زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مسلمان ان کا نام بڑے فخر سے لیتے ہیں، حالانکہ ان کو علم نہیں کہ انہوں نے پیغمبروں کے بارے میں کیا کیا کچھ کہہ رکھا ہے، پیغمبروں کے بارے میں ان کے افکار تو میں یہاں لکھ بھی نہیں سکتا۔ خدا کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ خدا کا علم کامل نہیں ہے۔ ان کے انہی افکار کی وجہ سے امام غزالی نے اپنی کتاب میں ان کو کافر قرار دیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جنہوں نے بھی مذہب کی بجائے عقل کا راستہ اپنایا، انہوں نے انسانی علم میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہی کیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف مذہب والی برادری ہے، آج تک انسانی علم میں رتی برابر اضافہ نہیں کرسکی، نہ انسان کو کچھ ایسا دے سکی، جس سے انسانوں کی زندگی یا معاشرے بہتر ہوتے۔۔
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/7gWhqZq/gsdadsfeer.jpg