
پاکستان تحریک انصاف کی ایک ہی رٹ الیکشن کرائے جائیں، وزیردفاع خواجہ آصف بھی کہہ چکے نئے آرمی چیف سے قبل انتخابات ہوسکتے ہیں،اس حوالے سے جیو نیوز کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں میزبان نے سوالات کیے۔
عام انتخابات کب ہونے ہیں اور موجودہ حکومت کی مدت کتنی ہے اس پر ن لیگ میں تقسیم واضح نظر آرہی ہے،عمران خان نے ایک اور مسئلہ اٹھادیا ہے کہ ایف آئی اے پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کیخلاف کیس واپس لینے کیلئے دباؤ ہے، یعنی اگر یہ کیسز دباؤ سے ختم ہوتے ہیں تو عمران خان کے بیانیہ کو تقویت ملے گی۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ نئے انتخابات سے متعلق کنفیوژن دور کرنا وزیراعظم شہباز شریف کا کام ہے، جب وہ نہیں بتارہے تو میں کیوں بتاؤں؟ میں بھی چاہتا ہوں کہ ملک میں الیکشن ہو،ہر جمہوریت پسند شخص کہتا ہے ملک میں الیکشن ہوں۔
حامد میر نے مزید کہا کہ جمہوریت چاہنے والا ہر شخص کہہ رہا کہ ملک میں الیکشن ہوجائے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ ہم ستمبر اکتوبر سے پہلے الیکشن نہیں کراسکتے،پہلے نئی حلقہ بندیاں کرینگے،زرادری صاحب بھی کہہ چکے پہلے اصلاحات چاہتے ہیں،قانون بدلنا چاہتے ہیں معشیت میں بہتری لانا چاہتے ہیں۔
تجزیہ کار نے مزید کہا کہ اصلاحات کے بعد تین چار مہینے میں الیکشن ہوجائے گا، کچھ لوگ ہیں جو شہباز شریف صاحب کو کہہ رہے ہیں کہ بیس مئی تک الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں، آپ جائیں اور نگران حکومت لے کر آئیں،عمران خان کا گند صاف کرنا ہے یہ نگران حکومت ہی کرے گی۔
تجزیہ کار نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ شہباز شریف صاحب جو بات لندن جاکرنواز شریف صاحب سے کررہے ہیں،وہ پاکستانی قوم کو بتائیں،بات واضح ہوجائے گی،شہباز شریف صاحب نے اپنے ساتھیوں کو ٹاسک دے دیا ہے،مفتاح اسماعیل صاحب واشنگٹن پہنچ گئے،شہباز شریف صاحب سعودی عرب چلے گئے،کچھ یہاں ہوم ورک کررہے ہیں، شہباز شریف نے سب کو کام میں لگایا ہوا ہے،پہلے الیکشن پھر ریفارمز والا معاملہ ہوگا۔
دوسری جانب شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے ایک بار پھر جلسے میں بار بار امریکی سازش کا ذکر کیا ہے،عمران خان نے کہا ہے کہ جو لوگ سازش روک سکتے تھے میں نے انہیں بتادیا تھا جبکہ شوکت ترین کے ذریعہ بھی پیغام بھجوادیا تھا مگر کچھ نہیں ہوا،دوسری طرف بار بار یہ بات کہی جاچکی ہے کہ سازش کے ثبوت نہیں ملے، امریکی مداخلت تھی جس کا سفارتی طریقہ کار کے مطابق ڈیمارش دیا گیا۔
شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ پاک فوج کی ملکی سیاست میں کیا کردار ہے اور نیا آرمی چیف کون ہوگا؟ اس حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں اور بیانات سامنے آرہے ہیں، سیاستدانوں کی جانب سے مسلسل فوج اور اعلیٰ قیادت کا ذکر کیا جارہا ہے۔
پاک فوج کے ترجمان بار بار کہہ رہے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے ادارے کو ایسی تمام باتوں سے دور رکھا جائے، گزشتہ دنوں عمران خان نے فوجی قیادت پر بالواسطہ تنقید کی اور نواب سراج الدولہ کے سپہ سالار میر جعفر کی غداری کا ذکر کیا تو اس پر بھی ڈی جی آئی ایس پی آر کا ردعمل سامنے آیا تھا۔
اب آصف زرداری اور مریم نواز کے کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے متعلق بیانات پر بھی آئی ایس پی آر نے سخت ردعمل دیا ہے، ایک بیان میں آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ پشاور کور دو دہائیوں سے دہشتگردی کیخلاف قومی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کررہی ہے، اس اہم کور کی قیادت ہمیشہ بہترین پروفیشنل ہاتھوں میں سونپی گئی ہے۔
پشاور کور کمانڈر کے حوالے سے اہم سینئر سیاستدانوں کے حالیہ بیانات انتہائی نامناسب ہیں، ایسے بیانات سپاہ اور قیادت کے مورال اور وقار پر منفی طور پر اثرانداز ہوتے ہیں، سینئر قومی سیاسی قیادت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ادارے کیخلاف ایسے متنازع بیانات سے اجتناب کریں۔